Tuesday 12 April 2016

اسلام اور خانقاہی نظام، 137

"اسلام اور خانقاہی نظام"
گزشتہ سے منسلک قسط نمبر 137)
مسلم دنیا میں تصوف کا عروج و زوال: تیسری صدی ہجری اور اس کے بعد جب عباسی خلفاء کے زیر حکومت مسلم معاشرہ علمی، تمدنی، معاشی اور معاشرتی پہلو سے اپنے عروج پر تھا ، اسی دور میں تصوف کی روایت بھی وقت کے بہترین لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کر رہی تھی۔سید الطائفہ شیخ جنید بغدادی(م 297ھ)،شیخ بایزید بسطامی(م261ھ)،شیخ سری سقطی(م 253ھ)، شیخ ذوالنون مصری(م 245ھ)،شیخ ابو بکر شبلی(م334ھ)اورشیخ ابو القاسم گرگانی(م450 ھ) جیسے اکابرین نے اگر تصوف کی عملی روایت کو منتہائے کمال پر پہنچایا تو سہل بن عبداللہ تستری(م283 ھ)، شیخ ابو طالب مکی(م 386ھ) ، امام ابوالقاسم قشیری(م 465ھ)، شیخ علی ہجویری(م465 ھ)،امام غزالی(م 505ھ)، شیخ عبدالقادرجیلانی(م561 ھ)، شیخ شہاب الدین سہروردی(م632 ھ)، شیخ ابن عربی(م 638ھ) اور جلال الدین رومی(م 672ھ) جیسے صوفیوں نے عملی روایت کے ساتھ علم اور قلم کی طاقت کے ساتھ تصوف کے اسرارو رموز کو اعلیٰ علمی سطح پر پیش کیا۔ تاہم پانچویں صدی ہجری میں تصوف کا افراط و تفریط سامنے آنے لگا تھا۔ اس لیے اس پر شدید تنقید شروع ہوگئی۔ پانچویں صدی  میں اس تنقید کا آغاز ابن حزم (م456ھ) نے کیا۔چھٹی صدی میں ابن جوزی (م597ھ) اور پھر ابن تیمیہ(م 728ھ) اور ان کے شاگرد ابنِ قیم (م 791ھ) نے اس تنقید کو عروج پر پہنچا دیا۔ یہ تنقید آنے والے زمانے میں اگر جاری رہتی تو بہت عرصے قبل ہی تصوف کی روایت ختم ہو جاتی یا کم از کم اس کا اثر بہت محدود ہو جاتا۔تاہم اس عرصے میں مسلم دنیا کو ایک زبردست سانحے کا سامنا کرنا پڑا جس نے نہ صرف مسلمانوں کی علمی روایت کو شکست و ریخت سے دوچار کر'دیا بلکہ وہ حالات پیدا کر دیے جن میں لوگوں کے لیے سکون وعافیت کی واحد جائے پناہ گوشۂ تصوف تھا۔ یہ سانحہ تاتاریوں کا مسلم دنیا پر حملہ تھا جس نے ساتویں صدی ہجری میں وسطی ایشیا سے لے کر مشرق وسطی تک تمام عالم اسلام کو تباہ و برباد کر کے رکھ دیا۔مسلم دنیا کے تمام تہذیبی اور علمی مراکز (بجز اسپین کے جو بعد میں مسیحیوں کے ہاتھوں برباد ہو گیا) اس آفت کی نذر ہو گئے۔اس فتنہ کا نقطۂ عروج بغداد کی تباہی کا سانحہ تھا جو 1258ء (بمطابق 656ھ) میں پیش آیا ۔جس کے بعد مسلم دنیا پر تباہی و بربادی کی وہ المناک رات مسلط ہوئی جس کی مثال انسانی تاریخ میں کم ہی ملتی ہے۔ مسلم معاشرہ، ریاست، سیاست، علم ، تہذیب غرض ہر شعبۂ زندگی پر اس کے ایسے منفی اثرات مرتب ہوئے جن سے مسلمان کئی صدیوں تک باہر نہ نکل سکے۔مسلمانوں نے سیاسی اعتبار سے اپنا کھویا ہوا مقام سلطنتِ عثمانیہ اور مغلیہ سلطنت کی شکل میں کسی نہ کسی طرح واپس لے لیا ،لیکن علمی طور پر وہ دوبارہ نہ اٹھ سکے۔ایسے تباہ حال مسلم معاشرے میں اہل تصوف کا اثر و نفوذ مزید بڑھ گیا۔خاص کر عالمِ عجم میں تصوف کی مختلف شاخوں اور خانوادوں کے سلسلے پھیلتے چلے گئے۔اہلِ شریعت کے بالمقابل اہلِ طریقت ہی اصلاً معاشرے کی فکری قیادت کے منصب پر فائز ہو گئے۔ اس دور میں ہندوستان مسلمانوں کا فکری مرکز بن چکا تھا۔اس کی وجہ یہ تھی کہ مسلم اقتدار کا یہ واحد خطہ تھا جو فتنہ تاتار سے محفوظ رہا تھا۔ چنانچہ پورے وسطی ایشیا، ایران اور مشرق وسطیٰ سے مسلم شرفا ، علماء اور صوفیاء ہجرت کر کے یہاں آ گئے۔سرزمینِ ہند اپنے سیاسی حالات ، تاریخی پس منظر، مذہبی روایت اور فلسفیانہ افکار کی بنا پر تصوف کے پودے کی زرخیری کے لیے ایک بہترین جگہ تھی۔ چنانچہ شجرِ تصوف یہاں خوب پھلا پھولا اور اس کے بطن سے خواجہ معین الدین چشتی (م627 ھ)، خواجہ قطب ا لدین بختیار کاکی(م 633ھ)،خواجہ فرید گنج شکر(م664 ھ) ،شیخ بہاء الدین زکریاملتانی(م 665ھ)اور شیخ نظام الدین اولیا(م725ھ) جیسے اکابرینِ تصوف نے جنم لیا۔ مغلیہ سلطنت کے زمانے تک ہندوستان میں مسلمانوں کی حیثیت غیر مقامی حکمرانوں کی نہیں رہی تھی بلکہ بحیثیت قوم یا گروہ ان کا اجتماعی تشخص واضح ہونے لگا تھا۔لیکن حکومت کے باجود ہندوستان میں مسلمان ہندوؤں کے مقابلے میں بہرحال اقلیت میں تھے ۔ دوسری طرف اس معاشرے میں اہل تصوف کی حیثیت صرف صوفیاء ہی کی نہیں بلکہ مسلم معاشرے کے فکری رہنماؤں کی بھی تھی ۔اس پس منظر میں ہند میں تصوف کی روایت علمی اور سیاسی طور پر بھی فعال ہونے لگی۔ اس میں ایک طرف شیخ احمد سر ہندی (م 1033ھ)جیسے صاحبِ علم وفضل اور صاحبِ عزیمت لوگ پیدا ہوئے تو دوسری طرف شاہ ولی اللہ(م1762ء بمطابق 1176ھ) جیسے بے نظیر عالم اورمدبر پیدا ہوئے جن کی نظیر تاریخ اسلام میں کم ہی پائی جاتی ہے۔ایسی ہی ایک مثال سید احمد شہید(م1831ء بمطابق 1246ھ) اورشاہ اسماعیل(م1831ء بمطابق 1246ھ) کی ہے جو صاحبِ سیف و قلم تھے۔ جیسا کہ معلوم ہے یہ دونوں بزرگ تصوف کی روایت سے منسلک تھے ، خاص پر شاہ اسماعیل صاحب جن کی تصنیف’ عبقات ‘تصوف کی ایک بہت اہم کتاب ہے۔ انیسویں اور بیسویں صدی کا زمانہ مسلمانوں کے ہمہ جہتی زوال کا دور تھا۔ عالمِ اسلام تقلید و جمود کی بیڑیوں میں جکڑا ہوا تھا۔علمی و فکری جمود اور سیاسی و معاشرتی انحطاط کی لہر ہر جگہ اپنے اثرات مرتب کررہی تھی۔ دوسری طرف اہلِ مغرب تقلید کی بیڑیاں کاٹ کراورعلم و عقل کو امام بناکر موڈرن ازم یعنی جدیدیت کے دور میں داخل ہوچکے تھے۔وہ سائنسی اور سماجی علوم میں ترقی کے ہتھیار سے لیس ہوکر نکلے اور پورے عالم اسلام پر چھا گئے ۔ اس کے ردعمل میں عالم اسلام میں جو احیائی تحریکیں یا افکار وجود میں آئے، ا ن سب نے یہ محسوس کیا کہ تصوف اس جمود و بے عملی کو پیدا کرنے میں ایک بنیادی کردار ادا کر رہا"ہے اور تصوف کی اعلیٰ اخلاقی روایات گدی نشینوں کے مفادات پر قربان ہونے لگی ہیں۔اس صورتحال پر اقبال(م 1938ء) جیسے بڑے لوگوں نے تنقید کی اور اپنی پرجوش شاعری سے لوگوں کو علمی و عملی جمود توڑنے پر آمادہ کیا۔ اِس زمانے میں سیاسی حالات سے متاثر ہوکر جومسلم احیائی تحریکیں وجود میں آئیں ان میں اہل تصوف کا زیادہ کردار نہ تھا۔ مزید یہ کہ ابن تیمیہ کے زیر اثر عرب  میں جو احیائی تحریک اٹھی وہ تصوف کے قطعاً خلاف تھی۔ خود برصغیر میں پیدا ہونے والی اسلام کے سیاسی انقلاب کی تعبیر اپنی روح کے اعتبار سے تصوف کے خلاف تھی۔ اس سے وابستہ بڑے اہل علم نے تصوف پر شدید تنقیدیں کیں۔ امت کی تاریخ میں ایک طویل عرصہ بعد فکری قیادت ان لوگوں کے ہاتھ میں آ گئی جو تصوف کے خلاف تھے یا اس سے زیادہ ہمدردی نہیں رکھتے تھے۔نیز جدید تعلیم کے بڑھتے ہوئے رجحانات بھی اس بات میں مانع ہوئے کہ لوگ اپنا ہاتھ شیخ کے ہاتھ میں دے کر دنیا سے منہ پھیر لیں۔مسلم معاشرہ مغرب کی جدیدیت کا براہِ راست اثر قبول کررہا ہے جس میں تقلید کے مقابلے میں آزادی اور باطنی تجربات و مشاہدات کے مقابلے میں عقلیت کو بہرحال ترجیح حاصل ہے ۔ ان تمام چیزوں نے مل کر مسلم معاشرے میں اہل تصوف کے کردار کو بہت محدود کردیا ہے اور زمانۂ قدیم کی طرح آج اعلیٰ اذہان تصوف کی تحریک سے کم ہی وابستہ نظر آتے ہیں۔" میرے خیال میں دور جدید میں تصوف کے زوال کی ایک بڑی وجہ اہل تصوف کا اپنا کردار ہے۔ قدیم دور کے صوفی اپنے مشن سے مخلص ہوا کرتے تھے۔ ان کے اندر دولت کی طلب نہ ہوا کرتی تھی۔ موجودہ دور میں زیادہ تر صوفیاء نے اپنے روحانی سلسلوں کو جاگیر بنا لیا ہے جو وراثت کی طرح ان کی اگلی نسل میں منتقل ہوتی ہے۔ اب پیری مریدی کا سب سے بڑا مصرف یہی بنا دیا گیا ہے کہ بے وقوف مریدوں کو ذہنی طور پر غلام بنا کر ان کی دولت پر عیش کی جائے۔ جاری ہے..

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...