Friday 22 April 2016

مسلمانوں کے مذہبی مسالک، قسط نمبر23

"مسلمانوں کے مذہبی مسالک"
(قسط نمبر23)
سلفی حضرات کے دلائل:
اہل حدیث حضرات کا کہنا یہ ہے کہ کچھ بھی ہو، ہر حال میں دعا صرف اور صرف اللہ تعالی سے کرنی چاہیے کیونکہ دعا ایک عبادت بلکہ عبادت کا مغز ہے۔ اس بات پر سبھی مسلمانوں کا اتفاق ہے کہ کسی غیر اللہ کے لیے نماز پڑھنے والا شرک کا ارتکاب کرتا ہے کیونکہ غیر اللہ کی عبادت شرک ہے۔ بالکل اسی طریقے سے جب انسان مافوق الاسباب طریقے سے غیر اللہ سے دعا کرتا ہے تو وہ بھی شرک کا ارتکاب کرتا ہے کیونکہ اس نے عبادت کا ایک فعل غیر اللہ کے لیے سر انجام دیا ہوتا ہے۔ قرآن مجید اور احادیث میں صرف اللہ تعالی ہی سے مانگنے کا حکم دیا گیا ہے اور غیر اللہ سے مانگنے کو مشرکین کا عمل قرار دیا گیا ہے۔ ایسی آیات واحادیث بکثرت ہیں۔ بعض مثالیں یہ ہیں:
وَمَا يَتَّبِــعُ الَّـذِيْنَ يَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّـٰهِ شُرَكَآءَ ۚ اِنْ يَّتَّبِعُوْنَ اِلَّا الظَّنَّ وَاِنْ هُـمْ اِلَّا يَخْرُصُوْنَ
جو لوگ ان کی پیروی کرتے ہیں۔ جو اللہ کے علاوہ شریکوں کو پکارتے ہیں، وہ تو محض گمان کی پیروی کرتے ہیں اور وہ بس اٹکل کے تیر چلاتے ہیں۔
(یونس 10:66)
اِنَّ اللّـٰهَ لَا يَغْفِرُ اَنْ يُّشْـرَكَ بِهٖ وَيَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِكَ لِمَنْ يَّشَآءُ ۚ وَمَنْ يُّشْـرِكْ بِاللّـٰهِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا بَعِيْدًا
اِنْ يَّدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِهٓ ٖ اِلَّآ اِنَاثًاۚ وَاِنْ يَّدْعُوْنَ اِلَّا شَيْطَانًا مَّرِيْدًا
اللہ یقینا اپنے ساتھ شرک کرنے کو معاف نہیں کرے گا اور اس کے علاوہ جو کچھ ہو، اسے معاف کر دے گا۔ جس نے اللہ کے ساتھ شرک کیا، وہ بہت دور کی گمراہی میں جا پڑا۔ یہ لوگ اس کے علاوہ دیوں اور باغی شیطان کو پکارتے ہیں۔ (النساء 4:116-117)
لَـهٝ دَعْوَةُ الْحَقِّ ۖ وَالَّـذِيْنَ يَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِهٖ لَا يَسْتَجِيْبُوْنَ لَـهُـمْ بِشَىْءٍ اِلَّا كَبَاسِطِ كَفَّيْهِ اِلَى الْمَآءِ لِيَبْلُـغَ فَاهُ وَمَا هُوَ بِبَالِغِهٖ ۚ وَمَا دُعَآءُ الْكَافِـرِيْنَ اِلَّا فِىْ ضَلَالٍ
اسی اللہ کے لیے حق کی پکار ہے۔ وہ لوگ جو اس کے علاوہ کسی اور کو پکارتے ہیں، وہ ان کی کسی بات کا جواب نہیں دے سکتے جیسے کسی کے ہاتھ پھیلے ہوئے ہوں تا کہ وہ پانی کو اپنے منہ تک لے جا سکے مگر ایسا نہ کر سکے۔ کفار کی پکار تو بس گمراہی ہی ہے۔ (الرعد 13:14)
وَالَّـذِيْنَ لَا يَدْعُوْنَ مَعَ اللّـٰهِ اِلٰـهًا اٰخَرَ
رحمان کے بندے وہ ہیں جو اللہ کے سوا کسی دوسرے معبود کو نہیں پکارتے (الفرقان 25:68)
لَا يَمْلِكُ الَّـذِيْنَ يَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِهِ الشَّفَاعَةَ اِلَّا مَنْ شَهِدَ بِالْحَقِّ وَهُـمْ يَعْلَمُوْنَ
جنہیں وہ اس کے علاوہ پکارتے ہیں وہ شفاعت کے مالک نہیں ہیں، سوائے اس کے کہ کوئی علم کی بنیاد پر حق کی گواہی دے دے۔ (الزخرف 43:86)
سلفی حضرات کا کہنا یہ ہے کہ بریلوی حضرات مزارات پر جا کر یا اپنے گھروں میں جب انبیاء و اولیاء کو پکارتے ہیں، ان کا یہ عمل مشرکین سے مشابہت رکھتا ہے۔ سنی بریلوی حضرات کہتے ہیں کہ سلفی غلط طور پر مشرکین سے متعلق آیات کو ان پر چسپاں کرتے ہیں کیونکہ مشرکین تو اپنے دیوتاؤں کو معبود کا درجہ دیتے تھے جبکہ وہ انبیاء و اولیاء کو یہ درجہ نہیں دیتے ہیں۔ اہل حدیث حضرات کہتے ہیں کہ استعانت لغیر اللہ کر کے وہ انبیا ء کرام اور اولیاء اللہ کے عبادت کا فعل سر انجام دے رہے ہوتے ہیں ، جو کہ صریحا شرک ہے۔
کیونکہ مشرکین عرب نہ یہ کہ اللہ کو مانتے تھے بلکہ وہ دین ابراہیمی کے بعض اعمال بھی پوری تندہی سے بجالاتے تھے۔ گو وہ بھی اپنی اصل حالت پر نہ تھے لیکن ان کا منبع شریعت ابراہیمی ہی تھا۔ آیئے دیکھتے ہیں کہ وہ کیا کیا اعمال کرتے تھے۔
*مشرکین عرب نماز پڑھتے تھے
رسول اللہ ﷺ نے طلوع آفتاب اور غروب آفتاب کے وقت نماز نہ پڑھنے کا حکم فرمایا ہے۔ اس کی وجہ آپ ﷺ نے یہ فرمائی:
ھی ساعۃ صلاۃ الکفار (سنن النسائی)
وہ کافروں کی نماز کا وقت ہے
مشرکین عرب زکوٰۃ دیتے تھے
وجعلوا لله مما ذرا من الحرث و الانعام نصيبا فقالوا هذا لله بزعمهم وهذا لشركائنا (الانعام: 136)
اور (یہ لوگ) اللہ ہی کی پیدا کی ہوئی چیزوں یعنی کھیتی اور چوپایوں میں اللہ کا بھی ایک حصہ مقرر کرتے ہیں اور اپنے خیال (باطل) سے کہتے ہیں کہ یہ (حصہ) تو اللہ کا اور یہ ہمارے شریکوں کا
*مشرکین عرب اعتکاف کرتے تھے
عن عمر قلت يا رسول الله اني كنت نذرت ان اعتكف ليلة في المسجد الحرام في الجاهلية قال اوف بنذرك (صحیح البخاری)
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا، یا رسول اللہ! میں نے جاہلیت میں نذر مانی تھی کہ مسجدالحرام میں ایک رات کا اعتکاف کروں گا؟ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ اپنی نذر پوری کرو۔
*مشرکین عرب خدمت حرم کرتے تھے
ء جعلتم سقاية الحاج وعمارة المسجد الحرام كمن آمن بالله واليوم الآخر وجاهد في سبيل الله لا يستوون عند الله۔ (التوبہ: 19)
کیا تم نے حاجیوں کو پانی پلانا اور مسجد محترم یعنی (خانہٴ کعبہ) کو آباد کرنا اس شخص کے اعمال جیسا خیال کیا ہے جو اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھتا ہے اور اللہ کی راہ میں جہاد کرتا ہے۔ یہ لوگ اللہ کے نزدیک برابر نہیں ہیں۔ اور اللہ ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیا کرتا۔
تفسیر ابن کثیر میں اس آیت کی تفسیر کے ذیل میں لکھا ہے:
قال الله: لا يستوون عند الله والله لا يهدي القوم الظالمين ) يعني: الذين زعموا انهم اهل العمارة فسماهم الله " ظالمين " بشركهم ، فلم تغن عنهم العمارة شيئا .
اللہ تعالیٰ نے فرمایا: یعنی وہ لوگ جو یہ زعم رکھتے ہیں کہ وہ اہل حرم ہیں اللہ نے ان کو ظالمین کا لقب دیا جس کا سبب ان کا شرک تھا جس کی وجہ سے ان کو کوئی فائدہ نہیں ہوا۔
حرم کی تعمیر اور اس کی خدمت بہت بڑی نیکی تھی لیکن ان کے شرک کی وجہ سے یہ نیکی اللہ تعالیٰ کے یہاں مقبول نہیں ٹھہری۔
*مشرکین عرب حج کرتے تھے
حدیثوں سے معلوم ہوتا ہے کہ مشرکین عرب حج بھی کرتے تھے۔
عن عائشة رضي الله عنها ، قالت كان قريش ومن دان دينها يقفون بالمزدلفة وكانوا يسمون الحمس(صحیح البخاری)
سیدۃ عائشہؓ بتاتی ہیں کہ قریش اور جو لوگ ان کے مذہب پر تھے وہ (حج کے دوران) مزدلفہ میں ٹھہر جاتے تھے اور وہ (اپنے آپ کو) حمس (شجاع) کہتے تھے۔
صحیح بخاری کی روایت ہے کہ لوگ اسلام سے قبل برہنہ (کعبہ) کا طواف کرتے تھے۔ صحیح مسلم میں سیدۃ عائشہؓ کی روایت ہے کہ انصار اسلام سے پہلے دو بتوں کے لیے تلبیہ پڑھتے تھے جس کے بعد وہ صفا و مروہ کے درمیان سعی کرتے تھے۔
*مشرکین عرب عاشورہ کا روزہ بھی رکھتے تھے
حدیث شریف میں آتا ہے:
عن عائشة قالت: كان يوم عاشوراء تصومه قريش في الجاهلية (صحیح البخاری)
عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ عاشوراء کے دن زمانہ جاہلیت میں قریش روزہ رکھا کرتے تھے۔
*مشرکین عرب غلام آزاد کیا کرتے تھے
عاص ابن وائل جو اسلام قبول کیے بغیر ہی فوت ہوگیا اس نے مرنے سے پہلے سو غلام آزاد کرنے کی وصیت کی اس کے بیٹے صحابی رسول ﷺ عمرو ابن عاص نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا کہ کیا عاص کو اس سے کچھ فائدہ ہوسکتا ہے؟ تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
لو كان مسلما فاعتقتم عنه او تصدقتم عنه او حججتم عنه بلغه ذلك (سنن ابی داؤد)
اگر (تمہارا باپ) مسلمان ہوتا اور تم اس کی طرف سے (غلام) آزاد کرتے یا صدقہ دیتے یا حج کرتے تو اسے ان کا ثواب پہنچتا
یہ شرک کی نحوست ہے کہ مشرک کو کسی نیک عمل کا ثواب بھی نہیں پہنچ سکتا۔
ان تمام مثالوں کو پیش کرنے کا مقصد یہ ہے کہ مکہ کے کفار مشرک اس لیے نہیں کہلائے کہ وہ نیک اعمال کا انکار کرتے تھے۔ ان کے کفر کا بنیادی سبب ان کا شرک تها-
مشرکین عرب کی آپ ﷺ کے بارے میں رائے:
    مشرکین عرب رسول اللہ ﷺ کی دعوت قبول نہ کرنے کا سبب آپ ﷺ کی ذات نہ تھی بلکہ وہ آپ ﷺ کے اخلاق کے گرویدہ تھے۔ ایک بار ابوجہل نے آپ ﷺ سے کہا:
    قد نعلم يا محمد انك تصل الرحم ، وتصدق الحديث ، ولا نكذبك ، ولكن نكذب الذي جئت به۔ (سنن الترمذی)
    ترجمہ: ہم جانتے ہیں کہ بے شک آپ صلہ رحمی کرتے ہیں، اور باتیں بھی سچی کرتے ہیں، ہم آپ کو نہیں جھٹلاتے بلکہ اس چیز کو جھٹلاتے ہیں جس کو آپ لے کر آئے ہیں۔
    اس حدیث شریف سے معلوم ہوا کہ مشرکین عرب کو رسول اللہ ﷺ کی ذات سے عناد نہ تھا اور وہ آپ ﷺ کے اعلی اخلاق کو مانتے تھے۔
    جب رسول اللہ ﷺ نے تمام کفار مکہ کو قبول اسلام کی دعوت دینے سے پہلے اپنے بارے میں رائے لی تو انہوں نے کہا:
    ما جربنا عليك الا صدقا (صحیح البخاری)
    ترجمہ: ہم نے آپ سے سچ ہی سنا ہے (یعنی آپ سچے ہیں)۔
    لیکن جب رسول اللہ ﷺ نے لاالہ الا اللہ کی دعوت دی تو یہی لوگ آپ ﷺ پر جھوٹا ہونے کا الزام لگانے لگا۔ ایک موقع پر جب رسول اللہ ﷺ نے اس کلمے کی دعوت یوں دی:
    يا ايها الناس قولوا لا اله الا الله تفلحوا (صحیح ابن حبان)
    ترجمہ: اے لوگو! لا الہ الا اللہ کہو کامیاب ہوجاؤ گے
    یہ سن کر ابولہب کہتا تھا:
    انه صابی كاذب (مسند احمد)
    ترجمہ: یقینا یہ بے دین جھوٹا ہے۔
    مشرکین عرب کا شرک کیا تھا؟
    اوپر بیان ہوا کہ مشرکین عرب اللہ تعالیٰ کے وجود کا انکار نہیں کرتے تھے اور رسول اللہ ﷺ کو سچا جانتے تھے۔ تو پھر سوال یہ ہے کہ وہ کس چیز کا انکار کرتے تھے کہ اللہ کا اقرار کرنے کے باوجود وہ مشرک قرار دیے گئے؟ اس کا ایک ہی سبب تھا جس کو قرآن پاک نے اس طرح بیان کیا ہے:
    اجعل الآلهة الها واحدا ان هذا لشي ء عجاب (ص: 5)
    ترجمہ: کیا اس نے اتنے الہوں کی جگہ ایک ہی الہ بنا دیا؟ یہ تو بڑی عجیب بات ہے
    اس آیت سے معلوم ہوا کہ مشرکین عرب کا انکار صرف اللہ کو ایک الہ ماننےسے تھا۔
    قرآن پاک نے اس کا جواب یوں دیا ہے:
    لا تتخذوا الھین اثنین انما ھو الہ واحد (النحل: 51)
    ترجمہ: تم دو الہ مت بناؤ الہ تو صرف ایک ہی ہے
    لو كان فيهما آلهة الا الله لفسدتا فسبحان الله رب العرش عما يصفون (الانبیاء:22)
    ترجمہ:اگر آسمان اور زمین میں اللہ کے سوا اور معبود ہوتے تو زمین و آسمان درہم برہم ہوجاتے
    یعنی ان کا مسئلہ یہ تھا کہ وہ کثرت الہ کے قائل تھے جب کہ لا الہ الا اللہ ایک الہ کا تقاضا کرتا ہے۔ چنانچہ ضروری ہوا کہ یہ سمجھا جائے کہ "الہ" سے کیا مراد ہے۔ لیکن اس سے پہلے ایک غلط فہمی کا ازالہ ضروری ہے وہ یہ کہ شرک صرف بت پرستی کا نام ہے۔ اس غلط فہمی کا نتیجہ ہے کہ لوگ شرکیہ عقائد اور اعمال میں ملوث ہوکر بھی اپنے آپ کو توحید پر کاربند سمجھتے ہیں۔
اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ مشرکین عرب جن کو ہم بت پرست کہتے ہیں وہ درحقیقت مٹی کی مورت (بت)بنا کر اس کا ایک نام رکھ دیتے تھے اور اس کو اپنا معبود قرار دے دیتے تھے۔ اسی تراشے ہوئے پتھر کو سجدہ و رکوع کرتے تھے۔اسی کے نام کا ذکر کرتے تھے۔ اس کا نام لے کر اپنی حاجتوں میں اس کو پکارتے تھے ان کو مشکل کشا سمجهتے ان کو حاضر ناظر  سمجهتے تهے درحقیقت یہ انتہائی ناقص خیال ہے بلکہ بہت بڑی غلط فہمی ہے۔ اس غلط فہمی کی بنیاد یہ ہے کہ شرک صرف بت پرستی کا نام ہے۔ اس غلط فہمی کی وجہ سے یہ خیال پیدا ہوتا ہے لا الہ الا اللہ کہنے والا کیونکہ بتوں کی پوجا نہیں کرتا لہذا وہ مشرک نہیں ہو سکتا چاہے اس کے عقیدے اور اعمال کیسے ہی ہوں۔ اس سوچ کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ آئیے دیکھتے ہیں قرآن پاک کیا بتاتا ہے۔
اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات میں مخلوق میں سے کسی کو شریک کرنا شرک ہے چاہے کوئی مخلوق میں سے کسی کو اللہ کے برابر سمجھے یا مد مقابل یا وہ کام جو اللہ کی ذات کے ساتھ خاص ہیں وہ مخلوق کے لئے کرتا ہے تب بھی وہ شرک کا ارتکاب کرتا ہے۔
پچهلی امتوں میں شرک کی چند مثالیں درج ذیل ہیں:حضرت عیسٰی علیہ السلام کی اور ان کی 1-والدہ کو معبود بنایا گیا (المائدہ:116)
2-نیک لوگوں کو معبود بنایا گیا (النجم:19)
3-فرشتوں کو معبود بنایاگیا (40-41)
4-جنوں کو معبود بنایا گیا (النجم:19)
5-حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کی عبادت کی گئی (سنن ابوداؤد)
6-قبروں کی عبادت کی گئی (البخاری کتاب الصلوۃ)
سلفی عالم علامہ احسان الہی ظہیر (1987-1945) لکھتے ہیں:
اوپر بیان کردہ آیات  و احادیث  سے یہ بات صاف طور پر واضع ہو جاتی ہے کہ صرف اللہ تعالی ہی مصائب و مشکلات میں بندوں کی مدد کر سکتا ہے، اور ان کے کام آ سکتا اور ان کے دکھ درد دور کر سکتا ہے۔ اختیار و تصرف کا دائرہ فقط اسی کی ذات تک محدود ہے اور ساری کائنات کا نظام اسی کے قبضہ و اختیار میں ہے۔ اور تمام انبیاء ورسل نے بھی حاجت روائی اور مشکل کشائی کے لیے فقط اسی کا دامن تھاما اور صرف اسی کے سامنے سر نیاز خم کیا۔۔۔ ان کے متعلق یہ عقیدہ رکھنا کہ شدائد و مشکلات میں ان سے استمداد استعانت جائز ہے،  قرآن کریم صریح صاف اور واضح آیات سے متصادم ہے۔
سلفی حضرات یہ حدیث اور اسی مضمون کی متعد احادیث پیش کرتے ہیں:
حدثنا احمد بن محمد بن موسی اخبرنا عبداللہ بن البارک اخبرنا لیث بن سعد وابن لحیعۃ عن قیس بن الحجاج وال ح و حدثنا عبد اللہ بن عبد الرحمن اخبرنا ابو الولید حدثنا بن سید حدثنی قیس بن الحجاج المعنی واحد عن حنش الصنعانی عن بن عباس قال کنت خلف رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم یوما فقال  یا غلام انی اعلمک کلمات احفظ اللہ عحفظک احطظ اللہ تجدہ تجاھک اذا سالت ماسال اللہ واذا استعنت فاستعن باللہ و اعلم ان الا مۃ لو اجتمعت علی ان منفعوک بشیء لم ینفعوک الا بشیء قد کتبہ اللہ لک ولو اجتمعوا علی ان یضروک بشیء لم یضروک الا بشیء قد کتبہ اللہ علیک رفعت الاقلام و جفت الصحف قال ھذا حدیث حسن صحیح
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کے پیچھے ایک دن (سواری پر) بیٹھا ہو تھا۔ آپ نے فرمایا: اے لڑکے ! میں تمہیں بعض کلمات سکھاتا ہوں، انہیں یاد کر لو، اللہ تمہاری حفاظت کرے گا۔ تم اللہ کو یاد رکھو تو اسے ہمیشہ اپنے سامنے پاؤ گے۔ جب بھی تم مانگو تو اللہ ہی سے مانگو اور جب مدد طلب کرو، تو اللہ ہی سے مدد کرو۔ جان رکھو کہ اگر پوری امت تمہیں کوئی فائدہ پہنچانے پر اکٹھی ہو جائے تو اس کے سوا کوئی فائدہ نہ پہنچا سکے گی جو اللہ نے تمہارے لیے لکھ دیا ہے۔ اگر وہ سب مل کر تمہیں نقصان پہنچایا چاہیں تو اس کے سوا کوئی نقصان نہ پہنچا سکیں گے جو اللہ نے تمہارے لیے لکھ دیا ہے۔ قلم اٹھا لیے گئے ہیں اور صحیفے خشک ہو چکے ہیں۔ "ترمذی کہتے ہیں کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ (ترمذی کتاب صفۃ الجنۃ حدیث 2516)
سنی بریلوی حضرات کی اس بات کہ سلفی حضرات غلط طور پر مشرکین سے متعلق آیات کو ان پر چسپاں کرتے ہیں کے جواب میں سنی دیو بندی عالم مولانا سرفراز خان صفدر (2009-1914) قرآن مجید کی یہ آیات پیش کرتے ہیں:
وَيَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّـٰهِ مَا لَا يَضُرُّهُـمْ وَلَا يَنْفَعُهُـمْ وَيَقُوْلُوْنَ هٰٓؤُلَآءِ شُفَعَآؤُنَا عِنْدَ اللّـٰهِ ۚ قُلْ اَتُنَبِّئُوْنَ اللّـٰهَ بِمَا لَا يَعْلَمُ فِى السَّمَاوَاتِ وَلَا فِى الْاَرْضِ ۚ سُبْحَانَهٝ وَتَعَالٰى عَمَّا يُشْرِكُـوْنَ
اور اللہ کے سوا اس چیز کی پرستش کرتے ہیں جو نہ انہیں نقصان پہنچا سکے اور نہ انہیں نفع دے سکے اور کہتے ہیں اللہ کے ہاں یہ ہمارے سفارشی ہیں، کہہ دو کیا تم اللہ کو بتلاتے ہو جو اسے آسمانوں اور زمین میں معلوم نہیں، وہ پاک ہے اور ان لوگوں کے شرک سے بلند ہے۔ (یونس 10:18)
وَالَّـذِيْنَ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِهٓ ٖ اَوْلِيَآءَۚ مَا نَعْبُدُهُـمْ اِلَّا لِيُـقَرِّبُوْنَآ اِلَى اللّـٰهِ زُلْفٰىؕ
وہ لوگ جو اللہ کے سوا اور حمایتیوں کو پکڑتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ ہم تو ان کی عبادت محض اس لیے کرتے ہیں کہ وہ ہمیں درجہ میں اللہ کے قریب کر دیں
اس کے بعد مولانا صفدر لکھتے ہیں:
ان آیات سے معلوم ہوا کہ کہ مشرکین جو غیر اللہ کی عبادت کرتے تھے یا ان کو پکارتے تھے تو ان کو نہ مستقل سمجھتے تھے اور یہ خدا بلکہ ان کو اللہ تعالی کے تقرب قریب ہونا کا ذریعہ اور واسطہ سمجھتے تھے کہ یہ ہمارے کام اور ہماری حاجتیں خدا تعالی کے پاس پیش کرتے ہیں اور ہماری سفارشیں کرتے ہیں۔ لیکن اللہ تعالی نے اس مافوق الاسباب سفارش (یعنی غائبانہ) کو بھی شرک کہا ہے۔ پہلی آیت کے آخر میں 'عمایشرکون' میں اس کو صاف شرک سے تعبیر کیاہے۔

فائدہ : کہیں آپ کو یہ غلط فہمی نہ واقع ہو جائے کہ ان دونوں آیتوں میں تو عبادت کا لفظ موجود ہے۔ پکارنے کا تو نہیں لیکن یہ وہم بے جا ہو گا۔ کیونکہ دعا اور پکارنا خود عبادت ہے جیسا کہ اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے: وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُوْنِـىٓ اَسْتَجِبْ لَكُمْ ۚ اِنَّ الَّـذِيْنَ يَسْتَكْبِـرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِىْ سَيَدْخُلُوْنَ جَهَنَّـمَ دَاخِرِيْنَ (المومن 40:60) "تمہارے رب نے کہا: مجھے ہی پکارو، تمہاری فریاد کا جواب دوں گا۔ یقینا وہ لوگ جو میری عبادت سے تکبر کرتے ہیں وہ عنقریب ذلیل ہو کر جہنم میں داخل ہوں گے۔"
مولانہ صفدر مزید لکھتے ہیں:
اس آیت میں اللہ تعالی نے دعا اور پکارنے کو عبادت سے تعبیر کیا ہے۔ جناب رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "پکارنا عبادت ہے، پھر آپ نے قرآن کریم کی یہی مذکورہ آیت اس پر بطور استشہاد پڑھی کہ پکارنا عبادت ہے۔
استعانت لغیر اللہ سے متعلق دوضمنی مسائل ایسے ہیں جب کے بارے میں جانبین کے نقطہ ہائے نظر میں فرق پایا جاتا ہے۔ ایک وسیلہ کا مسئلہ ہے اور دوسرا شفاعت کا۔ یہاں ہم ان پر مختصر بحث کرتے ہیں۔
جاری ہے...
هذا گروپ میں شامل ہونے کیلئے رابطہ نمبر
0096176390670

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...