Friday 8 April 2016

مسلمانوں کے مذہبی مسالک، 16

"مسلمانوں کے مذہبی مسالک"
(قسط نمبر16)
اللہ تعالی کا رسولوں کو علم غیب عطا کرنا:
قرآن مجید میں ہے:
مَّا كَانَ اللّـٰهُ لِيَذَرَ الْمُؤْمِنِيْنَ عَلٰى مَآ اَنْتُـمْ عَلَيْهِ حَتّـٰى يَمِيْزَ الْخَبِيْثَ مِنَ الطَّيِّبِ ۗ وَمَا كَانَ اللّـٰهُ لِيُطْلِعَكُمْ عَلَى الْغَيْبِ وَلٰكِنَّ اللّـٰهَ يَجْتَبِىْ مِنْ رُّسُلِهٖ مَنْ يَّشَآءُ ۖ
"اے لوگو! اللہ کی شان نہیں ہے کہ تمہیں غیب کی اطلاع دے، لیکن اللہ اپنے رسولوں میں سے جسے چاہتا ہے، انتخاب کر کے انہیں غیب کا علم دیتا ہے" آل عمران (3:179)
وَعَلَّمَكَ مَا لَمْ تَكُنْ تَعْلَمُ ۚ
"اے نبی! اس نے آپ کو وہ کچھ سکھا دیا جو کہ آپ نہ جانتے تھے۔ النساء 4:113
مَا فَرَّطْنَا فِی الْکِتٰبِ مِنْ شَیْئٍ.(الانعام٦:٣٨)
    ''ہم نے اپنی کتاب میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔''
وَمَا هُوَ عَلَى الْغَيْبِ بِضَنِيْنٍ
"وہ نبی غیب بتانے میں بخل سے کام نہیں لیتے ہیں۔ (التکویر 81:24)
وَعَلَّمْنَاهُ مِنْ لَّـدُنَّا عِلْمًا
"ہم نے انہیں [خضر علیہ السلام کو] اپنی جانب سے علم عطا کیا تھا۔(الکہف 18:65)
مفتی نعیمی صاحب کا استدلال یہ ہے کہ جب اللہ تعالی نے بنی ﷺ کو علم سکھایا تو آپ کو علوم غیبیہ حاصل ہو گئے۔ قرآن میں چونکہ ہر چیز کا بیان ہے، اس وجہ سے آپ کو ہر چیز کا علم ہوا۔ جیسے حضرت خضر علیہ السلام کو اللہ تعالی نے علم لدنی (یعنی اپنی جانب سے )علم سکھایا تھا، اسی طرح بنی کریم ﷺ کو ان سے کہیں زیادہ علم لدنی عطا ہوا اور یہ علم آپ سے اولیائے کاملین کو بھی حاصل ہوتا ہے۔
سلفی حضرات کا کہنا یہ ہے کہ وہ اس کے قائل ہیں کہ اللہ تعالی غیب کے کچھ علوم اپنے پیغمبروں کو عطا کرتا ہے، جیسا کہ اوپر بیان کردہ آیات سے واضح ہے۔ اس سے یہ کہیں نہیں نکلتا کہ وہ حاضر و ناظر ہوں اور انہیں ہر بات کا علم ہو جائے۔ انہیں انہی باتوں کا علم ہوتا ہے جو اللہ تعالی انہیں عطا کر دیتا ہے۔ یہ علوم غیبیہ عام طور پر آخرت سے متعلق امور پر مشتمل ہوتے ہیں اور بیان کردہ آیات ہی سے واضح ہے کہ پیغمبر کو یہ علوم امت کو بتانے کے لیے دیے جاتے ہیں اور وہ اس غیب کی اطلاع انہیں دینے میں بخیل نہیں ہوتے ہیں۔
حدیث سے دلائل:
سنی بریلوی حضرات صحیح بخاری کی یہ حدیث پیش کرتے ہیں:
*وروی عیسی، عن رقبۃ، عن قیس بن مسلم، عن طارق بن شھاب قال: سمعت عمر رضی اللہ عنہ یقول: قام فیناالنبی ﷺ مقاما، فاخبرنا عن بدء الخلق حتی دخل اھل الجنۃ منازلھم واھل النار منازلھم، حفظ ذلک من حفطہ و نسیہ من نسیہ۔
حضرت عمررضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ہمارے درمیان کھڑے ہوئے اور ہمیں تخلیق کے آغاز سے لے کر معلومات فراہم کرنا شروع کیں اور بیان فرماتے گئے یہاں تک کہ اہل جنت کے اپنے مقام میں داخل ہونے اور اہل جہنم کے اپنے مقام میں داخل ہونے کو بیان فرما دیا ۔ جس نے ان واقعات کو یاد رکھا، اس نے یاد رکھا اور جو بھول گیا، سوہ وہ بھول کیا۔ (بخاری ، کتاب بدء الخلق، حدیث  3020)
*حدثنا موسی بن مسعود: حدثنا سفیان، عن الاعمش، عن ابی وائل، عن حذیفۃ رضی اللہ عنہ قال: لقد خطبنا النبی صلی اللہ علیہ و سلم خطبۃ، ما ترک فیھا شیا الی قیام الساعۃ الا ذکرہ، علمہ من علمہ وجھلہ من جھلہ، ان کنت لاری الشیء قد نسیت، فاعرفہ کما یعرف الرجل الرجل اذا غاب فرآہ فعرفہ-
حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے ہمیں ایک خطبہ دیا۔ اس میں آپ نے قیامت قائم ہونے تک کوئی چیز نہ چھوڑی مگر یہ کہ اس کا ذکر کر دیا۔ جس نے اس کا علم رکھا، وہ عالم ہو گیا اور جو اس سے جاہل رہا، وہ جاہل رہا۔ جب میں اس میں کوئی ایسی چیز دیکھتا ہوں جسے میں بھول چکا ہوں تو میں اس طرح پہچان لیتا ہوں جیسے کسی شخص کی کوئی چیز گم ہو جائے تو ملنے پر اسے فوراً پہچان لیتا ہے۔ (بخاری، کتاب القدر، حدیث 6230)
*حدثنا ابو الیمان قال: اخبرنا شعیب ، عن الزھری قال: اخبرنی انس بن مالک: ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم خرج حین ذاغت الشمس، فصلی الظھر، فقام علی المبنر فذکر الساعۃ، مذکر ان فیھا امورا عظاما، ثم قال: (من احب ان یسال عن شیء فلیسال، فلا تسالونی عن شیء الا اخبرتکم، ما دمت فی مقامی ھذا)۔ فاکثر الناس فی البکاء، واکثر ان یقول: (سلونی) فقام عبداللہ بن حذافۃ السھمی فقال: من ابی؟ قال: ابوک حذافۃ ثم اکثر ان یقول: (سلونی) فبرک عمر علی رکبتیہ فقال: رضینا باللہ ربا، وبالاسلام دینا، وبمحمد نبیا، فسکت۔ ثم قال: (عرضت علی الجنۃ والنار آنفا، فی عرض ھذا الحائط، فلم ارکالخیر والشر)
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ بنی ﷺ اس وقت گھر سے باہر نکلے جب سورج کچھ ڈھل گیا تو آپ نے ظہر کی نماز پڑھائی۔ پھر آپ منبر پر کھڑے ہوئے اور آپ نے قیامت کا ذکر فرمایا۔ آپ نے اس میں بڑے بڑے معاملات پر گفتگو فرمائی۔ پھر فرمایا: تم میں سے جو کوئی کچھ پوچھنا ہے تو وہ پوچھ لے۔ تم جو بھی پوچھو گے، میں تمیں اس کے خبر دوں گا، جب تک کہ میں اس مقام پر کھڑا ہوں۔ اکثر لوگ رونے لگے۔ آپ یہ فرماتے رہے، مجھ سے پوچھو۔ عبداللہ بن حذافہ السہمی[ ان کے والد کا نام اس وقت نامعلوم تھا، جس سے یہ پریشان رہتے تھے] کھڑے ہوئے اور پوچھا: میرے والد کون ہیں؟ فرمایا تمہارے والد حذافہ ہیں پھر فرماتے رہے مجھ سے پوچھو۔ عمر رضی اللہ عنہ اپنے گھٹنوں کے بل بیٹھ گئے اور عرض کیا: ہم اللہ سے بطور رب اسلام سے بطور دین اور محمد سے بطور نبی راضی ہیں۔ تو آپ خاموش ہو گئے اور فرمایا: ابھی ابھی میرے سامنے جنت و جہنم اس دیوار کے کونے پر پیش کی گئی تھیں۔ میں نے ایسی اچھی اور بری چیزیں نہیں دیکھیں۔ (بخاری کتاب مواقیت الصلوۃ، حدیث 515)
ان احادیث کے علاوہ مفتی صاحب نے متعد ایسی احادیث پیش کی ہیں جب میں رسول اللہ ﷺ کے علوم غیبیہ جیسے مستقبل کے بارے میں خبر دینے کا بیان ہے۔ ان میں وہ حدیث بھی ہے جس میں آپ نے قیامت کی علامات بیان فرمائیں اور وہ بھی ہے جس میں آپ نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو خیبر میں فتح کی پیش گوئی فرمائی۔ مفتی صاحب ان احادیث سے استد لال کرتے ہیں کہ رسول ﷺ کو ہر بات کا علم ہے۔ حدیث میں ماترک فیھا شیا الی قیام الساعۃ الا ذکرہ یعنی آپ نے قیامت تک کی کوئی ایسی چیز ترک نہ کی جس کا ذکر نہ فرمایا ہو، جس سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ کو روز قیامت تک ہر ہر چیز کا علم تھا۔ اسی کو وہ علم ماکان ومایکون کہتے ہیں یعنی ہر اس چیز کا علم جو پہلے تھی، اب ہے اور مستقبل میں ہو گی۔
سلفی حضرات کا کہنا یہ ہے کہ وہ ان تمام احادیث کو مانتے ہیں اور رسول اللہ ﷺ کے لیے علوم غیبیہ کے قائل ہیں۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ یہ وہ امور تھے، جن کا اللہ تعالی نے آپ کو علم دیا اور آپ نے امت کو ان کی خبر دے دی کیونکہ آپ غیب بتانے میں بخیل نہیں ہیں۔ ان سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ آپ کو ہر ہر شخص اور ہر ہر چیز کے حالات کا علم ہو۔ حدیث کے جو الفاظ ہیں، یہ عربی زبان کا ایک خاص اسلوب ہے جو دوسری زبانوں میں بھی پایا جاتا ہے۔ انسان عام طور پر سائنس یا منطق کی زبان میں گفتگو نہیں کرتا۔ ہم اگر کسی مخصوص موضوع پر تفصیلی گفتگو بات کریں اور اس کے مختلف پہلووں کا جائزہ لیں تو اردو میں بھی اسی طرح کہتے ہیں کہ میں نے تو ہر ہر بات کو کھول کر بیان کر دیا۔ اس جملے کا کھبی یہ مطلب نہیں ہوتا کہ میں نے پوری کائنات کی ہر ہر بات کو کھول کر بیان کر دیا بلکہ اس کا مطلب صرف یہ ہوتا ہے کہ ہم نے زیر بحث مسئلے کے ہر (یا اکثر) پہلووں پر گفتگو کر دی ہے۔ حدیث کے الفاظ راوی کے ہیں جنہوں نے اسی اسلوب میں گفتگو کی ہے۔ اس سے یہ ثابت کرنا درست نہیں ہے کہ آپ کو ہر ہر بات کا علم ہے۔
ان دلائل کے علاوہ مفتی صاحب نے علم غیب سے متعلق قدیم علماء اور بعض علمائے دیوبند کے کچھ اقوال پیش کیے ہیں۔ چونکہ یہ اقوال و آراء سب فریقوں کے نزدیک متفق علیہ نہیں ہیں، اس لیے ہم یہاں انہیں نظر انداز کرتے ہیں۔
مسئلہ علم غیب میں سلفی حضرات کے دلائل اگلی قسط میں پڑهیں.
جاری ہے.....
مجموعہ هذا میں شامل ہونے کیلئے رابطہ نمبر
0096176390670
00923007003012
مستورات کیلئے علیحدہ مجموعہ موجود ہے

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...