Tuesday 12 April 2016

اسلام اور خانقاہی نظام، 135

"اسلام اور خانقاہی نظام"
(گزشتہ سے منسلک قسط نمبر 135)
تصوف کی عالمگیر تحریک:
انسانیت کی تاریخ میں تصوف یا صوفی ازم ایک عالمگیر تحریک رہی ہے۔ ایک طویل عرصے سے اناطولیہ کا علاقہ تصوف کا عالمی مرکز رہا ہے۔ مناسب ہو گا کہ اس کی کچھ تفصیل یہاں پیش کر دی جائے۔
انسانوں میں دو رجحان بہت عام رہے ہیں۔ ایک رجحان دنیا پرستی کا ہے جس میں انسان مال و دولت، شہرت، اور لذت حاصل کرنے کے لئے اپنے دین و ایمان کو بھی داؤ پر لگا دیتا ہے۔ اس کے بالکل برعکس دوسرا رجحان دنیا سےگریز کا ہے جس میں انسان دنیا کو چھوڑ کر جنگلوں میں نکل جاتا ہے۔ قدیم دور سے یہ دونوں رجحان انسانوں میں موجود رہے ہیں۔  ایسے خواتین و حضرات جن میں دنیا سے گریز کا رجحان قوی تھا، انہوں نے ضروریات زندگی سے منہ موڑ کر جنگلوں اور خانقاہوں کی راہ لی اور اپنا پورا وقت اپنے رب کی تلاش میں صرف کرنا شروع کر دیا۔ یہی لوگ "راہب" کہلائے۔
دنیا کے جھمیلوں سے فراغت کی وجہ سے ان خواتین حضرات کے پاس وقت کی کمی نہ تھی۔ یہی وجہ ہے کہ خدا کے بارے میں سوچتے سوچتے انہوں نے بہت سے فلسفے وضع کر لیے۔ یونانی فلسفے سے تصوف میں "وحدت الوجود (Pantheism)" کا فلسفہ داخل ہوا۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے عبادت کے نت نئے طریقے ایجاد کیے۔ تصوف کی دنیا کا بنیادی اصول یہ طے پایا کہ اس راہ میں چلنے والا ہر شخص اپنی شخصیت کو مٹا کر کسی مرشد کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دے اور اس کا غلام بن کر خود کو اس کے مکمل سپرد کر دے۔
اہل تصوف نے اپنا وقت نفسی علوم (Parapsychology) جیسے ٹیلی پیتھی، ہپناٹزم اور اس قبیل کے دیگر علوم میں بھی صرف کرنا شروع کر دیا۔ اس کے نتیجے میں انہیں محیر العقول کرامتیں دکھانے کی صلاحیت نصیب ہو گئی۔ چونکہ تصوف اور مذہب کا موضوع ایک ہی ہے، اس وجہ سے اس بات کا غالب امکان تھا کہ تصوف کا ٹکراؤ مروجہ مذاہب کے ساتھ ہو جائے۔ ایسا ہی ہوتا مگر اہل تصوف کی اکثریت نے مذہب سے ٹکراؤ کی بجائے ایڈجسٹمنٹ کی پالیسی اختیار کی۔ انہوں نے تصوف کے بنیادی نظریات اور اعمال کو قائم رکھتے ہوئے ہر مذہب کے اندر جگہ بنا لی۔ قدیم مذاہب میں بدھ مت، ہندو مت اور ایران کا زرتشتی مذہب اس کی مثال ہیں۔ خاص طور پر ہندوؤں کے جوگی برصغیر کے معاشرے میں آج تک غیر معمولی مقام کے حامل رہے ہیں۔
یہودیوں کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہوا۔ ان کے ہاں "کبّالہ" کا مکتب فکر پیدا ہوا۔ یہود کے راہبوں نے نفسی علوم میں غیر معمولی مہارت حاصل کی اور اس کے ذریعے لوگوں کے کام کرنے لگے۔  انہوں نے "زوہار" کے نام سے تورات کی ایک صوفیانہ تفسیر لکھی۔ ان کی کامیابیوں کے پیش نظر بہت سے دنیا پرست بھی ان کے ساتھ شامل ہو گئے۔ ان جعلی صوفیوں کا مقصد لوگوں کو اپنا مرید بنا کر انہیں لوٹنا تھا۔ انجیل سے معلوم ہوتا ہے کہ سیدنا عیسی علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانے میں ان صوفیاء کا بہت غلبہ تھا۔ آپ کا یہ ارشاد بہت مشہور ہے:
اے شریعت کے عالمو اور فریسیو! اے ریاکارو! تم پر افسوس، کیونکہ تم کسی کو اپنا مرید بنانے کے لئے تو تری اور خشکی کا سفر کر لیتے ہو اور جب بنا لیتے ہو تو اسے اپنے سے دوگنا جہنمی بنا دیتے ہو۔ (یعنی اپنے سے دوگنا بے عمل بنا دیتے ہو۔) (متی 23:15)
 یہودیت کے بعد عیسائیت کا دور آیا۔ عیسائیوں نے رہبانیت یا تصوف کو غیر معمولی درجہ دیا۔انہوں نے رہبانیت کو باقاعدہ فن بنا کر پوری عیسائی دنیا میں پھیلا دیا۔ رومی مملکت کے طول و عرض میں بڑی بڑی خانقاہیں قائم ہوئیں جن میں ہزاروں کی تعداد میں لوگ اپنے نفس کو کچلنے کے لئے خود کو اذیت دینے میں مصروف رہا کرتے تھے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعض صحابہ جیسے سیدنا عثمان بن مظعون، ابوذر غفاری اور ابو درداء رضی اللہ عنہم میں دنیا سے گریز کا رجحان پایا جاتا تھا۔ ان کی اصلاح کرتے ہوئے آپ نے شدت سے رہبانیت کی نفی فرمائی۔ یہ واقعات چند مشہور احادیث میں اس طرح بیان ہوئے ہیں:
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: تین آدمیوں کا ایک گروہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ازواج کی خدمت میں حاضر ہوا۔ وہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عبادت کے بارے میں سوال کر رہے تھے۔ جب انہوں نے آپ کی عبادت کی تفصیلات بیان کیں تو وہ بولے: "کہاں ہم اور کہاں نبی صلی اللہ علیہ وسلم؟ اللہ نے آپ کی اگلی اور پچھلی خطائیں معاف کر دی ہیں۔" ان میں سے ایک نے کہا: "جہاں تک میرا تعلق ہے، میں تو ہمیشہ پوری رات نماز پڑھا کروں گا۔" دوسرے نے کہا: "میں ہمیشہ روزہ رکھوں گا اور کبھی افطار نہ کروں گا۔" تیسرے نے کہا: "میں خواتین سے دور رہوں گا اور کبھی شادی نہیں کروں گا۔"
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے تو آپ نے فرمایا: "کیا تم لوگوں نے اس اس طرح کہا ہے؟ اللہ کی قسم! میں تم سے زیادہ اللہ سے ڈرتا ہوں اور خوف رکھتا ہوں مگر روزہ بھی رکھتا ہوں اور افطار بھی کرتا ہوں۔ میں نماز بھی پڑھتا ہوں اور سوتا بھی ہوں اور شادی بھی کرتا ہوں۔ جس نے میری سنت سے اعراض کیا، اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں۔ (بخاری کتاب النکاح)
سیدنا انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرمایا کرتے تھے: "تم (دین کے معاملے میں) اپنی ذات پر تشدد نہ کیا کرو ورنہ تم پر تشدد کیا جائے گا۔ ایک قوم نے شدت سے کام لیا تو اللہ نے ان پر شدت کر دی۔ یہ انہی کی باقیات ہیں جو تم گرجوں اور خانقاہوں میں دیکھتے ہو۔ (پھر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی) رَهْبَانِيَّةً ابْتَدَعُوهَا مَا كَتَبْنَاهَا عَلَيْهِمْ  یعنی"رہبانیت تو انہوں نے خود ایجاد کر لی تھی۔ ہم نے اسے ان پر فرض نہ کیا تھا۔ " (سنن ابو داؤد، کتاب الادب)
 حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ان واضح ارشادات کے باعث مسلمانوں کی ابتدائی نسلوں میں صوفی ازم یا رہبانیت کا مزاج پروان نہ چڑھ سکا۔ بعد کی صدیوں میں مسلم معاشروں میں کچھ ایسی تبدیلیاں رونما ہوئیں جن کی بدولت یہاں تصوف کو غیر معمولی فروغ حاصل ہوا۔ ان تبدیلیوں کی تفصیل یہاں ہم ریحان احمد یوسفی صاحب کے الفاظ میں بیان کر رہے ہیں:
جاری ہے.....
www.islam-aur-khanqahi-nizam.blogspot.com

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...