Friday 22 April 2016

مسلمانوں کے مذہبی مسالک، قسط نمبر25

"مسلمانوں کے مذہبی مسالک"
(قسط نمبر 25)
[سنی بریلوی حضرات میں ایک نیا رجحان:
سنی بریلوی حضرات اس بات کو سمجھتے ہیں کہ ان کے اور سلفی حضرات کے مابین سب سے شدید اختلاف یہی استعانت لغیر اللہ کا مسئلہ ہے۔ دور جدید میں ان کے ہاں ایک نیا رجحان یہ پیدا ہو رہا ہے کہ قرآن مجید اور احادیث میں جس شدت کے ساتھ توحید کو بیان کیا گیا ہے اور جس طریقے سے صرف اللہ ہی سے مانگنے کا حکم دیا گیا ہے، اس کو مدنظر رکھتے ہوئے مانگا صرف اللہ ہی سے جائے۔
لیکن اگر غیر اللہ سے کوئی مدد مانگے تو اسے شرک نہ کہا جائے-]
سنی بریلوی عالم علامہ غلام رسول سعیدی (1937-بی) لکھتے ہیں:
خلاصہ یہ ہے کہ نداء غیر اللہ اعتقاد مذکور کے ساتھ ہر چند کہ جائز ہے، لیکن افضل، اولی اور احسن یہ ہے کہ اللہ تعالی سے سوال کیا جائے اور اسی سے استمداد اور استعانت کی جائے جیسا کہ حدیث مذکور (ترمذی میں ابن عباس والی) کا تقاضا ہے۔
*انبیاء علیہم السلام اور اولیاء کرام سے استمداد ، نداء اور توسل کے متعلق میں نے بہت طویل بحث کی ہے کیونکہ ہمارے زمانہ میں اس مسئلہ میں جانبین سے غلو کیا جاتا ہے۔ شیخ ابن تیمیہ ابن القیم اور ابن الہادی کے پیروکار اور علماء نجد غیر اللہ سے استمداد اور وصال کے بعد ان کے توسل سے دعا مانگنے کو ناجائز اور شرک کہتے ہیں اور بعض غالی اور ان پڑھ عوام اللہ سے دعا مانگنے کی بجائے ہر معاملہ میں غیر اللہ یعنی بزرگوں سے مدد مانگنے کی دہائی دیتے ہیں انہی کو پکارتے ہیں اور انہی کی نذر مانتے ہیں۔سو میں نے چاہا کہ قرآن مجید ، احادیث صحیحہ، آثار صحابہ اور فقہاء اسلام کی عبارات کی روشنی میں حق کو واضح کروں، تاکہ بلاوجہ کسی مسلمان کو مشرک کہا جائے نہ اللہ تعالی سے دعا اور استعانت کا رابطہ منقطع کیا جائے اور نہ ابنیاء علیہم السلام اور اولیاء کرام کی تعظیم و تکریم میں کوئی کمی کی جائے۔
اس نقطہ نظر کو عام بریلوی حلقوں میں ابھی مقبولیت حاصل نہیں ہو سکی ہے اور سعیدی صاحب کو اس کی وجہ سے اپنے ہم مسلک حضرات کی جانب سے شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا ہے۔(غلام رسول سعیدی -شرح مسلم-جلد 7ص91-لاہور:فرید بک اسٹال 2003 )accessed 3 oct 2011)
www.nafseislam.com
مسئلہ شفاعت:
مسئلہ استعانت کا ایک ضمنی پہلو مسئلہ شفاعت ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ روز قیامت رسول اللہ ﷺ شفاعت کر کے اپنے امتیوں کو بخشوا لیں گے۔ سنی بریلوی حلقوں میں رسول اللہ ﷺ کی شفاعت کے حصول پر بہت زور دیا جاتا ہے تاہم تمام سنی بریلوی علماء اس بات پر متفق  ہیں کہ شفاعت  ایسی چیز نہیں ہے جس پر تکیہ کر کے انسان جو چاہے برے کام کرتا رہے۔ ان کے نزدیک شفاعت اسی صورت میں حاصل ہو سکے گی جب انسان نے خود نیک اعمال کی کوشش کی ہو گی۔
اہل حدیث، دیوبندی اور ماورائے مسلک حضرات شفاعت کے قطی منکر نہیں ہیں البتہ ان کا کہنا یہ ہے کہ شفاعت کا مقصد یہ ہو گا کہ رسول اللہ ﷺ کی عظمت کو دنیا کے سامنے ظاہر کر دیا جائے۔ یہ آپ کی شان کا اظہار ہو گا نہ کہ امت کو کھلی چھٹی دے دی گئی ہے کہ وہ جو چاہے کرتے  پھریں۔ اس کے علاوہ یہ شفاعت انہی افراد کے لیے ہو گی جن کے لیے اللہ تعالی اجازت دے گا۔
چونکہ اس ضمن میں مختلف مسالک کے علماء کے مابین کوئی اصولی نوعیت کا اختلاف نہیں ہے، اس وجہ سے ہمیں اس موضوع پر جانبین کے دلائل پیش کرنے کی ضرورت نہیں ہے تاہم یہ واضح کر دینا ضروری ہے کہ بہت سے عام بریلوی لوگ، محض شفاعت کے عقیدے پر بھروسہ کرتے ہوئے گناہ کرتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ یا بزرگان دین انہیں بخشوا لیں گے۔ انہیں راضی رکھنے کے لیے وہ بڑی باقاعدگی سے ان کے مزارات پر جاتے ہیں، وہاں دھوم دھام سے تقریبات منعقد کرتے ہیں، ایصال ثواب کی مجالس میں شرکت کرتے ہیں، مزارات پر دیگیں پکواتے اور چڑهاوے چڑهاتے ہیں، مزارات کو سونے کا بنواتے ہیں اور اس طرح کے بہت سے افعال کرتے ہیں۔ واضح رہے کہ یہ طرز عمل عام بریلوی افراد کا ہے۔ ان کے اس طرز عمل پر بعض سنی بریلوی علماء تنقید کرتے ہیں البتہ اکثر بریلوی علماء اس معاملے میں خاموش رہتے ہیں۔
مسئلہ حیات النبی ﷺ:
مسئلہ استعانت لغیر اللہ کا ایک جزوی پہلو حیات النبی کا مسئلہ ہے۔ سنی بریلوی حضرات کا موقف یہ ہے کہ نبی کریم ﷺ اپنی قبر مبارک میں زندہ ہیں۔ اور ان حضرات کے نزدیک دیگر انبیاء، شہیداء اور اولیاء اللہ بھی زندہ ہیں۔ انبیاء و اولیاء کو وفات کے بعد دوبارہ زندہ کر دیا جاتا ہے۔ بریلوی حضرات ان ہستیوں کی وفات کے لیے "موت" کے لفظ کے استعمال کو بالعموم بے ادبی سمجھتے ہیں اور اس کے لیے"وصال" کا لفظ استعمال کرتے ہیں۔
اس کے برعکس اہل حدیث اور ماورائے مسلک حضرات کا کہنا یہ ہے کہ انبیاء و اولیاء دنیاوی زندگی سے وفات پا کر اپنی برزخی زندگی میں زندہ ہیں اور اپنے رب کے ہاں رزق پاتے ہیں اور ہمیں اس کا کوئی شعور نہیں ہے۔
سنی دیوبندی حضرات کے ہاں اس مسئلے پر دو گروہ موجود ہیں جو کہ "حیاتی" اور "مماتی" کہلاتے ہیں۔جس کا مختصر تعارف درج ذیل ہے:کچھ عرصہ پہلے پیشتر نبی اکرم ﷺکی حیات فی القبر کے بارے میں دیوبندی جماعت میں اختلاف رونما ہوا اور اس کے نتیجے میں حیاتی اور مماتی دو گروہ(فرقے)بن گئے -حیاتی نبی اکرم ﷺ کی وفات کے بعد ان کی خاص طرح کی حیات قائل ہیں جس کی وضاحت "افکاروعقائد"کے حصے میں آئے گی جبکہ مماتی نبی کریم ﷺکی وفات کے قبر مبارک میں حیات کے قائل نہیں ہیں-مولانا حافظ ظفراللہ شفیق نے ہمیں لاہور میں ایک ملاقات میں بتایا کہ دونوں گروہوں کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنے کیلئے مولانا قاری طیب دارالعلوم دیوبند ، بهارت سے پاکستان تشریف لاتے رہے ہیں -اس سلسلے میں موجودہ صورت حال پر بات کرتے ہوئے مولانا انوار الحق حقانی نے راقم سے فرمایا:حیات و ممات کو ماننے والے دونوں فرقے دیوبندیوں میں ہیں لیکن زیادہ تر حیاتی ہیں-مماتی آٹے میں نمک کے برابر بهی نہیں ہیں-ہمارے جو اکابر تهے مولانا قاری محمد طیب،مولانا شیخ الاسلام حسین احمد،مولانا رشید احمد گنگوئی سب حیاتی تهے-میرے والد صاحب مولانا عبدالحق اور قاری محمد سعید جیسے جتنے اکابر گزرے ہیں حیات کے قائل ہیں-جب کہ دوسروں کا نظریہ یہ ہے کہ جیسے عام آدمی مرتا ہے رسول اللہﷺبهی ایسے ہیں-( پاکستان کے دینی مسالک، تالیف:ثاقب اکبر، زیر اہتمام اسلامی نظریاتی کونسل)اسی طرح سنی بریلوی بهی آپ ﷺ کو قبر مبارک میں حیات ہی مانتے ہیں-]
اس مسئلے میں غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اصل اختلاف اس بات پر نہیں ہے کہ انبیاء و اولیاء زندہ ہیں یا نہیں بلکہ اس بات پر ہے کہ ان کی زندگی کی کیفیت کیا ہے۔ سنی بریلوی  اور حیاتی دیوبندی حضرات کے نزدیک ان کی برزخی زندگی، عام زندگی جیسی ہوتی ہے بلکہ بریلوی حضرات کے نزدیک انہیں دنیاوی زندگی سے بڑھ کر کہیں طاقتیں مل جاتی ہیں جن سے وہ اپنے امتیوں اور پیروکاروں کے مدد کرتے ہیں۔ سلفی اور مماتی دیوبندی حضرات کے نزدیک ایسا نہیں ہوتا اور ان کی زندگی کا ہم سے کوئی تعلق نہیں ہوتا ہے۔
اس ضمن میں جانبین جو دلائل پیش کرتے ہیں، وہ کم و بیش وہی ہیں جو ہم استعانت لغیر اللہ کے ضمن میں بیان کر چکے ہیں۔(تفصیل کیلئے گزشتہ اقساط کا مطالعہ کریں)
مسئلہ سماع موتی:
اسی سے متعلق ایک اور مسئلہ بھی ہے جسے مذہبی لٹریچر میں "سماع موتی " کے مسئلہ کہا جاتا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ کیا مردے سن سکتے ہیں یا نہیں؟ سلفی اور مماتی دیوبندی حضرات کا موقف یہ ہے کہ فوت شدہ لوگ نہیں سن سکتے ہیں چنانچہ وہ کسی کی مدد کے قابل نہیں ہیں۔ اس کے برعکس بریلوی اور حیاتی دیوبندی حضرات بالعموم اس کے قائل ہیں کہ فوت شدہ لوگ سن سکتے ہیں اور اسی بنیاد پر بریلوی حضرات کا موقف ہے کہ وہ پکارنے والوں کے مدد کو بھی پہنچ سکتے ہیں۔ سنی بریلوی اور حیاتی دیوبندی حضرات کے نقطہ نظر میں فرق یہ ہے کہ دیوبندی حضرات سننے کو قبر کے قریب تک محدود مانتے ہیں۔ یعنی اگر ایک شخص قبر کے قریب کھڑا ہو کر کوئی بات کرے تو ان کے نزدیک مردہ سنتا ہے۔ اس کے برعکس بریلوی حضرات کا موقف یہ ہے کہ فوت شدہ انبیاء اور اولیاء کو ایسی طاقتیں مل جاتی ہیں کہ وہ جہاں بھی ہوں، اپنے مریدوں کی پکار سن سکتے ہیں اور ان کی مدد کو پہنچ سکتے ہیں۔
سماع موتی کے عدم قائلین کے دلائل:
سماع موتی کے عدم قائلین اپنے نقطہ نظر کے حق میں قرآن مجید کی یہ آیات پیش کرتے ہیں:
وَمَا يَسْتَوِى الْاَحْيَآءُ وَلَا الْاَمْوَاتُ ۚ اِنَّ اللّـٰهَ يُسْمِـعُ مَنْ يَّشَآءُ ۖ وَمَآ اَنْتَ بِمُسْمِـعٍ مَّنْ فِى الْقُبُوْرِ 22 اِنْ اَنْتَ اِلَّا نَذِيْرٌ 23
مردے اور زندہ برابر نہیں ہیں۔ اللہ جسے چاہے، سنا دے مگر (اے پیغمبر!) آُ ان لوگو کو نہیں سنا سکتے ہیں جو قبروں میں ہیں کیونکہ آپ تو محض خبردار کرنے والے ہیں۔ (الفاطر 35:22:23)
اِنَّكَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتٰى وَلَا تُسْمِـعُ الصُّمَّ الـدُّعَآءَ اِذَا وَلَّوْا مُدْبِـرِيْنَ
یقینا آپ مردوں کو سنا نہیں سکتے اور نہ ہی اس بہرے کو پکار سنا سکتے ہیں جو پیٹھ پھیر کر بھاگا جا رہا ہو۔ (النمل 27:80)
اَلَـهُـمْ اَرْجُلٌ يَّمْشُوْنَ بِـهَا ۖ اَمْ لَـهُـمْ اَيْدٍ يَّبْطِشُوْنَ بِـهَا ۖ اَمْ لَـهُـمْ اَعْيُـنٌ يُّبْصِرُوْنَ بِـهَا ۖ اَمْ لَـهُـمْ اٰذَانٌ يَّسْـمَعُوْنَ بِـهَا ۗ قُلِ ادْعُوْا شُرَكَـآءَكُمْ ثُـمَّ كِيْدُوْنِ فَلَا تُنْظِرُوْنِ
یہ جن لوگوں کو اللہ کے سوا پکارتے ہیں، وہ تم لوگوں جیسے ہی بندے ہیں۔ تو اگر تم سچے ہو تو انہیں پکارو تا کہ وہ تمہیں جواب دیں۔ کیا ان کے پاؤں ہیں جب سے وہ چلتے ہوں؟ یا ان کے ہاتھ ہیں جن سے وہ پکڑتے ہوں؟ یا ان کی آنکھیں ہیں جس سے وہ دیکھتے ہوں؟ یا ان کے کان ہیں جن سے وہ سنتے ہوں؟ (اے نبی!) آپ فرمائیے کہ بلاؤ اپنے ان شریکوں کو، پھر میرے خلاف تدابیر کرو اور مجھے ہرگز مہلت مت دو۔
سماع موتی کے عدم قائلین کا کہنا یہ ہے کہ ان آیات سے یہ بات بالکل واضح ہے کہ مردوں کا اس دنیا سے کوئی تعلق نہیں ہوتا ہے اور وہ سن نہیں سکتے ہیں۔
جاری ہے..
مجموعہ هذا میں شامل ہونے کیلئے رابطہ نمبر  مستورات کیلئے علیحدہ گروپ موجود ہے
00961 76 390 670

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...