Monday 4 April 2016

اسلام اور خانقاہی نظام، 128

'اسلام اور خانقاہی نظام'
(گزشتہ سے منسلک قسط نمبر128)

شاہ حسینؒ سے مادھو لال حسینؒ تک

ہمارے ہاں صوفیا اور اولیا سے جڑے تمام معاملات کو عقیدت مندی کی عینک چڑھا کر دیکھنے کا ایک رویہ صدیوں سے چلا آ رہا ہے۔ مرید اور زائرین کی اکثریت مزاروں پر اپنی عقیدت کے اظہار کیلئے حاضری دیتی ہے اور اس عمل میں اکثر اوقات ایسے انداز اپناتی ہے کہ جس کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں بنتی، یہی وجہ ہے کہ مزارات پر حاضری کو علما کا ایک طبقہ پسندیدہ نگاہ سے نہیں دیکهتا۔ہمیں ان لوگوں کو جن میں گدی نشینوں اور متولیوں کی اکثریت ہے، پر گرفت کرنا چاہئیے جن کی دکانداری اس سارے ڈرامے سے چلتی ہے۔مگر افسوس اس بات پر ہے کہ ہمارے ہاں اس موضوع پر کبھی بھی سنجیدگی سے تحقیقی کام نہیں ہوا اور ہم نے وقت کے ساتھ متولیوں کی پھیلائی ہوئی ان باتوں کو ویسے ہی قبول کر لیا اور بغیر کسی حوالے کے اپنے مضامین اور کالموں میں بار بار دہرا کر معاشرے میں لوگوں کو اس پر غیر مشروط قبولیت کے لیے تیار کر لیا ہے۔ سب سے زیادہ ظلم تو نور احمد چشتی نے ”تحقیقاتِ چشتی“ میں کیا کہ بغیر کسی جانچ پرکھ کے متولیوں کی پھیلائی ہوئی ان تمام باتوں کو قلم بند کر دیا اور اسے 1867ءمیں کتابی صورت میں شائع کر دیا۔کتاب کے لکھے کو ہمارے ہاں ایسے بھی چیلنج کرنے کا رواج نہیں ہے اور ایسی صورت میں کہ جب دی گئی معلومات کے بنیادی حوالہ جات تک کسی اور کی رسائی بھی نہ ہو، عام قاری اور صحافی بغیر زحمت اٹھائے اسے دہرانے میں لگا ہو اور ہر سال ان صوفیا کے اعراس پر ان کہانیوں کو بغیر کسی کمی و بیشی کے اخبارات و جرائد میں شائع کیا جاتا رہا ہو تو پھر کسی میں ایسی جرات بھی نہیں پیدا ہوتی کہ وہ اسے چیلنج کر سکے۔حضرت علی ہجویریؒ کے مزار پر کھڑے ہو کر خواجہ معین الدین چشتی ؒنے یہ شعر پڑھا، ”گنج بخش فیضِ عالم مظہر نورِ خدا۔۔ناقصاں را پیر کامل، کاملاں را رہنما“ اور پھر وہ اجمیر شریف چلے گئے۔اگر یہ شعر واقعی خواجہ معین الدین چشتی ؒ کا ہوتا اور انہوں نے حضرت علی ہجویری ؒ کو ”گنج بخش“ کہا تھا تو 1639ءمیں جب دارا شکوہ نے سفینہ الاولیا لکھی تو اس میں ان کا نام پیر علی ہجویر یؒ کے بجائے داتا گنج بخش علی ہجویریؒ لکھا ہوتا مگر ایسا نہیں ہے۔اس کا مطلب تو صاف ظاہر ہے کہ کم از کم 1639ءتک لوگ حضرت علی ہجویریؒ کو حضرت داتا گنج بخش کے نام سے نہیں جانتے تھے۔یہ بات تو حضرت نظام الدین اولیا ؒنے لکھی ہے کہ جس کا کوئی پیر نہیں، کشف المحجوب اس کی بہترین رہنما ہے۔غور کریں تو معلوم ہو گا کہ شعر کے دوسرے مصرع میں بھی یہی بات کہی گئی ہے۔اب اس شعر کو حضرت معین الدین چشتی ؒسے جوڑنے کا کوئی جواز نہیں بنتا۔لسانیات کے ماہرین بھی اس بات پر متفق ہیں کہ اس شعر کی فارسی زبان عہدِ مغلیہ کے آخری عہد میں مروج تھی۔شعر کی مقبولیت اور لوگوں میں اس کی قبولیت اپنی جگہ، مگر اس بات پر تحقیق کرنے میں کوئی حرج نہیں کہ یہ شعر کب متعارف ہوا اور حضرت علی ہجویری ؒکو کب حضرت داتا گنج بخشؒ کہا جانے لگا۔یہ بات ایسی ہی ہے کہ ایک عرصہ تک ”اسرارالاولیا“ کو حضرت علی ہجویری ؒکی تصنیف سمجھا جاتا رہا مگر بعد کے محققین نے زبان اور مواد کی بنیاد پر اسے حضرت علی ہجویری ؒکی تصنیف ماننے سے انکار کر دیا۔1599ءکے آگے پیچھے واصل بحق ہونے والے-اسی طرح حضرت شاہ حسینؒ کے ساتھ بهی مادهو لال جوڑ دیا گیا۔ کوئی شخص اس کو مادھو سے الگ کر کے دیکھنے کے لیے تیار ہی نہیں ہے۔عوام الناس میں اس کا مقبول نام مادھو لال حسینؒ ہے۔نئی نسل یہ سمجھتی ہے کہ یہ ایک ہی شخص کا نام ہے۔لوگ مزے لے لے کر شاہ حسینؒ اور ہندو لڑکے مادھو کے عشق کے قصے بیان کرتے ہیں۔نام نہاد قسم کے صوفی دانشور کہ جنہوں نے اپنے حلیے صوفیا جیسے بنا رکھے ہیں اور میڈیا میں اپنی حاضری کا کوئی لمحہ ضائع نہیں ہونے دیتے، وہ اس کی تفہیم مجازی عشق سے کرتے ہیں۔دانشوروں اور مورخین کا ایک طبقہ اسے عہد اکبری (1555-1605)کا ہندو مسلم رواداری کا شاخسانہ بتاتا ہے۔ایک اور گروپ نے تھیٹر میں شاہ حسین کو سٹیبلشمنٹ کے خلاف ایک توانا آواز قرار دیاہے اور دنیا بھر میں اس ڈرامے کو اسٹیج کر کے خوب کمائی کی ہے۔کسی نے کبھی اس بات پر غور کرنے کی زحمت گوارا نہیں کی کہ اکبر (98-1585) چودہ سال لاہور میں بھی رہا ہے اور یہ وہ زمانہ ہے کہ جب شاہ حسین لاہور میں اپنی زندگی کے آخری برس گزار رہا تھا۔جہانگیر کا عہد حکومت (1605-1627) ہے۔کہا یہ جاتا ہے کہ جہانگیر نے منشی بہارخان کو شاہ حسینؒ کی سرگرمیوں کے بارے میں ایک روزنامچہ لکھنے پر مامور کر رکھا تھا جو بعد میں ”رسالہ بہاریہ “کے نام سے انگریزی عہد تک محفوظ رہا اور جس کا حوالہ” تحقیقات چشتی“ میں بھی موجود ہے۔شاہ حسینؒ کا وصال 1599-1600 ءمیں ہو گیا تھا۔اس کا مطلب ہے کہ آپ عہدِ اکبری میں واصل بحق ہوئے اور عہدِ جہانگیری آپ کے وصال کے پانچ سال بعد شروع ہوا۔یہ روزنامچہ تحقیقات چشتی کے مصنف نے انگریزی حکومت کی معاونت سے دیکھا اور اس سے مدد لے کر شاہ حسینؒ کے بارے میں لکھا۔تحقیقاتِ چشتی 1867 میں شائع ہوئی جب کہ حقیقت الفقرا کا زمانہ تالیف70-1600ء بنتا ہے۔اس سے قبل دارا شکوہ کی تصنیف شطحیات لکھی جا چکی تھی جس کا ذکر نور احمد چشتی نے بھی کیا ہے۔شطحیات میں دارا شکوہ نے مادھو لال حسین ؒکے بجائے حضرت حسینؒ نام لکھا ہے۔ گویا اس وقت تک مادھو آپ کے نام کا حصہ نہیں بنا۔کنہیا لال ہندی نے اپنی کتاب ”تاریخ لاہور“ مطبوعہ 1884ءمیں بھی آپ کو مادھو لال حسینؒ کے بجائے شاہ حسینؒ لکھا ہے۔شاہ حسینؒ کے مرنے کے ساٹھ ستّر سال بعد جب شیخ پیر محمد نے شاہ حسین کی حیات کے بارے میں حقیقت الفقرا نامی مثنوی بزبانِ فارسی تحریر کی تو گمان غالب ہے کہ فرید الدین عطار کی” منطق الطیر“ سے متاثر ہو کے وحدت الوجودی فلسفے کو بیان کرتے ہوئے شیخ پیرمحمد نے من و تو کی دوری ختم کرنے اور عشقِ مجازی کا سہارا لے کر مادھو اور شاہ حسینؒ کی محبت کا قصہ گھڑا ہو، اس لے کہ آخر میں یہ کہا جاتا ہے کہ مادھو کی شکل مرنے سے پہلے بالکل شاہ حسین ؒجیسی ہو گئی تھی۔ڈاکٹر موہن سنگھ دیوانہ نے بھی مادھو کا قصہ مسترد کرتے ہوئے لکھا ہے، ”مادھو برہمن کا قصہ بھی محض گپ شپ ہے اور حسین کے تصوف کو بدنام کرتا ہے، حسین کی کافیوں میں مادھو کا کہیں ذکر نہیں ہے“۔ یہ بات بہت وزن رکھتی ہے کہ اگر شاہ حسینؒ مادھو کے عشق میں اتنے دیوانے تھے تو اپنی شاعری میں کہیں تو اس کے حوالے سے کچھ بیان کیا ہوتا۔کوئی شاعر اپنے حقیقی یا مجازی محبوب کو شاعری کرتے ہوئے کیسے نظر انداز کر سکتا ہے۔ ہمارے پاس اگر کچھ مستند مواد شاہ حسینؒ کے حوالے سے ہے تو وہ اس سے منسوب وہ کافیاں ہیں جن میں مادھو کا کوئی ذکر نہیں اور نہ ہی حقیقت الفقرا اور تحقیقات چشتی سے پہلے مادھو کا کوئی قصہ بیان کیا گیا اور نہ ہی ہے
بہرحال -! کہا یہ ہی جاتا ہے شاہ حسین کو ایک برہمن ہندو لڑکے مادھو لال سے عشق ہو گیا اسی عشق کی وجہ سے لوگ شاہ حسین کو شاہ حسین کی بجائے مادھو لال حسین کہنے لگے۔ مادھو نےبھی سر تسلیم خم کیا اور باقی تمام عمر شاہ حسین کی مریدی میں گزار دی۔
۔ شاہ حسین کو پہلے مادھو لال نے اپنے علاقے شاہدرے میں دفنایا مگر (شاہ حسین کی پیشین گوئی کے مطابق) بارہ برس بعد سن سولہ سو تیرہ میں جب دریائے راوی نے اپنا رخ بدلا تو مادھو لال نے شاہ حسین کو شاہدرے سے نکال کر باغبانپورہ میں دفن کیا اور اپنی باقی ماندہ زندگی مزار کی مجاوری میں گزار دی۔ اور جب مادھو سن سولہ سو چھتیس میں فوت ہوا تو اس کی قبر بھی شاہ حسین کے برابر میں بنائی گئی۔(واللہ اعلم)
شروع سے لے کر سن انیس سو پچاس تک میلہ چراغاں یا مادھو لال حسین(شاہ حسین) کا عرس شالا مار باغ میں ہوا کرتا تھا مگر بعد میں شالا مار باغ کی تخریب کو مد نظر رکھتے ہوئے میلے کو جی ٹی روڈ اور باغبانپورہ تک محدود کر دیا گیا۔
جاری ہے.......

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...