Friday 8 April 2016

مسلمانوں کے مذہبی مسالک، 11

"مسلمانوں کے مذہبی مسالک"
(قسط نمبر11)
اہل حدیث مکتب فکر:
اہل حدیث مکتب فکر خالص سلفی ازم کانمائندہ ہے۔ یہ لوگ سنی بریلوی حضرات پر ان عقائد و رسوم کے معاملے میں کڑی تنقید کرتے ہیں جو ان کے نزدیک شرک اور بدعت میں داخل ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بریلوی اور دیوبندی دونوں گروہوں پر تصوف اور تقلید کے مسائل میں تنقید کرتے ہیں۔ ان کا فکری تعلق عرب میں شیخ محمد بن عبدالوہاب (1792-1703) ان سے پہلے ابن تیمیہ 661-1327-1263/728) اور ان سے پہلے امام احمد بن حنبل (855-780/241-164) کے ساتھ ہے۔اہل حدیث اپنے آپ کو عملاً اہل سنت کہتے ہیں اور مزہباً اہل حدیث-حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی کی تقلید نہیں کرتے-اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلہ میں کسی اور کو امام نہیں بناتے-ان کا عقیدہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو چهوڑ کر کسی اور کو امام بنانا'محمد رسول اللہ' صلی اللہ علیہ وسلم سے غداری کے مترادف ہے-
ابن عبدالوہاب تصوف کے سخت خلاف تهے-اور موجودہ اہل حدیث بهی تصوف کے سخت خلاف ہیں- اہل حدیث ابن عبدالوہاب کے عقائد کے مطابقت کی وجہ سے ان کے مخالفین انہیں وہابی کہتے ہیں- حالانکہ یہ خود اس لقب کو پسند نہیں کرتے ۔ اہل حدیث حضرات کا کہنا یہ ہے کہ وہ صحابہ و تابعین رضی اللہ عنہم کو اپنا فکری راہنما تسلیم کرتے ہیں اور بعد کے کسی امام کی تقلید کرنے کے بجائے قرآن مجید اور رسول اللہ ﷺ کی حدیث پر عمل کرتے ہیں۔
اہل حدیث کی اہم جماعتوں اور تحریکوں میں جمیعت اہل حدیث اور جماعت الدعوۃ نمایاں ہیں۔
ان کی اہم شخصیات میں
میاں نذیر حسین دہلوی (1902-1805)،
نواب صدیق حسن خان بھوپالی (1890-d)،
مولانا محمد حسین بٹالوی(1920-1831)،
مولانا داود غزنوی (1963-1895)،
مولانا اسماعیل سلفی (1968-1895)،
مولانا ابراہیم میر سیالکوٹی (1956-d)
اور علامہ احسان الہی ظہیر (1987-1945)،  شامل ہیں-
حالیہ مشہور شخصیات میں مولانا ساجد میر(1938.b )،حافظ محمد سعید( 1950.d)،
علامہ ابتسام الہی ظہیر ،شیخ توصیف الرحمن راشدی، حافظ ثنا اللہ مدنی اور شیخ عبدالحمن مدنی وغیرہ نمایاں ہیں-
اس کے علاوہ اہل حدیث حضرات عالم عرب کی سلفی شخصیات سے خاص تعلق رکھتے ہیں۔ ان میں شیخ محمد بن عبد الوہاب (1792-1703)،
شیخ عبد العزیز بن عبداللہ بن باز (1999-1912)، اور علامہ ناصر الدین البانی (1999-1914) مشہور ترین ہیں۔
اہل حدیث حضرات کے ہاں شخصیت پرستی کو پسند نہیں کیا جاتا اور اسے شرک کا پیش خیمہ سمجھا جاتا ہے۔ اس وجہ سے ان کے ہاں ہمیں شخصیات کی اس طرح پروجیکشن نہیں ملتی جیسی دوسرے مکاتب فکر کے ہاں ہے۔
ماورائے مسلک:
ماورائے مسلک مسلمانوں سے ہماری مراد برصیغیر جنوبی ایشیا کے وہ جدید تعلیم یافتہ افراد ہیں جو فرقہ واریت سے بالاں ہیں اور خود کو کسی خاص مسلک سے وابستہ نہیں سمجھتے ہیں۔ دیگر مسالک اور مکاتب فکر کے مقابلے میں یہ کوئی منظم گروہ نہیں ہے، نہ اس کا لٹریچر یکساں ہے اور نہ ہی ان کی کوئی مخصوص اور نمایاں شخصیات ہیں جن پر ان سب کا اتفاق ہو۔ یہ غیر منظم افراد ہیں جو اپنے اپنے انفرادی حلقوں میں کام کر رہے ہیں۔ واضح رہے کہ ہماری اس تعریف میں وہ لوگ شامل نہیں ہیں جو ختم نبوت پر یقین نہیں رکھتے یا حدیث و سنت کا انکار کرتے ہیں یا پھر دین میں کسی تحریف کے قائل ہیں۔ یہ لوگ الگ مستقل الگ فرقے ہیں جن کا مطالعہ ہم ایک علیحدہ ماڈیول  (03SC) میں کریں گے۔                  ماورائے مسلک مسلمانوں کی تعداد پہلے بہت کم تھی مگر جدید دور میں خاص کر شہروں کے تعلیم یافتہ طبقے میں ان کی تعداد میں بہت تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ روایتی مکاتب فکر میں بھی ایسے آزاد خیال لوگ پیدا ہو رہے ہیں جو دوسرے مکاتب فکر کے لوگوں کے ساتھ اچھے تعلقات رکھنے اور ان سے مکالمہ کرنے کے قائل ہیں۔ یہ لوگ دیگر مکاتب فکر کے لوگوں کی کتب سے استفادہ کرتے ہیں اور مثبت انداز میں ان سے گفتگو کرتے ہیں۔ جنوبی ایشیا سے باہر کے ممالک میں ماورائے مسلک مسلمانوں کی تعداد بہت  زیادہ ہے اور اس میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے۔
مشہور ماورائے مسلک شخصیات میں سید جمال الدین افغانی (1897-1838) مفتی محمد عبدہ 1905-1849 ، علامہ رشید رضا 1865-1935، مولانا شبلی نعمانی 1914-1857، ابو الکام آزاد 1958-1888، حمید الدین فراہی 1930-1863، علامہ محمد اقبال 1877-1938، سید ابو الاعلی مودودی 1979-1903، محمد اس 1992-1900 ڈاکڑ محمد حمید اللہ 2002-1908 ڈاکٹر یوسف القرضاوی 1926-b، اور مولانا امین احسن اصلاحی 1998-1904 نمایاں ہیں۔ موجودہ اسکالرز میں ڈاکٹر اسرار احمد 2010-1932 ، ڈاکٹر محمود احمد غازی 1910-1950 ، جاوید احمد غامدی 1951-b، ڈاکٹر فرحت ہاشمی 1957-b، ڈاکٹر زاکر نائک 1965-b، کا شمار بھی ماورائے مسلک علماء میں کیا جاتا ہے تا ہم ان میں سے زیادہ تر کا میلان سنی دیوبندی اور اہل حدیث مکاتب فکر کی جانب ہے۔
  ماورائے مسلک مسلمانوں میں اکثر دینی تحریکوں جیسے اخوان المسلمون اور جماعت اسلامی کا شمار بھی کیا جا سکتا ہے۔ عام ماورائے مسلک مسلمان غیر منظم ہیں جبکہ یہ تحریکیں استشنائی طور پر منظم جماعتیں ہیں۔ یہ جماعتیں بھی خود کو کسی مخصوص مسلک سے وابستہ نہیں سمجھتی ہیں اور اپنے دروازوں کو تمام مسالک کے لوگوں کے لیے کھلا سمجھتی ہیں۔ ان کے نقطہ نظر کا تفصیلی جائزہ ہم اسلامی تحریکوں سے متعلق ماڈیول میں لیں گے۔
بریلوی ، دیوبندی اور اہل حدیث مسالک کے مابین اہم اختلافی مسائل'
اوپر بیان کردہ مسلک کے مابین چند ایسے بنیادی مسائل ہیں جن کے بارے میں ان کے ہاں شدید اختلاف رائے پایا جاتا ہے۔ اختلافات اور امور پر بھی ہے@ مگر وہ انہی مسائل کی فرع ہیں:@
*عقیدہ علم غیب                                                    *عقیدہ نور و بشر
*عقیدہ حاضر و ناظر                                                 *عقیدہ ایصال ثواب
*استعانت لغیر اللہ                                                 *بدعت
اس ماڈیول کے اگلے ابواب میں ہم ان مسائل کا تفصیلی جائزہ لیں گے۔
ان مسائل کے علاوہ دو معاملات ایسے ہیں جن میں مسلمانوں کے مختلف مکاتب فکر میں ایک گہری تقسیم پائی جاتی ہیں۔ یہ تصوف اور اجتہاد و تقلید کے مسائل ہیں۔ یہ مسائل ایسے ہیں جس کا مطالعہ ایک آدھ باب میں مکمل نہیں کیا جا سکتا ہے بلکہ ان کے معاملے میں اختالافات کی تقسیم اس قدر گہری ہے کہ ان کے لیے علحیدہ ماڈیول درکار ہیں۔ اس وجہ سے ان کا مطالعہ ہم اس ماڈیول کے بجائے اس سے اگلے ماڈیولز میں کریں گے
جاری ہے.....

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...