Monday 4 April 2016

اسلام اور خانقاہی نظام، 124

'اسلام اور خانقاہی نظام'
(گزشتہ سے منسلک قسط نمبر124)
پیر اور بیعت
میرے سوالات حسبِ ذیل ہیں:

 کیا اسلام میں پیرو مرشد کی کوئی گنجایش ہے ؟ اور کیا عام لوگوں کو اپنے پیروں ہی کی پیروی کرنی چاہیے.....؟
پیر لوگ نئے آنے والوں سے بیعت لیتے ہیں اور نوجوان لوگ اس معاملے میں اتنے جوش و خروش کا مظاہرہ کرتے ہیں کہ والدین کے نافرمان تک بن جاتے ہیں اور زیادہ مسئلہ ہونے کی صورت میں ماں باپ کا گھر بھی چھوڑ دیتے ہیں۔ وہ پیر کے الفاظ کو قرآن کے الفاظ سے زیادہ اہمیت دیتے ہیں حالانکہ قرآن میں صاف لکھا ہوا ہے کہ اولاد اپنے والدین کی نافرمانی کسی حال میں بھی نہیں کر سکتی، ہاں اگر ماں باپ کفر و شرک کا حکم دینے لگیں تو بلاشبہ ان کی بات نہیں مانی جائے گی۔میں نوجوانوں کے اس طرزِ عمل اور اسلام میں پیر و مرشد کے مقام کو قرآن و سنت کی روشنی میں سمجھنا چاہتا ہوں؟
جواب:
آپ کے سوالات کے ترتیب وار جوابات درج ذیل ہیں:
۱۔پیر کا کوئی تصور اسلام میں نہیں پایا جاتا۔ یہ اہل تصوف کا متعارف کرایا ہوا ایک طریقہ ہے جس میں عام لوگوں کو اصلاح کی غرض سے کسی ایک شخص سے وابستہ کر دیا جاتا ہے ۔ تاہم اس طریقے میں جتنے فوائد ہیں اتنے ہی نقصانات کا اندیشہ ہے ۔مشاہدہ یہ بتاتا ہے کہ پیر پرستی اکثر اوقات شرک، توہمات اوربدعات و خرافات وغیرہ کی طرف لے جانے کا باعث بن جاتی ہے ۔اسلام میں اصلاح کا طریقہ پیری مریدی کا نہیں ، بلکہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا ہے ، جسے تواصی بالحق اور تواصی بالصبر بھی کہا جاتا ہے ۔ ان کا بیان قرآ ن مجید میں اس طرح آیا ہے :
’’زمانہ گواہی دیتا ہے کہ یہ انسان خسارے میں پڑ کر رہیں گے ۔ہاں ، مگر وہ نہیں جو ایمان لائے ، اور انہوں نے نیک عمل کیے ، اور ایک دوسرے کو حق کی نصیحت اور حق پر ثابت قدمی کی نصیحت کی۔‘‘(العصر103: 1۔3)
’’اور مومن مرد اور مومن عورتیں ، یہ ایک دوسرے کے رفیق ہیں ۔باہم بھلائی کی نصیحت کرتے ہیں اور برائی سے روکتے ہیں ۔‘‘( التوبہ9:71)
جہاں تک اطاعت اور پیروی کا سوال ہے تو قرآن کریم میں غیر مشروط اطاعت صرف اللہ اور رسول کے لیے بیان ہوئی ہے ۔باقی ہر شخص کی بات کو دین کی کسوٹی پر پرکھ کر دیکھا جائے گا کہ وہ ٹھیک ہے یا نہیں ۔ بات ٹھیک ہے تو مانی جائے گی ورنہ نہیں ۔
۲۔کسی پیر سے بیعت کی کوئی شرعی حیثیت نہیں ہے ۔ہم پیچھے عرض کر چکے ہیں کہ یہ پورا طریقہ ایک اچھے مقصد کو حاصل کرنے کے لیے لوگوں نے اخذ کیا ہے ، لیکن یہ قرآن و سنت کا بتایا ہوا طریقہ نہیں ہے ۔کسی پیر کی بات اگر قرآن مجید سے زیادہ اہم ہو جائے اور وہ والدین کے حقوق کی پامالی پر ابھارنے لگے تو ظاہر ہے کہ یہ وہی چیز ہے جسے ہم نے بیان کیا ہے کہ اس طریقے میں جتنے فوائد ہیں اتنے ہی نقصانات کا اندیشہ ہوتا ہے ۔ یہ رویے ان نقصانات کی بڑی نمایاں مثالیں ہیں ۔
اللہ اور اس کے رسول کے علاوہ اسلام میں صرف ایک ہی بیعت کا تصور ہے اور وہ اپنی حکومت کے سربراہ سے سمع و طاعت کی بیعت ہے ۔اس کے سوا کسی بیعت کی کوئی دینی حیثیت نہیں ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین سے لوگ اطاعت کی یہی بیعت کیا کرتے تھے ۔اللہ اور رسول کے علاوہ حکمرانوں کی اس اطاعت کا ذکر قرآن کریم میں اس طرح آیا ہے:’’ایمان والو، اللہ کی اطاعت کرو اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور ان لوگوں کی جو تم میں سے صاحبِ امر ہوں۔ پھر تمھارے درمیان اگرکسی معاملے میں اختلاف راے ہو تو اسے اللہ اور رسول کی طرف پھیر دو، اگرتم اللہ پراور قیامت کے دن پرایمان رکھتے ہو۔یہ اچھا ہے اورانجام کے لحاظ سے بھی یہی بہتر ہے ۔‘‘(نساء4: 59)
اس آیت کے مطابق مسلمانوں کے لیے اطاعت کا اصل ماخذ اللہ اور رسول ہیں۔ان کے کسی حکم کی کوئی خلاف ورزی نہیں ہو سکتی ۔ ان کے بعد ریاست کے نظم اور اس کے چلانے والے صاحبِ امر یعنی حکمرانوں کی اطاعت بھی لازمی ہے۔ ہاں اگر ان سے اختلاف ہو جائے تو فیصلہ قرآن و سنت کی روشنی میں ہو گا۔
جاری ہے.....
منجانب:فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان
www.islam-aur-khanqahi-nizam.blogspot.com

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...