Monday 4 April 2016

اسلام اور خانقاہی نظام، 127

"اسلام اور خانقاہی"
(گزشتہ سے منسلک قسط نمبر 127)
قائلین بیعت کے شبہات اور آخر میں ان چند شبہات کا جائزہ بھی لے لیا جائے جو قائلین بیعت کی طرف سے پیش کئےجاتے ہیں :''تین آدمی بھی سفر کررہے ہوں تو ایک کو امیربنانے کا حکم ہے، چہ جائیکہ پوری جماعت ہو اوراس کا امیرنہ ہو۔''سفر میں امیر بنانا توآنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث سے ثابت ہے، لیکن وہاں بیعت کاذکرنہیں ہے، اور یہ امارت سفر کے ختم ہونے کے ساتھ تمام ہوجاتی ہے۔ گویا وقتی طور پر نظم و ضبط کا پابند بنانے کے لئے ایسے امیر کی اطاعت لازمی قرار دی گئی لیکن اس کا قیاس امامتِ کبریٰ پر نہیں کیا جاسکتا جہاں دوسرے مدعی ٔامارت کو برداشت نہیں کیا جاتا بلکہ اس کی گردن مار دی جاتی ہے۔''بیعت ِاصلاح و ارشاد کو نماز کی امامت کی طرح سمجھا جائے ،یعنی امامت ِکبریٰ کے ساتھ امامت صغریٰ کو جدا نہیں کیا جاسکتا۔''امارتِ سفر کی طرح نماز کی امامت بھی نماز کے ساتھ ختم ہوجاتی ہے۔جونہی امام نے 'السلام علیکم ورحمتہ اﷲ' کہا، مقتدی اور امام کا تعلق ختم ہوگیا۔
مروجہ بیعت کا کم از کم خیرالقرون کے زمانہ میں تو ایسی بیعت کا نام و نشان نہ تھا۔ قرونِ ثلاثہ (زمانۂ رسول ؐ اور زمانۂ صحابہؓ ، زمانۂ تابعین رحمة اللہ علیہ اور تبع تابعین رحمة اللہ علیہ ) کے بعد جہاں فرقہ بازی کی بدعت پیدا ہوئی، وہاں تصوف کے سلسلوں کے نام پر مشائخ کے ہاتھ پربیعت اصلا ح و ارشاد کا دروازہ بھی کھول دیا گیا۔اور آج بهی ننگ دهڑنگ مجذوب گندے میلے اور بے دین پیروں کے ہاتھوں پر بیعت کا سلسلہ جاری ہے....
ان میں بعض پیر مخلص بهی ہیں اگر تو وہ عین قرآن و حدیث کی دعوت دیتے ہیں تو پهر ان کا یہ عمل قابل قدر ہے لیکن پیری مریدی میں ایسا بہت کم ہوتا کہ خالص دعوت دین کی جائے بلکہ ان پیروں کی دعوت خاص اپنے نظریات و سوچ کی ہوتی ہے جو دین اسلام سے کوسوں دور ہوتی ہے...
۱۹۲۴ء میں خلافت ِعثمانیہ کے ختم کئے جانے کے بعد اوّل تو مسلم ممالک پر استعمار کاغلبہ ہوگیا، خود ہندوستان بھی سو ڈیڑھ سو سال انگریزی استعمار کاہراول دستہ بنا رہا، جب خلیفہ ہی نہ رہا تو بیعت کس کے ہاتھ پرکی جاتی؟مسلم ممالک آزاد ہونا شروع ہوئے تو اکثر نے جمہوری یاآمرانہ نظام اپنایا، بیعت کے اُس طریقہ کو خیر باد کہہ دیا گیا جو اہل حل و عقد کی مشاورت سےمنعقد ہوتی ہے، لہٰذا نظامِ بیعت بھی معطل ہوتا چلا گیا۔ اب جہاں جہاں کسی درجے میں بھی ایسانظام قائم ہو جو کتاب وسنت کو نافذ کرتا ہو، لیکن بادشاہ کی بیعت کے بعد ہی اس کی حکومت کاآغاز ہوتا ہے۔"
ابونعیم اصبہانی اپنی کتاب حلیة الأولیاء (2؍204) میں اپنی اسناد ذکر کرنے کے بعد مطرف بن عبداللہ بن شخیر (تابعی) کی یہ روایت بیان کرتے ہیں کہ ہم زید بن صوحان کے پاس جایا کرتےتھے جو کہاکرتے تھے:''اے اللہ کے بندو! اکرام کرو اور (عمل میں ) خوبصورتی پیداکرو!بندے اللہ تک ان دو وسیلوں سےپہنچ سکتے ہیں : خوف اور طمع''ایک دن ہم ان کے پاس آئے تو دیکھاکہ (شاگردوں )نے ایک عبارت اس مضمون کی لکھی ہے:''اللہ ہمارا ربّ ہے، محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے نبیؐ ہیں ، قرآن ہمارا امام ہے، جو ہمارے ساتھ ہوگا،ہم اس کے ساتھ ہیں اور اس کے لئے ہیں ۔جو ہمارے مخالف ہوگا، ہمارا ہاتھ اس کے خلاف ہوگا اور ہم ایسا ویساکریں گے۔''پھر اُنہوں نے یہ مکتوب لیا اور ہر شخص سے باری باری یہ کہا:اے فلاں ! کیاتم اس بات کا اقرارکرتے ہو؟ یہاں تک کہ میری باری آگئی اور اُنہوں نے کہا:اے لڑکے! تم بھی اقرار کرتے ہو؟ میں نے کہا:نہیں ۔ کہنے لگے: اس لڑکے کے بارے میں جلد بازی نہ کرو، پھر مجھ سے پوچھا: بچے! تم کیا کہنا چاہتے ہو؟ میں نے کہا: اللہ نے اپنی کتاب میں مجھ سے ایک عہد لیا ہے اور میں اس عہد کے بعد کسی اور عہد کا پابند نہیں ہوں ۔'' یہ سننا تھا کہ تمام کے تمام لوگ اس عہد نامے سےرجوع کرگئے، کسی ایک نے بھی اقرار نہ کیا۔میں نے مطرف سے پوچھا: تمہاری تعداد کیا تھی؟بولے: ''تیس کے قریب آدمی تھے۔''
امام ابن تیمیہ رحمة اللہ علیہ نے اس مسئلہ کو بڑی وضاحت سے بیان کیا ہے۔ وہ ایک فتویٰ کےضمن میں کہتے ہیں :''اگر لوگ اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت اور بر وتقویٰ پر تعاون کرنے پر جمع ہوں تو بھی ہرشخص دوسرے شخص کے ساتھ ہر بات میں معاون نہ ہوگا بلکہ صرف اس حد تک جہاں اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت ہوگی، اگر اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی ہورہی ہو تو وہ ساتھ نہ دے گا، یہ لوگ سچائی، انصاف، احسان، امربالمعروف، نہی عن المنکر، مظلومین کی مدد اور ہر اس کام میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کریں گے جو اللہ اور اس کے رسول کو پسند ہیں ۔ وہ نہ ظلم کرنے پر، نہ کسی جاہلی عصبیت پر، نہ ہی خواہشات کی پیروی پرتعاون کریں گے، نہ ہی فرقہ بازی اور اختلاف پر، اور نہ ہی اپنی کمر کے گرد پیٹی باندھ کر کسی شخص کی ہر بات ماننے پر تعاون کریں گے اورنہ ہی کسی ایسے حلف نامے میں شریک ہوں گے جو اللہ اور اس کے رسول کے حکم کے خلاف ہو۔''''ان میں سے کسی شخص کے لئے جائز نہیں کہ اپنے یا کسی دوسرے کے استاد کی خاطر اپنی کمر کے گرد پیٹی باندھے اور جیسے سوال میں پوچھا گیا ہے، کسی ایک معین شخص کے لئے پیٹی باندھنا یا اس کی طرف نسبت کرنا، جاہلیت کی بدعات میں سے ہے اور ان حلف ناموں کی مانندہے جواہل جاہلیت کیا کرتے تھے یا قیس و یمن کی فرقہ بازیوں کی طرح ہے۔ اگر اس کے باندھنےسے مراد بر و تقویٰ پر تعاون ہے تو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بغیر کسی ایسے بندھن کے اس کا حکم دیا ہے اور اگر اس سے مراد گناہ اور سرکشی کے کاموں میں تعاون ہے تو وہ ویسے ہی حرام ہے، یعنی اگر اس طرح خیر کا کام کرنا مقصود ہے تو اللہ اور اس کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات میں اس کام کی پوری رہنمائی ملتی ہے، استاد کے ساتھ(اس نسبت) کی کوئی ضرورت نہیں ۔ اگر برائی مقصود ہے تو اللہ اور اس کے رسول اُسے حرام قراردے چکے ہیں ۔۔۔کسی کے لئے یہ جائز نہیں کہ کسی دوسرے شخص سے اپنی ہر بات منوانے پر عہد لے یا اس بات پر کہ جس کامیں دوست ہوں ، اس سے دوستی رکھو اور جس کا میں دشمن ہوں ، اُ س سےدشمنی رکھو، بلکہ ایسا کرنے والا چنگیز خان اور اس کے حواریوں جیسا ہے جو ہر اس شخص کواپنا دوست اور حمایتی سمجھتے ہیں جو ان کی ہاں میں ہاں ملاتا ہو اور ہر اس شخص کو اپنا بدترین دشمن سمجھتے ہیں جو ان کی مخالفت کرتا ہو، بلکہ اُنہیں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کیا ہوا عہد یاد رکھنا چاہئے کہ اطاعت صرف اللہ اور اس کے رسولؐ کی ہے۔اسے وہی کام کرنا ہے جس کا حکم اللہ اور اس کے رسولؐ نے دیا ہے، ہر اُس چیز کو حرام ٹھہرانا ہے جسے اللہ اور اس کے رسولؐ نے حرام ٹھہرایا ہے۔ وہ اپنے اساتذہ ومشائخ کے حقوق کاضرور خیال رکھے،لیکن اُتنا جتنا کہ اللہ اور اس کے رسولؐ نے خیال رکھنے کا حکم دیا ہے۔ اگرکسی کا اُستاد مظلوم ہو تو اس کی مدد کرے، اگر ظلم کرے تو اس کی ظلم پراعانت نہ کرے بلکہ اُسے ظلم کرنے سے روکے،جیسا کہ صحیح حدیث سے ثابت ہے: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نےارشاد فرمایا:''اپنے بھائی کی مدد کرو چاہے وہ ظالم ہو یامظلوم!''آپؐ سے کہا گیا:مظلوم ہو تو ہم اس کی مدد کرتے ہیں ، لیکن ظالم ہو تو اس کی مدد کیسے ہوگی؟آپؐ نے ارشاد فرمایا:''تم اُسے ظلم کرنے سے روکو، یہی اس کی مدد ہے۔''
-باقی یہ کہنا کہ ''جس کا کوئی پیر نہیں اس کا پیرومرشد شیطان ہے۔'' یہ بات اُس شخص کے لئے تودرست ہے جس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کا طوق اپنی گردن سے اُتار پھینکا ہو، لیکن وہ شخص جو صرف اپنی نسبت اللہ کے رسولؐ اور اُن کی حدیث کی طرف کرتا ہو، اُسے شیطان کی طرف منسوب کرنا، اپنے ایمان کوضائع کرنا ہے، ''ما أنا علیہ وأصحابي'' کا تقاضا یہی ہے کہ ہراُس عمل سے اجتناب کیا جائے جس پر مہرنبوت ثبت نہ ہو اور جسے صحابہ کرامؓ نے نہ کیا ہو۔اللہ تعالیٰ تمام کلمہ گو حضرات کو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کے عہد کوپورا کرنے کی توفیق عطافرمائیں ۔ وآخر دعوانا ان الحمدﷲ رب العالمین
------------------------------حوالہ جات1. صحیح مسلم:1212. صحیح بخاری:7199،صحیح مسلم:1709، سنن نسائی:41603. البدایة والنہایة:3؍1894. صحیح مسلم:18395. صحیح مسلم:18446. صحیح مسلم:18487. صحیح مسلم:18518. فتاویٰ ثنائیہ:1؍3569. بحوالہ شریعت و طریقت از مولانا عبدالرحمن کیلانی: ص30510. شریعت و طریقت:ص43311. تلبیس ابلیس: ص19212. صحیح مسلم :185113. بحوالہ عربی کتابچہ: ''بیعت،سنت و بدعت کے مابین'' از شیخ علی حسن14. فتاویٰ ابن تیمیہ:8؍16تا18
یہ تمام حوالہ جات قسط نمبر 125اور126کے ہیں. .
جاری ہے..... 
www.islam-aur-khanqahi-nizam.blogspot.com

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...