Friday 8 April 2016

مسلمانوں کے مذہبی مسالک18

"مسلمانوں کے مذہبی مسالک"
(قسط نمبر18)
مسئلہ علم غیب میں درمیانی نقطہ نظر:
یہ نقطہ نظر بعض ماورائے مسلک مسلم علماء جو تینوں میں سے کسی مسلک سے تعلق نہیں رکھتے، نے پیش کیا ہے۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ مسئلہ علم غیب میں بریلوی ، دیوبندی اور اہل حدیث حضرات کا نقطہ نظر اصولی طور پر کم و بیش یکساں ہے۔ یہ سب مانتے ہیں کہ عالم الغیب صرف اللہ تعالی ہے اور وہ اپنے علوم میں سے کچھ اپنے پیغمبروں کو عطا کر دیتا ہے۔ اختلاف رائے بعض خاص امور کے بارے میں ہے کہ ان میں اللہ تعالی نے اپنے نبی ﷺ کو علم دیا یا نہیں۔
سنی بریلوی حضرات نبی کریم ﷺ اور اولیاء اللہ کے لیے تمام علوم غیبیہ کے علم کا دعویٰ نہیں کرتے بلکہ ان کا کہنا یہ ہے کہ یہ بعض علوم تھے اور انہیں اللہ تعالی کے علوم سے کوئی نسبت نہیں ہے۔ مولانا احمد رضا خان بریلوی لکھتے ہیں:
ہمارا یہ دعویٰ ہرگز نہیں ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا علم شریف اللہ تعالی کے تمام علوم کا احاطہ کر لیتا ہے۔ یہ تو مخلوق کے لیے محال ہے۔۔۔ ہم عطاء الہی سے بعض علم ہی ملنا مانتے ہیں نہ کہ جمیع علوم (الدولتہ المکیتہ)
کسی علم کی اللہ عزوجل سے تخصیص اور اس کی ذات پاک میں حصر اور اس کے غیر سے مطلقا نفی چند وجہ پر ہے:
اول: علم کا ذاتی ہونا کہ بذات خود بے عطاء غیر ہو۔
دوم: علم کا غنا کہ کسی آلہ جارحہ و تدبیر فکر و نظر و التفات و انفعال کا اصلا محتاج نہ ہو۔
سوم: علم کا سرمد ہونا کہ ازلا ابدا ہو۔
چہارم: علم کا وجوب کہ کسی طرح اس کا سلب ممکن نہ ہو۔
پنجم: علم کا اثبات و استمرار [ہمیشہ ایک سا رہنا] کہ کبھی کسی وجہ سے اس میں تغیر، تبدل فرق اور تفاوت کا امکان نہ ہو۔
ششم: علم کا اقصی غیت کمال[ سب سے بلند درجہ کمال] پر ہونا کہ معلوم کی ذات ، ذاتیات، اعراض، احوال لازمہ، مفارقہ، ذاتیہ، اضافیہ، آتیہ [مستقبل]کا، موجودہ ، ممکنہ سے کوئی ذرہ کسی وجہ سے مخفی نہ ہو سکے۔
ان چھ وجہ سے مطلق علم حضرت احدیت جل و علا سے خاص اور اس کے غیر سے مطلقاً منفی، یعنی کسی کو کسی ذرہ کا ایسا علم ہو جو ان چھ وجوہ سے ایک وجہ بھی رکھتا ہو، حاصل ہونا ممکن نہیں ہے جو کسی غیر الہی کے لیے عقول مفارقہ ہوں خواہ نفوس ناطقہ ایک ذرے کا ایسا علم ثابت کرے، یقینا اجماعا کافر مشرک ہے۔ (الصمصام)
میں نے اپنی کتابوں میں تصریح کر دی ہے کہ اگر تمام اولین و آخرین کا علم جمع کیا جائے تو اس علم کو علم الہی سے وہ نسبت ہرگز نہیں ہو سکتی جو ایک قطرہ کے کروڑوں حصہ کو سمندر سے ہے، کیونکہ یہ نسبت متناہی جس کی گنتی ہو سکے کی متناہی کے ساتھ ہے اور وہ غیر متناہی کے متناہی سے ہے۔ (ملفوظات اعلی حضرت)
اسی طرح اہل حدیث اور بعض دیوبندی حضرات رسول اللہ ﷺ کے لیے علم غیب کی مطلقاً نفی نہیں کرتے بلکہ ان کا کہنا یہ ہے کہ آپ کو جو علوم دیے گئے، بس آپ انہی کو جانتے ہیں۔ اس طریقے سے دیکھا جائے تو عملاً دونوں فریق ایک ہی بات کہہ رہے ہیں۔ ان کے مابین اختلاف اس پر ہے آپ کو کس کس بات کا علم تھا اور کس بات کا علم نہیں تھا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہزاروں پیش گوئیاں کی جو بعد میں پوری ہوئی اور پوری ہو رہی ہیں-لیکن ساتھ ہی آپ کو اپنی حیات مبارکہ میں مستقبل میں کئی نقصانات سے دوچار بهی ہونا پڑا یہاں ایک سوال یہ بهی پیدا ہوتا ہے کہ علم غیب ہونے کے باوجود خود کو اور اپنے رفقاء کو کئی حادثات و نقصان سے آخر کیوں نہ محفوظ رکھ سکے....؟؟؟
بہرحال-؛ اللہ تعالیٰ جس قدر چاہے انبیاءکرام علیہم الصلوة والسلام اور اولیاءکرام کو مطلع یا منکشف فرما دیتا ہے ۔اللہ تعالیٰ ان کھرب ہا کھرب خبروں میں سے اگر ایک کروڑ خبروں پر بھی انبیاءکرام علیہم الصلوةوالسلام یا اولیاءکرام کو مطلع یا منکشف فرما دیتا ہے۔۔۔ تب بھی یہ محض چند خبریں ہی کہلائیں گی۔
اور علم غیب کے حوالے سے یہ حقیقت واضح رہنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبروں کو وحی کے ذریعے سے غیب کی بعض باتوں سے آگاہ کرتے ہیں۔ پیغمبر کا علم اس وحی تک محدود ہوتا ہے۔ علم غیب کو جاننے کی استعداد پیغمبر کو عطا نہیں کی جاتی کہ وہ جس غیب کو چاہے، جان لے۔
ماورائے مسلک حضرات کا یہ بهی کہنا ہے کہ رسولوں کو علوم غیبیہ عطا کرنا قرآن مجید سے ثابت ہے۔ اس بات کا تعین کرنے کی بجائے کہ رسول اللہ ﷺ کو کس بات کا علم تھا اور کس بات کا علم نہیں تھا، ہمیں یہ کرنا چاہیے اس معاملے میں خاموش رہیں اور اس میں بحث نہ کریں۔ اس بات پر ہمیں اجمالی طور پر ایمان رکھنا چاہیے کہ آپ کو اللہ تعالی نے جو بتا دیا، اس کا علم ہے اور جو کچھ نہیں بتایا، اس کا علم قعطی نہیں ہے۔ آپ کے علوم کا تعین وہی کر سکتا ہے جو آپ سے بلند مقام پر ہو اور وہ سوائے اللہ تعالی کے اور کوئی نہیں ہے۔ ہمارے لیے آپ کے علوم پر بحث کرنا ایک لاحاصل کام ہے جس کا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہو سکتا ہے۔ یہ معاملہ صرف اللہ تعالی کے پیغمبروں کا ہے، رہے بزرگان دین اور اولیاء اللہ کو علوم غیبیہ کا حاصل ہونا، ان کے بارے میں قرآن و سنت میں کوئی دلیل موجود نہیں ہے۔
جاری ہے....
مجموعہ هذا میں شامل ہونے کیلئے رابطہ نمبر
0096176390670

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...