Friday 8 April 2016

مسلمانوں کے مذہبی مسالک، 12

"مسلمانوں کے مذہبی مسالک"
(قسط نمبر12)
باب 2: توحید و شرک سے متعلق مباحث:
مسلمانوں کے تمام مکاتب فکر اس بات پر متفق ہیں کہ دین اسلام کی بنیادی دعوت توحید ہے۔ شرک اکبر الکبائر یعنی سب سے بڑا گناہ ہے جس کی سزا ابدی جہنم ہے۔ بعض مسائل ایسے ہیں جن میں اہل حدیث سلفی حضرات کا نقطہ نظر یہ ہے کہ روایتی مکاتب فکر کے لوگ کسی نا کسی درجے میں شرکیہ عقائد اور رسوم میں مبتلا ہیں۔ روایتی مکاتب فکر کے لوگ اس کی سختی سے تردید کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ وہ ہرگز کسی قسم کے شرک میں مبتلا نہیں ہیں۔ وہ مسائل یہ ہیں۔
*انبیا ء و اولیاء کے بارے میں یہ عقیدہ رکھنا کہ انہیں غیب کا علم ہے۔
*انبیاء کرام اور اولیاء اللہ کو حاضر و ناظر ماننا۔
*انبیاء کرام علیہم السلام اور اولیاء اللہ کو پکارنا اور ان سے مدد مانگنا-
*مزارات پر نذر و نیاز اور چڑھاوے چڑھانا-
ان مسائل میں سے پہلے تین کا تعلق عقیدہ سے ہے اور چوتھے کا عمل سے۔ ان مسائل میں سنی بریلوی بعض سنی دیوبندی اور اہل تشیع ایک نقطہ نظر کے حامل ہیں جسے ہم آسانی کے لیے ’’فریق اول’’ کہہ سکتے ہیں ۔ اس کے برعکس اہل حدیث اور اکثر سنی دیوبندی یا ماورائے حضرات کا نقطہ نظر ان سے مختلف ہے اور اسے آسانی کے لیے ہم ’’فریق دوم’’ کہیں گے۔ اس باب میں ہم ان اختلافی مسائل میں سے ان مسائل میں جانبین کے نقطہ ہائے نظر کا جائزہ لیں گے اور اگلے ابواب میں فریقین کے دلائل کا مطالعہ کریں گے۔
فریق اول کا نقطہ نظر؛
مسئلہ علم غیب:
غیب کی تعریف پر بالعموم سبھی مکاتب فکر میں اتفاق رائے پایا جاتا ہے۔ سنی بریلوی عالم مفتی احمد یار خان نعیمی صاحب 1971-1906 کے الفاظ میں:
غیب وہ چھپی ہوئی چیز ہے جس کو انسان نہ تو آنکھ، ناک ، کان وغیرہ حواس سے محسوس کر سکے اور نہ بلا دلیل بداہتاً عقل میں آ سکے۔ لہذا پنجاب والے کے لیے بمبئی غیب نہیں کیونکہ وہ یا تو آنکھ سے دیکھ آیا ہے یا سن کر کہہ رہا ہے کہ بمبئی ایک شہر ہے۔ یہ حواس سے علم ہوا۔ اسی طرح کھانوں کی لذتیں اور ان کی خوشبو وغیرہ غیب نہیں کیونکہ یہ چیزیں اگر آنکھ سے چھپی ہیں مگر دوسرے حواس سے معلوم ہیں۔ جن ، ملائکہ اور جنت و دوزخ ہمارے لیے اس وقت غیب ہیں کیونکہ نہ ان کو حواس سے معلوم کر سکتے ہیں اور نہ بلا دلیل عقل سے۔ غیب دو طرح کا ہے ایک وہ جس پر کوئی دلیل قائم ہو سکے، یعنی دلائل سے معلوم ہو سکے۔ دوسرا وہ جس کو دلیل سے بھی معلوم نہ کر سکیں۔ پہلے غیب کی مثال جیسے جنت دوذخ اور خدائے پاک کی ذات و صفات کہ عالم کی چیزیں اور قرآن کی آیات دیکھ کر ان کا پتہ چلتا ہے۔ دوسرے غیب کی مثال جیسے قیامت کا علم کہ کب ہو گی، انسان کب مرے گا اور عورت کے پیٹ میں لڑکا ہے یا لڑکی بدؓخت ہے یا نیک بخت کہ ان کو دلائل سے بھی معلوم نہیں کر سکتے۔ اسی دوسرے غیب کو مفاتیح الغیب کہا جاتا ہے۔
سنی بریلوی حضرات اور بعض سنی دیوبندی حضرات کا نقطہ نظریہ ہے کہ علم غیب دو قسم کا ہے: ذاتی اور عطائی۔ علم ذاتی وہ ہے جو کسی ہستی کو خود حاصل ہو۔ یہ صرف اور صرف اللہ تعالی کے لائق ہے۔ جو شخص یہ مانے کہ کسی بھی مخلوق کو علم ذاتی حاصل ہے، وہ بالا تفاق سب کے نزدیک مشرک ہے۔ دوسرا علم عطائی ہے یعنی اللہ تعالی کسی کو علوم غیبیہ میں سے کچھ عطا کر دے۔ اس قسم کے علم غیب کے اثبات کے بریلوی اور بعض دیو بندی حضرات قائل ہیں۔ مفتی احمد یار خان نعیمی لکھتے ہیں:
علم غیب کی تین صورتیں ہیں اور ان کے علیحدہ علیحدہ احکام ہیں (از خالص الا عتقاد صفحہ 5)
قسم اول
1: اللہ عزوجل عالم بلذات ہے۔ اس کے بغیر بتائے کوئی ایک حرف بھی نہیں جان سکتا۔
2: حضور علیہ السلام اور دیگر انبیائے کرام کو رب تعالی نے اپنے بعض غیوب کا علم دیا۔
3: حضور علیہ السلام کا علم ساری خلقت سے زیادہ ہے۔ حضرت آدم و خلیل علیہا السلام اور ملک الموت اور شیطان بھی خلقت ہیں۔ یہ تین باتیں ضروریات دین میں سے ہیں ان کا انکار کفر ہے۔
قسم دوم
1: اولیائے کرام کو بھی بالواسطہ انبیائے کرام سے کچھ علوم غیب ملتے ہیں۔
2: اللہ تعالی نے حضور علیہ الصلاۃ والسلام کو پانچ غیبوں میں سے بہت جزئیات کا علم دیا۔ جو اس قسم دوم کا منکر ہے وہ گمراہ اور بدمذہب ہے کہ صدہا احادیث کا انکار کرتا ہے۔
قسم سوم
1: حضور علیہ السلام کو قیامت کا بھی علم ملا کہ کب ہو گی۔
2:  تمام گزشتہ اور آئندہ واقعات جو لوح محفوظ میں ہیں، ان کا بلکہ ان سے بھی زیادہ کا علم دیا گیا۔
3: حضور علیہ السلام کو حقیقت روح اور قرآن کے سارے متشابہات کا علم دیا گیا۔
مسئلہ حاضر و ناظر:
علم غیب کے بعد دوسرا بڑا اختلافی مسئلہ ’’حاضر و ناظر’’ کا ہے۔ مفتی احمد یار خان نعیمی لکھتے ہیں:
مختار الصحاح میں ابن ابی بکر رازی کہتے ہیں: جہاں تک ہماری نظر کام کرے وہاں تک ہم ناظر ہیں اور جس جگہ ہماری دسترس ہو کہ تصرف کر لیں وہاں تک ہم حاضر ہیں۔ آسمان تک نظر کام کرتی ہے، وہاں تک ہم ناظر یعنی دیکھنے والے ہیں مگر وہاں ہم حاضر نہیں کیونکہ وہاں دسترس نہیں۔ اور جس حجرے یا گھر میں ہم موجود ہیں، وہاں حاضر ہیں کہ اس جگہ ہماری پہنچ ہے۔
عالم میں حاضر و ناظر کے شرعی معنی یہ ہیں کہ قوت قدسیہ والا ایک ہی جگہ رہ کر تمام عالم کو اپنے کف (دست ہاتھ کی ہتھیلی) کی طرح دیکھے اور دور و قریب کی آوازیں سنے یا ایک آن میں تمام عالم کی سیر کرے اور ہزاروں میل پر حاجت مندوں کی حاجت روائی کرے۔  یہ رفتار خواہ صرف روحانی ہو یا جسم مثالی کے ساتھ ہو یا اسی جسم سے ہو جو قبر میں مدفون یا کسی جگہ موجود ہے۔ ان سب معنی کا ثبوت بزرگان دین کے لیے قرآن و حدیث اور اقوال علماء سے ہے۔
سنی بریلوی حضرات کا نقطہ نظر اس ضمن میں یہ ہے کہ انبیاء کرام اور اولیاء اللہ کو اللہ تعالی نے طاقت عطا کی ہے کہ وہ اپنی قبر یا کسی ایک مقام پر رہتے ہوئے پورے عالم کو دیکھتے ہیں، اس میں تصرف کر سکتے ہیں اور وہ کائنات میں جہاں چاہیں پہنچ کر اپنے مریدوں کی مافوق الاسباب (larutan-repus) طریقے سے مدد کر سکتے ہیں۔اب ہم ایک ایک موضوع پر تفصیلی گفتگو کریں گے-جاری ہے.......
نوٹ:یہاں پر ہم سنی بریلوی مکاتب فکر کی طرف سے اس تحریر کی تصدیق  شدہ تحریری سند اور فتویٰ کی فوٹو کاپی بهی سینڈ کر رہے ہیں-اگر ایک لفظ بهی ہمارا بے بنیاد یا جهوٹ پر مبنی ہوا تو گروپ کے تمام ممبران کو  اپنے مکاتب فکر کی ترجمانی کرنے کا پورا پورا حق محفوظ ہے.غلطی کی صورت میں ہم دوبارہ ترمیم کے ساتھ قسط نشر کر دیں گئے. 

مجموعہ هذا میں شامل ہونے کیلئے رابطہ؛
0096176390670

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...