Friday 8 April 2016

مسلمانوں کے مذہبی مسالک، 14

"مسلمانوں کے مذہبی مسالک"
(قسط نمبر 14)
3: عبادت میں شرک
اللہ تعالیٰ نے بعض کام اپنی عبادت کے لیے مخصوص فرمادیے ہیں۔جن کو عبادات کہا جاتا ہے جیسے سجدہ، رکوع ، ہاتھ باندھ کر کھڑے ہونا، اللہ کے نام پر خیرات کرنا، اس کے نام کا روزہ رکھنا اور اس کے مقدس گھر کی زیارت کے لیے  دور دور سے سفر کرکے ٓانا  اور ایسی ہیت(حلیہ) میں ٓانا کہ لوگ پہچان جائیں کہ یہ زائرین حرم ہیں۔ راستے میں اللہ ہی کا نام پکارنا ، نامعقول باتوں اور شکار سے بچنا ، پوری احتیاط سے جا کر اس کے گھر کا طواف کرنا ، اس کی طرف سجدہ کرنا ، اس کی طرف قربانی کے جانور لے جانا ، وہاں منتیں ماننا ، کعبہ پر غلاف چڑھانا ، کعبہ کی چوکھٹ کے ٓاگے کھڑے ہو کر دعاہیں مانگنا دین و دنیا کی بھلایئاں طلب کرنا ، حجر اسود کو چومنا ، کعبہ کی دیوار سے منہ اور چھاتی لگانا، اس کا غلاف پکڑ کر دعاہیں مانگنا  اس کے چاروں طرف روشنی کرنا ، اس میں خادم بن کر رہنا ، جھاڑوں دینا ، حاجیوں کو پانی پلانا، وضو کے لے اور غسل کے لیے پانی مہیا کرنا آب زم زم کو تبرک سمجھ کر پینا ، بدن پر ڈالنا ، سیر ہو کر پینا ، آپس میں تقسیم کرنا ، عزیز و اقارب کے لیے لے جانا ، اس کے آس پاس کے جنگل کا ادب و احترام کرنا ، وہاں شکار نہ کرنا، درخت نہ کاٹنا، گھاس نہ اکھاڑنا ، جانور نہ چرانا، یہ سب کام اللہ نے اپنی عبادت کے طور پر مسلمانوں کو بتایئے ہیں ۔
پھر اگر کوئی شخص نبی کو یا ولی کو یا  بھوت و پریت کو یا جن یا پری کو یا کسی سچی یا جھوٹی قبر کو یا کسی کے تھان یا چلے کو یا کسی کے مکان و نشان کو  یا کسی کے تبرک و تابوت کو سجدہ کرے یا رکو ع کرے یا اس کے لیے روزہ رکھے یا ہاتھ باندھ کر کھڑا ہو جائے یا چڑھاوا چڑھائے یا ان کے نام کا جھنڈا لگائے یا جاتے وقت الٹے پاوں چلے یا قبر کو چومے یا قبروں یا دیگر مقامات کی زیارت کے لیے دور سے سفر کر کے جائے یا وہاں چراغ جلائے اور روشنی کا  
انتظام کرے یا ان کی دیواروں پر غلاف چڑھائے یا قبر پر چادر چڑهائے یا مور چھل جھلے یا شامیانہ تانے یا ان کی چوکھٹ کا بوسہ لے یا ہاتھ باندھ کر دعائیں مانگے یا مرادیں مانگے یا مجاور بن کر خدمت کرے یا اس کے آس پاس کے جنگل کا ادب کرے۔ غرض اس قسم کا کوئی کام کرے تو اس نے کھلا شرک کیا، اس کو شرک 'فی العبادات' کہتے ہیں۔
یعنی غیر اللہ کی تعظیم اللہ کی سی کرنا خواہ عقیدہ یہ ہو کہ وہ ذاتی اعتبار سے ان تعظیموں کے لائق ہے یا اللہ ان کی اس طرح تعظیم کرنے سے خوش ہوتا  ہے اور اس کی تعظیم کی برکت سے بلائیں ٹل جاتی ہیں۔ ہر صورت میں یہ شرکیہ عقیدہ ہے۔
4۔ روزمرہ کے کاموں میں شرک:
حق تعالی نے بندوں کو یہ ادب سکھایا ہے کہ دنیوی کاموں میں اللہ کو یاد رکھیں اور اس کی تعظیم بجالائیں تا کہ ایمان بھی سنور جائے اور کاموں میں برکت بھی ہو، جیسے مصیبت کے وقت اللہ کی نذرمان لینا اور مشکل کے وقت اسی کو پکارنا اور کام شروع کرتے وقت برکت کے لیے اسی کا نام لینا۔ اگر اولاد ہو تو اس نعمت کے شکریہ کے لیے اس کے نام پر جانور ذبح کرنا، اولاد کا نام عبداللہ، عبدالرحمن، الہی بخش، اللہ دتہ وغیرہ رکھنا۔ کھیتی کی پیداوار میں تھوڑا سا غلہ (صدقہ)اس کے نام کا نکالنا، پھلوں میں سے کچھ پھل اس کے نام کے نکالنا جانوروں میں سے کچھ جانور اللہ کے نام کے لیے مقرر کرنا اور اسکے نام کے جو جانور بیت اللہ کو لے جائے جائیں، ان کا ادب و احترام بجالانا اور انہیں کهلانا پلانا۔ کھانے پینے اور پہنے اوڑھنے میں اللہ کے حکم پر چلنا، جن چیزوں کے استعمال کا حکم ہے صرف انہیں استعمال کرنا اور جن کی ممانعت ہے ان سے باز رہنا۔ دنیا میں گرانی اور ارزانی، صحت و بیماری، فتح و شکست، اقبال و ادبار اور رنج و مسرت جو کچھ بھی پیش آتا ہے سب کو اللہ کے اختیار میں سمجھنا۔ ہر کام کا ارادہ کرتے وقت ان شاء اللہ کہنا مثلا یوں کہنا کہ انشاء اللہ ہم فلاں کام کریں گے۔ اللہ تعالی کے اسم گرامی کو اس عظمت کے ساتھ لینا جس سے اس کی تعظیم نمایاں ہو اور اپنی غلامی کا اظہار ہوتا ہو جیسے یوں کہنا ہمارا مالک ، ہمارا خالق، ہمارا معبود وغیرہ۔ اگر کسی موقع پر قسم کھانے کی ضرورت پڑ جائے تو اسی کے نام کی قسم کھانا۔
یہ تمام باتیں اور اسی قسم کی دیگر باتیں اللہ پاک نے اپنی تعظیم ہی کے واسطے مقرر فرمائی ہیں، پھر جو کوئی اس قسم کی تعظیم غیر اللہ کی کرے ، مثلا کام رکا ہوا ہو یا بگڑ رہا ہو ، اس کو چالو کرنے یا سنوارنے کے لیے غیر اللہ کی نذر مان لی جائے ، اولاد کا نام عبدالنبی،امام بخش،پیر بخش،پیراں دتہ، غوث بخش، وغیرہ رکھا جائے، کھیت و باغ کی پیداوار میں انکا حصہ رکھا جائے ، جب پھل تیار ہوکر آئیں تو پہلے ان کے نام کاحصہ الگ کر دیا جائے ، تب اسے استعمال میں لایا جائے، جانوروں میں ان کے نام کے جانور مقرر کر دیئے جائیں ، پھر انکا ادب و احترام بجا لایا جائے، پانی سے یا چارے سے انہیں نہ ہٹایا جائے، لکڑی سے یا پتھر سے انہیں نہ مارا جائے اور کھانے پینے اور پہننے اوڑھنے میں رسموں کا خیال رکھا جائے کہ فلاں فلاں لوگ فلاں فلاں کھانا نہ کھائیں ، فلاں فلاں کپڑا نہ پہنیں ، بی بی فاطمہ رضی اللہ عنہا کی صحنک مٹی کا طباق جو سیدہ کی نذر کیا جاتا تھا مرد نہ کھائیں ، لونڈی نہ کھائے اورشوہر والی عورت نہ کھائے، شاہ عبدالحق کا توشہ حقہ پینے والا نہ کھائے۔
دنیا کی بھلائی اور برائی کو انہی کی طرف منسوب کیا جائے کہ فلاں فلاں انکی لعنت میں گرفتار ہے، پاگل ہوگیا ہے ، فلاں محتاج ہے ، فلاں انہی کا دھتکارا ہوا ہے اور دیکھو فلاں کو انھوں نے نوازا تھا، آج سعادت و اقبال اس کے پاوٗں چوم رہے ہیں، فلاں تارے کی وجہ سے قحط آٓیا ، فلاں کام فلاں ساعت میں فلاں دن شروع کیا گیا تھا اس لئے پورا نہ ہوا، یا یہ کہا جائے کہ اگر اللہ اور رسول چاہے گا تو میں آوں گا یا پیر صاحب کی مرضی ہوگی تو یہ بات ہوگی۔ یا گفتگو میں داتا ، بے پرواہ، خداوند  خدائیگاں، مالک الملگ اور شہنشاۃ جیسے الفاظ استعمال کیےجائیں، قسم کی ضرورت پڑ جائے تو نبی کی یا علی رضی اللہ عنہا کی یا امام اور پیر کی یا انکی قبروں یا اپنی جان کی قسم کھائی جائے۔ ان تمام باتوں سے شرک پیدا ہوتا ہے اور اس کو شرک 'فی العادت' کہتے ہیں، یعنی عام کاموں میں جیسی اللہ کی تعظیم کرنی چاہیے، ویسی غیر اللہ کی تعظیم کی جائے۔<9>
شاہ صاحب کی عبارت کسی تشریح و توضیح کی محتاج نہیں ہے۔ اس سے اہل حدیث اور دیوبندی حضرات کی اکثریت کا نقظہ نظر واضع ہو جاتا ہے۔ یہاں ہم یہ بات عرض کرتے چلیں کہ ان میں سے بعض رسوم بریلوی حضرات کے نزدیک بھی شرک یا کم از کم حرمت کے دائرے میں داخل ہیں جیسے غیر اللہ کو سجدہ کرنا، مخلوق میں سے کسی کے نام کی نذر ، مزارات کے گرد کے علاقوں کو حرام قرار دے دینا، غیر اللہ کی قسم کھانا وغیرہ، باقی معاملات میں ان کا نقطہ نظر یہ ہے کہ یہ کام اسی وقت شرک ہوں گے جب انہیں متعلقہ بزرگ کا ذاتی کمال سمجھ لیا جائے۔ اگر عقیدہ یہ ہو کہ یہ بزرگ اللہ تعالی کی دی ہوئی طاقت اور اس کی اجازت سے ہمارا کوئی مسئلہ حل کرتے ہیں تو یہ شرک نہ ہو گا۔ بعض بریلوی حضرات کا یہ نظریہ ہے کہ یہ بزرگ صرف اللہ تعالی سے دعا کرتے ہیں جس سے اللہ تعالی ہمارا مسئلہ حل کر دیتا ہے۔ اس طرح وہ محض دعا کی درخواست کرتے ہیں، جو کہ شرک نہیں ہے۔
جاری ہے......
مجموعہ هذا میں شامل ہونے کیلئے رابطہ نمبر:
0096176390670
00923337003012

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...