Friday 22 April 2016

مسلمانوں کے مذہبی مسائل، قسط نمبر21

"اسلام اور خانقاہی نظام"
"قسط نمبر21"
جنگ موتہ
جنگ موتہ سے متعلق حدیث میں ہے:
حدثنا یوسف بن یعقوب الصفار: حدثنا اسماعیل بن علیۃ، عن ایوب، عن حمید بن ھلال، عن انس بن مالک رضی اللہ عنہ قال: خطب النبی صلی اللہ علیہ و سلم فقال: (اخذ الرایۃ زید فاصیب، ثم اخذھا جعفر فاصیب، ثم اخزھا عبداللہ بن رواحۃ فاصیب، ثم اخذھا خالد بن الولید عن غیر امرۃ ففعح لہ، وقال ما یسرنا انھم عندنا) وعیناۃ تذرفان۔
سیدنا انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے جنگ موتہ کے دن خطبہ دیا اورفرمایا: جھنڈا زید بن حارثہ نے لیا اور وہ شہید ہو گئے، پھر اسے جعفر نے لے لیا اور وہ بھی شہید ہو گئے، پھر اسے عبداللہ بن روحہ نے لیا اور وہ بھی شہید ہو گئے۔ اور اب خالد بن ولید نے بغیر کسی ہدایت کا انتظار کیے جھنڈا لے لیا ہے اور انہیں فتح ہو گئی ہے۔ اور فرمایا: اگر وہ ہمارے پاس ہوتے تو ہمیں کوئی خاص خوشی نہ ہوتی کہ وہ شہید ہو کر بہتر جگہ چلے گئے۔ آپ کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے(بخاری، کتاب الجہاد حدیث 2645)
بریلوی حضرات کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ نے سینکڑوں کلو میٹر دور ہونے والی جنگ موتہ کو دیکھ کر اس پر رواں تبصرہ فرمایا تو اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ وہاں حاضر و ناظر تھے۔
فریق مخالف یعنی سلفی اور بعض سنی دیوبندی کا کہنا یہ ہے کہ یہ نقطہ نظر درست نہیں ہے۔ اللہ تعالی نے بطور معجزہ آپ کو جنگ موتہ کا حال دکھا دیا۔ معجزہ اللہ تعالی کا براہ راست معاملہ ہوتا ہے جو وہ اپنے پیغمبر کو عطا کر دیتا ہے۔ ایسا نہیں ہوتا کہ پیغمبر اپنی مرضی سے معجزہ دکھا دیں۔ چنانچہ اور بھی بہت سی جنگیں ایسی تھیں جہاں ہمیں ایسے کسی تبصرے کا سراغ نہیں ملتا۔ خاص کر بئر معونہ کا واقعہ ہے، جس میں کفار دھوکے سے ستر حفاظ صحابہ کو لے گئے اور انہیں شہید کر دیا۔ رسول اللہ ﷺ کافی عرصے بعد اس کی خبر ہوئی۔ یہ حدیث بھی بخاری کی اسی کتاب الجہاد میں موجود ہے:
حدثنا محمد بن بشار: حدثنا ابن ابی وسھل بن یوسف عن سعید عن قتادۃ عن انس رضی اللہ عنہ: ان النبی صلی اللہ علیہ و سلم اتاہ رعل وذکوان وعصیۃ و بنو لحیان، فزعمو انھم قد اسلموا، استمدوہ علی قومھم، فامدھم النبی صلی اللہ علیہ و سلم بسبعین من الانصار قال انس: کنا نسمیھم القراء، یحطبون بالنھار ویصلون باللیل، فانطلقو بھم، حتی بلغوا بئر معونۃ غدروا بھم وقتلوھم، فقنت شھرا یدعو علی رعل وذکوان وبنی لحیان۔
سیدنا انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی ﷺ کے پاس رعل، ذکوان، عصیہ اور بنو لحیان کے کچھ لوگ آئے اور خود کو مسلمان ظاہر کیا۔ مسلمان سمجھے کہ وہ اسلام لے آئے ہیں۔ انہوں نے اپنی قوم میں دعوت و تبلیغ کے لیے مدد طلب کی۔ نبی ﷺ نے ان کے ساتھ ستر انصار کو بھیج دیا۔ انس کہتے ہیں کہ ہم انہیں "قراء" کہتے تھے۔ یہ لوگ دن میں لکڑیاں جمع کرتے اور رات میں نماز پڑھتے تھے۔ وہ انہیں لے کر چلے گئے۔ جب وہ بئر معونہ کے مقام پر پہنچے تو انہوں نے ان سے وعدہ خلافی کر کے انہیں شہید کر دیا۔ نبی ﷺ ایک مہینہ تک رعل، ذکوان اور بنو لحیان کے خلاف دعا کرتے رہے (بخاری کتاب الجہاد حدیث 2899)
اہل حدیث اور بعض سنی دیوبندی حضرات کہتے ہیں کہ اگر آپ کو علم غیب ہوتا یا آپ حاضر و ناظر ہوتے تو دشمن کے ساتھ یا تو ان صحابہ کو روانہ ہی نہ فرماتے یا پھر پہلے سے بچاؤ کی تدبیر کر لیتے۔
سنی بریلوی حضرات بعض ایسی احادیث بھی پیش کر تے ہیں جن میں نبی ﷺ نے جنت کا مشاہدہ فرمایا۔ ایک حدیث کے مطابق آپ نے جنت کے درخت کا ایک خوشہ توڑ لینے کا ارادہ فرمایا اور پھر ترک کر دیا۔ فریق مخالف کے نزدیک یہ سب احادیث آپ کے معجزات کو بیان کرتی ہیں اور ان سے آپ کا حاضر و ناظر ہونا ثابت نہیں ہوتا ہے۔
ساریہ کا واقعہ:
اب تک جو دلائل ہم نے یہاں پیش کیے ہیں، ان کا تعلق نبی کریم ﷺ کے حاضر و ناظر ہونے سے تھا۔ سنی بریلوی حضرات کا نقطہ نظر یہ ہے کہ اولیاء اللہ بھی حاضر و ناظر ہوتے ہیں اور اپنے مریدین کی مدد فرماتے ہیں۔ اس کے حق میں وہ یہ واقعہ پیش کرتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عراق کی جانب ایک لشکر بھیجا جس میں ایک رابعی ساریہ رحمہ اللہ کو آپ نے کمانڈر بنایا۔ دوران جنگ و دشمن کے نرغے میں آ گئے۔ عین اس وقت سینکڑوں کلو میٹر دور مدنیہ میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ جمعہ کا خطبہ دے رہے تھے۔ آپ نے فرمایا: ساریہ ! پہاڑ کی جانب ساریہ نے یہ سن لیا اور پہاڑ کی جانب اپنی فوج کو کر کے اس کی جانب پشت کر لی جس سے انہیں فتح حاصل ہو گئی۔ یہ واقعہ مشکوۃ باب الکرامات میں ہے۔ مفتی نعیمی صاحب اس واقعے سے یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ مدینہ میں رہ کر عراق میں حاضر و ناظر تھے اور انہوں نے وہاں ساریہ کی مدد فرمائی ۔
مشہور عرب سلفی عالم علامہ ناصر الدین البانی (1990-1914) نے اس واقعے کی مختلف اسناد کو چیک کر کے اس کی ایک سند کو صحیح اور باقی کو ضعیف قرار دیا ہے لیکن وہ اس واقعے کو ایک مختلف نظر سے دیکھتے ہیں۔ لکھتے ہیں:
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ندامذکور کے لئے اللہ تعالی کی جانب سے عمر رضی اللہ عنہ کو الہام کیا گیا تھا۔ یہ بات عجیب و غریب نہیں ہے کیونکہ جیسا کہ بنی ﷺ سے ثابت ہے کہ وہ محدث [یعنی صاحب الہام] تھے۔ لیکن اس واقعے میں یہ کہیں بیان نہیں کیا گیا ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ کو لشکر کا حال دکھا دیا گیا ہو اور وہ اسے اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہوں۔ بعض صوفیوں نے اس سے کشف اولیاء پر استدلال کیا ہے اور دل کا حال جاننے کے امکان کو ثابت کیا ہے جو سب سے بڑھ کر باطل بات ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے جبکہ یہ تو صرف رب العالمین کی صفات میں سے ہے جو کہ علم الغیب اور دلوں کا حال جاننے کے معاملے میں منفرد ہے۔ وہ اس زعم باطل پر کیسے گمان کر سکتے ہیں جب کہ اللہ تعالی نے اپنی کتاب میں خود فرما دیا ہے: غیب کا جاننے والا وہ اپنے غیبوں پر کسی کو مطلع نہیں فرماتا سوائے اپنے پسندیدہ رسولوں کے۔کیا ان کا اعتقاد یہ ہے کہ وہ اولیا ء رسول ہیں اور اللہ تعالی کی جانب سے علم ملنے پر غیب پر مطلع ہو جاتے ہیں۔ وہ اس سے پاک ہے، یہ بڑا بہتان ہے۔
اگر اس بات کو درست بھی مان لیا جائے کہ جو کچھ عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ پیش آیا، وہ کشف تھا تو یہ امور خارقہ وہ معاملات جو عادت کے خلاف ہوں میں سے ہے جو کہ کسی غیر مسلم کو پیش آ سکتے ہیں۔ محض اس کا صادر ہونا ایمان کی دلیل نہیں ہے۔ اسی وجہ سے علماء کہتے ہیں کہ اگر خارق العادت واقعہ مسلمان سے صادر ہو تو وہ کرامت ہے ورنہ استدراج ہے۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ خوارق واقعات تو دجال اکبر کے ہاتھ پر بھی ظاہر ہوں گے۔۔۔
یہ واقعہ غیب پر اطلاع نہیں ہے بلکہ شرع کی اصطلاع میں الہام اور دور جدید کی اصطلاح میں "تخاطر" ہے۔ جس کے ساتھ یہ پیش آئے وہ معصوم نہیں ہوتا اور اس سے غلطی کا صدور ہو سکتا ہے۔ ہر ولی اللہ کے لیے شرعی امور کی پیروی لازم ہے۔
سلفی حضرات کا کہنا یہ ہے کہ اولیاء اللہ سے کرامات کا صدور ممکن ہے لیکن یہ محض اللہ تعالی کی جانب سے ہوتا ہے اور اس سے ان اولیاء  کا حاضر و ناظر ہونا یا عالم الغیب ہونا ثابت نہیں ہوتا ہے۔ اس واقعے کے علاوہ اسے متعد واقعات ملتے ہیں جب مسلمانوں کو جنگ میں شدید نقصان اٹھانا پڑا مگر سیدنا عمررضی اللہ عنہ نے اس طریقے سے اپنے لشکر کو آواز نہیں دی۔ سیدنا عمر ہی کے دور میں معرکہ جسر میں مسلمانوں کے پر جوش کمانڈر ابو عبید رحمہ اللہ نے اپنے پیچھے دریا کا پل توڑ دیا تا کہ کوئی مسلمان میدان جنگ سے فرار نہ ہو سکے۔ اس کی وجہ سے مسلمانوں کو شدید نقصان اٹھانا پڑا۔ پھر مشہور صحابی کمانڈر حضرت مثنی بن حارثہ رضی اللہ عنہ نے کمان سنبھالی، پل دوبارہ تعمیر کروایا اور بقیہ فوج کو بحفاظت نکال لائے۔ اس واقعے میں تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی افواج کی کوئی مدد نہ فرمائی اور نہ انہیں آواز دی۔ اس واقعے پر آپ کو طویل عرصے تک افسوس رہا۔ اگر وہ حاضر و ناظر ہوتے تو اپنی فوج کی اس موقع پر بھی مدد کرتے۔ یہ واقعہ تاریخ کی سبھی کتابوں جیسے طبری وغیرہ میں موجود ہے۔ (دیکھیے 13 ہجری کا باب)
یہ خیال رہے کہ بعض اولیاء اللہ کے ہاتھوں جو کرامتیں ظاہر ہو جاتی ہیں اور کبھی کبھی چیزیں تبدیل ہو جاتی ہیں، ان کا ہمیں انکارنہیں ، وہ خدا کی طرف سے ان پر ایک خاص فضل ہوتا ہے اور وہ بھی ان کے بس کا نہیں ہوتا نہ ان کے قبضہ کا ہوتا ہے، نہ وہ کاریگری ہوتی ہے نہ علم۔ وہ محض خدا کے فرمان کا نتیجہ ہے۔ اللہ تعالی اپنے فرمانبردار اور نیکوکار کے ہاتھوں اپنی مخلوق کو دکھا دیتا ہے۔
*اہل حدیث اوربعض سنی دیوبندی حضرات کے دلائل:
اہل حدیث اور دیوبندی حضرات کا استدلال سادہ ہے۔ ان کا کہنا یہ ہے حاضر و ناظر ہونا صرف اللہ تعالی کی صفت ہے۔ نبی کریم ﷺ یا کسی اور مخلوق میں اس صفت کا وجود ماننا شرک ہے۔ یہ صرف اللہ تعالی ہی ہے جو حاضر و ناظر ہے، اپنی مخلوق کی پکار سنتا ہےاور اس کی فریادرسی کرتا ہے۔ وہی حاجت روا اور مشکل کشا ہے۔ اس معاملے میں قرآن مجید کی سینکڑوں آیات گواہ ہیں۔ بعض مثالیں یہ ہیں:
وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ وَنَعْلَمُ مَا تُـوَسْوِسُ بِهٖ نَفْسُهٝ ۖ وَنَحْنُ اَقْرَبُ اِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيْدِ
ہم نے انسانوں کو تخلیق کیا اور ہم اس خیال کو جانتے ہیں جو اس کے ذہن میں گزرتا ہے۔ ہم اس سے اس کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہیں۔
وَاِذَا سَاَلَكَ عِبَادِىْ عَنِّىْ فَاِنِّىْ قَرِيْبٌ ۖ اُجِيْبُ دَعْوَةَ الـدَّاعِ اِذَا دَعَانِ ۖ فَلْيَسْتَجِيْبُوْا لِـىْ وَلْيُؤْمِنُـوْا بِىْ لَعَلَّهُـمْ يَرْشُدُوْنَ
"اے پیغمبر ! جب میرے بندے آپ سے میرے بارے میں سوال کریں تو انہیں بتا دیجیے کہ میں قریب ہوں۔ جب پکارنے والا مجھے پکارے تو اس کی پکار کا جواب دیتا ہوں۔ تو انہیں بھی میری دعوت کا جواب دینا چاہیے اور مجھ پر ایمان لانا چاہیے تا کہ وہ ہدایت پائیں۔ (البقرہ 2: 186)
قُلْ لَّآ اَمْلِكُ لِنَفْسِىْ نَفْعًا وَّلَا ضَرًّا اِلَّا مَا شَآءَ اللّـٰهُ ۚ وَلَوْ كُنْتُ اَعْلَمُ الْغَيْبَ لَاسْتَكْـثَرْتُ مِنَ الْخَيْـرِۚ وَمَا مَسَّنِىَ السُّوٓءُ ۚ اِنْ اَنَا اِلَّا نَذِيْرٌ وَّبَشِيْـرٌ لِّـقَوْمٍ يُؤْمِنُـوْنَ
اے نبی ! آپ فرمائیے کہ میں اپنی جان کے لیے نفع و نقصان کا مالک نہیں ہوں سوائے اتنے کے جو اللہ چاہے۔ اگر میں غیب جانتا تو اپنے لیے بڑے فائدے اکٹھے کر لیتا اور مجھے برائی چھو کر بھی نہ گزرتی۔ میں تو بس ایمان لانے والی قوم کے لیے ایک خبردار کرنے والا اور بشارت دینے والا ہوں" (الاعراف 7:188)
سلفی حضرات کا کہنا یہ ہے کہ اس ضمن میں سنی بریلوی حضرات نے جو دلائل پیش کیے ہیں، وہ چونکہ مضبوط نہیں ہیں اور ان کی مختلف توجیہ کی جاسکتی ہے، اس وجہ سے اس عقیدے کو مانا نہیں جاسکتا ہے۔ ان صفات کا غیرا للہ میں ماننا شرک ہے۔
اس کے برعکس سنی بریلوی حضرات کا کہنا یہ ہے کہ ان تمام آیات میں اللہ تعالی کی ذاتی صفات کا ذکر ہے۔ وہ ان صفات کو اپنی مخلوق میں سے کسی کو دے سکتا ہے اور وہ محدود دائرے میں تصرف کر سکتے ہیں اور یہ بات شرک کے زمرے میں نہیں آتی ہے۔
جاری ہے.....
گروپ هذا میں شامل ہونے کیلئے
0096176390670

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...