Friday 22 April 2016

مسلمانوں کے مذہبی مسال، قسط نمبر26

"مسلمانوں کے مذہبی مسالک"
(قسط نمبر 26)
سماع موتی کے قائلین کے دلائل:
سماع موتی کے قائلین اپنے نقطہ نظر میں چند احادیث پیش کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ان آیات کو ان احادیث کی روشنی میں سمجھنا چاہیے۔ احادیث یہ ہیں:
حدثنا علی بن عبد اللہ: حدثنا یعقوب بن ابراھیم: حدثنی ابی عن صالح: حدثنی نافع: ان ابن عمر رضی اللہ عنھما اخبرہ قال: اطلع النبی ﷺ علی اہل القلیب فقال: وجدتم ما وعد ربکم حقا۔ فقیل لہ: تدعو امواتا؟ فقال: وما انتم باسمع منھم الکن لا یجیبون
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اہل قلیب (وہ کفار جو غزوہ بدر کے دن قتل ہوئے اور ان کی لاشوں کو ایک کنویں میں ڈال دیا گیا) پر جھانکا اور فرمایا" تم نے پا لیا کہ تمہارے رب نے تم سے جو وعدہ کیا تھا، وہ حق تھا۔" لوگوں نے عرض کیا:
"آپ کیا مردوں کو پکار رہے ہیں؟" فرمایا:" آپ لوگ ان سے زیادہ نہیں سنتے، البتہ یہ لوگ جواب نہیں دے پا رہےہیں۔" (بخاری، کتاب الجنائز حدیث 1304)
حدثنا عیاش: حدثنا عبد الاعلی: حدثنا سعید قال: وقال لی خلیفۃ: حدثنا ابن زریع: حدثنا سعید، عن قتادۃ، عن انس رضی اللہ عنہ عن البنی ﷺ قال: العبد اذا وضع فی قبرہ وتولی وذھب اصھابہ، حتی انہ لیسمع قرع نعالھم، اتاہ ملکان فاقعداہ، فیقولان لہ: ما کنت تقول فی حذا الرجل محمد ﷺ ؟ فیقول: اشھد انہ عبد اللہ ورسولہ فیقال: انظر الی مقعدک فی النار، ابدلک اللہ بہ مقعدا من الجنۃ۔ قال النبی ﷺ فیراھما جمیعا، واما الکافر، او المنافق: فیقول: لا ادری کنت اقول ما بقول الناس فیقال لا دریت ولا تلیت ثم یضرب بمطرقۃ من حدید ضربۃ بین اذنیہ فیصیح صیحۃ یسمعھا من علیہ الا الثقلین
انس رضی اللہ عنہ سے روایتے ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب بندے کو قبر میں رکھا جاتا ہے اور اس کے ساتھی پلٹ کر چلے جاتے ہیں تو وہ ان کے جوتوں کی آواز سنتا ہے۔ اس وقت دو فرشتے آتے ہیں اور اسے بٹھا کر اس سے کہتے ہیں: "تم ان صاحب محمد ﷺ کے بارے میں کیا کہتے تھے؟" وہ کہتا ہے:"میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔" اس سے کہا جاتا ہے: جہنم میں اپنے مقام کی طرف دیکھو۔ اللہ اسے بدل کر جنت میں تمہیں مقام عطا فرمائے گا۔ "نبی ﷺ نے مزید فرمایا: ان دونوں مقامات کو سبھی لوگ دیکھتے ہیں۔ کافر یا منافق سوال کے جواب میں کہتا ہے: مجھے معلوم نہیں۔ میں تو وہی کہتا تھا جو اور لوگ کہتے تھے۔ اس سے کہا جاتا ہے: تم نے نہ جانا اور نا مانا۔ پھر اس کے کانوں کے درمیان لوہے کے گرز سے ضرب لگائی جاتی ہے اور اس کی چیخ کو سوائے دو بوجھ جن و انسان کے اور کوئی نہیں سن پاتا۔(بخاری کتاب الجنائز حدیث 1273)
سماع موتی کے قائلین کا کہنا ہے کہ ان احادیث سے واضح ہے کہ مردے سنتے ہیں۔ اس وجہ سے قرانی آیات کو ان کے اصل مفہوم میں لینے کے بجائے واویل کرنا ہو گی۔ چنانچہ وہ آیات قرآنی کی تاویل یہ کرتے ہیں کہ ان سے مراد حقیقی مردے نہیں بلکہ دل کے مردے یعنی کفار ہیں۔ سورۃ الاعراف کی آیت کے بارے میں ان کا موقف ہے کہ یہاں کفار کے بت زیر بحث ہیں۔
اس کے برعکس سماع موتی کے عدم قائلین کہ کہنا یہ ہے کہ آیات قرآنی کو ان کے اصل مفہوم میں لینا چاہیے۔ ان میں کفار مکہ کو مردوں سے تشبیہ دی جا رہی ہے کہ جیسے مردے نہیں سنتے، ویسے ہی ان لوگوں کے دل اس درجے میں مردہ ہو چکے ہیں کہ یہ بھی مردوں کی طرح نہیں سنتے۔ کسی چیز سے تبھی تشبیہ دی جاتی ہے جب اس میں وہ خصوصیت موجود ہوں۔ کفار چونکہ رسول اللہ ﷺ کی دعوت کو ماننے پر تیار نہیں تھے، اس وجہ سے انہیں مردوں سے تشبیہ دی گئی ہے کہ مردوں کے طرح یہ  بھی سن نہیں سکتے۔
(Exceptional Cases) جہاں تک احادیث کا تعلق ہے تو اس ضمن میں سماع موتی کے عدم قائلین کا کہنا ہے کہ ان احادیث میں ستثنائی صورتیں بیان ہوئی ہیں اور ان سے عمومی قاعدہ اخذ کرنا درست نہیں ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے جب جنگ بدر کے مقتولین کو پکارا تو اس وقت اللہ تعالی نے آپ کی آواز ان لوگوں کو سنا دی ۔ یہ ایک استثنائی واقعہ تھا۔ اسی طرح مردے کو قبر میں رکھ کر جب لوگ واپس جاتے ہیں تو وہ ان کے قدموں کی چاب کو سن کر ان کا جانا محسوس کرتا ہے۔ اس کے بعد اس کا امتحان شروع ہو جاتا ہے۔ اس موقع پر خاص طور پر اس وجہ سے یہ بات بیان کی گئی ہے تا کہ قبر کے امتحان کی سنگینی کا اندازہ لگایا جا سکے۔ اس میں یہ پہلو بھی ہے کہ جن عزیز و اقارب کے لیے انسان ساری زندگی خوار ہوتا ہے اور بعض اوقات گناہ کا ارتکاب بھی کر بیٹھتا ہے، وہ اسے چھوڑ کر چلے جاتے ہیں۔
سماع موتی کے قائلین اس سلسلے میں یہ حدیث بھی پیش کرتے ہیں:
قال من صلی علی عند قبری سمعتہ عمن صلی علی نائیا ابلغتہ
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "جو شخص بھی میری قبر کے پاس درود پڑھا ہے تو میں اسے سنتا ہوں"(بیہقی، شعب الایمان، حدیث 1583)
اس کے جواب میں سماع موتی کے عدم قائلین کا کہنا یہ ہے کہ یہ حدیث سخت ضعیف ہے کیونکہ اس کے سند میں محمد بن مروان سدی صغیر ہے وہ انتہائی ناقابل اعتماد راوی ہے۔ پھر خود سدی صغیر نے اس روایت کے دو ورژن بیان کیے ہیں جس میں مختلف بات بیان ہوئی ہے۔ پوری حدیث یوں ہے:
اخبرنا ابو الحسین بن بشران انا ابو جعفر محمد بن عمرو بن البختری ثنا عیسی بن عبد اللہ الطالیسی ثنا العلاء بن عمر الحنفی ثنا ابو عبد الرحمن عن الاعمش
ح واخبرنا ابو الحسین بن الفضل القطان انا ابو الحسین احمد بن عثمان الادمی ثنا محمد بن یونس بن موسی ثنا الاصمعی ثنا محمد بن فروان السدی عن الاعمش عن ابی صالح عن ابی ھریرۃ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم من صل علی عند قبری و کل بھما ملک یبلغنی و کفی بھما امر دنیاہ و آخرتہ و کنت لہ شھیدا او شفیعا ھذا اللفظ حدیث الا صمعی وفی روایۃ الحنفی قال عن النبی ﷺ قال من صلی علی عند قبری سمعتہ عمن صلی علی نائیا ابلغتہ۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب بھی کوئی شخص میری قبر کے پاس کھڑا ہو کر سلام بھیجتا ہے تو اللہ تعالی ایک فرشتہ مقرر فرما دیتے ہیں جو اس سلام کو مجھ تک پہنچا دیتا ہے، اور دنیا اور آخرت دونوں کے معاملات میں کفایت کرے گا۔ میں اس کا گواہ یا شفاعت کرنے والا ہوں گا۔
ان الفاظ میں حدیث کو اصمعی نے روایت کیا جبکہ (علابن عمرو) حنفی کے الفاظ میں ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: جس شخص نے میری قبر کے پاس درود پڑھا تو میں اسے سنتا ہوں اور جس نے دور سے بڑھا تو وہ مجھے پہنچایا جاتا ہے۔ (بیہقی شعب الایمان حدیث 1583)
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ تک سلام فرشتوں کے ذریعے پہنچایا جاتا ہے۔
ہمارے نزدیک سماع موتی کا مسئلہ بھی "استعانت لغیر اللہ" میں بہت زیادہ متعلق نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ  اگر بالفرض فوت شدہ بزرگ سنتے بھی ہوں، تب بھی ان سے مافوق الاسباب طریقے سے مدد مانگنا، سلفی اور بعض دیوبندی حضرات کے نزدیک شرک ہی میں داخل ہو گا۔
جاری ہے......
لیڈیز اور جنٹس کے علیحدہ گروپس موجود ہیں
00961 76 390 670
طالب دعا:فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...