Tuesday 12 April 2016

اسلام اور خانقاہی نظام، 139

"اسلام اور خانقاہی نظام"
(گزشتہ سے منسلک قسط نمبر 139)
برصغیر کے ایک بڑے صوفی عالم لکھتے ہیں:
بیعت ارادت یہ ہے کہ مرید اپنے ارادہ و اختیار ختم کر کے خود کو شیخ و مرشد ہادی برحق کے بالکل سپرد کر دے، اسے مطلقا اپنا حاکم و متصرف جانے، اس کے چلانے پر راہ سلوک چلے، کوئی قدم بغیر اس کی مرضی کے نہ رکھے۔ اس کے لئے مرشد کے بعض احکام، یا اپنی ذات میں خود اس کے کچھ کام، اگر اس کے نزدیک صحیح نہ بھی معلوم ہوں تو انہیں افعال خضر علیہ الصلوۃ والسلام کی مثل سمجھے، اپنی عقل کا قصور جانے، اس کی کسی بات پر دل میں اعتراض نہ لائے، اپنی ہر مشکل اس پر پیش کرے۔۔۔۔۔
خلاصہ یہ ہے کہ اس کے ہاتھ میں مردہ بدست زندہ ہو کر رہے۔ اس کی رضا کو اللہ عزوجل کی رضا اور اس کی ناخوشی کو اللہ عزوجل کی ناخوشی جانے۔ اسے اپنے حق میں تمام اولیائے زمانہ سے بہتر سمجھے، اگر کوئی نعمت دوسرے سے ملے تو بھی اسے (اپنے) مرشد ہی کی عطا اور انہیں کی نظر کی توجہ کا صدقہ جانے۔ مال، اولاد، جان سب ان پر تصدق (وار دینے) کرنے کو تیار رہے۔
ان کی جو بات اپنی نظر میں خلاف شرعی بلکہ معاذ اللہ (گناہ) کبیرہ معلوم ہو، اس پر بھی نہ اعتراض کرے، نہ دل میں بدگمانی کو جگہ دے بلکہ یقین جانے کہ میری سمجھ کی غلطی ہے۔۔۔۔۔۔جو وہ حکم دیں "کیوں" نہ کہے، دیر نہ کرے، سب کاموں میں اسے تقدیم (اولیت) دے۔۔۔۔۔
ان تعلیمات کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ مرید، اپنے پیر کے ہاتھ میں کھلونا بن کر رہ جاتا ہے۔ مرید کی مکمل برین واشنگ کر کے اسے پیر و مرشد کا ذہنی و نفسیاتی غلام بنا دیا جاتا ہے۔ اس مقصد کے لئے جو طریق ہائے کار استعمال کیے جاتے ہیں، ان کی تفصیل ہم  آئندہ اقساط میں پیش کریں گے-یا پهر آپ "مسلم دنیا اور ذہنی،فکری اور نفسیاتی غلامی" کتاب کا مطالعہ کریں!
موجودہ اہل تصوف کے ہاں مرشد کی ذہنی غلامی کی یہ روایت دین اسلام کے بالکل خلاف ہے۔ آج کے دور کا بڑے سے بڑا ولی بھی سیدنا ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما سے بڑا مقام حاصل نہیں کر سکتا۔ ان کے ہاں یہ عام معاملہ تھا کہ اگر کسی شخص کو ان سے کسی بات پر اختلاف ہوتا تو بھرے مجمع میں ان سے اس اختلاف کا اظہار کر کے ان سے جواب طلبی کر سکتا تھا۔  اس کے برعکس صوفیاء کے ہاں اختلاف رائے تو درکنار ، اس بارے میں سوچنا بھی جرم ہے۔
موجودہ اہل تصوف اور اسلام کے درمیان چوتھا بڑا فرق "قبر پرستی" ہے۔ صوفیاء کی اکثریت بزرگان دین کے مزارات پر چلہ کشی کرتی ہے اور قبروں سے روحانی فیض حاصل کرنے کا دعوی کرتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے صحابہ کا مزاج اس سے بالکل مختلف تھا۔  اگر قبروں سے روحانی فیوض و برکات حاصل کیے جا سکیں تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر انور سے بڑھ کر روئے زمین پر کون سی قبر ہو گی۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے مرض وفات میں ارشاد فرمایا: "اللہ نے ان یہودیوں اور عیسائیوں پر لعنت فرمائی جنہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو نماز کی جگہ بنا لیا۔ " آپ فرماتی ہیں: "اگر یہ خوف نہ ہوتا کہ حضور کی قبر کو بھی لوگ نماز کی جگہ بنا لیں گے تو آپ کی قبر مبارک کھلی جگہ پر ہوتی۔ (بخاری، کتاب الجنائز)
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قبروں کو پختہ بنانے، ان پر لکھنے، ان پر عمارت تعمیر کرنے اور ان پر پاؤں رکھ کر چلنے سے منع فرمایا۔ (ترمذی، کتاب الجنائز)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد آپ کے کثیر تعداد میں صحابہ 90 سال تک موجود رہے ہیں۔ان کے حالات زندگی پر دوسری صدی ہجری ہی میں طبقات ابن سعد جیسی کتاب لکھی گئی ہے جس میں ہزاروں صحابہ کے حالات زندگی بیان کیے گئے ہیں۔ اس کتاب کی گیارہ جلدیں ہیں جن میں ہر جلد 600صفحات کے قریب ہے۔ اس کے علاوہ تیسری صدی میں امام بخاری کے استاذ کے استاذ ابن ابی شیبہ نے صحابہ کرام کے اقوال و اعمال کو اپنی مشہور کتاب "المصنف" میں جمع کیا ہے۔ اس کتاب کی 26 جلدیں ہیں جن میں سے ہر جلد 700صفحات کے آس پاس ہے۔ ان تمام کتب میں کوئی ایک بھی ایسی روایت نہیں ملتی کہ کسی صحابی نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر انور پر آ کر چلے اور مراقبے کیے ہوں اور اس طریقے سے روحانی سفر طے کیے ہوں۔ اگر آپ کی قبر مبارک کا یہ معاملہ ہے تو پھر بعد کے کسی بزرگ کی قبر سے فیضان کا حصول کیسے ممکن ہے؟
موجودہ اہل تصوف اور اسلام کے درمیان پانچواں بڑا فرق "ترک دنیا" کا ہے۔ جیسا کہ اوپر بیان کیا جا چکا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے واضح الفاظ میں ترک دنیا سے منع فرمایا ہے۔ اس معاملے میں مسلمانوں کے ارباب تصوف میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ ایک گروہ کے نزدیک بہرحال ترک دنیا افضل ہے۔ کھانے پینے کی لذتوں، ازدواجی زندگی کی مسرتوں اور دنیا کے دیگر معاملات سے لطف اندوز ہونے کی بجائے خود کو خدا کے لئے وقف کر دینا چاہیے۔
اہل تصوف کا تیسرا گروہ جس میں شامل لوگ قرآن و حدیث پڑھتے ہیں، وہ اس حقیقت سے بخوبی واقف ہیں کہ اسلام ترک دنیا کی اجازت نہیں دیتا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے بڑے طبقے میں ترک دنیا کو ترک کر دیا گیا ہے۔ ان کا نقطہ نظر یہ ہے کہ اگر دنیا رب کی یاد سے غافل نہ کرے تو پھر دنیاوی زندگی کے مزے لوٹنے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے۔
اسلام اور مروجہ تصوف میں چھٹا بڑا تضاد وہ اذکار، اوراد، چلے اور مراقبے ہیں جن کا کوئی ذکر قرآن مجید یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت میں نہیں ملتا۔ بغیر سوچے سمجھے قرآن ختم کرنے پر زور، لاکھوں کی تعداد میں آیات کا ورد، سانس اوپر نیچے کرنے کے ذریعے ذکر، جنگلوں اور غاروں میں چالیس چالیس دن کے مراقبے، ان سب کے پورے مدون قوانین ہیں جو ارباب تصوف نے تخلیق کر لیے ہیں۔ ان سب کا کوئی ذکر اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشادات میں نہیں ملتا۔کیا ہمارے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ حسنہ کافی نہ تها...؟
اسلام اور تصوف میں یہ وہ تضادات ہیں جن کا تصوف سے وابستگی کے دور میں میں نے بذات خود مشاہدہ کیا ہے۔ میں نے بہت سے صوفی بزرگوں کی خدمت میں جب ان تضادات کی نشاندہی کی تو مجھے بس خاموش رہنے کا حکم ہوا۔ کوئی صوفی بزرگ اس کا تسلی بخش جواب پیش نہ کر سکا۔ اگر کوئی صاحب ان تضادات کو حل کرنے کی کوشش کریں تو مجھے خوشی ہو گی۔ یہ بات درست ہے کہ سب کے سب صوفی علماء اوپر بیان کردہ تضادات میں سے ہر ایک کا شکار نہیں ہیں۔ بہت سے ایسے صوفی علماء ہیں جنہوں نے قرآن و سنت کی تبلیغ و ترویج کی ہے، اور ان بدعات کی مخالفت کرتے نظر آتے ہیں۔

تصوف کا مثبت پہلو
اگلی قسط میں پڑهیں.....
جاری ہے.....
 
بشکریہ فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان
0096176390670

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...