Tuesday 12 April 2016

اسلام اور خانقاہی نظام، 138

"اسلام اور خانقاہی نظم"
(گزشتہ سے منسلک قسط نمبر138)
اسلام اور تصوف:
مسلمانوں کی پوری تاریخ کا اگر جائزہ لیا جائے تو مسلم صوفیاء میں تین غالب رجحانات نظر آتے ہیں:
صوفیاء کے پہلے گروہ  کا مقصد صرف اور صرف "تزکیہ نفس" ہے۔ یہ لوگ قرآن و سنت کا علم حاصل کرتے ہیں اور اسے دوسروں تک پہنچاتے ہیں اور اس طریقے سے لوگوں کی شخصیتوں کو نفسانی آلائشوں سے پاک کرتے ہیں۔ یہ لوگ بدعات سے پرہیز کرتے ہیں اور ان کی پوری زندگی شریعت کے مطابق بسر ہوتی ہے۔ اس قسم کے صوفیاء کا سراغ مسلمانوں کی ابتدائی صدیوں میں ملتا ہے۔ سیدنا حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ جیسی نابغہ روزگار شخصیات اس کی مثال ہیں۔ موجودہ دور میں صوفیاء کا یہ گروہ  ناپید ہوتا جا رہا ہے۔
صوفیاء کا دوسرا گروہ  وہ ہے جو شریعت کی کھلم کھلا مخالفت کرتا ہے۔ ان کے نزدیک دینی علوم محض ظاہری علوم ہیں۔ اصل علم باطن کا علم ہے جو ظاہری حواس سے نہیں بلکہ باطن کی آنکھ سے حاصل ہوتا ہے۔  اس گروہ کے صوفی کھلے عام فحش کاموں کا ارتکاب کرتے ہیں، نشہ آور اشیاء استعمال کرتے ہیں، مزاروں کی پوجا کرتے ہیں اور شریعت کی تمام حدود کو توڑتے ہیں۔اور خرافات کو کار خیر سمجھتے ہیں؛؛
صوفیاء کا تیسرا گروہ وہ ہے جو شریعت کو بنیادی اہمیت دیتا ہے البتہ انہوں نے ایسے بہت سے تصورات اور اد و مشاغل ایجاد کر رکھے ہیں جن کا دین میں کوئی تصور نہیں ملتا۔ اس گروہ کے صوفی عام طور پر دینی اعتبار سے تعلیم یافتہ ہوتے ہیں۔ یہ لوگ صوفیاء کے دوسرے گروہ کی شدید مذمت کرتے ہیں اور قرآن و حدیث کے حوالوں سے بات کرتے ہیں۔ ان کے نقطہ نظر کے مطابق پہلے گروہ سے تعلق رکھنے والے صوفیاء اصلی نہیں ہوتے۔ اس تیسرے گروہ میں بعض بڑے مذہبی علماء بھی شامل رہے ہیں۔ اس وقت یہی تیسرا گروہ صوفیاء کی اکثریت پر مشتمل ہے۔
پہلے گروہ کے بارے میں تو کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ہے  کیونکہ یہ لوگ دین پر پوری طرح عمل پیرا ہوا کرتے تھے۔ دوسرے گروہ کے بارے میں بھی بحث کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ ان کی تردید تو خود شریعت پسند صوفی کرتے ہیں۔  تیسرے گروہ کے بعض بزرگوں کے ساتھ مجھے وقت گزارنے کا موقع ملا ہے۔ ان کے نظریات اور اعمال کا اگر اللہ تعالی کے کلام قرآن مجید  اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی  سنت کی روشنی میں جائزہ لیا جائے تو چند ایسے معاملات ہیں جن میں ان کے عقائد و اعمال قرآن و سنت سے بالکل متضاد نقطہ نظر پیش کرتے ہیں۔ ان اہل تصوف کے ساتھ میرا جو تجربہ رہا ہے، اس کے نتیجے میں چند ایسے معاملات میرے سامنے آئے ہیں جہاں تصوف کی روایت قرآن و سنت سے بالکل مختلف نقطہ نظر پیش کرتی نظر آتی ہے۔
قرآن مجید اور مروجہ صوفی ازم کی تعلیمات میں سب سے بڑا تضاد "وحدت الوجود (Pantheism) " کا نظریہ ہے۔ صوفیاء کی اکثریت اس نظریہ کی قائل ہے۔ قرآن کا تصور توحید تو یہ ہے کہ اس کائنات کا ایک خدا ہے۔ باقی سب اس کی مخلوق ہے۔ اکابر صوفیاء قرآن کے اس تصور توحید کو "عوام کی توحید" قرار دیتے ہیں۔ ان کے خیال میں لا الہ الا اللہ کی توحید عام لوگوں کی توحید ہے۔ ان کے نقطہ نظر کے مطابق توحید "لا موجود الا اللہ" ہے۔ اس کا معنی یہ ہے کہ کوئی بھی چیز خدا کی مخلوق نہیں ہے۔ اس کائنات میں صرف ایک ہی وجود ہے اور وہ اللہ تعالی کی ذات ہے۔
بظاہر تو یہ نظریہ توحید کا بڑا علم بردار نظر آتا ہے مگر ذرا سا غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ نظریہ ایک بہت بڑے شرک کی راہ کھول دیتا ہے۔ اگر کائنات میں خدا کے سوا کچھ نہیں ہے تو یہ جو سب کچھ نظر آتا ہے، یہ خدا ہی ہوئے۔ اس کے بعد انسان کا اپنا وجود بھی کوئی حیثیت نہیں رکھتا بلکہ ہر انسان خدا ہی ٹھہرا۔ صرف انسان ہی پر کیا موقوف، تمام حیوانات، نباتات، جمادات، سیارے، ستارے، زمین، آسمان سبھی خدا ہوئے۔ اس کے بعد ایمان و کفرکی حقیقت ختم ہو گئی۔ جب ہر انسان خدا ہی کے وجود کا حصہ ہے تو پھر آخرت کی جزا و سزا کیا معنی رکھتی ہے؟ یہی وجہ ہے کہ بعض اکابر صوفیاء نے انا الحق یعنی "میں حق ہوں" اور سبحانی ما اعظم شانی یعنی "میں پاک ہوں، میری شان کیا بلند ہے!" کے نعرے لگائے۔ وحدت الوجود کو بڑے پیمانے پر ہندوؤں کے ہاں اختیار کیا گیا ہے، جس کی وجہ سے ان کے ہاں ہر چیز کو دیوی دیوتا کا مقام دے دیا گیا ہے۔مثلاً حجر شجر، شمس نجوم، انسان جانور،وغیرہ
اسلام اور مروجہ صوفی ازم میں دوسرا بڑا فرق "ختم نبوت" کا عقیدہ ہے۔ قرآن مجید کے مطابق محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خاتم النبیین ہیں۔ آپ پر نہ صرف نبوت ختم ہوئی بلکہ نبوت کے دروازے کو مکمل طور پر بند کر کے اسے سیل کر دیا گیا۔ صوفی علماء بظاہر تو ختم نبوت کے قائل نظر آتے ہیں مگر یہ انبیاء کرام کی وحی کے علاوہ بھی خدا سے براہ راست ہدایت حاصل کرنے کے قائل ہیں۔ اس طریق کار کو "الہام" کا نام دیا جاتا ہے۔ اپنی نوعیت کے اعتبار سے وحی اور الہام میں کوئی فرق نہیں ہے۔  یہ محض لفظی اختلاف ہے ورنہ دونوں کی حقیقت یہی ہے کہ اللہ تعالی سے براہ راست ہدایت حاصل کی جائے۔
اگر خدا سے براہ راست ہدایت حاصل کرنے کو ممکن تصور کر لیا جائے تو پھر وحی اور نبوت  کی کوئی حیثیت نہیں رہ جاتی۔ اس کے بعد کوئی شخص اگر نبوت کا دعوی نہ بھی کرے، وہ الہام کی بنیاد پر ہی دوسروں کو اپنی اطاعت کے لئے مجبور کر سکتا ہے۔ عجیب بات یہ ہے کہ اس الہام کے قائل ہمارے بزرگ بڑی شدت سے ختم نبوت کے عقیدے کا پرچار کرتے ہیں اور جھوٹے نبیوں کے پیروکاروں کے خلاف مہم چلاتے ہیں۔ مگر ایسا کرنے کے ساتھ ساتھ وہ الہام کو درست تصور کر کے خود ہی ختم نبوت کے عقیدے پر ضرب بھی لگا رہے ہوتے ہیں۔ ان حضرات کے ہاں یہ ایک ایسا تضاد ہے جس کی نظیر شاید ہی کسی اور معاملے میں مل سکے۔
قرآن مجید اور مروجہ تصوف کی دعوت میں تیسرا بڑا فرق یہ ہے کہ قرآن بار بار انسان کی عقل کو اپیل کرتا ہے۔ اللہ تعالی نے انسان کو ایک عقل مند مخلوق بنایا ہے۔ یہ عقل ہی وہ شرف ہے جس کی بدولت انسان حیوانات سے بڑا درجہ رکھتا ہے۔ عقل اور وحی میں کوئی تضاد نہیں بلکہ انسانی عقل اگر جذبات سے مغلوب نہ ہوئی ہو تو پھر یہ وحی کی آواز کو پہچانتی اور اس کی طرف لپکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید میں بار بار  أَفَلا تَعْقِلُونَ یعنی "کیا تم عقل نہیں رکھتے؟" اور لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ یعنی "تاکہ تم عقل سے کام لو" کہہ کر انسانی عقل کو اپیل کی جاتی ہے۔ قرآن یہ بیان کرتا ہے کہ اس کی نشانیوں میں اہل عقل ہی غور و فکر کرتے ہیں۔
اس کے بالکل برعکس ان اہل تصوف کی اکثریت کے ہاں عقل کو "حجاب اکبر" قرار دیا جاتا ہے۔ ان کی محفلوں میں اپنی عقل سے سوچنے والوں کی بری طرح حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔ مریدین کو اس بات کی تلقین کی جاتی ہے کہ وہ خود کو مرشد کے سپرد اس طریقے سے کریں جیسے مردہ کے ہاتھ میں زندہ ہوتا ہے۔  برصغیر کے ایک بڑے صوفی عالم لکھتے ہیں:
جاری ہے......
00961 76 390 670

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...