Friday 1 April 2016

مسلمانوں کے مذہبی مسالک،10

"مسلمانوں کے مذہبی مسالک"

سلفی اور غیر سلفی ہونے کے اعتبار سے جنوبی ایشیا کے اہل سنت کے مسالک:
جنوبی ایشیا سے ہماری مراد بنیادی طور پر وہ ممالک ہیں جو بر صیغیر پاک و ہند کا حصہ ہیں۔ ان میں ہندوستان، پاکستان، بنگلہ دیش، افغانستان، سری لنکا، نیپال، بھوٹان اور مالدیپ شامل ہیں۔ جن مسلک کا ہم اس سلسلہ میں ذکر کریں گے، ان کی غالب آبادیاں پاکستان، ہندوستان، بنگلہ دیش اور افغانستان میں آباد ہیں۔ بقیہ ممالک کے مسلمانوں میں مسالک کی تقسیم بہت زیادہ گہری نہیں ہے۔ بنیادی طور پر جنوبی ایشیا کے سنی مسالک کی تعداد چار ہے۔
*سنی بریلوی-
*سنی دیوبندی-
*اہل حدیث یا سلفی-
*وہ حضرات جو کسی خاص فرقہ سے تعلق نہیں رکهتے وہ بهی شامل ہیں-
(اس کے علاوہ چهوٹے چهوٹے مسالک و مکاتب فکر بهی موجود ہیں-جن کا ذکر ہم آخر پر کریں گے)
برصغیر کے اہل سنت تین فرقوں میں تقسیم ہیں: اہل حدیث، دیو بندی اور بریلوی۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ اہل حدیث ایک جانب بریلوی دوسری جانب۔ دیو بندی حضرات نے ان کے درمیان کا راستہ اختیار کیا ہے اور ان میں سے بعض اہل حدیث کے قریب ہیں اور بعض بریلویوں کے قریب ہیں۔ ان تینوں مسالک سے ہٹ کر بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو خود کو ان تینوں مسالک سے وابسطہ نہیں سمجھتے۔ ان کے لیے اس تالیف  میں ہم نے ماورائے مسلک یا فرقوں سے ماوراء حضرات یا کسی جرقہ سے تعلق نہ رکھنے والے حضرات کی اصطلاح اختیار کی ہے۔ جس کا مختلف مسائل میں ان گروہوں کے نقطہ ہائے نظر کا تفصیلی جائزہ ہم اگلے ابواب میں لیں گے۔ اس سے پہلے کہ ہم آگے بڑھیں، مناسب ہو گا کہ ان مکاتب فکر اور ان کی شخصیات کا ایک اجمالی تعارف پیش کر دیا جائے۔
*سنی بریلوی مکتب فکر:
سنی بریلوی مکتب فکر روایتی دین کا علمبرار ہے۔ ان کا طرہ امیاز رسول اللہ ﷺ اور بزرگان دین سے عقیدت و محبت ہے اور تصوف ان کا خاص میدان ہے۔ لفظ بریلوی کی نسبت مولانا احمد رضا خان بریلوی (1921-1856) سے ہے جنہوں نے 1906 میں بعض علمائے دیوبند پر کفر کا فتوی لگایا جس کے نتیجے میں بریلوی اور دیو بندی مکاتب فکر علیحدہ ہوئے۔ مولانا بریلوی کا تعلق، یوپی انڈیا کے شہر بانس بریلی سے تھا۔ واضح رہے کہ اوپر بیان کردہ سید احمد بریلوی 1831-1786 کا تعلق بوپی ہی کے ایک اور شہر رائے بریلی سے تھا اور وہ بریلوی حضرات کی بزرگ شخصیات میں شامل نہیں ہیں۔
سنی بریلوی حضرات عام طور پر خود کو بریلوی کہلوانا پسند نہیں کرتے بلکہ اپنے لیے سنی کا لقب اختیار کرتے ہیں لیکن مسئلہ یہ ہے اسی لقب کا دعوی دیو بندی اور اہل حدیث بھی کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس سلسلہ میں ان کے لیے سنی بریلوی کی اصطلاح
استعمال کی ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ بر صغیر کے مسلمانوں کی اکثریت ان کی ہم مسلک ہے۔ پاکستان میں سنی بریلوی زیادہ تر پنجاب اور سندھ میں اکثریت میں ہیں۔ دیوبندی ، اہل حدیث اور ماورائے مسلک حضرات سبھی کے لیے سنی بریلویوں کے ہاں عام طور پر ’’وہابی’’  کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔
سنی بریلوی مکتب فکر کی اہم تحریکوں اور جماعتوں میں جمعیت علمائے پاکستان، جماعت اہل سنت، دعوت اسلامی، منہاج القرآن اور انجمن طلباء اسلام شامل ہیں۔ ان کی اہم ترین شخصیت مولانا احمد رضا خان بریلوی (1921-1856) ہیں جن کے لیے ’’اعلی حضرت ’’ کا لقب اختیار کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ ان کے بیٹے حامد رضا خان (1943-1875) اور مصطفی رضا خان (1981-1892)، مولانا امجد علی (1948-1878)، مولانا نعیم الدین مراد آبادی (1948-1882) ، مولانا عبد العلیم صدیقی (1954-1892) پیر جماعت علی شاہ (1951-1840) مفتی احمد یار خان نعیمی (1971-1906) اور مولانا احمد سعید کاظمی (1986-1913) شامل ہیں۔ حالیہ مشہور شخصیات میں مفتی اختر رضا خان بریلوی (1943۔ب)، پیر محمد کرم شاہ الازہر ی (1998-1917)،  مولانا شاہ احمد نورانی (2003-1926) مولانا محمد الیاس قادری (1950-ب)، علامہ غلام رسول سعیدی (1937-ب) اور ڈاکٹر طاہر القادری (1951-ب) شامل ہیں۔ واضع رہے کہ حالیہ مشہور شخصیات میں سب کی سب سنی بریلوی حضرات کے ہاں متفق علیہ نہیں ہیں۔
*سنی دیوبندی مکتب فکر:
دیوبندی مکتب فکر کی نسبت بھی یوپی کے ایک قصبے دیوبند سے ہے جہاں 1867 میں مولانا محمد قاسم نانوتوی (1880-1832) نے دارالعلوم قائم کیا۔ یہ لوگ بھی تصوف کے قائل ہیں۔ انہوں نے اپنے لیے بالعوم روایت اور سلفیت کے بیچ کا راستہ اختیار کیا ہے۔ بعض معاملات میں ان کا نقطہ نظر بریلوی اور بعض میں اہل حدیث کے قریب ہے۔ اسی طرح دیو بندی مسلک کی مختلف شخصیات کا رحجان بھی مختلف ہے اور اپنے عقائد و نظریات میں ان کے بعض لوگ بریلوی اور بعض اہل حدیث مسلک کے زیادہ قریب ہیں۔ شروع میں بریلوی اور دیوبندی مکاتب فکر میں بہت زیادہ اور گہرا اختلاف نہ تھا مگر جب 1906 میں مولانا احمد رضا خان بریلوی نے چوٹی کے بعض علمائے دیوبند پر کفر کا فتوی عائد کیا، تو اس کے نتیجے میں یہ دونوں گروہ الگ ہو گئے۔ اس اختلاف کی تفصیل کا مطالعہ ہم اگلے ابواب میں کریں گے۔
پاکستان میں سنی دیوبندی زیادہ تر صوبہ خیبر پختون خواہ اور بلوچستان میں اکثریت میں ہیں۔اور سندھ میں شہر کراچی میں بهی کافی تعداد موجود ہے- اس کے علاوہ افغانستان میں انہیں فیصلہ کن اکثریت حاصل ہے۔ مشہور زمانہ طالبان تحریک کا تعلق بھی دیوبندی مکتب فکر سے ہے۔ علمائے دیوبند ایک جانب بریلوی حضرات سے ان مسائل پر اختلاف کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سنی بریلوی حضرات انہیں اہل حدیث کے ساتھ نتھی کر کے وہابی قرار دیتے ہیں جبکہ اہل حدیث حضرات انہیں بریلوی حضرات کے ساتھ شامل کر کے مقلد صوفی سمجھتے ہیں۔
سنی دیوبندی حضرات کی اہم تحریکوں اور جماعتوں میں جمعیت علمائے ہند، جمعیت علمائے اسلام، تبلیغی جماعت ،تحریک طالبان اور انجمن سپاہ صحابہ اور دیگر شامل ہیں۔ تبلیغی جماعت کا اگرچہ آفیشل موقف یہ ہے کہ یہ کسی خاص مسلک کی نہیں بلکہ تمام مسلمانوں کی جماعت ہے البتہ جنوبی ایشیا کی حد تک ان کے کارکنان کی اکثریت دیوبندی مکتب فکر سے تعلق رکھتی ہے۔ عالم عرب اور دیگر علاقوں میں البتہ ان کی ممبر شپ گلوبل ہے۔ سنی دیوبندی حضرات کی اہم ترین شخصیات میں بانی دارالعلوم مولانا محمد قاسم نانوتوی (1880-1832) رشید احمد گنگوہی (1905-1829) خلیل احمد سہارن پوری (1927-1852) اشرف علی تھانوی (1943-1863) مولانا محمود الحسن (1920-1851)، علامہ شبیر احمد عثمانی (1949-1886) مولانا حسین احمد مدنی (1957-1879) مولانا انور شاہ کشمیری (1933-1875)، مولانا محمد الیاس کا ندھلوی (1944-1885) اور مفتی محمد شفیع (1976-1896) شامل ہیں۔ ان میں سے پہلے چار وہ حضرات ہیں جب پر مولانا احمد رضا خان بریلوی نے کفر کا فتوی عائد کیا تھا۔ علمائے دیوبند کی حالیہ مشہور شخصیات میں جسٹس محمد تقی عثمانی (1943-ب) مولانا سرفراز خان صفدر (2009-1914) مولانا اطعام الحسن (1995-1918) مولانا سمیع الحق (1937-ب) مولانا طارق جمیل (1953-ب) مولانا فضل الرحمن (1953-ب) اور ملا محمد عمر (1959-ب) مشہور ہیں۔
ان کے علاوہ بعض ایسی شخصیات بھی ہیں جو کہ بریلوی اور دیوبندی دونوں کے نزدیک محترم مانی جاتی ہیںَ ان میں مولانافصل حق خیر آبادی (1861-1797) حاجی امداد اللہ مہاجر مکی (1899-1817) اور پیر مہر علی شاہ گولڑوی (1937-1859) نمایاں ہیں۔
 شاہ ولی اللہ (1762-1703) اور ان کے بیٹے شاہ عبدالعزیز(1823-1745) بریلوی ، دیوبندی اور اہل حدیث تینوں مکاتب فکر کے نزدیک بالعموم محترم سمجھے جاتے ہیں۔
جاری ہے....

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...