Monday 4 April 2016

اسلام اور خانقاہی نظام، 115

"اسلام اور خانقاہی نظام"
(گزشتہ سے منسلک قسط نمبر115)
جعلی عامل اور پیر کب کیفر کردار کو پہنچیں گے؟

جعلی عامل اور پیر کب کیفر کردار کو پہنچیں گے؟​وطن عزیز کو جس طرح کرپشن، بے روزگاری، مہنگائی ، قانون شکنی ایسی بیماریوں نے اپنی گرفت میں لیا ہوا ہے، اسی طرح ایک اور بیماری ہے جس کا تذکرہ نہ کرنا اور اسے منظر عام پر نہ لانا قلم کے ساتھ بہت بڑی نا انصافی ہوگی، اور اس بیماری کا نام ہے ’’جعلی عاملوں اور جعلی پیروں کی یلغار روزانہ ہر اخبار بڑے بڑے اشتہاروں سے مزین نظر آتے ہیں جس میں مختلف عاملوں اور بابوں کے بلند بانگ دعوے پڑھنے کو ملتے ہیں، جن میں عوام الناس کو ترغیب دی گئی ہوتی ہے کہ ان کے پاس آئیں اور منہ مانگی مرادیں پائیں۔ ان کے دعوے اس قدر اعتماد کے ساتھ کرائے گئے ہوتے ہیں کہ جنہیں پڑھنے کے بعد بے روزگاری، محبت میں ناکامی، بے اولاد ،کاروباری  میں مندی، گھریلو ناچاقی اور دشمن داری کا شکار لوگ ان عاملوں اور پیروں کی طرف کھنچے چلے جاتے ہیں۔ ان اشتہاری عاملوں کا دعویٰ ہوتا ہے کہ وہ ہر کام موکلات یا کسی بزرگ  کی مدد سے کرتے ہیں. اگر کسی دشمن نے کسی پر جادو کر دیا ہو، کسی کا کاروبار یا روزگار باندھ دیا ہو، کوئی اپنی محبت پانے میں ناکام ہوگیا ہو، کسی نے نوکری لینی ہو، کوئی بیماری سے چھٹکارا چاہتا ہو، کوئی عورت اپنے شوہر کو راہِ راست پر لانا چاہتی ہو،کوئی اولاد کا طالب ہو، کسی دشمن کو تباہ و برباد کرنا ہو تو عاملوں کے قبضے میں جو  مؤکلات اور بابوں کی شکتیاں ہیں تمام معاملات حل کرا دیتے ہیں۔ حکومت کی عدم توجہی کے باعث ان عاملوں کی تعداد مسلسل بڑھتی جا رہی ہے اور یہ عامل ان پڑھ اور بے وقوف لوگوں خصوصاً خواتین کو بھاری معاوضوں کے عوض دھڑا دھڑ لوٹ رہے ہیں۔ ان عاملوں کی اکثریت خود کو ’’شاہ جی‘‘ کہلواتی ہے۔یا مختلف سلسلوں سے وابستہ ہوتی ہے. ان کی اکثریت دور دراز دیہاتوں سے آئی ہوتی ہے، ان میں سے اکثر مفرور اور دین سے کوسوں دور ہوتے ہیں۔ پاکستان کے اکثر شہروں میں ان کے ٹھکانے ہیں، جنہیں آستانوں یا گدیوں کا نام دیا جاتا ہے جو بڑی دیدہ دلیری کے ساتھ کمزور ایمان رکھنے والے مردوں اور عورتوں کو لوٹ رہے ہیں۔آپ جس بهی آستانہ یا مزار پر بھی جائیں، آپ کو کئی قسم کے مرد و خواتین دکھائیں دیں گے۔ اولاً عاملوں کے ایجنٹ جو گاہک گھیر کر لاتے ہیں۔ دوئم وہ عورتیں اور مرد جو آستانہ مزاروں پر موجود ہوتے ہوئے ایسا ماحول پیدا کیے رکھتے ہیں کہ عام شخص دھوکہ کھا جاتا ہے۔ سوئم ایسی خواتین اور مرد جو دوسروں کو جانی اور مالی نقصان پہنچانے کے لیے آئی ہوئی ہوتی ہیں۔ کہیں آپ کو بہوئیں نظر آئیں گی جو اپنی ساسوں کو مروانے یا ان کی زبانیں بند کرانے کے لیے آئی ہوئی ملتی ہیں۔بعض ساسیں اپنی بہوؤں کو تابع کرانے کے لیے آئی ہوتی ہیں۔ کچھ مرد اپنی بیویوں کے خلاف کام کرانے آئے ہوتے ہیں،کوئی اولاد و مال کیلئے آتے ہیں اور بے شمار خواتین اپنے شوہروں کو راہِ راست پر لانے کے لیے آستانوں پر حاضری دیتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں۔ دکھ ان نوجوان خواتین کی کم عقلی پر ہوتا ہے جو اپنا مقصد حاصل کرنے کے لیے نہ صرف عاملوں کو منہ بولی قیمتیں دیتی ہیں بلکہ اپنی عزتیں تک ان عامل بھیڑیوں کی ہوس کی بھینٹ چڑھا دیتی ہیں۔ کدی بهی شہر کا کوئی علاقہ نہیں جہاں ان جھوٹے ’’شاہ جیوں‘‘ کا قیام نہ ہو۔ یوں تو شہر کے کونے کونے میں ان کے آستانے پھیلے ہوتے ہیں اور ان تمام آستانوں کا تذکرہ ممکن نہیں، لیکن چند آستانوں کا ذکر کر کے قانون کو جھنجھوڑنا مقصود ہے۔ لاہور ہی مثال لے لیں ملتان روڈ، علامہ اقبال ٹاؤن، سبزہ زار ، بھاٹی گیٹ ، گڑھی شاہو  وغیرہ کے علاقے ان جعلی عاملوں اور پیروں سے بھرے پڑے ہیں اور جو کم علم، جاہل اور کمزور ایمان رکھنے والے لوگوں کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہے ہیں۔ ہم اپنا تعارف کرائے بغیر اعوان ٹاؤن کے ایک عامل سے ملے۔ وہ تقریباً چالیس سال کا ہو گا۔ ہم نے اپنا مدعا بیان کیا کہ آپ اپنے مؤکلوں سے کہہ کر فلاں شخص سے ہمارا کام کروا دیں۔ عامل نے کہا کہ آپ مجھے بکرے کا ثابت دل لا دیں، آپ کا کام ہو جائے گا۔ ہزار کوشش کے بعد بکرے کا ثابت دل حاصل نہ کر سکے، کیوں کہ قصابوں نے ثابت دل دینے سے انکار کر دیا تھا۔ ہم نے عامل کو صورتِ حال سے آگاہ کیا تو انہوں نے کہ آپ پیسے مجھے دےد یں، میں خود حاصل کر کے عمل کر دوں گا۔ اس کی ڈیمانڈ پر ہم نے دو ہزار روپے اسے دے دیئے۔ تقریباً دس روز بعد ہم نے اس عامل سے دوبارہ رابطہ کیا تو بتایا گیا کہ مؤکلوں نے کہا ہے کہ ہم نے پورا بکرا کھانا ہے۔ لہٰذا آپ جا کر سالم اور زندہ بکرا لا دیں یا پھر اس کی قیمت دے دیجیے۔ ہم جان چکے تھے کہ وہ سب بکواس کر رہا ہے۔ سبزہ زار ان جعلی پیروں اور عاملوں سے بھرا پڑا ہے اور مزے کی بات یہ ہے کہ وہ سب خود کو ’’شاہ‘‘ کہلواتے ہیں۔ جبکہ سید گھرانوں سے ان کا دور کا بھی واسطہ نہیں۔ ایک شاہ صاحب جو سرکاری ملازم ہیں، ان کا تعلق ایک قریبی گاؤں سے ہے۔ سینکڑوں دو نمبر عورتیں ان کے آستانے پر حاضری دیتی ہیں۔ ان عورتوں کے ساتھ آنے والے مرد گھر کے باہر کھڑے رہتے ہیں اور عورتیں اندر چلی جاتی ہیں۔ اندر کیا ہوتا ہے واللہ اعلم، جبکہ باہر کھڑے مرد اہل محلہ کے لیے سر درد بنے ہوتے ہیں۔ گھریلو خواتین کا باہر نکلنا دشوار بنا ہوا ہے۔ایک اور باریش شاہ صاحب ہیں۔ ایک سرکاری محکمے کے ریٹائرڈ افسر ہیں اور آج کل پیری مریدی کا دھندہ کر رہے ہیں۔ تحقیق کرنے پر پتہ چلا کہ وہ اپنے بزرگوں کا نام کیش کرا رہے ہیں۔ ان کی لڑی میں کوئی اہل اللہ تھے، ان کی قبر بھی یہیں ہے، اسی قبر کو مزار کا درجہ دیدیا گیا ہے اور یہ شاہ صاحب اس مزار سے حاصل ہونے والی آمدنی سے خوشحال زندگی گزار رہے ہیں۔ایک مفتی صاحب جنہوں نے ایک دینی مدرسہ بنا رکھا ہے اور خود پیری مریدی کا دھندہ کر رہے ہیں۔ مدرسے اور پیری مریدی کی آڑ میں بڑی ٹھاٹھ کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ انہوں نے علاقے نہیں بلکہ شہر بھر میں اپنے ایجنٹ چھوڑ رکھے ہیں، جو مدرسے کے نام پر چندہ اکٹھا کر کے مفتی صاحب کی زندگی کو شایان شان بنا رہے ہیں۔ مدرسے میں آنے والی رقم اور جانور طالب علم کو دینے کی بجائے خود ہڑپ کر جاتے ہیں۔ یہ حضرت بھی خود کو شاہ صاحب کہلواتے ہیں۔ ملتان روڈ سمن آباد موڑ کے قریب دو شاہ صاحبان اپنی اپنی دکانیں سجائے بیٹھے ہیں۔ اور ایک مزار پر دو گدیاں سنبھالے ہوئے ہیں۔ ہم ان میں سے ایک کے دربار میں حاضر ہوئے اور اپنی پریشانی بیان کی تو انہوں نے آنکھیں بند کر کے چند منٹوں کے بعد کہا کہ آپ کے کاموں کو باندھ دیا گیا ہے۔ ہم کوشش کریں گے کہ بندش ختم ہو جائے۔ چند روز بعد انہوں نے کہا کہ سرخ لائٹ نظر آ رہی ہے، جس کا مطلب ہے کہ بندش پر زور ہے۔ پھر ایک ہفتے بعد انہوں نے فرمایا کہ روشنی زرد ہوگئی ہے اور بندش ٹوٹنے والی ہے۔ پھر چند روز بعد جب ہم ان سے ملے تو انہوں نے ہمیں ٹرخاتے ہوئے فرمایا کہ زرد لائٹ برقرار ہے اور ہم خود حیران ہیں کہ ہمارے عمل نے پورا اثر نہیں کیا۔ یاد رہے کہ اس آستانے پر بھی عورتوں کا رش رہتا ہے۔ایک اور شاہ صاحب ملاحظہ فرمائے۔ کافی پڑھے لکھے ہیں اور آج کل ریٹائرڈ زندگی میں رنگ بھرنے کے لیے پیر بن بیٹھے ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ ان کے پاس بڑے بڑے سیاستدان ، بیورو کریٹس اور کھلاڑی آتے ہیں اور فیض یاب ہوتے ہیں۔ ان کا ایک انوکھا انداز ہے۔ جب کوئی ضرورت مند ان کے پاس آتا ہے تو موصوف ٹیلی فون پر ایک نمبر ڈائل کرتے ہیں، جہاں سے ایک خاتون بولتی ہے اور سائل کے سوالوں کے جواب دیتی ہے، بقول شاہ صاحب، موصوفہ خانہ کعبہ میں بیٹھی ہوئی یا حضرت علی کے مزار پر موجود ہے اور سائل کا ظاہر و باطن سب جانتی ہے۔ سائل کو مشورہ بھی دیتی ہے اور دعا بھی۔ان ’’شاہ صاحبوں ‘‘ کی اکثریت بے نماز ہے اور سب سے اہم مشترکہ بات یہ کہ عورتوں کے رسیا اور کھلاڑی ہوتے ہیں۔ دکھ تو ہمیں کمزور ایمان والی بے وقوف ان پڑھ اور جاہل عورتوں پر ہے جو آج کے سائنسی دور میں بھی ان پیروں کے چکروں میں پڑی ہوئی ہیں اور اپنی دولت اور عزتیں لٹوا رہی ہیں۔ اس کا ثبوت آئے دن اخبارات کی زینت بننے والی خبریں ہیں کہ فلاں پیر نے فلاں مریدنی کے ساتھ منہ کالا کیا اور پکڑا گیا۔ اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ پیر اور شاہ لوگ اگر اتنے ہی پاور فل ہوتے ہیں اور جنات ان کے غلام ہوتے ہیں تو ان کے یہ غلام اس وقت کہاں ہوتے ہیں جب یہ برائی کے جرم میں پکڑے جاتے ہیں اور جوتے کھاتے ہیں۔ ہماری تحقیق کے مطابق ان عاملوں اور پیروں کے پاس دینی علم تو ہوتا نہیں مگر سچ یہ ہے کہ ان کے پاس کوئی علم نہیں ہوتا محض چرب زبانی جادو ٹونہ کے بل بوتے پر اور کم علم لوگوں کو ڈرا دھمکا یا جهوٹی کہانی قصے سنا کر اپنے پیچھے لگا لیتے ہیں۔ہم سوال کرتے ہیں صدر مملکت اور علمائے کرام سے کہ وہ کس وقت کا انتظار کر رہے ہیں۔ شاید اس وقت کا جب ہر بے روزگار عامل اور پیر بن جائے گا۔ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت پاکستان، علماء اور عوامی نمائندے اس سنگین مسئلہ کی طرف سنجیدگی سے غور کریں اور خلاف اسلام حرکات کرنے والے جعلی عاملوں اور پیروں سے بھولے بھالے عوام کو نجات دلائیں، جس سے بہتوں کا بھلا ہوگا۔ اس ضمن میں ہم قانون کے محافظوں  سے بھی امید کرتے ہیں کہ وہ ہر علاقے میں پھیلی ہوئی اس گندگی اور بیماری کو ختم کرنے کے لیے اپنا رول ادا ضرورکریں ۔بشکریہ فاطمہ اسلامک سنٹر - جاری ہے.......
www.ficpk.blogspot.com

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...