Tuesday 12 April 2016

اسلام اور خانقاہی نظام، 140

"اسلام اور خانقاہی نظام "
(گزشتہ سے منسلک قسط نمبر 140)
تصوف کا مثبت پہلو
ان تمام تضادات کے باوجود مسلم اہل تصوف نے چند ایسی خدمات سرانجام دی ہیں جن کی مثال دوسری قوموں کے صوفیوں میں نہیں ملتیں۔  ہندو اور عیسائی صوفیاء کے برعکس مسلم صوفیاء نے جنگلوں میں چھپ کر زندگی گزارنے کی بجائے معاشرے کے بیچ میں رہ کر اپنی سرگرمیاں جاری رکھیں۔ ابتدائی صدیوں میں فقہ اور حدیث کی تدوین اور کلامی و فلسفیانہ بحثوں میں مشغولیت کے باعث اہل علم کی بڑی تعداد عوام الناس کی اخلاقی تربیت نہ کر سکی تھی۔ صوفیاء نے اس خلا کو پر کیا۔ انہوں نے انسانی نفسیات میں گہری مہارت حاصل کی اور اس کو اپنے نظریات پھیلانے کے ساتھ ساتھ لوگوں کی اخلاقی تربیت کے لئے استعمال کیا۔
مسلمانوں کے علماء میں بالعموم عوام سے دوری کا رجحان رہا ہے۔ انہوں نے عام طور پر دین کو دلوں میں اتارنے کی بجائے ڈنڈے کے زور پر اسے لوگوں پر مسلط کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس کے برعکس مسلم صوفیاء نے عوام سے قربت اختیار کی۔ انہوں نے اپنے لباس، رہن سہن اور نشست و برخاست کو عوامی بنایا۔
علماء نے اپنے خیالات کو لوگوں تک پہنچانے کے لئے درس و تدریس اور تصنیف و تالیف کا طریقہ اختیار کیا۔ برصغیر کے علماء نے عام طور پر مقامی زبانوں کی بجائےعربی و فارسی کو اپنے خیالات کے اظہار کا ذریعہ بنایا۔ اس طریقے سے وہ پڑھے لکھے طبقے تک تو اپنا پیغام پہنچانے میں کامیاب ہو گئے مگر عوام الناس  تک ان کی رسائی ممکن نہ ہو سکی۔ اس کے برعکس صوفیاء نے عوامی طریقہ اختیار کیا۔ انہوں نے عوامی ذوق کے مطابق مقامی زبانوں میں اپنا پیغام پیش کیا۔ ہمارے ہاں پنجابی، پشتو اور سندھی زبان کی شاعری کا بڑا حصہ صوفیانہ کلام پر مشتمل ہے۔
صوفی بزرگ آسان آسان نظموں کی صورت میں اپنا پیغام لکھ دیتے۔ اس پیغام کو لے کر ان کے مرید گویے، بھانڈ اور میراثی  گرد  و نواح کے دیہات میں پہنچ جاتے اور چوپالوں میں گا گا کر یہ پیغام لوگوں کے ذہنوں میں راسخ کر دیتے۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری دیہاتی معاشرت میں صوفی ازم کی جڑیں بہت گہری ہیں۔ علماء کے برعکس صوفیاء میں رواداری کا عنصر بہت زیادہ تھا۔ تشدد اور سختی کے ذریعے اپنی بات منوانے کی بجائے ان کی یہ کوشش رہی ہے کہ اپنی بات کو اعلی ادبی شہ پاروں اور خوبصورت تمثیلات  کی مدد سے منوایا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ آج کل انتہا پسندی کے خاتمے کے لئے صوفی ازم کے احیاء کی بات کی جا رہی ہے۔
ان سب معاملات کے ساتھ ساتھ صوفی بزرگ طب اور بعض پیرا سائیکالوجیکل  علوم جیسے ہپنا ٹزم، ٹیلی پیتھی، تعویذ گنڈوں وغیرہ میں مہارت حاصل کرتے اور اسے عام لوگوں کے مسائل حل کرنے کے لئے استعمال کرتے ۔ جس کا مسئلہ حل ہو جاتا، وہ ان بزرگ کا بے دام غلام بن جاتا اور جس کا مسئلہ حل نہ ہوتا، وہ اسے رضائے الہی پر صابر و شاکر رہنےکی تلقین کرتے۔ ان کی ان خدمات کے باعث انہیں معاشرے میں غیر معمولی مقام حاصل ہو گیا جو کہ اب تک باقی ہے۔یہی وجہ ہے کہ آج بهی آستانوں اور مزاروں پر عوام کے ذوق و شوق کو مد نظر رکھتے ہوئے موسیقی، ناچ گانا ،نشہ اور موج مستی کی محافل اور دیگر خرافات کا خاص انتظام کیا جاتا ہے.تاکہ لوگوں کا خانقاہی نظام کی طرف رجحان بڑهے-
تزکیہ نفس اور انسان کی روحانی و اخلاقی تربیت کے لئے قرآن مجید سے بڑھ کر کوئی ذریعہ و دوا نہیں ہے۔ اللہ تعالی نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کا بنیادی مقصد تزکیہ نفس ہی کو قرار دیتے ہوئے اس کا طریقہ یہ بتایا کہ یہ رسول انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتے ہیں۔
لَقَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ إِذْ بَعَثَ فِيهِمْ رَسُولاً مِنْ أَنْفُسِهِمْ يَتْلُوا عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمْ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِنْ كَانُوا مِنْ قَبْلُ لَفِي ضَلالٍ مُبِينٍ. (آل عمران 3:164)
بے شک اللہ کا اہل ایمان پر عظیم احسان ہوا جب اس نے ان میں ایک شاندار رسول بھیجا جو کہ خود انہی میں سے ہے۔ وہ ان کے سامنے اس کی آیات کی تلاوت کرتا ہے، انہیں (روحانی و اخلاقی آلائشوں سے) پاک کرتا ہے اور (اس کے لئے) انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے۔ اس سے پہلے تو وہ کھلی گمراہی میں تھے۔
کیا ہی اچھا ہوتا کہ اگر ہمارے اہل علم عوام کی سطح پر اتر کر انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتے اور ان کی روحانی و اخلاقی تربیت کرتے۔ ان کے ایسا نہ کرنے کی وجہ سے وہ خلا پیدا ہوا جو اہل تصوف نے پر کیا اور اس پاکیزہ عمل میں بہت سی بدعات و خرافات داخل کر دیں۔
اب بهی وقت ہے کہ اہل علم اپنے اپنے وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے تصوف کی حقانیت سے عوام الناس کو آگاہ کرتے ہوئے اس منہج پر لے کر آئیں جس پر صحابہ کرام عمل پیرا تهے....
کیونکہ نبی پاکﷺکے تمام صحابہ کرامؓ آسمان رشد کے روشن ستارے ہیں اور ان کی زندگیاں ہمارے لئے مشعل راہ ہیں اور جو بھی ان سے محبت و اتباع  اوران کے نقش قدم پر چلےگا وہ یقیناً ہدایت پائے گا کیونکہ یہ وہ نفوس قدسیہ ہیں جو بارگاہِ رسالت مابﷺ سے براہ راست فیض یافتہ ہوئے.....
میں اللہ تعالٰی کے حضور دعا گو ہوں کہ یہ سلسلہ ہمارے والدین ، اساتذہ کرام، اور تمام معاونین کیلئے نجات کا ذریعہ بنائے.؛
اور 'فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان' کو اللہ تعالٰی کتاب و سنت کی اشاعت کیلئے مزید ترقی عطا فرمائے تا کہ یہ اسی طرح دین حنیف کی خدمت میں مصروف رہے...آمین
جاری ہے.......
www.islam-aur-khanqahi-nizam.blogspot.com

 

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...