Monday 4 April 2016

اسلام اور خانقاہی نظام، 126

اسلام اور خانقاہی"
(گزشتہ سے منسلک قسط نمبر 126)
۔یہاں مولانا ثناء اللہ امرتسری رحمة اللہ علیہ کا ذکر کردہ ایک واقعہ پیش کرتا ہوں،جو ان کے جریدہ'اہل حدیث' امرتسر کے شمارہ 17؍ مارچ 1924ء میں شائع ہوا تھا، لکھتے ہیں :''یہاں پر ایک واقعہ بلاکم و کاست ناظرین کے سامنے رکھتا ہوں ۔ حافظ عزیز الدین صاحب مرادآبادی (جو میرے گمان میں مردِ صالح ہیں ) مولوی اشرف علی تھانوی کے مرید تھے۔بعد بیعت آپ مسئلہ تقلید کی تحقیق کرکے مقلد سے (متبع)غیر مقلد ہوگئے مگر مولانا مرحوم کے حق میں اُنہوں نےکسی قسم کی بدگمانی نہیں کی۔لیکن مولانا تهانوی صاحب کا ایک پوسٹ کارڈ موصوف کو پہنچا جس کا مضمون یہ تھاکہ میں حافظ عزیز الدین صاحب کو غیر مقلد ہو جانے کی وجہ سے اپنے حلقہ بیعت سے خارج کرتا ہوں ۔ اب میرا تمہارا پیری مریدی کا تعلق نہیں رہا-"
8-شیخ سے بیعت کرنا عذابِ قبر سے چھٹکارا دلاتا ہے، پہلے یہ واقعہ پڑھئے-" کہ اُن کے دادا پیر شیخ معین الدین حسن سنجری چشتی اجمیری قدس سرہ العزیز کی یہ رسم تھی کہ جو کوئی ہمسایہ میں سے اس دنیا سے انتقال کرتا، اس کے جنازہ کے ساتھ جاتے اور خلق کے لوٹ جانے کے بعد اس کی قبر پر بیٹھتےاور جو درود، کہ ایسے وقت میں پڑھتے آئے ہیں ، پڑھتے۔ پھر وہاں سے آتے۔چنانچہ اجمیر میں آپ کے ہمسایوں میں سے ایک نے انتقال کیا۔دستور کے مطابق آپ جنازہ کے ساتھ گئے، جب اُسےدفن کرچکے، خلق لوٹ آئی اور خواجہ وہیں ٹھہر گئے اور تھوڑی دیر کے بعد آپ اُٹھے۔ شیخ الاسلام قطب الدین فرماتے ہیں کہ میں آپ کے ساتھ تھا۔ میں نے دیکھاکہ دم بدم آپ کا رنگ متغیرہوا، پھر اسی وقت برقرار ہوگیا۔ جب آپ وہاں سے کھڑے ہوئے تو فرمایا:الحمدﷲ! بیعت بڑی اچھی چیز ہے۔''شیخ الاسلام قطب الدین اوشی نے آپ سے سوال کیا تو آپ نے فرمایا کہ جب لوگ اس کو دفن کرکےچلے گئے تھے تو میں بیٹھاہوا تھا۔میں نے دیکھا کہ عذاب کے فرشتے آئے اورچاہا کہ اس کوعذاب کریں ، اسی وقت شیخ عثمان ہارونی (آپ کے پیر، م634ھ) قدس سرہ العزیز حاضر ہوئےاور کہا کہ یہ شخص میرے مریدوں میں سے ہے۔ جب خواجہ عثمان نے یہ کہا تو فرشتوں کوفرمان ہوا کہ کہو: ''یہ تمہارے برخلاف تھا۔'' خواجہ نے فرمایا: بے شک اگرچہ برخلاف تھا مگرچونکہ اس نے اپنے آپ کو اس فقیر کے پلے باندھا تھا، تو میں نہیں چاہتا کہ اس پر عذاب کیاجائے، فرمان ہوا: اے فرشتو! شیخ کے مرید سے ہاتھ اُٹھاؤ، میں نے اس کو بخش دیا۔ پھر شیخ الاسلام کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے اور فرمانے لگے کہ اپنے آپ کو کسی کے پلے باندھنا بہت ہی اچھی چیز ہے۔''
سبحان اللہ !نہ شریعت پرعمل کرنے کی ضرورت نہ کتاب و سنت کا کوئی لحاظ، شیخ کی بیعت جنت کا پروانہ ہوگیا۔ اور پھر جس طرح سے یہاں کتاب و سنت کی دھجیاں اُڑائی گئی ہیں وہ بھی ملاحظہ فرمالیں ، اللہ عالم الغیب ہے، لیکن یہاں شیخ عذابِ قبر کا سارا انتظام دیکھ رہے ہیں ۔اللہ کے رسول فرشتہ جبرئیل ؑ سے ہم کلام ہوتے تھے، یہاں شیخ عذاب کے فرشتوں سے مجادلہ کررہے ہیں۔حدیث کے مطابق انبیا اور صلحا کو قیامت کے دن شفاعت کاموقع دیا جائے گا، یہاں عین عذابِ قبرسے پہلے شفاعت کی جارہی ہے جو فوراً ہی اجابت کے مراحل طے کرگئی۔ جس صحیح حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دو قبروں پر سے گزرنے، دونوں کوعذابِ قبر ہونے، آپ ؐ کے ان دونوں قبروں پر ٹہنی لگانے کا واقعہ نقل ہوا ہے اور پھرٹہنیوں کے خشک ہونے تک ان کے عذاب میں تخفیف کا ذکر ہے، اُسے ذرا ذہن میں تازہ کیجئے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جنہیں الہامِ خداوندی سے دو اشخاص کے عذابِ قبر کے بارے میں بتایا گیا،وہ یقینا مسلمان تھے، آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت میں داخل تھے، لیکن اُنہیں تو یہ بیعت کام نہ آئی۔ یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لئے دعا کی اور بطورِ علامت دو ٹہنیاں بھی لگائیں کہ جن کے خشک ہونے تک دونوں کے عذاب میں تخفیف کی گئی تھی۔کیا یہ ایک قباحت ہی کافی نہیں کہ جس سے مزعومہ بیعت کی قلعی کھل جاتی ہے؟طریقت اور بیعت چونکہ لازم و ملزوم ہیں ،چنانچہ اس تعلق سے بھی نئے نئے شگوفے کھلتےرہتے ہیں ۔ مولانا عبدالرحمن کیلانی رحمة اللہ علیہ لکھتے ہیں :''بیعت کے سلسلہ میں صوفیا نے ایک اور شاندار کارنامہ سرانجام دیا ہے۔ اُنہوں نے جب دیکھا کہ اویس قرنی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ دیکھا، نہ بیعت کی، تو اُن کی ارواح کی آپس میں بیعت کرا دی اور اسے نسبت ِاُویسیہ کا نام دیا اور راستہ کی اس رکاوٹ کو ہمیشہ کے لئے ختم کردیا۔ وہ جب دیکھتے ہیں کہ فلاں شیخ کی فلاں شیخ سے ملاقات ہی ثابت نہیں یا پیرکی وفات کے بہت عرصہ بعد مرید کی پیدائش ہو تو وہ یہی نسبت ِاُویسیہ قائم کرکے اپنا سلسلہ جاری فرما کر کام چلا لیتے ہیں ۔''
انہی غلط رسموں کو جائز کرنے کے لئے قرآن و سنت کی نصوص کی ایسی تاویلاتِ فاسدہ کی جاتی ہیں کہ انسان اپنا سرپکڑ کر بیٹھ جاتا ہے۔ابن الجوزی رحمة اللہ علیہ لکھتے ہیں :محمد بن طاہر اپنی کتاب میں لکھتے ہیں :''پھٹے ہوئے کپڑے (مرقعہ) پہننے کے بارے میں شیخ کا مرید پرشرط رکھنا، اور بطورِ دلیل عبادة بن صامت کی حدیث پیش کی کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر بیعت کی کہ ہم تنگی اور فراخی ہر حال میں سمع و اطاعت کریں گے۔''دیکھئے کیا خوب نکتہ نکالا ہے، کہاں شیخ کا مرید پر مذکورہ شرط رکھنا اور اُسے جوڑنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت ِاسلام سے جو کہ نہ صرف لازم ہے بلکہ خود رسول کی اطاعت بھی واجب ہے۔''
اگر اُمت ِمسلمہ ایک بڑے جہاز کی مانند ہے تو یہ مختلف فرقے اور طریقے چھوٹی چھوٹی کشتیوں کی مانند ہیں ۔ شدید طوفان کی صورت میں جہاز تو بچ جاتا ہے، لیکن چھوٹی کشتیاں غرقِ آب ہوجاتی ہیں ۔ تعجب ہے کہ کتاب وسنت کے جہاز کو چھوڑ کر لوگ ان بجروں (چھوٹی کشتیوں ) پرکیوں سوار ہوتے ہیں !؟ جب کہ سمندر میں تلاطم ہی تلاطم ہے اور کشتی کسی وقت بھی ڈوب سکتی ہے۔
جاری ہے......
www.islam-aur-khanqahi-nizam.blogspot.com

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...