Friday 1 April 2016

مسلمانوں کے مذہبی مسالک،5

 "مسلمانوں کے مذہبی مسالک"

جیسا کہ ہم اوپر بیان کر چکے ہیں انسان اللہ تعالی کی ایسی مخلوق ہے جو ذہن اور عقل رکھتی ہے۔ سوچنے اور سمجھنے کی اس صلاحیت کی وجہ سے اختلافات پیدا ہوتے ہیں۔  جب مخصوص نقطہ نظر رکھنے والے لوگ اپنے ہم خیال لوگوں سے ملتے ہیں تو اس کے نتیجے میں ایک  حلقہ یا گروہ تشکیل پاتا ہے۔ اس گروہ کو اگر کوئی اچھا لیڈر مل جائے جو اس گروہ کے خیالات اور تصورات کو منظم اور مربوط انداز میں پیش کر دے تو یہ غیر منظم گروہ "مکتب فکر" کی شکل اختیار کر لیتا ہے جو بعض امتیازی مسائل کی وجہ سے دوسرے مکاتب فکر سے مختلف ہوتا ہے۔ مختلف مسائل کی مزید تحقیق و تنقیح کے نتیجے میں مکتب فکر، مسلک کی شکل اختیار کرتا ہے۔ اگر اس مسلک کے لوگ دوسروں کے ساتھ اختلاف میں شدت برتیں تو بالآخر اس مسلک کے بطن سے فرقہ جنم لیتا ہے۔ اگر کسی فرقے یا مسلک میں شدت پائی جائے تو رد عمل کی نفسیات کے تحت دوسرے فرقے کے لوگوں میں بھی شدت پیدا ہو جاتی ہے جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ باہمی نفرتیں جنم لیتی ہیں۔
مسلم فرقوں کی مختصر تاریخ:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فوراً بعد روم اور ایران کی سلطنتیں اسلام کی قوت کے سامنے ٹھہر نہ سکیں اور خلفاء راشدین کے زمانے میں ہی اسلامی حکومت موجودہ بلوچستان سے لے کر مراکش تک پھیل گئی۔ یہ سارا عمل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد صرف پندرہ سے بیس سال کے عرصے میں مکمل ہو گیا۔
مسلمانوں کی تلواروں نے روم و ایران کی فوجوں کی قوت توڑ دی مگر ظاہر ہے کہ تلوار سے ان علاقوں کے بسنے والے انسانوں کے دل فتح نہ کیے جا سکتے تھے۔ اس کی وجہ خود قرآن مجید کا یہ حکم تھا کہ لَاۤ اِكْرَاهَ فِى الدِّيْنِ یعنی "دین کے معاملے میں کوئی جبر نہیں" (البقرۃ 2:256) اہل عرب کی تقریباً سو فیصد آبادی نے  اسلام قبول کر لیا مگر دیگر علاقوں کی ایک بہت بڑی آبادی نے اتنی جلدی اسلام قبول نہ کیا۔ ظاہر ہے کہ ان علاقوں کے رہنے والے صدیوں سے جن مذاہب کو مانتے تھے، وہ اپنے مذہب کو آسانی سے نہ چھوڑ سکتے تھے اور مسلمان بھی انہیں زبردستی اسلام قبول کرنے پر مجبور نہ کر سکتے تھے۔ جن لوگوں نے اسلام قبول کیا، وہ اپنے سابقہ مذاہب کے بہت سے تصورات ساتھ لائے جس کے نتیجے میں عہد صحابہ ہی میں مختلف زاویہ ہائے نظر سامنے آنے لگے اور فرقے بننے کا عمل شروع ہو گیا۔ ابتدا میں یہ عمل سیاسی نوعیت کا تھا مگر وقت کے ساتھ ساتھ مذہبی فرقے بننے کا عمل شروع ہوا۔ وقت کے ساتھ ساتھ خوارج، کرامیہ، مرجئہ، مجسمہ، قدریہ، جبریہ اور نجانے کتنے گروہ بنے اور تاریخ کے عمل میں منظر عام سے غائب ہو گئے۔
اس دور کے تین  فرقے اب بھی باقی ہیں۔ ان میں سے ایک شیعہ یا اہل تشیع کا گروہ ہے جو مسلمانوں کی کل آبادی کے تقریباً 10 فیصد افراد پر مشتمل ہے اور دوسرا  گروہ مسلمانوں کا سواد اعظم یا مین اسٹریم مسلمان جو خود کو اہل السنۃ والجماعۃ یا اردو میں اہل سنت و جماعت کہتے ہیں۔ یہ مسلمانوں  کی کم و بیش 90 فیصد آبادی پر مشتمل ہے۔  ان دونوں کے علاوہ خوارج کے گروہ سے الگ ہونے والا ایک چھوٹا سا فرقہ بھی اب تک موجود ہے جو کہ "اباضی" کہلاتے ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان سبھی فرقوں کے اندر مزید ذیلی فرقے بنتے چلے گئے۔ خوارج کے اندر یہ عمل بہت زیادہ ہوا، اہل تشیع کے اندر اس سے کچھ کم جبکہ اہل سنت میں سب سے کم جن کے ذیلی فرقے نسبتاً مقامی رہے۔
ان فرقوں کی تاریخ کچھ یوں شروع ہوتی ہے کہ عہد بنو امیہ اور بنو عباس میں یونانی کتب کے تراجم عربی میں ہوئے۔ ان کتب میں جہاں یونان کی سائنس اور سماجی علوم شامل تھے، وہاں مذہب اور الہیات کے میدان میں انہوں نے جو کچھ سوچا اور لکھا تھا، وہ  بھی عربی میں منتقل ہو گیا۔  اس کے نتیجے میں نئی افکار پیدا ہوئیں اور نئے انداز میں سوچا جانے لگا جس کے نتیجے میں مختلف فرقے معتزلہ، اشاعرہ، ماتریدیہ پیدا ہوئے۔  وقت گزرنے کے ساتھ جب ان کے وہ مسائل  ہی زندہ نہ رہے جن میں یہ اختلاف کیا کرتے تھے تو پھر ان مسالک کی اپنی افادیت ہی ختم ہو گئی اور ان کی بحثیں ان کتابوں میں دفن ہو گئیں جن کا مطالعہ اب صرف چند ہی لوگ کیا کرتے ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ اور بھی بہت سے فرقے پیدا ہوئے اور ختم ہوتے چلے گئے۔
اب سے دو سو برس پہلے جب مسلم دنیا سیاسی طور پر زوال پذیر ہوئی اور ان کے علاقے کے بڑے حصے پر مغربی طاقتوں نے قبضہ کر لیا تو  انہوں نے Divide and Rule کی پالیسی اختیار کی۔ دوسری طرف زوال کے نتیجے میں مسلمانوں کے ہاں اخلاقی انحطاط پیدا ہوا۔ اس کے نتیجے میں بہت سے فرقے اور گروہ پیدا ہوئے جو اب بھی باقی ہیں۔ مغربی طاقتوں کے غلبے کے نتیجے میں رد عمل کی بہت سی سیاسی، عسکری، دعوتی اور علمی و فکری تحریکیں پیدا ہوئیں جن کے نتیجے میں بہت سے گروہ پیدا ہوئے۔ انہیں  فرقہ کہنا تو غلط ہو گا مگر چونکہ یہ منظم گروہوں کی شکل اختیار کر گئے، اس وجہ سے انہیں امت کے اندر "امتیازی گروہ" کی حیثیت سے شناخت کیا جا سکتا ہے۔
اس سلسلہ میں ہم موجودہ مسلم دنیا میں موجودہ دور کے  زندہ فرقوں کے عقائد و تصورات اور دلائل تک ہی خود کو محدود رکھیں گے۔
جاری ہے.....

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...