Monday 4 April 2016

اسلام اور خانقاہی نظام,111

"اسلام اور خانقاہی نظام"
(گزشتہ سے منسلک قسط نمبر111)
-انسان کی جانوروں کی عبادت-
 پیروں‌ کے قصے ویسے تو بے شمار ہیں‌۔پر میں نے سوچا اس بار آپکو کچھ الگ معلومات دوں! اور اندازہ کریں کہ انسان کس طرح سر کشی کرتے ہوئے اللہ سبحانہ وتعالی کی با برکت ذات کو چھوڑ کر جانوروں کی پوجا کر رہا ہے..اس میں حیران ہونے کی بات نہیں ہے کیونکہ ہمارا کافی عرصہ ہندووں کے ساتھ گزرا ہے.شاید ہی دنیا میں کوئی ایسی خدا کی مخلوق ہو جس کی ہندو پوجا نہیں کرتے، بندر، گائے، سانپ ،ہاتھی، شیر، سورج، چاند، آگ،انسان وغیرہ وغیرہ۔اب ان میں چوہوں کا بهی اضافہ کر لی جیئے بھارتی ریاست راجستھان میں ”کرنی ماتا“ (معروف ہندو دیوی)کا ایک مندر ہے ہے جہاں 20ہزار سے زائد موٹے تازے چوہے رہتے ہیں اور لوگ انہیں ختم کرنے کی بجائے انہیں کھلاتے پلاتے ہیں اور ان کی پوجا کرتے ہیں۔ان چوہوں کے متعلق پجاریوں اور یہاں کے مقامی افراد نے عجیب و غریب قسم کی کہانیاں گھڑی ہوئی ہیں۔لوگ ان چوہوں کو دیکھنا اور ان کی دیکھ بھال کرنا اپنے لیے باعثِ ”خیروبرکت“ سمجھتے ہیں۔جو شخص مندر میں پوجا کے لیے آتا ہے چوہوں کے لیے دودھ، مٹھائی یا دیگر کھانے پینے کی اشیاء لے کر آتا ہے۔دوسری طرف مسلمان بهی مختلف قسم کے جانوروں ،درختوں ، انسانوں کی پوجا میں ہندووں  کے شانہ بشانہ کهڑے ہیں. لسبیلہ سے کراچی کی طرف سفر اختیار کریں تو راستے میں منگا پیر کا دربار آئے گا- جہاں پر مگرمچھوں کی پوجا کی جاتی ہے.اور ان مگر مچهوں کے بارے میں بهی عجیب و غریب قسم کی کہانیاں گھڑی ہوئی ہیں. میلے کے موقع پر لوگ یہاں بکروں کی قربانی کرتے ہیں اور پھر اس کا گوشت مگر مچھوں کے سردار مگر مچھ کے منہ میں ڈالتے ہیں-پھر اسے پھولوں کے ہار پہناتے ہیں اور جب ان میں سے کوئی مگر مچھ مرجاتا ہے تو اسے باقاعدہ غسل دیا جاتا ہے -خوشبوئیں لگائی جاتی ہیں اور غسل دے کر منگھو پیر کی قبرکی چادر کا کفن پہنایا جاتا ہے ‘ اور پھر تالاب کے خشک حصے میں اس کی تدفین کردی جاتی ہے -اب تو پاکستان میں باقاعدہ گھوڑوں کو دفن کرنے کا سلسلہ بهی شروع ہو چکا ہے. چکوال میں گھوڑے کو دفن کیا گیا اور کفن پر قرآنی آیات لکھیں گئیں ، آنے والے وقت میں حسب روایت ممکن ہے گھوڑے شاہ سرکار کا مزار بن جائے ، پوجا پاٹ شروع ھو جائے کبھی آپ نے کسی گھوڑے کو دیکھا ہے جو کسی گھوڑے کے مزار پر گیا ہو اور سر ہلا کر کہا ہو:یا گھوڑا المدد بلکہ ایک زندہ گھوڑا دوسرے زندہ گھوڑے کے آگے نہیں جھکتا! لیکن ایک انسان اپنے جیسے انسان کے آگے تو جھکتا ہی ہے اب گھوڑے پر مزار بنا کر بھی ہندووں کی طرح گائے کی جگہ گھوڑے کی پوجا کرنے لگ گئے ہیں۔
ہندو مت میں اعضاء تناسل بھی قابل پرستش سمجھے جاتے ہیں. شوجی مہاراج کی پوچا اس کے مردانہ عضو تناصل کی کی جاتی ہے اور شکتی دیوی کی پوجا اس کے زنانہ عضو تناسل کی کی جاتی ہے-اور بعض جانوروں کے پیشاب کو باعث متبرک سمجھا جاتا ہے....
اور عقل کے اندھے مسلمانوں نے کہا ہم ہندووں سے پیچهے کیوں رہیں.کمالیہ میں بابا جمعن والی سرکار کا دربار ہے۔ اگر کسی عورت کو اولاد نہ ہو تو اس دربار پر لکڑی کے بنے مرد کے عضو تناسل(penis) رکهے ہوئے ہیں تو عورتیں حصول اولاد کیلے انکو اپنے جسم پر پهیرتی ہیں.البتہ یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ یہ عضو خاص صرف جسم پر ہی پهیرتی ہیں یا کہیں اور بهی......-انا للہ وانا الیہ راجعون.-
ہندوں مذہب میں ایک اور شرم ناک پوجا کا طریقہ کہ ان کے بزرگوں کو سادھو‘سنیاسی‘یوگی‘تیاگی‘ گرو اور باوا کہا جاتا ہے-اسی طرح ان سادھوں میں بعض ایسے سادھو ہوتے ہیں جو بالکل مادر زاد ننگے پھرتے ہیں-ان مادر زاد ننگے سادھوں کو”ڈگمبر“ بهی کہا جاتا ہے -ان سادھوں کا ایک میلہ ہر بارہ سال بعد انڈیا میں الہ آباد کے قریب”پریاگ “ کے مقام پرشمالی ہندوستان میں منعقد ہوتا ہے.
دوسری طرف مسلمان بهی بے حیائی اور بے غیرتی کی حدوں کو پهلانگتے ہوئے ہندووں کی اس گنہونی حرکت میں ہندووں کے ساتھ قدم با قدم کهڑے ہوتے ہوئے ننگ دهڑنگ مجذوب بزرگوں کی پوجا شروع کر دی جس کی مثالیں تو بے شمار ہیں لیکن ہم اختصار کے ساتھ ایک ہی کا ذکر کرتے ہیں....
کشمیر سو پور کا پیر نانگے شاہ جو مکمل ننگا رہتا ھے اور اسکے آس پاس مسلم عورتوں اور مردوں کا مرادیں پوری کروانے کیلئے ایک غفیر مجمع  لگا رہتا ہے. اب یہ تمام عورتیں صرف مرادوں کی تکمیل کیلئے آتی ہیں یا شاہ جی کے عضو خاص(penis) کی زیارت کیلئے.......(واللہ اعلم)۔
اسلام کو اتنا بدنام کسی غیر مسلم نے نہیں کیا جتنا آج کے خانقاہی مسلم نے کیا ہے....
پچھلے دنوں ایک اور خبر پڑهنے کو ملی جو کہ راقم کے شہر کی ہے خبر کچھ اس طرح تهی کہ ضلع گجرات کی معروف روحانی شخصیت پیر سید حسین شاہ المعروف نانگے شاہ کا 36 واں سالانہ عرس مبارک آج بعد نماز عشاء دربار غوثیہ محلہ چاہ بیری والا گجرات میں انتہائی عقیدت و احترام کے ساتھ منایا جا رہا ہے۔ جس کا اہتمام اراکین مجلس امور مذہبیہ ڈسٹرکٹ مینجر اوقاف کر رہے ہیں۔ (گجرات جیو اردو 7/12/2015)
اہل ہنود دریائے گنگا کے بارے میں عقیدہ رکھتے ہیں کہ اس میں نہانے سے سارے گناہ دھل جاتے ہیں اور اس پانی کو باعث متبرک سمجھتے ہیں۔اور مسلمان بهی پیرمنگا کراچی اورلال شہباز قلندر سہون شریف وغیرہ کے مزار پر پانی کے بنے تالاب میں بیماریوں سے نجات کیلئے نہاتے ہیں اور پانی کو بطور شفاء استعمال کرتے ہیں اور عقیدہ رکھتے ہیں کہ اس تالاب(کنواں) کا پانی باعث برکت ہے اور گناہوں کی بخشش کیلئے بابا فرید گنج شکر پاکپتن کے دربار پر بنے مصنوعی بہشتی دروازے سے گزرتے ہیں.... تاہم اس مضمون میں ہمارا بنیادی موضوع جانوروں کی پوجا ہے. 
اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے:لوگو! ایک مثال بیان کی جا رہی ہے، ذرا کان لگا کر سن لو! اللہ کے سوا جن جن کو تم پکارتے رہے ہو وہ ایک مکھی بھی پیدا نہیں کر سکتے گو سارے کے سارے ہی جمع ہو جائیں، بلکہ اگر مکھی ان سے کوئی چیز لے بھاگے تو یہ تو اسے بھی اس سے چھین نہیں سکتے، بڑا بزدل ہے طلب کرنے والا اور بڑا بزدل ہے وہ جس سے طلب کیا جا رہا ہے انہوں نے اللہ کے مرتبہ کے مطابق اس کی قدر جانی ہی نہیں۔ اللہ تعالیٰ بڑا ہی زور و قوت والا اور غالب و زبردست ہے۔(الحج: 73-74) 
حضرت انسان کی گدھوں کی بهی پوجا:ہدایت کار سید کمال نے ستر کی دہائی میں ''انسان اور گدھا'' کے نام سے ایک فلم بنائی تھی جس میں رنگیلا نے ہیرو کا کردار ادا کیا۔ یہ فلم اُس دور میں کافی مشہور ہوئی، کیونکہ اِس میں انسان اور گدھے کی کچھ ملتی جلتی عادات کی بنیاد پر مزاح پیدا کیا گیا تھا۔ اگر ہم اپنے ارد گرد کے ماحول کا موازنہ کریں تو ہمیں بھی انسان اور گدھے کی بہت سی عادتیں مشترک نظر آتی ہیں بلکہ دونوں میں فرق صرف اتنا رہ گیا ہے کہ اگر انسان غلطی کرے تو گدھا کہلاتا ہے جبکہ یہی غلطی گدھا کرے تو لاٹھی کھاتا ہے لیکن انسان کہلانا پسند نہیں کرتا۔ آج انسان اور گدھے میں کچھ ہی دوری رہ گئی ہے ورنہ خر مغز اور خر دماغ بے حیائی جیسی اصطلاحات ہرگز ایجاد نہ ہوتیں بلکہ بات اس حد تک آگے نکل چکی ہے کہ لوگ گدھے کو معبود تک بنانے میں بھی عار محسوس نہیں کرتے۔کیونکہ گدها بهی گالیاں کهانے کو برا محسوس نہیں کرتا  اور آج کا انسان اپنے روحانی پیشواؤں سے  بهی گالیاں کهانے کو برا محسوس نہیں کرتا بلکہ اس غیر مہذب رویے کو فیض اور خیرو برکت سمجھتا ہے.گدها بهی اپنے ستر(شرم گاہ) کو کهولنے کا لحاظ نہیں رکھتا اور حضرت انسان بهی اپنے ستر(شرم گاہ) کو کهول کر ولایت کے دعوے کرتا ہے اور جاهل عوام اسکو اس بے شرمی کی سزا دینے کی بجائے ولی اللہ کا لقب عطا  کر دیتی ہے....گدھا اپنے ہم جنس کو دیکھ کر هینگنا(شور) شروع کر دیتا ہے...اور انسان بهی اپنے پیروں/بزرگوں کے سامنے دهمال، قوالی اور نعرہ بازی شروع کر دیتا ہے..گدھا صرف بوجھ ہی نہیں اُٹھاتا بلکہ سیاست میں بھی اس کا کافی عمل دخل ہے۔ اس میں شک نہیں کہ گدھے بھی سیاسی ہوتے ہیں۔ آپ نے یہ کہانی تو سُنی ہوگی کہ پرانے زمانے میں ایک آدمی کے پاس گدھا ہوا کرتا تھا اور وہ روزانہ اِس پر بے انتہا نمک لاد کر دریا پار کرتا۔ ایک دن گدھے کو سیاست سُوجھی اور اُس نے دریا میں اُترتے ہی اپنا بوجھ ہلکا کرنے کیلئے پانی میں ڈبکی لگا دی جس سے سارا نمک بہہ گیا۔ اس سے یہ ثابت ہوا کہ گدھا زمانہ قدیم سے ہی سیاست کی باریکیوں سے واقف تھا۔لیکن انسان کا سیاسی ہونے میں بهی شک نہیں -کوئی پیری مریدی کے نام پر تو کوئی ملک و قوم کے نام پر لوگوں کو لوٹ رہا ہے. لیکن ہر گدھا اس قدر خوش قسمت نہیں ہوتا کہ وہ مرنے کے بعد بھی یاد کیا جائے لیکن کچھ گدھے ایسے بھی گزرے ہیں.جسے نہ صرف انسانوں کی طرح دفنایا گیا بلکہ اُن کے نام سے گاؤں اور پوجا گاہیں  بھی موجود ہیں۔ آپ راولپنڈی سے مانسہرہ جائیں تو راستے میں حویلیاں کے قریب ایک جگہ ''کھوتا قبر'' کے نام سے مشہور ہے اور حقیقت میں وہ ایک کھوتے (گدھے) کی ہی قبر ہے۔ چند سال قبل اس گائوں کا نام تبدیل کرکے مسلم آباد رکھ دیا گیا ہے لیکن علاقہ کے مکین اب بھی اِس جگہ کو پُرانے نام سے ہی جانتے ہیں۔ اس کھوتا قبر کے بارے میں بہت سی روایتیں بھی زبان زدِعام ہیں۔گدھے اور گهوڑوں کی پوجا کے قصے ویسے تو بے شمار ہیں لیکن سند کی عدم موجودگی سے ہم قلم بند کرنے سے قاصر ہیں- البتہ ایک گدھے سے فیض حاصل کرنے والی بات شاید آپ کیلئے انہونی ہو-البتہ مصر کی تاریخ سے ایک مردہ گدھے کی پوجا کا واقع ملتا ہے.....
جاری ہے....
www.islam-aur-khanqahi-nizam.blogspot.com

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...