Friday 8 April 2016

مسلمانوں کے مذہبی مسالک، 15

"مسلمانوں کے مذہبی مسالک"
(قسط نمبر 15)
درمیانی نقطہ نظر:
بریلوی حضرات اور شاہ اسماعیل کے نظریات کے درمیان بھی ایک نقطہ نظر ہے جو بعض ماورائے مسلک حضرات نے پیش کیا ہے۔ اس نقطہ نظر کے مطابق شاہ صاحب نے جو کام شرک فی العبادات اور شرک فی العادت کے تحت بیان کی ہیں، یہ سب اس وقت شرک ہیں جب ان کے کرنے والے کا عقیدہ یہ ہو کہ جب بزرگ  کے لیے وہ یہ اعمال انجام دے رہا ہے، کسی درجے میں اللہ تعالی کی قدرت میں شریک ہیں۔ اگر اس کا عقیدہ یہ نہ ہو تو پھر یہ اعمال شرک نہیں ہیں البتہ بدعت ، دین میں اضافہ اور شرک کا وسیلہ ہونے کی وجہ سے حرام ہیں۔
مثال کے طور پر بزرگان دین کے لیے نذر و نیاز کا مسئلہ لیجیے۔ شاہ صاحب اسے شرک قرار دیتے ہیں کیونکہ نذر و نیاز عبادت  ہے اور صرف اللہ تعالی ہی کے لیے انجام دیتے ہیں مگر اس کا ایصال ثواب متعلقہ بزرگ کو کر دیتے ہیں۔ جیسے لاہور میں حضرت علی ہجویری کے مزار پر جو دیگیں پکائی جاتی ہیں،ان کا مقصد یہ نہیں ہوتا ہے کہ یہ دیگیں ان بزرگ ہی کی نذر کے لیے پکائی جا رہی ہیں اور ان سے ان کا تقرب مقصود ہے۔ ان دیگوں کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ غرباء انہیں کھائیں گے تو اس سے ثواب ہو گا۔ اس ثواب کو حضرت علی ہجویری کی خدمت میں بطور تحفہ پیش کر دیا جائے گا۔ اس بنیاد پر ماورائے مسلک حضرات کا کہنا یہ ہے کہ ایسا کر کے بریلوی حضرات شرک نہیں کر رہے تا ہم ان کا یہ عمل بدعت کے زمرے میں آتا ہے۔
{یہاں پر راقم الحروف اپنا ذاتی تجربہ پیش کرتے ہوئے لکهتا ہے کہ میں نے اہل تصوف کے حاملین سے سینکڑوں لوگوں سے سوال کیا کہ آپ صاحب قبر کے مزار پر نزرو نیاز تقسیم اور مختلف چڑهاوےکیوں چڑهاتے ہیں تو مجهے سو فیصد متفقہ جواب ملا کہ ہمارا اصل مقصد صاحب قبر کا تقرب اور توجہ مطلوب ہے-کہ اس عمل سے صاحب قبر ہم سے راضی ہو گا اور ہماری دعاوں کو اللہ کی بارگاہ میں پیش (سفارش)کرنے کے ساتھ ساتھ ہماری مدد استعانت(مدد) بهی کرے گا-}
اگلے ابواب میں ہم ان مسائل سے متعلق سبھی فریقوں کے دلائل کا جائزہ لیں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالاجات:
(ac. 7 Jan 2011) }
www.alahazratnetwork.org
۔1: احمد یار خان نعیمی۔ جاء الحق۔ آن لائن ورژن۔ علم غیب کی بحث۔ ص10} 
{۲۔ حوالہ بالا۔ ص 12-}
{۳۔ حوالہ بالا۔ حاضر و ناظر کی بحث۔ ص67-}
{۴۔ محمد کرم شاہ الازہری۔ تفسیر آیت 1:4۔ تفسیر ضیاء القرآن۔ لاہور ضیاء القرآن پبلی کیشنز 
{(ac. 14 Oct 2011) www.nafseislam.com
{۵۔ احمد رضا خان بریلوی۔ فتاوی افریقہ۔ فتوی: عورتوں کا مزارات پر جانا۔ ص67 ۔ فیصل آباد: مکتبہ نوریہ رضویہ-(ac. 3 Oct 2011)
www.nafseislam.com}
{۶۔ حوالہ بالا۔ ص 68}
{۷۔ احمد رضا خان بریلوی۔ زبدۃ الزکیۃ فی تحریم سجود التحیتہ (عربی)۔ القسم الثانی فی ان تقبیل الارض حرام ص49 گجرات: مرکز اہل السنت
(ac. 14 Oct 2011) www.al-mostafa.org}
{۸۔ احمد یار خان نعیمی۔ حوالہ بالا۔}
{۹۔ شاہ اسماعیل۔ تقویہ الایمان۔ باب شرک کی قسمیں۔ ص47 ریاض: مکتب تعاون برائے دعوت و توعیتہ(ac. 8 Sep 2006)
www.islamhouse.com}

باب 3: مسئلہ علم غیب:
اس باب میں ہم مسئلہ علم غیب کو لے کر فریقین کے دلائل کا مطالعہ کریں گے اور یہ دیکھیں گے کہ ایک فریق جو دلائل پیش کرتا ہے، دوسرا فریق انہیں کس نظر سے دیکھتا ہے۔
سنی بریلوی حضرات کے دلائل:
یہاں ہم وہ دلائل پیش کر رہے ہیں جو سنی بریلوی عالم مفتی احمد یار خان نعیمی (1971-1906) نے اپنے نقطہ نظر کے حق میں اپنی کتاب "جاء الحق" میں پیش کیے ہیں۔ تفصیل کے لیے علم غیب کی بحث کو دیکھا جا سکتا ہے۔
*آدم علیہ الصلوۃ والسلام کا علم:
قرآن مجید میں ہے:
وَعَلَّمَ اٰدَمَ الْاَسْـمَآءَ كُلَّهَا ثُـمَّ عَرَضَهُـمْ عَلَى الْمَلَآئِكَـةِ
"اس اللہ نے آدم کو ہر ایک کا نام سکھا دیا، پھر انہیں ملائکہ کے سامنے پیش فرمایا۔"(البقرۃ 2:31)
مفتی صاحب اس آیت میں تفسیر میں قرون وسطی کی بعض تفسیر مدارک، خازن ابو السعود، روح البیان اور تفسیر کبیر کے حوالے سے بیان کرتے ہیں کہ اس آیت میں جب اشیاء کا ذکر ہے، ان میں دنیا کی ہر چیز کا نام اور اس کی خصوصیات کا علم تھا۔ اسی کا نام "علم ماکان ومایکون" ہے یعنی ماٖضی میں جو کچھ تھا، حال میں جو کچھ ہے اور مستقبل میں جو کچھ ہو گا، اس سب کا علم۔ جب سیدنا آدم علیہ الصلوۃ السلام کو اس درجے کا علم دیا گیا تو پھر افصل الانبیاء ﷺ کے علوم تو کہیں زیادہ ہوں گے۔
اس کے جواب میں سلفی حضرات کا کہنا یہ ہے کہ آیت کریمہ میں یہ بیان نہیں کیا گیا ہے کہ اس میں کن اشیاء کا ذکر ہے۔ یہ مفسرین کی اپنی قیاس آرائیاں ہیں۔ سابقہ مفسرین نے یہ جو کہا ہے کہ جن اشیاء کا ذکر ہے، ان میں دنیا کی ہر چیز کے نام کا علم ہے تو یہ علم غیب نہیں ہے کیونکہ علم غیب کی تعریف یہی ہے کہ وہ علم جو حواس خمسہ اور عقل سے حاصل نہ ہو سکے۔ رہی بات اللہ تعالی کی جانب سے اپنے پیغبر کو علم سکھانے کی تو اس کا انکار ہم بھی نہیں کرتے ہیں۔ سلفی حضرات کا کہنا یہ بھی ہے کہ سابقہ مفسرین کی کوئی بات حجت نہیں ہے۔ انہوں نے جو کچھ کہا، وہ ان کا اپنا نقطہ نظر تھا۔ قرآن کی وہی تفسیر معتبر ہے جو کسی صحیح حدیث یا کسی صحابی کے ثابت شدہ قول پر مبنی ہو۔ اس کے علاوہ جو کچھ بھی ہے، وہ مفسرین کی اپنی رائے ہے جو کہ صحیح بھی ہو سکتی ہے اور غلط بھی۔

*رسول ﷺ کی شفاعت:
قرآن مجید کی آیۃ الکرسی میں ہے:
مَنْ ذَا الَّـذِىْ يَشْفَعُ عِنْدَهٝٓ اِلَّا بِاِذْنِهٖ ۚ يَعْلَمُ مَا بَيْنَ اَيْدِيْهِـمْ وَمَا خَلْفَهُـمْ ۖ وَلَا يُحِيْطُوْنَ بِشَىْءٍ مِّنْ عِلْمِهٓ ٖ اِلَّا بِمَا شَآءَ ۚ
"کون ہے جو اس اللہ کے ہاں بغیر اجازت شفاعت کرے، وہ جانتا ہے جو ان کے سامنے ہے اور جو کچھ ان کے پیچھے ہے۔ اس کے علم میں سے و ہ کسی چیز کا احاطہ نہیں کر سکتے سوائے اس کے جو وہ خود چاہے۔"(البقرۃ 2:255)
مفتی نعیمی صاحب تفسیر روح البیان اور تفسیر نیشاپوری کے حوالے سے کہتے ہیں کہ یہاں
يَعْلَمُ مَا بَيْنَ اَيْدِيْهِـمْ وَمَا خَلْفَهُـمْ یعنی" وہ جانتا ہے جو ان کے سامنے ہے اور جو کچھ ان کے پیچھے ہے" اس میں رسول اللہ ﷺ کا ذکر ہے۔ اس سے حضور ﷺ کے لیے علم غیب ہونا ثابت ہوتا ہے۔
سلفی حضرات کا کہنا یہ ہے کہ اس آیت" وہ جانتا ہے جو ان کے سامنے ہے اور جو کچھ ان کے پیچھے ہے" اس میں رسول اللہ ﷺ کا نہیں بلکہ اللہ تعالی کا ذکر ہے کیونکہ آیت کے سیاق و سباق میں اللہ تعالی ہی کے علم و قدرت کی بات چل رہی ہے۔ پوری آیت الکرسی کو پڑھتے جایئے تو سامنے ہے کہ آیت کا موضوع اللہ تعالی کا علم و قدرت ہے نہ کہ رسول اللہ ﷺ اور بزرگان دین کا علم۔
اَللَّـهُ لَآ اِلٰـهَ اِلَّا هُوَۚ اَ لْحَىُّ الْقَيُّوْمُ ۚ لَا تَاْخُذُهٝ سِنَةٌ وَّّلَا نَوْمٌ ۚ لَّـهٝ مَا فِى السَّمَاوَاتِ وَمَا فِى الْاَرْضِ ۗ مَنْ ذَا الَّـذِىْ يَشْفَعُ عِنْدَهٝٓ اِلَّا بِاِذْنِهٖ ۚ يَعْلَمُ مَا بَيْنَ اَيْدِيْهِـمْ وَمَا خَلْفَهُـمْ ۖ وَلَا يُحِيْطُوْنَ بِشَىْءٍ مِّنْ عِلْمِهٓ ٖ اِلَّا بِمَا شَآءَ ۚ وَسِعَ كُرْسِيُّهُ السَّمَاوَاتِ وَالْاَرْضَ ۖ وَلَا يَئُوْدُهٝ حِفْظُهُمَا ۚ وَهُوَ الْعَلِـىُّ الْعَظِـيْمُ
"اللہ، اس کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ زندہ اور قائم ہے، نہ تو اسے اونگھ آتی ہے اور نہ نیند۔ جو کچھ آسمانوں میں اور زمین میں ہے، اسی کا ہے، کون ہے جو اس اللہ کے ہاں بغیر اجازت شفاعت کرے، وہ جانتا ہے جو ان کے سامنے ہے اور جو کچھ ان کے پیچھے ہے۔ اس کے علم میں سے وہ کسی چیز کا احاطہ نہیں کر سکتے سوائے اس کے جو وہ خود چاہے۔ اس کی کرسی عرش یا اقتدار کا مرکز آسمانوں اور زمین سے وسیع ہے۔ اس کے لیے ان کی حفاظت مشکل نہیں ہے اور وہ بڑا بلند اور عظمت والا ہے۔ (البقرۃ 2:255)
رہی سابقہ مفسرین کی آراء تو وہ دوسرے فریق کے نزدیک حجت نہیں ہیں کیونکہ یہ ان کی اپنی آراء ہیں جن کی کوئی بنیاد قرآن و حدیث میں نہیں ملتی ہے۔ان کے اقوال کو رد بهی کیا جا سکتا ہے اور قبول بهی......-
جاری ہے.....
پہلی بار واٹس اپ پر تقابلی مطالعہ جاری ہے......
مجموعہ هذا میں شامل ہونے کیلئے رابطہ نمبر
0096176390670
00923007003012
ایڈمنسٹریٹر حضرات دیگر گروپ میں پوسٹ کرتے وقت ہمارے نمبرز کی جگہ اپنا نمبر ایڈ کر سکتے ہیں-
البتہ جو ساتھ میں تحریری فتاویٰ ارسال کیے جاتے ہیں وہ صرف میرے گروپ"مسلمانوں کے مذہبی مسالک"میں ہی قابل قبول ہوں گے-دیگر گروپس میں موخذہ دار نہیں ہوں گا-اگرچہ میرے مضمون میں کسی قسم کا ردوبدل نہ کیا گیا تو پھر میں ہی کفیل ہوں گا-

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...