Saturday 15 April 2017

*حرام و حلال جانوروں کی ہڈی سے کیمیائی تبدیلی سے جیلاٹین کی حلّت و حُرمت کا مسئلہ اور مخلتف مکاتب فکر کی رائے*



*حرام و حلال جانوروں کی ہڈی سے کیمیائی تبدیلی سے جیلاٹین کی حلّت و حُرمت کا مسئلہ اور مخلتف مکاتب فکر کی رائے*

(تالیف و جمع و ترتیب:عمران شہزاد تارڑ،فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان)

قرب قیامت کے اس زمانے میں جبکہ ظاہری و باطنی فتنوں کی ایک یلغار ہے، مسلمان دانستہ یا نادانستہ طور پر حرام اشیا کے کھانے، پینے یا کسی بھی طرح کے استعمال میں مبتلا ہیں۔ ضرورت ہے کہ اس حوالے سے شعور و آگہی عام کی جائے۔ اسی احساس ذمہ داری کے تحت مشکوک یا حرام اشیا یا ان میں شامل اجزا کی تٖفصیل پیش کرنے کی گئی ہے۔ خود پڑھنے کے ساتھ اپنی رائے شامل کر کے آگے اپنے دوست آحباب تک بھی پہنچائیں
کہیں الجھن درپیش ہو تو مستند مفتیان کرام اور معتبر اداروں سے رجوع فرمائیے۔
یہ بات تو واضح ہے کہ کھانے پینے، پہننے اور لگانے کی مختلف اشیا،مثلا:بیکری آئٹمز، کولڈڈرنکس، فاسٹ فوڈ، کاسمیٹکس وغیرہ) کے اجزائے ترکیبی(Food Additives ؍ Ingredients)مختلف مآ خذ (Sources ) سے حاصل کیے جاتے ہیں ۔ اگر یہ مآخذ نباتات(Plants )یامعدنیات( Minerals ) یا مصنوعی (Synthetic ) ذرائع سے ہوں تو ان کا فیصلہ کرنا بہت آسان ہوتا ہے ،کیونکہ ظاہر ہے کہ معدنیات اور نباتات سب حلال ہیں سوائے ان کے جو زہریلے یا نشہ آور ہوں۔ لیکن اگر کسی مصنوع کا ذریعہ اور ماخذجانوریا ان کے اعضا و اجزا ہوں توایسی مصنوع کی حلت کا فیصلہ کرنا بہت مشکل ہوتا ہے، اس لیے ایسی مصنوعات کے سلسلے میں انتہائی احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے، کیونکہ ان سے متعلق سب سے پہلے یہ دیکھنے کی ضرورت ہوتی ہے کہ جانور کون سا ہے ؟آیا حلال ہے یا حرام؟پھراگر حلال بھی ہے توکیا اسے شرعی طریقے پر ذبح کیا گیا تھا یا نہیں؟ وغیرہ ۔
ایسے میں ظاہر ہے کہ ایسے اجزا ئے ترکیبی سے متعلق درست شرعی حکم ماہرین ِ شریعت ہی صادر کرسکتے ہیں۔ جس کے لیے انہیں متعلقہ سائنسی ماہرین سے بھی معاونت لینے کی ضرورت ہے ۔ تاہم اس ضرورت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ایسے مشکوک اجزائے ترکیبی کی نشاندہی ہونی چاہیے ، تاکہ صانعین وصارفین ان کے حوالے سے علمائے کرام سے رابطہ کرکے ان سے رہنمائی لے سکیں۔ اس لئے ہم نے ضروری سمجھا کہ ایک مکاتب فکر کی رائے پیش کرنے کی بجائے دیگر کی بھی کر دی جائے اور فیصلہ قارئین پر چھوڑ دیا جائے ۔لیکن یاد رہے ہماری معلومات مختلف مکاتب فکر کی ویب سائٹ سے حاصل کردہ ہے لہذا آپ مزید تحقیق کر سکتے ہیں ۔
1جیلاٹین/جیلاٹن(Gelatine/Gelatin):
یہ ایک بے رنگ یا ہلکے پیلے رنگ کا بے بو،بے ذائقہ ،صا ف شفاف ، بھُر بھرا اور پانی میں حل پذیر پروٹین ہے، جو کولاجن (Collagen)سے حاصل کیا جا تا ہے ، جبکہ کولاجن حیوانات( بشمول مچھلی اور پرندوں )کی کھال، اتصالی ریشے(Connective Tissue) اور ہڈیوں سے حاصل کیا جاتا ہے۔
استعمال:
کھانے پینے کی متعدد اشیا ، دواؤں، کاسمیٹکس،کیپسول کے خول اور فوٹو گرافی وغیرہ میں جیلاٹین کا استعمال عام ہے اور اس کے کئی مقاصد ہیں۔حالیہ اعدادو شمار کے مطابق دنیا بھر میں اس کی کل سالانہ پیداوار تقریبا 3 لاکھ 50 ہزارمیٹرک ٹن ہے، جبکہ’’ Global Industry Analysts, Inc.‘‘…جو مارکیٹ ریسرچ کے حوالے سے ایک انتہائی معتبر اور عالمی شہرت یافتہ ادارہ ہے… کی رپورٹ کے مطابق2017ء تک یہ پیداوار بڑھ کر3 لاکھ 95 ہزار 8 سو40میٹرک ٹن تک پہنچ جائے گی، کیونکہ ادویہ ،طا قت اور فٹنس کے لیے استعمال ہونے والی اشیا اور کاسمیٹکس کی صنعتوں میں اس کی طلب میں بہت تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔ اگر سرِ دست ہم صرف کھانے پینے ہی کی اشیا کو لے لیں تو درج ذیل گوشوارے میں اس بات کی ایک جھلک دیکھی جا سکتی ہے کہ جیلاٹین کون کون سی اشیا میں کن کن مقاصد کے لیے استعمال ہورہا ہے:
شمار ؛
عمل/مقصد (Function)مصنوعات (Products)
1جیل فارمر (Gel Former)جیلڈ ڈیزرٹ(Gelled Dessert)،لنچ میٹ(Lunch Meat)،کنفیکشنری، پیٹ(Pate)،کنسومے (Consomm)،ایسپک(Aspic)۔
2وِپنگ ایجنٹ(Whipping Agent) مارش میلو(Marshmallow) ،نوُگٹ(Nougat)،مُوس(Mousse)،سوفلے(Souffl)،شِیفان(Chiffon)،پھینٹی ہوئی ملائی (Whipped Cream)۔
3پروٹیکٹوِ کو لائیڈ (Protective Colloid) کنفیکشنری، آئسنگ(Icing)، آئس کریم، فروزن ڈیزرٹ، کنفیکشن۔
4 بائنڈنگ ایجنٹ (Binding Agent) گوشت سے تیار شدہ رول(Meat Roll)، ڈبہ بند گوشت، کنفیکشنری ، پنیر، دودھ کی مصنوعات (Dairy Products)۔
5 کلیریفائنگ ایجنٹ (Clarifying Agent) پھلوں کا رس ، سرکہ ۔
6 فِلم فارمر (Film Former) پھلوں کی کوٹنگ(Coating)،گوشت، کھانے پینے کی تیار اشیا (Deli Items)۔
7 تھِکنر (Thickener) سفوف پر مشتمل ڈرنک مِکس (Powdered Drink Mixes)، بُویان(Bouillon)، شوربہ(Gravy)، چٹنی(Sauce)، یخنی(Soup)، پڈنگ (Pudding)، جیلی، شربت دودھ کی مصنوعات(Dairy Products)۔
8 پروسیس ایڈ (Process Aid) رنگوں، ذائقوں، روغنیات اور وٹامن کی مائیکرو این کیپسولیشن (Micro Encapsulation)۔
9 ایملسیفائر (Emulsifier) ملائی والی یخنی (Cream Soup)، چٹنی(Sauce)، فلیورنگ (Flavoring)، مِیٹ پیسٹ(Meat Paste)، پھینٹی ہوئی ملائی (Whipped Cream)، کنفیکشنری،دودھ کی مصنوعات (Dairy Products)۔
10 سٹیبلائزر (Stabilizer) ملائی والا پنیر(Cream Cheese)، چاکلیٹ والا دودھ(Chocolate Milk)، دہی(Yicing)، کریم فلنگ(Cream Filling)، فروزن ڈیزرٹ۔
11 ایڈہیسِوایجنٹ (Adhesive Agent) کنفیکشن کے ساتھ نان پریل(Nonpareil )، ناریل(Coconut) اور دیگر اشیا کو چپکانا ، تہ دار کنفیکشن کی تہوں کو جوڑنا، پکی ہوئی اشیا (Baked Goods)کے ساتھ فراسٹنگ (Frosting) کو جوڑنا، گوشت کی مصنوعات کے ساتھ مصالحہ جات (Seasonings) کو جوڑنا۔ (ماخذ :GMIA-Gelatin-Manual صفحہ نمبر16)۔
جیلاٹین کے مآخذ(Sources): جیلاٹین کے اس قدر استعمال کی وجہ اس کے متعدد طبی اور صنعتی فوائد ہیں جن کی اہمیت سے کوئی بھی ذی شعور انسان انکار نہیں کرسکتا، لیکن مسلمانوں کے لیے پریشان کن اور انتہائی تکلیف دہ پہلو یہ ہے کہ اس کا حصول زیادہ تر حرام ذرائع سے ہوتا ہے۔
لینر پاک جیلیٹین لمیٹڈ (Leinor Pak Gelatine Limited)کالاشاہ کاکو کے مینجنگ ڈائریکٹر جناب خواجہ امتیاز احمد صاحب نے درج ذیل سوال اٹھایاہے:
'''ہمارے کارخانے میں مندرجہ ذیل اشیاء تیار ہوتی ہیں:
1۔ ڈائی کیلشیم فاسفیٹ
2۔ جیلیٹین
یہ اشیاء جانوروں کی ہڈیوں کو مختلف مراحل پرکیمیائی اثر کے تحت گزار کر مندرجہ ذیل طریقے پر تیار کی جاتی ہیں:
(الف) جانوروں کی ہڈیاں مختلف کارخانوں میں جمع ہوتی ہیں، دھوپ میں خشک ہوتی ہیں، پھر چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں توڑی جاتی ہیں۔ اس کے بعد ہمارے کارخانے میں لائی جاتی ہیں۔
(ب) ہم اس ہڈی کو کاسٹک سوڈا کے محلول میں دھوتے ہیں تاکہ ہر قسم کی چکنائی اور رطوبت دور ہوجائے۔
(ج) اس کے بعد یہ ہڈی نمک کے تیزاب میں ڈالی جاتی ہے۔جہاں پر کہ ای کیمیائی عمل ہوتا ہے ۔ جس کے نتیجے میں ہڈی مندرجہ ذیل دو اجزاء میں تقسیم ہوجاتی ہے۔
(1) اوسین
(Ossein)(2) ڈائی کیلشیم فاسفیٹ(Di Clacian Phosphate)
(د) ڈائی کیلشیم فاسفیٹ (جو کہ دو معدنیات ، کیلشیم اور فاسفیٹ کامرکب ہے)مختلف استعمال میں لایا جاتا ہے۔جن میں تین بڑے استعمال یہ ہیں:
1۔ مرغیوں اور مویشیوں کی خوراک کے جزو کے طور پر۔
2۔ دوائیوں میں۔
3۔ بچوں کی خوراک ، مثلا فیریکس (Farex)وغیرہ میں۔
(ہ) اوسین پر مندرجہ ذیل مزید کام کرکے جیلیٹین بنائی جاتی ہے۔
اوسین کوچالیس سے ساٹھ دن تک چونے کے محلول میں رکھا جاتاہے۔ پھر دھویا جاتا ہے۔اس کے بعد پلانٹ پر ایک لمبے کیمیائی عمل کے ذریعے جیلیٹین نکالی جاتی ہے۔
(و) جیلیٹین مختلف استعمال میں آتی ہے۔کھانے پینے کی چیزوں میں، مثلاً کھانے کی جیلی اور گولی مٹھائیاں وغیرہ، دوائیوں میں، اس کے علاوہ صنعتی استعمال میں، مثلاً فوٹو گرافی او رایکسرے فلموں کی تیاری میں۔
مندرجہ بالا حقائق کی روشنی میں التماس ہے کہ مندرجہ ذیل تین صورتوں میں ہر دو اشیاء (یعنی ڈائی کیلشیم فاسفیٹ اور جیلیٹین)کے شرعاً حلال اور پاک ہونے کے بارے میں فتوےٰ جاری فرمایا جائے تاکہ ہردو اشیاء کے استعمال (خصوصاً کھانے پینے کی اشیاء) کے سلسلے میں اطمینان قلب حاصل ہو:
1۔ اگر ہڈیاں صرف حلال جانور (ذبیحہ اور مردار ) کی ہوں۔
2۔ اگرنادانستہ طور پرممکنہ احتیاط کے باوجود مکروہ حرام جانور مثلاً گھوڑے اور گدھے کی ہڈیاں برائے نام شامل ہوجائیں۔
3۔ مندرجہ بالا مراحل سے گزرنے کے بعد تمام ہڈیاں کی ہیئت تبدیل ہوجاتی ہے۔ والسلام
-------------
دارالافتاء جامعہ اشرفیہ لاہور کا فتویٰ:
اس استفتاء کا جواب، دارالافتاء جامعہ اشرفیہ لاہور نے یوں دیا ہے:
''الجواب مبسملا و محمد لا و مصلیا و مسلماً، ہڈی کے اوپر رطوبت لگی ہوتی ہے، وہ ان جانوروں کی ناپاک ہے جو مردار ہیں او رجو حلال اور ذبح کیے ہوئے ہوں، ان کی نہیں، مگر جب ہڈی ان چیزوں سے پاک صاف ہوجائے گی تو پاک رہے گی، سوائے سؤر کی ہڈی کے۔ وہ کسی طرح استعمال نہیں ہوسکتی۔باقی حلال جانور کی ہرطرح، اور مردار کی رطوبت دو رکرنے کے بعد پاک ہیں۔ ان کا استعمال جائز ہے، صرف سؤر کی ہڈی کسی طرح استعمال نہیں ہوسکتی۔'' (دستخط مفتی صاحب)
----------------
دارالعلوم حزب الاحناف لاہور کا فتویٰ ؓ
بسم الله الرحمٰن الرحيم
''ہڈی خنزیر کے علاوہ خواہ کسی جانور کی ہو، جب اس میں سے رطوبت ختم ہوجائے اور بدبو وغیرہ نہ رہے تو پاک ہوجاتی ہے۔ اس کو جس مقصد کے لیے چاہیں استعمال میں لاسکتے ہیں۔ ہاں صرف خنزیر ایک ایسا جانور ہے جس کے جسم کا کوئی عضو کسی صورت میں مسلمان کے لیے استعمال میں لانا جائز نہیں۔باقی تمام جانوروں کی ہڈیاں مذکورہ بالا صورت میں پاک ہوجاتی ہیں۔ یہی حال چمڑے اور پٹھے وغیرہ کا ہے۔ علمائے احناف کا اس میں کوئی اختلاف نہیں۔واللہ اعلم و رسولہ۔ جل علا و صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم۔ (دستخط مفتی صاحب)
-------------------------
دارالعلوم دیوبند کافتویٰ:
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
الجواب هو الموفق والمعین :
''خنزیر (سؤر) کے علاوہ تمام جانوروں کی ہڈیاں خریدنا، بیچنا اور دوا تیار کرنا جائز ہے۔خواہ زندہ جانوروں کو ذبح کرنے سے ہڈیاں ملی ہوں یا مردار کی ہڈیاں۔ ویجوز بیع عظامها(i) 1و شعر المیتة و عظمها طاھر(ii) 2بخلاف الخنزیر لأنه نجس العین(iii) 3۔ حلال جانور اور غیر ماکول اللحم(iv) دونوں کی ہڈیاں پاک ہیں البتہ سؤر (خنزیر)نجس العین ہے۔ اس کی ہڈی قطعاً پاک نہیں ہے او رنہ کسی میں اس کا استعمال جائز ہے۔ پھر یہ ہڈیاں تحلیل ہوکر کتنی منزلوں سے گزر کر ہڈی باقی نہیں رہتی۔ اعلم أن العلة عندمحمد ھي التغیر و انقلاب الحقیقة وأنه یفتٰی به للبلوى الخ(v) فیدخل فيه کل ماکان فيه تغیر و انقلاب حقیقة و کان فيه بلویٰ عامة(vi) 4
حاصل یہ ہے کہ ہڈیوں کا ان منزلوں سے گزرنے کے بعد کیلشم وغیرہ بن جانے کے بعد ان کے استعمال میں شرعاً کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ البتہ سؤر کی ہڈی کی قطعا اجازت نہیں ہے۔ اس سےبچنا ہرطرح ضروری ہے۔وأما الخنزیر فشعره وعظمه وجمیع أجزاءه نجسة الخ ولا یجوز بیعه في الروایات کلها(vi) 5
(دستخط مفتی صاحب، دارالعلوم دیوبند، تائیدی دستخط نائب مفتی دارلعلوم دیوبند)(مہر)
-----------------------
ڈاکٹر طاہرالقادری کی ویب سائٹ سے اقتباس
کیا جیلاٹین والی اشیاء (ٹافیاں، بسکٹ، کیک، بریڈ اور دیگر کھانے کی تیار شدہ اشیاء)
کھانے پینے والی اشیاء کا استعمال کرنا جائز ہے؟
سوال نمبر 1621:
جواب:
جیلاٹین کے استعمال سے قبل اس کے اجزائے ترکیبی کے بارے میں وافر معلومات حاصل کرلی جائیں۔ اگر کمپنی نے اپنی پراڈکٹ پر کافی معلومات فراہم کر دی ہیں تو ٹھیک وگرنہ کمپنی کی ہاٹ لائن پر رابطہ کرکے بھی جانا جاسکتا ہے کہ فلاں پراڈکٹ میں استعمال شدہ جیلاٹین کن اشیاء سے تیار کی گئی ہے۔ ایک مسلمان کے لیے تو یہی کافی ہے کہ اگر جیلاٹین حلال طریقے سے ذبح کیے گئے حلال جانوروں، سبزیوں یا مچھلیوں سے تیار کی گئی ہے تو اس کا استعمال جائز ہے۔ لیکن اگر جیلاٹین میں حرام جانوروں کا گوشت، کھال شامل ہو یا غیر شرعی طریقے سے مذبوحہ حلال جانوروں کے اجزاء شامل ہوں تو ایسی جیلاٹین یا اس سے بنی اشیاء کا استعمال جائز نہیں۔
ایسی جیلاٹین کے استعمال کو ترجیح دینی چاہیے جس کے اجزائے ترکیبی حلال ہوں۔ تقویٰ اسی کا نام ہے۔
اللہ تعالٰی ہمیں حرام سے بچنے اور صراطِ مستقیم پر چلنے کی توفیق مرحمت فرمائے۔ (آمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔
مفتی: محمد فاروق رانا
تاریخ اشاعت: 2012-04-10
-------------------
'' علماء  اہل حدیث''محدث میگزین کی ویب سائٹ سے حاصل کردہ اقتباس

الجواب بعون اللہ الوھاب:
وھو الھادي للصواب وإليه المرجع والمآب :أقول وباللہ التوفیق:

واضح رہے کہ جو جانور حلال ہیں، ان کے جسم کے تمام اجزاء بھی حلال ہیں، سوائے ان اجزاء کے جن کی حرمت یاکراہت کا بیان آجائے۔
اسی طرح جو جانور حرام ہیں۔ان کے تمام اجزاء بھی حرام ہیں۔ البتہ ان کے بارہ میں جواستثناء آجائے، وہ قابل قبول ہے مثلاً ہاتھی وغیرہ ماکول اللہم ہے لیکن ہاتھی دانت کا خارجی استعمال احادیث و آثار سے ثابت ہے اور اس کی خرید و فروخت بھی۔چنانچہ سنن ابی داؤد ہے:
''قال النبي صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم: یاثوبان اشتر لفاطمة قلادة من عصب و سوارین من عاج'' 6
کہ''آنحضرتﷺ نے حضرت ثوبانؓ سے فرمایا: (حضرت فاطمہ ؓ)کے لیے پٹھے کا قلادہ او رہاتھ دانت کے دو کنگن خرید دو۔''
''وقال الزھري في عظام الموتیٰ نحو الفیل وغیرہ: أدرکت ناسا من سلف العلماء یتمشطون بھاوید ھنون فیھا لایرون به بأسا وقال ابن سیرین و إبراھیم: ولابأس بتجارة العاج'' 7
یعنی ''امام زہری ہاتھی وغیرہ مردار کی ہڈی کے بارہ میں فرماتے ہیں، ''میں نےاپنے اسلاف علماء کرام کو پایا وہ اس سے کنگھی کرلیتے اور اس میں تیل وغیرہ ڈال لیتے اور کوئی حرج نہ سمجھتے '' اور ابن سیرین اور ابراہیم  فرماتے ہیں: ''ہاتھی دانت کی تجارت میں کوئی حرج نہیں۔''
مذکورہ بالا حدیث شریف اور آثار پرقیاس کرتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ ہڈی کو کنگھی وغیرہ خارجی استعمال کی صورت میں استعمال کرنا اور اس کی تجارت کرنا جائز ہے۔ باقی رہا مسئلہ ہڈی یا اس کے کسی جز کو کھانے کا، تو واضح ہو کہ صرف وہ جانور جو ماکول اللحم (حلال) ہوں اور انہیں اسلامی طریقےکے مطابق ذبح کیا گیا ہو، ان کی ہڈی اور ہڈی کے اجزاء کو کھانے میں استعمال کرنا جائز ہے۔
اور جو جانور ماکول اللحم تو ہوں، لیکن مردار ہوں یا غیر اسلامی طریقہ پرذبح کئے گئے ہوں ان کا کھانا حرام ہے۔ حدیث میں ہے:
''أن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مربشاة میتة فقال: ھلا استمتعتم بإھابھا قالوا إنھا میتة قال إنما حرم أکلها'' 8
کہ ''آنحضرتﷺ کا گزر ایک مردہ بکری کے پاس سے ہوا ، آپؐ نے فرمایا: ''کیوں نہ تم نے اس کے چمڑے کو استعمال کرلیا؟'' صحابہؓ نے کہا: ''یہ تو مردہ ہے!'' آپؐ نے فرمایا:''اس کا (تو صرف )کھانا حرام ہے۔''
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ جانور اگرچہ حلال ہوں، لیکن اگر وہ مرجائے تو اس کا کھانا حرام ہے۔ جب اس کا کھانا حرام ہے، تو اس کی ہڈی یا ہڈی کے کسی جزء کو کھانے میں استعمال کرنا بھی حرام ہے اور جو جانور غیر ماکول اللحم ہیں، ان کی ہڈی کو کنگھی ، سرمہ دانی کے بطور تو استعمال کیاجاسکتا ہے مگر کھانے میں اس کی ہڈی کا حکم اس کے گوشت والا ہے۔
خلاصہ یہ کہ صرف حلال مذبوحہ جانور کی ہڈی یا ہڈی کے کسی جزء کو کھانے میں استعمال کیا جاسکتا ہے۔ حرام جانور کی ہڈی یاہڈی کے کسی جزء کو ماکولات و مشروبات میں استعمال کرنا حرام ہے۔ ممکنہ احتیاط کے باوجود اگر حرام جانوروں کی ہڈیاں نادانستہ طور پر شامل ہوجائیں توعنداللہ مؤاخذہ ہوگا۔ ان شاء اللہ۔
باقی رہا آخری نکتہ کہ مذکورہ کیمیائی مراحل سے گزرنے کے بعد ہڈی کی ہیئت بدل جاتی ہے، تو معلوم ہوکہ حرام کو حلال کی شکل دینے کے بعد بھی اس کے استعمال کا حکم وہی رہتا ہے۔ جیسا کہ حدیث شریف میں ہے، رسول اللہ ﷺ سےپوچھا گیا: ''آیا شراب کو سرکہ بنا لیا جائے؟'' تو آپؐ نے فرمایا:''نہیں!'' لہٰذا حرام جانور کی ہڈی کی ہیئت بدل دینے سے اس کا حکم نہیں بدلتا۔ البتہ طبعی تبدیلی سے چیز کا حکم بدل سکتا ہے۔کیمیائی تبدیلی سے حکم نہیں بدلے گا۔جولوگ خنزیر کےعلاوہ تمام جانوروں کی ہڈیوں کو پاک اور طاہر کہتے ہیں، ان کے پاس کتاب وسنت سے کوئی دلیل نہیں، جو وہ اپنے مؤقف کی تائید میں پیش کرسکیں۔
آخر کیا وجہ ہےکہ وہ لوگ خنزیر کی ہڈی کے استعمال کو ناجائز کہتے ہیں اور باقی کتے وغیرہ تمام حرام جانوروں کی ہڈی کا استعمال جائز اور پاک قرار دیتے ہیں؟ حالانکہ کسی چیز کا پاک ہونا الگ بات ہے اورحلال ہونا الگ۔ کیونکہ کہ بعض چیزیں پاک تو ہوتی ہیں لیکن حلال نہیں۔مثلاً بلی پاک ہے، اس کی بچی ہوئی چیز کھانے پینے میں بھی شرعا کوئی مضائقہ نہیں۔ اس کے باوجود بلی حلال نہیں۔
ان حضرات پر تعجب ہے ، کہاں تو وہ اس قدر احتیاط برتتے ہیں کہ حلال جانوروں کے بعض اجزاء کی کراہت کا فتویٰ دیتے ہیں اور کہاں اس قدر وسیع اجازت اور ڈھیل کہ حرام جانوروں کے اجزاء بھی حلال:
حلال و حرام کامسئلہ انتہائی نازک ہے، حرام کو کسی ذریعہ سے بھی استعمال سے بچنا چاہیے۔
ھٰذا ما عندي واللہ أعلم بالصوابحوالہ جات
1. فتاویٰ قاضی خان۔2. ہدایہ۔3. ایضاً۔4. ردالمختار۔5. البحر الرائق۔6. سنن ابی داؤد باب الانتفاع بالعاج۔7. صحیح بخاری ترجمة الباب۔
8. صحیح بخاری باب جلود المیتة قبل أن تدبغ
(بشکریہ محدث میگزین)
-----------------
جیلاٹین مکس خوراک کا شرعی حکم

مقبول احمد سلفی اسلامک دعوۃ سنٹر-طائف

جیلاٹن ایک پروٹین کا نام ہے جو گائے ، گدھا،گھوڑا، کتا، سانپ ،مچھلی، بکرا،بھیڑ،سور(خنزیر)اورمردار جانوروں کی کھال، ہڈی اور ریشوں سے تیار کیا جاتا ہے ۔ سبزیوں سے بھی جیلاٹین تیار کیا جاتا ہے لیکن عموماجیلاٹنھ میں جانور کی ہڈی کااستعمال ہوتا ہےجو ایک مخصوص مراحل طے کرکے عمل میں لایا جاتا ہے ۔
جیلاٹین کا فائدہ یہ ہے کہ یہ اشیاء کوجمانے کا کام کرتا ہے نیز یہ ایک ٹھوس مادہ ہے مگر گیلا ہونے پر فورا تحلیل ہوجاتا ہے ۔ جیلاٹین کا استعمال ٹافی ، چاکلیٹ، جیلی، چیونگم، کیک، آئیس کریم، مٹھائی ، دوا، بسکٹ، بریڈ، دہی، مسالحہ، کیپسول وغیرہ میں ہوتا ہے جو کہ کھانے والی اشیاء ہیں اور اس کا استعمال نان فوڈ آٹمز میں بھی ہوتا ہے جیسے لوشن ، شیونگ کریم اور کاسمیٹکس۔ 
یہاں ہمیں جیلاٹین سے بنے کھانے والی اشیاء سے سروکار ہے کہ اس بارے میں شریعت کا کیا حکم ہے ؟ یہاں اس سے بھی ہمیں سروکار نہیں کہ جیلاٹین تیار کرنے میں جانوروں کی ہڈیوں پر کیا پراسیس کیا جاتا ہے؟ اور یہاں یہ بحث بھی بے معنی ہوگی کہ ہڈیوں کو مختلف مراحل سے گزارکے اس کی ہیئت تبدیل کردی جاتی ہے ۔ 
اصل ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ کھانے پینے کی چیزوں میں جانور اور اس کی اشیاء کا کیا حکم ہے ؟ اسلامی ضابطہ کی رو سے ہمارے لئے صرف وہی جیلاٹین حلال ہے جس میں حلال جانور کی ہڈی یا کھال استعمال کی گئی ہواس شرط کے ساتھ کہ حلال جانور کو اسلامی طریقے سے ذبح بھی کیا گیا ہو۔ اگر ہمیں معلوم ہوکہ گائے ، بھیڑ، بکرا،گھوڑاحلال طریقے سے ذبح کیا گیاہو تو ان کی اشیاء سے بنے جیلاٹین کے استعمال میں کوئی حرج نہیں ۔ اسی طرح مچھلی اور سبزیوں سے بنے جیلاٹین ہمارے لئے حلال ہے ۔ 
اس کے ماسواحرام جانور سور، کتا، گدھا، سانپ یا مردار جانور سے بنے جیلاٹین کا استعمال جائز نہیں ہے حتی کہ حلال جانور بھی اگر اسلامی طرز پر ذبح نہ کیا گیا ہوتو اس کے جیلاٹین کااستعمال بھی جائز نہیں ۔ اسی طرح جس سامان میں جیلاٹین کی ملاوٹ ہو اور جیلاٹین کا ماخذ معلوم نہ ہوتو اس سے بھی بچنا ہے کیونکہ یہ مشکوک ہوگیا ۔ 
ایک اہم انتباہ : مسلمانوں میں جیلاٹین کے استعمال سے متعلق مختلف قسم کی باتیں اور فتاوے متداول ہیں ۔ کسی کا کہنا ہے کہ چونکہ اس کی ماہیت بدل جاتی ہےاس لئے جیلاٹین کے استعمال میں کوئی حرج نہیں خواہ کسی سے بنا ہو۔ کسی کا کہنا ہے کہ بطور علاج جیلاٹین کا استعمال جائز ہے ، کسی کا کہنا ہے کہ سور کے علاوہ بقیہ تمام جانور کے جیلاٹین کا استعمال جائز ہے ۔ان میں سے کسی کی بات درست نہیں ہے ۔صحیح بات وہی ہے جو میں نے اوپر لکھی ہے کہ صرف حلال جانور کی ہڈی سے بنے جیلاٹین کا استعمال جائز ہے وہ بھی اس وقت جب اسے شرعی طریقے سے ذبح کیا گیا ہو، باقی مچھلی یا سبزی کے جیلاٹین کا کوئی مسئلہ نہیں ہے ۔ 
حرام جانور کا جیسے گوشت کھانا حرام ہے ویسے اس کی کھال اور ہڈی کھانا حرام ہے ، اللہ تعالی نے ہمیں صرف پاک چیزوں کے کھانے کا حکم دیا ہے ۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے :وَيُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبَاتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبَآئِثَ۔ [ الأعراف : 157 ] 
ترجمہ: اور پاکیزہ چیزوں کو حلال بتاتے ہیں اور گندی چیزوں کو ان پر حرام فرماتے ہیں ۔ 
اس لئے پاک چیزیں ہی ہمیں کھانا ہے اور ناپاک چیزوں سے اجتناب کرنا ہے ، اسے بطور علاج بھی نہیں استعمال کرنا ہے ۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے : 
إنَّ اللهَ تعالى خلق الدَّاءَ و الدَّواءَ ، فتداووْا ، و لا تتداووْا بحَرامٍ( صحيح الجامع:1762) 
ترجمہ: یقیناً اللہ تعالی نے بیماری اور اس کا علاج پیدا کیا ہے، لہذا تم اپنا علاج کراؤ اور حرام چیزوں سے اپنا علاج مت کراؤ۔ 
( بشکریہ بصیرت فیچرس)
) اگر مسلمان صانعین(Manufacturers) خود اس کی پیداوار شروع کردیں تو یہ سونے پہ سہاگہ ہوگا، لیکن اگر اس طرح طلب کو پورا کرنا فی الحال ممکن نہ ہو تو موجودہ صانعین کو بھی اس پر مجبور کیا جا سکتا ہے۔ کاروباری دنیا کے لوگ اس بات سے بخوبی آگاہ ہیں کہ اگر صارفین موثر آواز اٹھائیں تو صانعین ان کی طلب(Demand)کو پورا کرنے کی پوری پوری کوشش کرتے ہیں،کوئی بھی بڑی کمپنی اپنی مارکیٹ کو کھونا نہیں چاہتی۔
گائے کی ہڈیوں سے اور صرف ایک فیصد مچھلی اور دیگر ذرائع سے حاصل کیا جاتا ہے۔ جیلاٹین کی کل عالمی پیداوار کا39 فیصد مغربی یورپ،2 فیصد مشرقی یورپ،20 فیصد شمالی امریکا اور17 فیصد لاطینی امریکا تیار کرتے ہیں۔ باقی تمام ممالک کاحصہ22 فیصد ہے۔ گائے سے ماخوذجیلاٹین بھی چونکہ زیادہ تر غیر مسلم ممالک میں تیار ہوتا ہے۔ اس لیے یہ بھی یقینی طور پر حلال نہیں ہوتا کیونکہ اس کے یقینی حلال ہونے کے لیے ضروری ہے کہ گائے کو ذبح بھی شرعی طریقے کے مطابق کیا گیا ہو ،جبکہ غیر مسلم ممالک میں اکثر وبیشتر ایسا نہیں ہوتا ۔ مذکورہ بالاحقائق کے پیش ِ نظر ماہرین کی رائے میں اس وقت جیلاٹن کی کل عالمی پیداوار میں یقینی حلال جیلاٹن (جو مچھلی سے اور شرعی طریقے پر ذبح شدہ گائے سے ماخوذہوتا ہے)کاحصہ صرف 2فیصد کے لگ بھگ ہے۔ مسئلے کا حل: مذکورہ بالا تفصیلات پڑھنے کے بعد بہت سے قارئین کرام کے ذہن میں یقینا ًیہ سوال گردش کررہا ہوگا کہ جیلاٹن کے مسئلے کا حل کیاہے؟ اس حوالے سے چند گزارشات درج ذیل ہیں: -1 سب سے بہترین حل تو یہ ہے کہ’’حلال جیلاٹین ‘‘کا انتظام کیا جائے یعنی اس با ت کو یقینی بنایا جائے کہ اس کا ماخذ یا تو شرعی طریقے پر ذبح شدہ حلال جانور ہویا پھر مچھلی۔

اگر مسلمان صانعین(Manufacturers) خود اس کی پیداوار شروع کردیں تو یہ سونے پہ سہاگہ ہوگا، لیکن اگر اس طرح طلب کو پورا کرنا فی الحال ممکن نہ ہو تو موجودہ صانعین کو بھی اس پر مجبور کیا جا سکتا ہے۔ کاروباری دنیا کے لوگ اس بات سے بخوبی آگاہ ہیں کہ اگر صارفین موثر آواز اٹھائیں تو صانعین ان کی طلب(Demand)کو پورا کرنے کی پوری پوری کوشش کرتے ہیں،کوئی بھی بڑی کمپنی اپنی مارکیٹ کو کھونا نہیں چاہتی۔ -2 دوسرا حل یہ ہے کہ جب تک ’’حلال جیلاٹین‘‘کا مناسب انتظام نہیں ہوجاتا،اس وقت تک اس کے متبادل اجزائے ترکیبی استعمال کیے جائیں ، جو ماہرین کے مطابق اس کے مقاصد کو بڑی حد تک پورا کرسکتے ہیں۔ چند ایک متبادل اجزا درج ذیل ہیں: پیکٹن (E-440)، کیراجین(E-407)، ایگر ایگر(E-406)،(E-415)وغیرہ۔
نوٹ:اگرحرام ذرائع سے ماخوذ جیلاٹین کی ماہیت بدل جائے تو شرعاً اس کو حلال قرار دیا جائے گا، لیکن آیا اس میں ماہیت بدلتی بھی ہے یا نہیں؟ اس حوالے سے ہماری اب تک کی جستجو کے مطابق کوئی بھی سائنسدان اس کی ماہیت بدلنے کا قائل نہیں۔ علمائے کرام کے درمیان بھی اس حوالے سے اختلاف ہے، لہذا یہ مشکوک ہی ہے۔اس اختلاف کے پیش ِ نظراحتیاط اسی میں ہے کہ حرام ذرائع سے ماخوذ جیلاٹین استعمال نہ کیا جائے۔ (جیلاٹن کی اہمیت،حلال جیلاٹین تیار کرنے کی صورتوں ، اس حوالے سے مشکلات ، ان مشکلات کا ممکنہ حل اور حلال جیلاٹین کے کاروباری فوائد پرہم آیندہ کسی مضمون میں تفصیل سے اپنی گزارشات پیش کریں گے، ان شاء اللہ۔)
خلاصہ تحقیق اور ہماری رائے :
 تمام تفصیلات پڑھنے کے بعد میچ میں اس نتیجہ پر پہنچا  کہ جیلاٹین  ہڈی کا ایک اہم جز  ہے جیسے گنے سے پہلے اس کا رس الگ کیاجاتا ہے  پھر  اس رس سے پانی کشک کر کے گڑھ بنا دیا جاتا ہے اور پھر  اس گڑھ  سےصرف گلوکوز الگ کر کے اس کی چینی بنادی جاتی ہے ۔لہذا یہاں تبدیلی ماہئیت  کا سوال ہی پیدا  نہیں ہوتا  ،ہاں اگر کوئی گنے  سے بنی  چینی  کو تبدیل ماہئیت کہتا ہے  ( جوکہ قطعاً نہیں ہے ) تو پھر  الگ بات ہے ۔
لہذا جیلاٹین جب جانور سے حاصل کی گئی ہو تو اس کے حلال ہونے کے لیے حلال جانور اور اس کا  شرعی  طریقہ سے ذبح ہونا شرط ہے  بصورت دیگر  جیلاٹین کو حلال نہیں کہا جاسکتا۔
مزید چند سال قبل ترکی میں ایک حلال کانفرنس کے موقع پر چند حضرات  سے  جیلاٹین کے شرعی حکم پر بات  ہوئی  بعض  حضرات کی رائے تھی  کہ جیلاٹین  اگر حلال جانور سے حاصل کی جائے  تو حلال ہے اور  حرام جانور سے حاصل کی جا ئے تو حرام ہے۔اور بعض افراد  کی یہ رائے تھی  کہ جیلاٹین بننے کے عمل  سے گزرنے  کے بعد چوں کہ حرام کی ماہیت  تبدیل ہوجاتی  لہذا حلال  جانور کی شرط  لازم نہیں یا حلال  طریقے سے ذبح ہونا ضروری نہیں رہا لہذا اس کے استعمال کی شرعاً اجازت  ہے ۔میری نظر سے  جو فتاویٰ گزرے  تھے ان میں ایک بات مشترک  تھی کہ اگر تبدیل ماہیت ہوگئی ہے تو جائز ہے ورنہ  حلال ذرائع  سے حاصل شدہ جیلاٹین  جائز جبکہ حرام  ذرائع سے حاصل شدہ  جیلاٹین  ناجائز ہوگی  ۔
ہم نے ایک جیلاٹین بنانے والے  ادارے سے درخواست کی کہ اگر وہ اس معاملہ  میں رہنمائی  کررسکیں تو لوگوں کا بہت فائدہ ہوجائے گا ۔ اللہ تعالیٰ انہیں جزائے خیر دھے کہ میری درخواست کو انہوں نے  قبول کرلیا اور مجھے لاہور میں جیلاٹین بنانے والی فیکٹری میں اپنے ساتھ  لے گئے ۔ سب سے پہلے  تو مجھے اپنے ریسرچ اینڈ  ڈیولیمپنٹ ڈپارٹمنٹ کے ذمہ دار سے ملایا جنہوں نے مجھے زبانی ساراعمل سمجھایا کافی تکنیکی معلومات  تھیں جو پہلی بار سننے والے کے لیے فوری  سمجھنا کافی ہے  مشکل  تھیں  ۔
ان کی گفتگو سے کوئی پچاس فیصد بات  سمجھ  آگئی بات سمجھنے  کے لیے میں نے ان سے سوال کیا کہ سادہ لفظوں  میں بتائیں !کہ کیا اس  تمام عمل  کے نتیجہ میں ماہئیت  واقع ہوئی یا نہیں ؟ جواب تھا ” نہیں “
 بلکہ ہم  نے ہڈی  سے اس کے  ایک مخصوص جز کو انتہائی احتیاط سے صرف جدا  (Separate )  کر دیا ہے ۔ہم نے اپنی رائے صفحہ اسلامی میسج سروس کی ویب سائٹ متفق ہو کر پیش کی ہے۔
واللہ اعلم  بالصواب۔

بشکریہ فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان
wwwdawatetohid.bogspot.com

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...