Friday 1 April 2016

مسلمانوں کے مذہبی مسالک،2

"مسلمانوں کے مذہبی مسالک"

یہ 2010ء کی گرمیوں کی بات ہے جب میں ایک کتاب "مسلم دنیا میں ذہنی، فکری اور نفسیاتی غلامی" کا مطالعہ کر رہا تھا۔ کتاب کا آخری باب اس نفسیاتی غلامی کے انسداد سے متعلق تھا۔ اس سے متعلق جو تجاویز ذہن میں آئیں، ان میں سے ایک یہ تھی کہ لوگوں میں تقابلی مطالعہ کی عادت پیدا کی جائے۔ یہ سلسلہ اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔
جس طرح ہم نے کوئی بھی قیمتی چیز  جیسے فریج، کار وغیرہ خریدنا ہو تو ہم ایسا نہیں کرتے کہ جو دکان پہلے نظر آئی، اس کے سیلز مین کی شکل پر موجود بظاہر خلوص بھری مسکراہٹ کو دیکھ کر آنکھیں بند کر کے وہاں سے چیز خرید لی۔ اس کی بجائے ہم  کئی دکانوں پر جاتے ہیں، چیز کی کوالٹی کے بارے میں ڈھیروں سوال کرتے ہیں، قیمتوں کا تقابل کرتے ہیں، مال کو ٹھونک بجا کر دیکھتے ہیں، پھر جا کر جو چیز پسند آئے، اسے خریدتے ہیں۔ اس عمل سے ہم بڑی حد تک غلطی سے محفوظ ہو جاتے ہیں۔ اگر پھر بھی غلطی ہو جائے تو اس کا نہ صرف ازالہ کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں بلکہ اس سے سبق سیکھ کر آئندہ  مزید محتاط ہو جاتے ہیں۔
افسوس کہ دین، جو اس سے کہیں قیمتی متاع ہے، اس کے معاملے میں ہم  یہ احتیاط بالکل نہیں کرتے۔  جس فرقے کی مسجد ہمارے گھر کے پاس واقع ہو، جس  مسلک کے لوگوں سے ہماری پہلے ملاقات ہو جائے، جس فرقے کو اپنانے پر ہمارا خاندان اور ماحول ہمیں مجبور کر دے، ہم اسے اپنا لیتے ہیں اور اتنے کٹر پن سے ایسا کرتے ہیں کہ بقول شاعر
حضرت داغ جہاں بیٹھ گئے بیٹھ گئے-
ہونا تو یہ چاہیے کہ ہم اس معاملے میں بھی احتیاط کا وہی رویہ اختیار کریں جو ہم کسی بھی قیمتی چیز کو خریدتے وقت کرتے ہیں۔ ہم مختلف مذاہب، مسالک، فرقوں اور مکاتب فکر کا مطالعہ کریں، ان کے دلائل کا موازنہ کریں، قرآن اور سنت کے ساتھ ان کا تقابل کریں، اپنی عقل کو استعمال کریں اور پھر جو بات درست معلوم ہو،  اسے اختیار کر لیں۔ یہ سب کچھ کرنے کے بعد بھی ہم اس کے لئے تیار رہیں کہ اگر اس عمل میں ہم سے کوئی غلطی ہوئی ہو اور کل کوئی اور بہتر بات ہمارے علم میں آ جائے تو اپنی غلطی مان کر ہم اس کا ازالہ کر لیں گے۔
انسان اللہ تعالی کی ایسی مخلوق ہے جو ذہن اور عقل رکھتی ہے۔  جیسے ہر شخص کی شکل، قد، لہجہ اور انداز گفتگو دوسرے سے مختلف ہے، ویسے ہی ہر ایک کا زاویہ نظر اور سوچنے و سمجھنے کا انداز دوسرے سے مختلف ہوتا ہے۔  دنیاوی معاملات میں ان اختلافات سے عام طور پر بڑا مسئلہ پیدا نہیں ہوتا کیونکہ لوگ ایک دوسرے سے بات کر کے، دلائل اور فکر کا تبادلہ کر کےاور کچھ کمپرومائز کر کے اتفاق رائے پر پہنچ جاتے ہیں اور مسئلہ حل ہو جاتا ہے۔ اگر وہ اس اتفاق رائے پر نہ بھی پہنچیں تو اپنے اختلافات کو مختلف دائروں میں ایڈجسٹ کر لیتے ہیں۔
دین اور مذہب کا معاملہ البتہ مختلف ہے۔ یہ ایسا معاملہ ہے کہ اس میں انسان  عام طور پر بہت جذباتی ہوا کرتا ہے۔ جیسے  ہی اسے اپنے سے کوئی مختلف بات نظر آتی ہے تو اس کا عام رد عمل یہ ہوتا ہے کہ  یہ گمراہی، بدعت، شرک، گستاخی، کفر، ارتداد اور نجانے کیا کیا ہونے کے فتوے لگا دیتا ہے۔ بعض حضرات فوری طور پر اس میں اغیار کی کوئی سازش تلاش کرتے ہیں اور بغیر کسی تحقیق کے فریق مخالف کو دشمن کا ایجنٹ قرار دے دیتے ہیں۔ اس کے لیے یہی دلیل کافی ہوتی ہے کہ فلاں نے ہم سے اختلاف کر کے دین میں رخنہ پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔ کچھ ایسا ہی معاملہ فریق مخالف کی جانب سے ہی ہوتا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ رویہ رکھنے کے بعد پھر دلائل کا تبادلہ کرنے اور مسئلے کو حل کرنے کے امکانات نہ ہونے کے برابر رہ جاتے ہیں۔
درست طرز عمل یہ ہے کہ جذباتیت کو ایک جانب رکھ کر عقل سے سوچا جائے۔ دوسروں کی تردید کو زندگی کا مقصد بنانے کی بجائے انہیں سمجھنے کی کوشش کی جائے۔ باہمی رابطہ کے لئے پل تعمیر کیے جائیں۔ سوچوں کا تبادلہ کیا جائے اور یہ سب مثبت اور ہمدردانہ رویے کے ساتھ ہو نہ کہ نظریہ سازش کے تحت۔
ہمیں اس حقیقت کو ماننا ہو گاکہ ہر اختلاف برا نہیں ہوتا۔ اختلاف رائے بھی انسان کی شکل و صورت کے اختلاف کی طرح ہے جس سے کوئی فرق نہیں پڑنا چاہیے۔ اگر دوسرا شخص ہم سے مختلف زاویہ نظر رکھتا ہے تو یہ برائی نہیں بلکہ ہمارے لئے ایک موقع ہے کہ اس کی روشنی میں ہم اپنی سوچ پر دوبارہ غور کر سکتے ہیں ،اور اس سوچ سے اگر ہماری غلطی واضح ہو جائے تو ہم اپنی غلطی کی اصلاح کر سکتے ہیں۔ یہی جذبہ اگر دوسری جانب ہو تو  وہ بھی اپنی اصلاح کر سکتا ہے۔  جیسے آئن اسٹائن اگر نیوٹن سے اختلاف نہ کرتا تو طبیعات کے میدان میں جو غیر معمولی کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں، وہ کبھی نہ ہوتیں۔ لیکن ہمارے ہاں اس کے برعکس رویہ یہ ہوتا ہے کہ ہمیں اپنی نہیں بلکہ دوسرے  کی اصلاح کرنا ہے۔ یہیں سے اصلاح کی بجائے فساد کا آغاز ہوتا ہے جو فرقہ واریت کی صورت میں امت کے وجود کو پگھلا کر رکھ دیتا ہے۔
جو لوگ تلاش حق کی اس راہ کے مسافر بننا چاہیں۔۔۔۔ اور میرا تجربہ یہ کہتا ہے کہ ایسے لوگ کم نہیں ہیں- فرق اتنا ہے کہ ان کو تحقیق کرنے کا غیر جانبدارانہ اور آزادانہ پلیٹ فارم مہیا نہیں ہوتا جس کی وجہ سے یہ پوری زندگی اپنا قبلہ درست نہیں کر پاتے- اسی بات کو مد نظر رکھتے ہوئے ہم نے سنجیدہ قارئین کی خدمت کے لئے یہ سلسلہ کا ارادہ کیا۔اس سلسلہ کو ہم نے "اسلام اور خانقاہی نظام" سے پہلے ابتدا کا سوچا تها لیکن بعض قارئین کی رائے کو مد نظر رکھتے ہوئے اس سلسلہ کو ہم نے دوسرے نمبر پر رکھا ہے- اور راہ حق کی تلاش میں یہ سلسلہ قارئین کیلئے ممد و عاون ثابت ہو گا-ان شاء اللہ-
جاری ہے.....
اس گروپ میں غیر جانبدارانہ مطالعہ کیا جائے گا

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...