Monday 4 April 2016

اسلام اور خانقاہی نظام، 114

"اسلام اور خانقاہی نظام"
(گزشتہ سے منسلک قسط نمبر114)
سادہ لوح عوام کو لوٹنے کے نئے نئے طریقے:
موجودہ دور میں اگر قوموں اور تہذیبوں کو عروج و ارتقاء حاصل کرنا ہے تو لازم ہے کہ سائنس و ٹیکنالوجی کی روشن راہوں پر گامزن ہوکر تلاش وجستجو کی مشعل فروزاں رکھیں۔آج سائنسی علوم کے بدولت نت نئی ٹیکنالوجی کے انقلابات دیکھنے کو مل رہے ہیں جس نے زندگی کے دھاروں کو بدل کر رکھ دیاہے اور عوامی زندگی کو ایسی سمت دی ہے کہ جس کا پہلے تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا لیکن سائنس و ٹیکنالوجی کی اس حیرت انگیز ترقی کے باوجود ساری دنیا میں بے چینی اور بے سکونی کو فروغ حاصل ہورہا ہے ،کیونکہ بے انتہا بے روزگاری کا دور دورہ  ہے ،خلوص کی فضا نایاب ہے ،ہر شخص دھن دولت کی فراوانی چاہتا ہے ۔لوگ ایسے راستوں کی تلاش میں ہیں جن پر چل کر وہ کم سے کم مدت میں اپنی منزل و مراد۔۔۔۔ حب جاہ کی منزل۔۔۔ چشم زدن میں حاصل کر سکیں ۔موجودہ پُرفتن دور میں اسی نفسا نفسی کے عالم میں ہر شخص ایک دوسرے پر سبقت لینے کی کوشش میں ایسی پر کشش مگر پیچیدہ راہوں پر دوڑ لگا رہا ہے جن کی حقیقی معنوں میں کوئی منزل نہیں ۔ان بے منزل  اور بے جہت راہوں پر چلتے ہوئے لوگوں کی زندگی کا ایک ایک لمحہ وقت کی چھلنی سے نکل کر کہیں ڈوب جاتا ہے ،کہیں مٹ جاتا ہے  اور تاریخ کے اوراق میں متاعِ گم گشتہ بن جاتا ہے ۔تذبذب، انتشار اور بے پناہ نفسانی خواہشات کے گرداب میں غرقآب لاکھوں لوگ جن میں زیادہ تر تعداد خواتین کی شامل ہے ،منفی روایتوں کی اندھی تقلید میں مصروفِ عمل ہیں۔ایک طرف لوگ جدید سائنسی علوم اور ٹیکنالوجی سے بھر پور استفادہ کر رہے ہیں ،دوسری طرف عہد جاہلیت کی کچھ فرسودہ چیزیں اور روایتیں صدیوں سے آج تک انسانی ذہن کو اپنی گرفت میں لئے ہوئے ہیں۔عصر حاضر میں ایسے لوگوں کی کوئی کمی نہیں جو کاروبار میں نفع یا نقصان،بیماری اور علاج،نفرت اور محبت اور دوستی و دشمنی جیسے کوائف کی شدت کو جادُو گری سمجھتے ہیں اور ہر مقصد کے لئے شیطان صفت جعلی عامل اور پیروں کا سہارا لینے کی کوشش کرتے ہیں۔ان لوگوں کو اپنے دین پر بھروسہ متزلزل ہے یا اپنی صلاحیتوں پر اعتبار نہیں ۔جب کہ سائنس و ٹیکنالوجی کا علم بھی اُن  کے لئے بے مقصد اور بے ثمرہ سعی و کاوش ہے -پاکستان کے طول و عرض میں آئے دن ایسے انکشافات ہوتے ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ نقلی پیر و فقیر اور جعلی عامل کس طرح لوگوں کو ٹھگ کر اُن سے مال ودولت لُوٹ لیتے ہیں ۔عورتیں خاص طور سے اس ٹھگی کا شکار بن جاتی ہیں ۔بہت ساری سادہ لوح عورتیں شوہر کی ترقی ،مالی آسودگی ،مرض کی شفایابی ،ساس سسر ،دیور نند سے چھٹکارا پانے ،پڑوسی کو نقصان پہنچانے کی حسد میں جل کر اور خود کو لوگوں کی  اپنی ہی خیال کردہ نظر بد سے بچانے کے لئے جعلساز اور شیطان صفت ڈھونگیوں کے چنگل میں پھنس جاتی ہیں ۔جہاں نہ صرف اُن سے ہزاروں روپے لوُٹ لئے جاتے ہیں بلکہ بعض اوقات اُن کا جنسی استحصال بھی کیا جاتا ہے۔بدقسمتی سے ملک پاکستان میں اس طرح کے جعلسازوں اور نقلی درویشوں یا رنگے سیاروں کا ایک وسیع نیٹ ورک قائم ہو چکا ہے ۔ان لوگوں نے پاکستان کے طول و عرض میں اپنے ٹھکانے قائم کئے ہوئے ہیں اور ان ٹھکانوں کو اس طرح زبردست فنی مہارت سے سجایا ہے کہ عام انسان اس وہم میں مبتلا ہوجاتا ہے کہ یہ جگہ طلسماتی کرشموں کو انجام دینے کے لئے خاص اور انتہائی اثر انگیز ہے۔اور اپنے آستانوں کو خانقاہی کلچر سے مزین کیا ہوتا ہے تاکہ سادہ لوح عوام یہ سمجهیں کہ یہ پیروں فقیروں سے محبت کرنے والے ہیں. ... کم تعلیم یافتہ اور جاہل طبقے کا کوئی قصور نہیں کیونکہ یہ جاہلیت سے نکلنا ہی نہیں چاہتے، لیکن افسوس کا مقام یہ ہے کہ پڑھے لکھے لوگ، اور بظاہر سنجیدہ اور مہذب شہری بھی ان فرسودہ روایات کے اسیر نظر آتے ہیں۔جادو ٹونہ اور جهوٹی کرامات سنا سنا کر  سادہ لوح اور مصیبت کے مارے لوگوں کو متاثر کرنے ، انہیں خوفزدہ کرنے، اور اُن سے رقومات لوٹنے کے لئے یہ لوگ اس بات کا دعویٰ کرتے ہیں کہ اُن کے ماتحت کئی جن اور بھوت ہیں، جن سے کوئی بھی من چاہا کام لے سکتے ہیں۔ اس دعوے کو ثابت کرنے کے لئے وہ کبھی کبھی عجیب وغریب حرکتیں کرتے ہیں، اور ناداں لوگوں کو یقین ہو جاتا ہے کہ یہ ٹھگ زبردست طلسماتی طاقت کا مالک ہے، اور کچھ بھی کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، دیکھنے میں آیا ہے کہ روحوں کے ساتھ بات کرنے کا دعویٰ کرنے والے، اور ایسے ہی مختلف عرفیت اختیار کرنے والے چالاک وعیار لوگ اپنی سحر انگیز اور گھاگ باتوں سے اچھے بھلے لوگوں کو مکردہ جال میں جکڑ لیتے ہیں اور وہ عہد جاہلت کے لوگوں کی طرح اندھے اعتقاد کے ہاتھوں مغلوب ہو جاتے ہیں۔ اگر حسن اتفاق سے ان جعلی عاملوں اور پیروں کی کوئی بات درست ثابت ہو جائے تو اُن کی چاندی ہو جاتی ہے۔ اس بات کا خوب چرچا کیا جاتا ہے کہ وہ لوگ بھی، جوان خرافات سے دور ہو تے ہیں وہ بھی اُن کی جانب متوجہ ہونے لگتے ہیں۔ اس طرح کم عقل متعقدین کا دائرہ وسیع ہوتا جاتا ہے۔ جعلی فقیروں اور درویشوں کے اپنے ایجنٹ بھی ہوتے ہیں جوکہ ماہانہ تنخواہیں حاصل کر کے پیری فقیری کا لبادہ اوڑھے جعلسازوں کے ایسے طلسماتی کرشموں کی تشہیر کر تے پھرتے ہیں جن کی کوئی حقیقت نہیں ہوتی۔ یہ ایک ایسی اشتہار بازی کی طرح ہوتی ہے جو آج کل بڑے چاؤ سے پرنٹ والیکٹرانک میڈیا میں زیادہ نظر آتی ہے، مثلاً یہ ہے کہ آپ ہم سے  لاکٹ خرید کر پہن لیں تو آپ کے گھر میں دھن کی ورشا  ہو جائے گی۔فلاں درگاہ کے پتهر سے بنا لاکٹ یا انگوٹھی پہنے تمام رکاوٹیں دور ہوں گی.فلاں پیر کی زیارت کرنے سے دلی مرادیں پوری ہوں گی.فلاں دربار پر چادر چڑھانے سے زندگی کی مشکلات دور ہوں گی..فلاں بابا بڑے پہنچے ہوئے ہیں ان کے مزار پر دهمال ڈالنے سے مال و اولاد میں برکت ہو گی .اور پیروں کی جهوٹی قصے کہانیاں اور من گھڑت کرامات کا پرچار کیا جاتا ہے...
الغرض ہر ضرورت کی تکمیل کیلئے کوئی نہ کوئی بابا ضرور بنایا ہوتا ہے...
مقصد صرف یہ ہوتا ہے کہ غیر ضروری خواہشات کے جنگل میں بھٹک رہے آوارہ ذہن لوگوں یا سیدھے سادھے  انسانوں کو سبز باغ دکھا کر ورغلایا جائے اور ان سے چٹکیوں میں بڑی بڑی رقومات لوٹ لی جاتی ہے۔اب تو عوام کو لوٹنے کیلئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اور صحابہ کرام کا عرس بهی منایا جانے لگا ہے ...
تشویش کی بات یہ ہے کہ ہمارے ملک پاکستان جس کو توحید کے نام پر حاصل کیا گیا تها-اب اس میں سینکڑوں بلکہ ہزاروں کی تعداد میں جعلی عامل اور جعلی پیر قانون اور سرکار کی ناک کے نیچے اس طرح کے مکروہ کاروبار میں مصروف ہیں، جو نہ صرف دینِ انسانیت کو بدنام کرنے کاباعث بنتے ہیں بلکہ لوگوں کی زندگی بھر کی کمائی پرکھلم کھلا ڈاکہ ڈالتے ہیں۔ پولیس اور متعلقہ ایجنسیاں اُن کے خلاف کوئی کارروائی کیوں نہیں کرتیں ،یہ ہنوز ایک معمہ ہی ہے۔ اس شرک و بدعت کا خاتمہ کرنے کیلئے سرکاری، انفرادی اور اجتماعی کوششوں کی اشد ضرورت ہے۔
جاری ہے......
www.islam-aur-khanahi-nizam.blogspot.com

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...