Monday 4 April 2016

اسلام اور خانقاہی نظام، 123

"اسلام اور خانقاہی نظام"
(گزشتہ سے منسلک قسط نمبر 123)
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ !۔
حیات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہمیں بیعت رضوان ، اور خواتین یا دیگر مواقع پر بیعت لینے کا جواز تو ملتا ہے۔لیکن کیا بیعت لینا آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین تک ہے یا ہر دور میں لی جاتی رہی ہے ؟؟؟ آج بھی ایسے کتنے لوگ ہیں جو کہتے ہیں ، ہم نے اسرار احمد یا ہمارے اجداد نے مولانا مودودی رحمہ اللہ کے ہاتھوں بیعت لے رکھی ہے۔ بیعت کے موضوع پر وہ بھی دور نہیں جو کہ فلاں بزرگ یا فلاں پیر سے بیعت لیتے ہیں ، اور پھر ان کے تابع ہو کر رہ جاتےہیں۔بہت ہی بہتر ہو جائے ، اگر کوئی اس نکتہ کو قرآن وحدیث سے بیان کر دیں !وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ،
بسم اللہ الرحمن الرحیم،

 (لسان العرب لابن منظور )يعني "البيعۃ "بيعت سودا پختہ کرنے کے لئے ،اور خريد وفروخت کا معاملہ کرنے ،يا کسی کی اطاعت کا عہد کرنے کے لئے ،اور ان امورکے طے پانے پر ،ہاتھ پر ہاتھ رکھنے کو کہا جاتا ہے،مطلب يہ کہ :معاہدہ ومعاقدہ کو "بيعت "کہتے ہيں ،گويا فريقين ميں سے ہر ايک نے اپنی اپنی متاع بيچ دي ،اور دوسرے کواپنا آپ پيش کرديا،،
اسلام ميں بيعت کی تين قسميں يا تين صورتيں ملتي ہيں ،(1) اسلام قبول کرتے وقت نبي کريم صلي اللہ عليہ وسلم کے ہاتھ پر بيعت(2) خلافت کی بيعت (3) جہاد ميں بوقت ضرورت امير کی بیعت-
مروجہ بیعت مريد کی طرف سے اوامر پر کاربند رہنے، نواہی سے بچنے اور بلا چوں چراں اپنے شيخ ومرشد کے ہرحکم کے سامنے سر تسليم خم کرنے ،اس کی اتباع ميں جان ومال صرف کرنے کي يقين دہانی کو اصطلاح ميں بيعت کہتے ہيں،،ديوبندي صوفيوں کے ہاں بيعت کا مطلب يوں ہے ، مولوي زکريا صاحب تبليغي،لکھتے ہيں(۔۔۔۔۔اس کی خدمت گزاری کر، اور اس کے سامنے مردہ بن کر رہ ،وہ تجھ ميں جس طرح چاہے تصرف کرے ،اور تيري کوئی بھی خواہش نہ رہے(فضائل تبليغ )
جبکہ عام مسلمان کی صوفيا اور شيوخ کے ہاتھ پر مروجہ بيعت کا کوئی ثبوت نہيں ،
ديکھئے صحابہ کرام رضوان اللہ عليہم ،نے وعظ ونصحيت اور دعوت و ارشاد کا وسيع اور بے مثال کام کيا ليکن بحيثيت شيخ کسی سے بيعت نہيں لي ،

آخر میں "محدث " کا فتوی پیش خدمت ہے ،بیعت کرنے کا حکم.
سوال:کسی کے ہاتھ پر بیعت کرنے کی شرعی حیثیت کیا ہے، جبکہ جس کے ہاتھ پر بیعت کی جارہی ہو وہ خلیفہ نہ ہو۔ جو لوگ بیعت کرتے ہیں وہ حضرت عمر کا قول پیش کرتے ہیں-
الجواب: 
صرف مسلمانوں کے خلیفہ اور امام کی بیعت کرنا جائز ہے،اہل حل وعقد علماء،فضلاء اور ذمہ داران حکومت اس کی بیعت کریں گے۔ جس سے اس کی ولایت ثابت ہو جائیگی۔ عامۃ الناس کے لئے اسکی بیعت کرنا ضروری نہیں ہے۔ ان پر صرف اتنا لازم ہے کہ وہ اطاعت الہی میں اس کی فرمانبرداری کریں۔امام مارزی فرماتے ہیں:(نقلاًمن فتح الباري )
امام کی بیعت میں اہل حل وعقد کی بیعت ہی کافی ہے۔ بیعت بالاستیعاب واجب نہیں ہے۔ ہر شخص پرضروری نہیں ہے کہ وہ امام کے پاس حاضر ہو اس کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دے۔ بلکہ اس پر اتنا ہی لازم ہے کہ وہ اس کی اطاعت کرے اور اس کی مخالفت نہ کرے،اور اس کے خلاف ہتھیار نہ اٹھائے۔امام نووی صحیح مسلم کی شرح میں فرماتے ہیں:
اہل علم کا اس امر پر اتفاق ہے کہ بیعت کی صحت کے لئےتمام لوگوں یا تمام اہل حل وعقدکا بیعت کرنا شرط نہیں ہے۔اس میں صرف اتنی شرط ہے کہ جو علماء سردار اور ذمہ داران آسانی سے دستیاب ہو سکتے ہوں وہ بیعت پر اجماع کرلیں تو بیعت واقع ہو جائے گی۔ ہر شخص پر ضروری نہیں ہے کہ وہ امام کے پاس حاضر ہو اس کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دے۔ بلکہ اس پر اتنا ہی لازم ہےکہ وہ اس کی اطاعت کرے اور اس کی مخالفت نہ کرے،اور اس کے خلاف ہتھیار نہ اٹھائے۔اور بیعت کے حوالے وارد تمام احادیث سے امام کی بیعت مراد ہے۔ دیگر افراد یا جماعتوں کی بیعت مراد نہیں ہے۔شیخ صالح الفوزان ایسی بیعتوں کے بارے میں فرماتے ہیں:"
صرف مسلمانوں کے خلیفہ اور امام کی بیعت کرناجائز ہے،اور یہ متعدد بیعتیں بدعت ہیں،اور اختلافات کا ذریعہ ہیں۔مسلمانوں پر واجب ہے کہ وہ ایک ملک میں صرف ایک ہی امام کی بیعت کریں(اگر واقعی کوئی امام موجود ہو)اور متعدد بیعتیں کرنا جائز نہیں ہے۔
[ المنتقى من فتاوى الشيخ صالح الفوزان 1/367]
هذا ما عندي والله اعلم بالصواب فتوی کمیٹی
جاری ہے.....
www.ficpk.blogspot.com

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...