Tuesday 12 April 2016

اسلام اور خانقاہی نظام، 131

"اسلام اور خانقاہی نظام"
(گزشتہ سے منسلک قسط نمبر131)
مدنی چینل کا نمائندہ سخی شاہ حسین المعروف مادهو لال کے مزار پر پروگرام کرتے ہوئے سخی مادهو لال کی مختلف کرامات بیان کرتے ہوئے کہتا ہے کہ ایک مرید نے شاہ حسین مادهو لال کو خانہ کعبہ میں دیکھا.لیکن جب مکہ سے لاہور واپس آیا تو یہاں پرسخی  مادهو لال کو دیکھ کر حیران ہوا اور کہتا ہے کہ سرکار جی میں نے آپ کو خانہ کعبہ(بیت اللہ)میں دیکھا تها لیکن آپ یہاں کیسے...؟
سخی مادهو لال نے کہا اپنی آنکھیں بند کرو-جب مرید نے اپنی آنکھیں بند کی تو سخی مادهو لال کو خانہ کعبہ میں سجدہ کرتے ہوئے پایا- جب آنکھیں کهولی تو حضرت مادهو لال غیب ہو  چکے تهے-اس مرید نے سخی مادهو لال کو شہر لاہور میں کافی تلاش کیا لیکن سخی مادهو لال نہ ملا-تو یہ مرید دوبارہ  خانہ کعبہ(بیت اللہ) گیا تو وہاں سخی مادهو لال کو دیکھا اور قدموں میں گر کر معافی مانگی-مرید نے کہا میں آپکا راز کهولنے لگ تها-سخی شاہ حسین مادهو لال نے کہا میں اپنا معاملہ لوگوں کے چهپانا چاہتا ہوں میرا معاملہ اللہ کے ساتھ ہے یہ راز ہی رہنے دو-
.بیان کردہ کرامات کئی کتب میں بهی موجود ہیں لیکن ہم نے اس ویڈیو کی ٹرانسلیٹ قارئین کی خدمت میں پیش کی اور ثبوت کے طور پر لنک بهی دے رہے ہیں- https://youtu.be/ce1wYNCkc00
قارئین کرام-! سخی شاہ حسین المعروف مادهو لال کے مزار پر خرافات تو ان گنت ہیں اگر ایک ایک خرافت کا تفصیلی قرآن وحدیث کی روشنی میں موازنہ کیا جائے تو سینکڑوں صفحات درکار ہیں لیکن ہم اختصار کے ساتھ صرف ایک خرافت کا ذکر کرتے ہوئے اپنے سلسلہ "اسلام اور خانقاہی نظام" کو آگے بڑھاتے ہیں- اس مزار کا معروف ترین فعل یعنی اپنی مرادیں پوری کروانے والا عمل" دهمال" ہے-جس کو باقاعدہ عبادت (اللہ کی رضا کا وسیلہ) سمجھ کر اور صاحب مزار کی محبت میں ڈهول کی تهاپ اور دیگر موسیقی کے آلات کے ساتھ  مستی کے عالم میں سرانجام دی جاتی ہے.......
دهمال اور اسلام:
دھمال کے معنی ہیں اچھل کود ،ایک قسم کا راگ، ،صوفیا کا رقص۔اس کے علاوہ دھماچوکڑی اور شورغل کرنا بھی دھمال کرنے میں ہی آتا ہے۔عرف عام میں درباروں اور مزاروں پر کیا جانے والا رقص جسے کچھ لوگ بے ھنگم رقص بھی کہتے ہیں کو دھمال کہا جاتا ہے۔ پاکستان کے صوبہ سندھ کے شہر سہون میں لعل شہباز قلندر، صوبہ پنجاب کے شہر لاہور سخی شاہ حسین مادهو لال کے مزار پر کی جانے والی دھمال سب سے زیادہ مشہور ہے۔
اس کے علاوہ پاکستان کے تمام چھوٹے بڑے مزارات پر دهمال کا خاص انتظام کیا جاتا ہے..
دهمال کا اصل مقصد صاحب مزار کی محبت اور رب کو یاد کرنے کا طریقہ ہے.کیونکہ صوفیاء کے نزدیک دنیا کو بهول کر اپنے رب کی یاد میں محو ہونے کو دهمال کہا جاتا ہے.
حضرت لعل شہباز قلندرؒ اپنے کلام میں فرماتے ہیں جس کا ترجمہ مندرجہ ذیل ہے: کہ میں ہر وقت اپنے محبوب کے عشق میں آگ پر دھمال یعنی رقص کرتا رہتا ہوں کبھی میں مٹی میں لوٹ پوٹ ہوتا ہوں کیونکہ میں ترابی ہوں۔ میں خاک پر تڑپتا ہوں اور کانٹوں پر رقص کرتا ہوں، میں اس کے عشق میں مبتلا ہوں۔ اس وجہ سے بدنام ہو گیا ہوں۔ البتہ میں اس بدنامی سے ہرگز خوف نہیں کھاتا اور سرعام بازاروں میں رقص کرتا ہوں۔ ساقی آ میرے پاس مجھے پلا کیونکہ مجھے سننے کا شوق ہے میں اس کے وصال کی خوشی میں قلندرانہ رنگ میں رقص کرتا ہوں۔ دیکھنے والے مجھے کہتے ہیں کہ یہ فقیر کیا ہے-
سخی شہباز قلندرؒ قلندری رنگ میں فرماتے ہیں کہ یہ سب راز کی باتیں ہیں اور میں انہی بھیدوں کے تحت رقص کرتا ہوں اگر مجھے صبح و شام دنیا والے ملامت کریں تو میرے اندر تو محبوب کا عشق ہے۔ میں کھلم کھلا سرعام دھمال ڈالتا ہوں اور رقص کرتا ہوں۔ میں عشق الٰہی میں اپنے آپ کو اس قدر ڈبو کر محو ہو جاتا ہوں کہ دنیا والے مجھے نہ دیکھ سکتے اور نہ سمجھ سکتے ہیں۔
قلندر فرماتے ہیں، مجھے فخر ہے میں محبوب کے سامنے دھمال ڈالتا ہوں، اس لئے میں نے ایسے کپڑے پہن رکھے ہیں کہ مجھے.... دنیا والے نہیں دیکھ سکتے۔ میں ستار بجاتا ہوں اور اس پر رقص کرتا ہوں۔ اے قاتل تو نے مجھے زہر دے کر مارا ہے میں بسمل کی طرح خنجر تلے بھی رقص کرتا ہوں۔ میں عثمان مروندی خواجہ منصور کا سچا یار ہوں۔ دنیا والے مجھے بُرا بھلا کہتے ہیں میں تختہ دار پر ناچتا رہتا ہوں۔ میں اپنی لگن میں مست ہوں، میں ایسے گہرے، خونی دریا میں اترا ہوں کہ جس کی طوفانی لہریں بندے کو نگل لیتی ہیں۔ اس دریا کا نام شریعت ہے اس کا بادباں طریقت ہے۔ جس کا رنگ لال ہے اور اس کا لنگر حقیقت ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ فقیر کا راستہ بہت مشکل ہے۔ اب میرا ٹھکانہ کوئی نہیں۔ لعل شہباز قلندر.... اپنے آپ سے مخاطب ہو کر فرماتے ہیں۔ تُو اس دریا سے کیوں ڈرتا ہے۔ اس میں جو گیا واپس نہیں آیا۔ اس میں تو ہزاروں جانیں قربان ہو چکی ہیں۔ میں نے بھی دنیاوی لباس اتار پھینکا ہے لہٰذا اب مجھے کسی طرح کا خوف، ڈر نہیں ہے۔
بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق
عقل ہے محوِ تماشائے لبِ بام ابھی-
قلندر پاکؒ کے نزدیک دنیا مصائب و آلام کا گھر ہے یہ کائنات فانی ہے اس سے محبت ہی تمام برائیوں کی جڑ ہے، دنیا ٹھہرنے کی جگہ نہیں بلکہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر چلے جانے کی جگہ ہے۔آپ کا سارا کلام عشق و محبت سے بھرا ہوا ہے۔ اپنے اندر درد کی داستان لئے ہوئے ہے، جس میں قلندری شاعری کی جھلک ملتی ہے اور درگاہی ادب عیاں ہے، ہر رنگ میں خداوند کریم کی ذات کو راضی رکھا گیا ہے۔ کہ بس تو ہی تو ہے۔ آج بھی صوفیا کرام کی محفلوں میں آپ کا کلام پسند کیا جاتا ہے، درویش آپ کا کلام سن کر بہت خوش ہو کر بلند آواز میں کہتے ہیں۔
-حیدر یم قلندرم مستم بندہ مرتضیٰ علیؑ ہستم-
؛پیشوائے تمام رندانم کہ سگ کوئے شیر یزدا نم-
مندرجہ بالا عبارت سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ  دهمال رب کو یاد کرنے کیلئے ڈالی جاتی ہے اور یہی نظریہ دیگر صوفیاء کرام کا ہے-اسی نقش قدم پر چلتے ہوئے صوفیاء کرام سے عقیدت رکهنے والے خوتین و حضرات سر عام برہنہ ، مست اور دیوانوں کی طرح مزاروں پر دهمال ڈالنے کو کار خیر سمجھتے ہیں. .
اس دهمال کا صرف پاکستان میں ہی نہیں دیگر ملکوں میں بهی اہتمام کیا جاتا ہے جن میں انڈیا، بنگلا دیش، شام ، مصر، افریقہ کے بعض ممالک وغیرہ۔ ترکی اور شام میں صوفیا ایک خاص ردھم پر دف کے ساتھ دائرے میں گھومتے ہیں اور مولانا روم کے اشعار پر محو رقص ہوتے ہیں۔ یہ رقص ان صوفیا پر ایک وجد اور خاص کیفیت طاری کرتا ہے
اور صوفیاء کا کہنا ہے وجد سے انسان کا روحانی وجود مادی وجود سے کٹ کر زمین و زماں کی وقت اور شعور کی رکاوٹوں کو عبور کرتا ہوا اپنے مرکز حقیقی یعنی ذات الٰہی کی طرف پرواز کرتا ہے اور یہی انسان کی روحانی معراج ہے۔ کہ جب وہ اپنے وجود کی نفی کرتے ہوئے لامکاں کی وسعتوں میں کھو جاتا ہے اور اپنے حقیقی مرکز کی طرف رجوع کرتا ہے۔ترکی میں یہ رقص درویش کہلاتا ہے اسی طرح برصغیر میں صوفیا کے ہاں دھمال کا رواج ہے۔ دھمال میں  زیادہ تر ڈهول  بجایا جاتا ہے۔ دھمال کے وقت ڈهول(نقارہ) کی آواز ایک خاص سْر پیدا کرتی ہے۔ جس سے صوفی یا سالک وجد میں آ جاتا ہے اور حلقہ باندھ کر محو رقص ہوتے ہیں۔ صوفیا میں نیند غالب آنے لگتی ہے تو وہ اس غفلت کو دور کرنے کے لیے ڈهول پر چوٹ لگاتے ہیں اور دھمال ڈال کر غفلت کو دور کرتے ہیں۔ اب تو دهمال جدید میوزیکل آلات کے ساتھ بهی ڈالی جاتی ہے- جوش اور جذبہ قلندری رنگ کے ساتھ مل کر جب وجد کیف میں آتا ہے تو زمین سے آسمان تک کیفت و مستی کی کیفیت چھا جاتی ہے اور مست الست صوفی دھمال کے رنگ میں ڈوب کر فنا کی کیفیت میں چلا جاتا ہے۔ جب وقت میں زمین و زماں اور مکین و مکان سب اس کے سامنے ہیچ ہو جاتے ہیں اور بقول اقبال…؎
ایام کا مرکب نہیں راکب ہے قلندر
والی بات سامنے آتی ہے۔ اور قلندر وقت کے احتیاج سے نکل کر وقت کی غلامی سے آزاد ہو کر وقت کو اپنا تابع کر دیتا ہے۔ دف یا نقارے کی آواز روح کے سکوت اور سالک کی غفلت کو توڑتی ہے روح کو بیدار کرتی ہے اور مست الحال صوفی جب دم مست قلندر کی لے پر مدہوش ہو کر روحانی قوت کو بیدار پاتا ہے تو خوشی کے مارے دھمال ڈالنے لگتے ہیں۔ دھمال کی کیفیت میں اس کا جسم اپنے مادی وجود سے لاتعلق اور روح کی ازلی و ابدی طاقت اپنے رب کی معرفت حاصل کرنے کے شراب الست میں مدہوش ہو جاتی ہے۔ حضرت لعل شہباز قلندر لکھتے ہیں۔ ’’سرود و سماع محبوب حقیقی تک لے جانے کا ذریعہ ہوتا ہے‘‘۔
اور یہ بهی یاد رہے کہ صوفیوں کے نزدیک وجد، دهمال، قوالی اور دیگر موسیقی کی محافل رب کو یاد کرنے اور صاحب مزار کو خراج عقیدت پیش کرنے کے مختلف طریقے ہیں.
اسی لیے عقیدت مندوں کی طرف سے ان مزارات یا صوفیاء کرام سے منسوب محافل میں دھمال اور موسیقی کا رواج ہے-
مزید تفصیلات کیلئے قسط نمبر 27 کا مطالعہ کریں!  مندرجہ بالا واقعات لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ یہ بات اچهی طرح زہن نشین ہو جائے کہ یہ دهمال صوفیاء کرام کی تعلیمات میں سے ہے- نہ کہ عوام کے بنائے ہوئے اپنے طریقے-جاری ہے....

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...