Monday 4 April 2016

اسلام اور خانقاہی نظام، 129

"اسلام اور خانقاہی نظام"
(گزشتہ سے منسلک قسط نمبر129)
میلہ چراغاں 
۔شاہ حسین المعروف مادھو لال حسین کو صوفیانہ شاعری کا دوسرا بڑا ستون گردانا جاتا ہے.شاہ حسین کے عرس کو میلہ چراغاں اور شالامار بھی کہا جاتا ہے۔ ماضی قریب تک یہ میلہ لاہور کی تاریخ کا سب سے بڑا کلچرل فیسٹول گردانا جاتا تھا۔ مادھولال حسین کے عرس پر ملک بھر سے ملنگ جمع ہوتے ہیں اور اس میلے کو ملنگوں کا سب سے بڑا اجتماع کہا جاتا ہے۔
۔یہ میلہ کب اور کیوں شروع ہوا اس کے بارے میں وثوق سے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ لیکن اس بات کے شواہد ضرور ملتے ہیں کہ متحدہ ہندوستان میں سکھوں کے دور میں بھی یہ میلہ منایا جاتا تها- راجہ رنجیت سنگھ خود اپنے درباریوں کے ساتھ اس میلے میں شریک ہوتا تھا۔ اور باغبانپورہ میں شاہ حسین کے دربار پر گیارہ سو روپے اور ایک جوڑا بسنتی چادروں کا چڑھاوے کے طور پر دیا کرتا تھا۔
تقسیم ہند سے قبل اس میلے میں شرکت کرنے والے لوگوں کی تعداد کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس میلے کا پھیلاؤ دہلی دروازے سے لے کر شالامار باغ تک ہوا کرتا تھااور زائرین کی کثیر تعداد شاہ حسین کے مزار پر چراغ جلایا کرتی تھی اور منتیں مانا کرتی تھی۔ اسی مناسبت سے اس کا نام میلہ چراغاں پڑھ گیا۔شاہ حسین کا عرس ہر سال رجب کی پہلی تاریخ کو ہوا کرتا تھا۔ ایک مرتبہ عرس اور میلہ ایک ہی وقت میں اکٹھے ہو گئے تب سے اس بات کا فیصلہ کیا گیا کہ عرس اور میلہ ہمیشہ اکٹھے ہی منائے جائیں گے اور اس مقصد کے لئے مارچ کا آخری ہفتہ مختص کیا گیا۔اس موقع پر شاہ حسین کے بارے میں مختصراً بتاتا چلوں کہ وہ سلسلہ قادریہ سے فیض یاب ہوئے اور زندگی کے اولین چھتیس سال اسی سلسلے سے وابستہ رہے...     
 ایک روز قرآن کی تفسیر پڑھتے ہوئے اس آیت پر پہنچے ترجمہ ’دنیا ایک کھیل کود کے سوا کچھ نہیں‘ اس آیت کا شاہ حسین پر ایسا اثر ہوا کہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر لال کپڑے پہن کر اور فقیروں کے ملامتیہ فرقے میں شامل ہو گئے اور زندگی کے بقیہ ستائیس برس جذب و سکر کی حالت میں گزارے۔اور موسیقی کے دلدادہ تهے.ہمیشہ کی طرح اس سال بھی ستائیس، اٹھائیس اور انتیس مارچ کو میلہ چراغاں منایا جائے گا- اس سال بھی میلے کے آغاز کے ساتھ ہی مداری،سرکس والے، ڈھولچی، ناچ گانے، اور دیگر دکانوں والے وہاں اپنے کاروبار کے اڈے جما لیتے ہیں۔ایک محتاط اندازے کے مطابق آٹھ سے دس ہزار لوگوں کا روزگار اس میلے سے وابستہ ہوتا ہے۔ یہ میلہ عوام کو محض تفریح فراہم نہیں کرتا اورنہ ہی خالصتاً عرس کی طرح منایا جاتا ہے بلکہ تجارتی مواقع بھی فراہم کرتا ہے۔اب آئیے ہم اس میلہ چراغاں میں شرکت کرتے ہیں اور  آنکھوں دیکھے مناظر کو قلم بند کرتے ہیں...میلہ چراغاں میں داخل ہوتے ہوئے آپ مردوں عورتوں بوڑهوں اور بچوں کا ایک غفیر مجمع دیکهیں گئے جو اپنی اپنی مرادیں لے کر اس میلہ میں شرکت فرما ہوتے ہیں. کچھ شادی شدہ جوڑے حصول اولاد کیلئے یہاں دیئے جلانے آئے ہوتے ہیں اور کچھ اولاد ہونے کے بعد یہاں پر دیئے اور دهمالیں ڈالنے کیلئے آتے ہیں.اور پاکستان بهر سے آئے ہوئے ملنگ اور ملنگنیاں اپنے اپنے انداز میں دهمالیں(رقص)ڈال کر اپنی مرادیں پوری کرواتے ہیں. لیکن مادهو لال کے مزار پر دهمال کا ایک الگ انداز بهی معروف ہے کہ جس میں مرد و عورتیں اور خصوصی ملنگ اپنی گردن کو ایک خاص انداز میں گهماتے ہوئے ڈهول کی تهاپ پر رقص کرتے ہیں عورتیں سنیے چاک کیئے ہوئے بال کهولے ہوئے شرم و حیاء کو وداع کہتےہوئے دیوانوں کی طرح غیر مردوں کے سامنے ناچ کود رہی ہوتی ہیں اور یہ بےحیائی پر مبنی حرکتیں عورتیں باقاعدہ اپنے گھر والوں کی موجودگی اور اجازت سے کررہی ہوتی ہیں.اور یہ رقص ایسے ہی موج مستی کیلئے نہیں کیا جا رہا ہوتا  بلکہ اس کے پس پردہ ایک خاص عقیدہ اور منتیں مرادیں پوشیدہ ہوتی ہیں.اور بعض خواتین و حضرات اپنی مرادوں اور مشکل کشائی کیلئے مزار پر موجود جنگلے کے ساتھ کالے اور سرخ رنگ کے دهاگے باندھتے ہیں اور مراد پوری ہونے پر کهول دی جاتی ہیں اور کچھ لوگ تالے(قفل)بهی باندھتے ہیں.اور میلے میں شریک ملنگ اور ملنگنیوں نے خاص قسم کا لباس اور منکے و تسبیح ،ٹلیاں اور زنجیریں اپنے جسم کے ساتھ باندهی ہوتی ہے.یہ بهی ایک خاص عقیدے اور صاحب مزار کی محبت کے تحت کیا جاتا ہے جس کا مقصد صرف اور صرف صاحب مزار کی نظر کرم اور محبت مقصود ہوتی ہے.اور شاہ حسین مادهو لال کے عرص پر ایک بہت برا ال(آگ کا مچ) جلایا جاتا ہے جس میں اگر بتیاں،موم بتیاں اور دیئے(چراغ)پهینکے جاتے ہیں یوں ہر عرس پر لاکھوں روپے کی ملکیت کی اگر بتیاں اور چراغ اس آگ کے تنور کے سپرد کی جاتی ہیں.
زائرین کا عقیدہ ہے کہ یہاں شاہ حسین مادهو لال کے مزار پر جو بهی آتا ہے اس کی تمام مرادیں پوری ہوتی ہیں. چینل c42 کے نمائندے سے بات کرتے ہوئے مرد و خواتین کا کہنا ہے یہاں پر جو بهی دعا مانگی جائے وہ قبول ہوتی ہے.ایک عورت کہتی ہے کہ مجهے اولاد کی ضرورت تهی میں نے منت مانی کہ یہاں پر دیا جلاوں گی اب مجهے دو بیٹے ملے ہیں. جب تک میری زندگی ہے میں یہاں پر چراغ جلاتی رہوں گی.ایک اور شخص کا کہنا تها  کہ مادهو لال کے مزار پر فیض ہی فیض ہے جو بهی آتا ہے مرادیں لے کر جاتا ہے.بچوں کا رزق ملتا ہے بہت سکون و چین ملتا ہے.اور دنیا نیوز کے نمائندے سے ایک سکھ بات کرتے ہوئے کہتا ہے کہ یہاں پر ہمارے بزرگ حاضریاں دیتے تهے اور ہم بهی انهیں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے یہاں ہر سال سلام کرنے آتے ہیں.اپنے مریدوں کے ساتھ آیا ہوا پیر ناظم حسین شاہ کہتا ہے کہ انہیں بزرگوں کے طفیل شہر لاہور میں زندگیاں ہیں بلکہ سارے پاکستان میں مادهو لال کا فیض ہے.یہاں پر آنے سے مرادیں پوری ہوتی ہیں-یقینی اور آزمائی ہوئی بات ہے-حضرت شاہ حسین عرف مادهو لال کے عرس پر ان گنت غیر اسلامی شرک و خرافات سے لبریز افعال و اعمال سر انجام دئے جاتے ہیں لیکن ہم نے اختصار کے ساتھ چند ایک کا ذکر کیا-گزشتہ سطور میں رقم کردا تمام باتیں اس لنک پر دیکهی جا سکتی ہیں.جس کا ترجمہ ہم نے قارئین کی خدمت میں پیش کیا-
https://youtu.be/GLtGoXMMA28
جاری ہے......

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...