Tuesday 12 April 2016

اسلام اور خانقاہی، 132

"اسلام اور خانقاہی نظام"
(گزشتہ سے منسلک قسط نمبر 132)
پارٹیوں اور مزاروں پر دهمال:
ﺍﯾﮏ ﺩﻓﻌﮧ ﺣﻀﺮﺕ ﺷﺎﮦ ﻋﺒﺪﺍﻟﻌﺰﯾﺰ ﻣﺤﺪﺙ ﺩﮨﻠﻮﯼؒ
ﺳﮯ ﮐﺴﯽ ﻧﮯ ﺩﺭﯾﺎﻓﺖ ﮐﯿﺎﮐﮧ ﻃﻮﺍﺋﻒ ﮐﯽ ﻧﻤﺎﺯ ﺟﻨﺎﺯﮦ
ﭘﮍﮪ ﺳﮑﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﯾﺎ ﻧﮩﯿﮟ؟ ﺁﭖ ﻧﮯ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﺎ ﺟﻮ ﻟﻮﮒ
ﺍﻥ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ، ﺍﻥ ﮐﺎ ﺟﻨﺎﺯﮦ ﭘﮍﮬﺘﮯ ﮨﻮ ﺗﻮ
ﻃﻮﺍﺋﻒ ﻧﮯ ﺗﻤﮩﺎﺭﺍ ﮐﯿﺎ ﻗﺼﻮﺭ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ؟ ﻣﺴﻠﻢ ﻟﯿﮓ(ﻗﺎﺋﺪ ﺍﻋﻈﻢؒ) ﮐﯽ ﻣﺤﻔﻞ ﻣﯿﮟ ﻃﻮﺍﺋﻒ ﮐﮯ ﺭﻗﺺ ﮐﻮ
ﺷﺪﯾﺪ ﺗﻨﻘﯿﺪ ﮐﺎ ﻧﺸﺎﻧﮧ ﺑﻨﺎﯾﺎ ﺟﺎ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ ﺣﺎﻻﻧﮑﮧ ﺟﺐ ﺗﮏ
ﺍﺱ ﻗﺴﻢ ﮐﮯ ﺗﻤﺎﺵ ﺑﯿﻦ ﺯﻧﺪﮦ ﮨﯿﮟ، ﻃﻮﺍﺋﻒ ﮐﺎ
ﮐﻮﭨﮭﺎ ﻗﺎﺋﻢ ﮨﮯ۔ ﺧﺎﺗﻮﻥ ﮐﮯ ﺩﮬﻤﺎﻝ ﮐﻮ ﺛﻘﺎﻓﺖ ﯾﺎ
ﺭﻭﺣﺎﻧﯿﺖ ﮐﮩﻨﮯ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﮐﻮ ﺧﺪﺍ ﻏﺎﺭﺕ ﮐﺮﮮ ﮐﮧ ﺍﻥ
ﻟﻮﮔﻮﮞ ﻧﮯ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﮐﻮ ﮐﯿﺎ ﺑﻨﺎ ﺩﯾﺎ ﮨﮯ۔ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﺁﺯﻣﺎﺋﺶ ﮐﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﻋﺬﺍﺏ ﮐﺎ ﺷﮑﺎﺭ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ”ﮔﻨﺎﮦ ﭘﺮ ﮈﮬﭩﺎﺋﯽ“ ﮨﮯ۔ ﺟﻮ ﮔﻨﺎﮦ ﺭﺍﺕ ﮐﯽ ﺗﺎﺭﯾﮑﯽ ﺍﻭﺭ ﺑﻨﺪ ﮐﻤﺮﻭﮞ ﺗﮏ ﻣﺤﺪﻭﺩ ﺗﮭﮯ، ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﺁﺝ ﺍﻥ ﮔﻨﺎﮨﻮﮞ
ﮐﻮ ﺑﻄﻮﺭ ”ﺛﻘﺎﻓﺖ اور تصوف "ﭘﯿﺶ ﮐﯿﺎ ﺟﺎ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ۔
ﻗﺎﻑ ﻟﯿﮓ میں کوئی ”ﮐﺎﻣﻞ ﻋﻠﯽ ﺁﻏﺎ“ ﻧﺎﻣﯽ ﺷﺨﺺ ﮨﮯ ﺟﺲ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺻﻮﻓﯿﺎﺀﮐﮯ ﮐﻼﻡ ﭘﺮ ﺩﮬﻤﺎﻝ ﮐﻮ ﻣﺠﺮﺍ ﻗﺮﺍﺭ ﺩﯾﻨﺎ ﺳﯿﺎﺳﯽ ﻣﺨﺎﻟﻔﯿﻦ ﮐﯽ ﺑﯿﻤﺎﺭ ﺫﮨﻨﯿﺖ ﮨﮯ۔ ﺍﺱ”ﺑﯿﻤﺎﺭﺷﺨﺺ“ ﻧﮯ ﯾﮧ ﺑﮭﯽ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﮨﻤﺎﺭﯼ ﭘﺎﺭﭨﯽ ﮐﮯ
ﮐﻠﭽﺮﻝ ﻭﻧﮓ ﮐﯽ ﺗﻘﺮﯾﺐ ﻣﯿﮟ ﻣﻠﮑﯽ ﺛﻘﺎﻓﺖ ﮐﮯ
ﻣﺨﺘﻠﻒ ﺭﻧﮓ ﭘﯿﺶ ﮐﺌﮯ ﮔﺌﮯ ﺍﻭﺭ ﺩﮬﻤﺎﻝ ﺛﻘﺎﻓﺘﯽ
ﺗﻘﺮﯾﺒﺎﺕ ﮐﺎ ﻻﺯﻣﯽ ﺣﺼﮧ ﮨﮯ ﺑﻠﮑﮧ ﺗﻌﻠﯿﻤﯽ ﺍﺩﺍﺭﻭﮞ ﺍﻭﺭ
ﺑﺰﺭﮔﻮﮞ ﮐﮯ ﻣﺰﺍﺭﻭﮞ ﭘﺮ ﺩﮬﻤﺎﻝ ﮐﺎ ﺳﻠﺴﻠﮧ ﮨﻤﯿﺸﮧ
سے ﺟﺎﺭﯼ ﮨﮯ۔“ ﺻﻮﻓﯿﺎﺀﮐﺮﺍﻡ ﮐﯽ ﺗﺎﺭﯾﺦ ﺍﭨﮭﺎ ﮐﺮ ﺩﯾﮑﮫ
ﻟﯿﮟ، کیا ﮐﺒﮭﯽ ﮐﺴﯽ ﺻﻮﻓﯽ ﺑﺰﺭﮒ ﮐﯽ ﺑﮩﻦ، ﺑﯿﭩﯽ یا بیوی ﻧﮯ اس طرح ﺩﮬﻤﺎﻝ ڈالا ، سچے اولیاءﮐﺮﺍﻡ ﮐﯽ ﺯﻧﺪﮔﯿﺎﮞ ﺳُﻨﺖ ﻧﺒﻮﯼ کے ﺳﺨﺘﯽ ﺳﮯ ﭘﺎﺑﻨﺪ تهے
ﺍﻭﺭ ﻧﺒﯽ ﮐﺮﯾﻢ علیہ سلام ﻧﮯ ﻋﻮﺭﺕ ﮐﻮ ﺍﻥ ﺟﯿﺴﮯ ﺑﯿﻤﺎﺭ ﺫﮨﻨﯿﺖ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﺳﮯ ﺑﭽﺎﯾﺎ-ﺍﻭﺭ عورت کو ﻣﻌﺎﺷﺮﮮ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﭘُﺮﻭﻗﺎﺭ ﻣﻘﺎﻡ ﺩﯾﺎ ﻟﯿﮑﻦ ﯾﮧ ﺑﯿﻤﺎﺭ ﺫﮨﻨﯿﺖ ﻭﺍﻟﮯ ﺻﺎﺣﺐ اور جیلی پیر ﺍُﻣﺖ ﮐﯽ ﺑﯿﭩﯽ ﮐﻮ ﺑﮭﺮﮮ ﺑﺎﺯﺍﺭوں ﻣﯿﮟ ﻧﭽﺎ ﮐﺮ ﺍﺱ ﮐﻮ ﺻﻮﻓﯿﺎﺀﮐﺮﺍﻡ ﮐﮯ ﺳﺮ ﮈﺍﻟﻨﺎ ﭼﺎﮨﺘﮯ ﮨﯿﮟ؟ آستانوں، مزاروں اور پارٹیوں میں عورت کو برہنہ نچانے والے اس گندے فعل کی نسبت اولیاء کرام کی طرف کرتے ہیں-ﺫﮨﻨﯽ طور پر ﺑﯿﻤﺎﺭ لوگ اولیاء ﮐﺮﺍﻡ ﮐﮯ تقویٰ ﻭ ﺭﯾﺎﺿﺖ ﮐﯽ ﺗﻮﮨﯿﻦ ﮐﮯ ﻣﺮﺗﮑﺐ ﮨﻮ ﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ۔
ﮈﺍﻧﺲ ﻓﻠﻮﺭ ﭘﺮ ﭼﻮﺩﮬﺮﯼ ﺷﺠﺎﻋﺖ ﮐﮯ ﺳﭩﯿﺞ ﮐﮯ ﭘﯿﭽﮭﮯ ﻗﺎﺋﺪﺍﻋﻈﻢؒ ﺍﻭﺭ ﻋﻼﻣﮧ ﺍﻗﺒﺎﻝؒ ﮐﯽ ﺗﺼﺎﻭﯾﺮ ﺁﻭﯾﺰﺍﮞ ﺗﮭﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺍﻥ ﮐﯽ ﻗﻮﻡ ﮐﯽ ﺍﯾﮏ ﺑﯿﭩﯽ ﻧﺎﭺ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ۔ ﭼﻮﺩﮬﺮﯼ ﺷﺠﺎﻋﺖ ﺣﺴﯿﻦ ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﺍﻥ ﮐﮯ ﻧﺰﺩﯾﮏ ﻋﻮﺭﺕ ﮐﯽ ﺩﮬﻤﺎﻝ ﮐﻮﺋﯽ ﻣﻌﯿﻮﺏ ﺑﺎﺕ ﻧﮩﯿﮟ۔ ﻣﺴﻠﻢ ﻟﯿﮓ ﻗﺎﻑ ﮐﺎ ﻣﻨﻌﻘﺪ ﮐﺮﺩﮦ ”ﻣﺠﺮﺍ“ ﮐﺴﯽ ﻭﮈﯾﺮﮮ ﯾﺎ ﭼﻮﺩﮬﺮﯼ ﮐﺎ ﻣﺸﻐﻠﮧ ﺗﻮ ﮨﻮ ﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ ، ﮐﺴﯽ ﻣﺴﻠﻢ ﺭﯾﺎﺳﺖ ﮐﯽ ﺛﻘﺎﻓﺖ اور دین اسلام ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮ سکتا۔ﭼﻮﺩﮬﺮﯾﻮﮞ ﮐﮯ ﺍﮈﻭﮞ ﭘﺮ ﺭﻗﺎﺻﺎﺅﮞ ﮐﺎ ﻧﺎﭺ ﭘﻨﺠﺎﺑﯽ ﻓﻠﻤﻮﮞ ﮐﺎ ﺍﮨﻢ ﺳﯿﻦ ﺳﻤﺠﮭﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ۔ ﻣﺴﻠﻢ ﻟﯿﮓ(ﻗﺎﺋﺪﺍﻋﻈﻢؒ) ﮐﮯ ﻗﺎﺋﺪ ﻧﺎﻡ ﻧﮩﺎﺩ ﻣﮩﺬﺏ ، ﺩﺍﻧﺎ ﺍﻭﺭ ﺭﻭﺍﯾﺎﺕ ﮐﮯ ﻗﺎﺋﻞ ﭼﻮﺩﮬﺮﯼ ﺷﺠﺎﻋﺖ ﺣﺴﯿﻦ ﮐﯽ ﻣﺤﻔﻞ ﻣﯿﮟ ﺭﻗﺎﺻﮧ ﮐﺎ ﻧﺎﭺ ﮐﺴﯽ ﭘﻨﺠﺎﺑﯽ ﻓﻠﻢ ﮐﺎ ﻣﻨﻈﺮ ﻣﻌﻠﻮﻡ ﮨﻮ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﺍﺳﻼﻣﯽ ﺟﻤﮩﻮﺭﯾﮧ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﺩﯾﻦ ﻣﺤﺾ ﺭﺳﻮﻣﺎﺕ ﺗﮏ ﻣﺤﺪﻭﺩ ﮨﻮ ﮐﺮ ﺭﮦ ﮔﯿﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻧﺎﭺ ﮔﺎﻧﮯ ﮐﻮ ﺛﻘﺎﻓﺖ ﮐﮩﺎ ﺟﺎﻧﮯ ﻟﮕﺎ ﮨﮯ۔ ﻃﻮﺍﺋﻔﯿﮟ ﮐﻮﭨﮭﮯ ﺳﮯ ﮐﻮﭨﮭﯿﻮﮞ اور درگاہوں پر ﻣﻨﺘﻘﻞ ﮨﻮ ﮔﺌﯽ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭﺣﺴﺐ ﺿﺮﻭﺭﺕ ﺳﯿﺎﺳﯽ ﺗﻤﺎﺵ ﺑﯿﻨﻮﮞ اور آستانوں پر حاضریاں دینے والوں ﮐﺎ ﺩﻝ ﺑﮩﻼﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﻭﯼ ﺁﺋﯽ ﭘﯽ ﺩﻋﻮﺕ ﻧﺎﻣﻮﮞ ﭘﺮ ﺑﻼﺋﯽ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﯿﮟ۔ ﻟﮩٰﺬﺍ ﺍﻥ ﮐﯽ ﺟﺎﻧﺐ ﺳﮯﺛﻘﺎﻓﺖ ﮐﮯ ﻧﺎﻡ ﭘﺮ ﺳﺠﺎﺋﯽ ﮔﺌﯽ ﻣﺤﻔﻞ ﻣﯿﮟ ﻃﻮﺍﺋﻒ ﮐﺎ ﻻﺋﯿﻮ ﺭﻗﺺ ﻣﻌﯿﻮﺏ ﻧﮩﯿﮟ ﺳﻤﺠﮭﺎ ﺟﺎﺗﺎ۔ ﺟﺸﻦ ﻣﯿﮟ ﻃﻮﺍﺋﻒ ﮐﺎ ﻣﺠﺮﺍ ﺧﻮﺷﯽ ثقافت ﮐﯽ ﻋﻼﻣﺖ ﺳﻤﺠﮭﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ۔
ﭘﯿﭙﻠﺰ ﭘﺎﺭﭨﯽ ﻗﺒﻀﮧ ﮔﺮﻭﭖ ﮐﮯ ﭘﺎﻧﭻ ﺳﺎﻝ ﭘﻮﺭﮮ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﯽ ﺧﻮﺷﯽ ﻣﯿﮟ ﻣﺴﻠﻢ ﻟﯿﮓ ﻗﺎﻑ ﻧﮯ ﺍﺳﻼﻡ ﺁﺑﺎﺩ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﺛﻘﺎﻓﺘﯽ ﺷﻮ ﮐﺎ ﺍﮨﺘﻤﺎﻡ ﮐﯿﺎ ﺟﺲ ﻣﯿﮟ ﺭﻗﺎﺻﮧ ﻧﮯ ﭼﺴﺖ ﺳﯿﺎﮦ ﻟﺒﺎﺱ ﺍﻭﺭ ﮐﮭﻠﮯ ﺑﺎﻟﻮﮞ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺩﮬﻤﺎﻝ ﭘﯿﺶ ﮐﯽ۔ ﺍﺱ ﻣﺠﺮﮮ ﮐﻮ ﭼﻮﺩﮬﺮﯼ ﺷﺠﺎﻋﺖ ﺣﺴﯿﻦ ﻧﮯ
ﺍﭘﻨﮯ ﺳﯿﺎﮦ ﭼﺸﻤﮯ ﺳﮯ ﺑﮍﮮ ﺍﻧﮩﻤﺎﮎ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺩﯾﮑﮭﺎ۔
ﺍﻥ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺑﯿﭩﮭﮯ ﻣﺸﺎﮨﺪ ﺣﺴﯿﻦ ﺑﮭﯽ ﺭﻗﺺ ﺳﮯ
ﻟﻄﻒ ﺍﻧﺪﻭﺯ ﮨﻮ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ۔ ﺍﺱ ﻣﺤﻔﻞ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﺑﮭﯽ ﺷﺨﺺ ﺍﯾﺴﺎ ﻧﮧ ﺗﮭﺎ ﺟﻮ ﻗﺎﺋﺪﺍﻋﻈﻢ ﮐﯽ ﺳﺮﺯﻣﯿﻦ ﭘﺮ ﻧﺎﭼﻨﮯ ﻭﺍﻟﯽ ﺍﺱ ﺑﯿﭩﯽ ﮐﻮ ﺗﻤﺎﺷﮧ ﺑﻨﻨﮯ ﺳﮯ ﺭﻭﮎ ﺳﮑﺘﺎ۔باقی تفصیل اس لنک پر دیکهیں!
https://youtu.be/MPlqFtcZ-9oc پاکستانی عوام ﮐﺎ ﮐﮩﻨﺎ ﮨﮯ ﮐﮧﺍﺱ ﺣﮑﻮﻣﺖ ﻧﮯ ﻗﻮﻡ ﮐﻮ ﭘﺎﻧﭻ ﺳﺎﻝ ﻧﭽﺎﯾﺎ ﮨﮯ، ﺍﮔﺮ ﺍﯾﮏ ﺭﻗﺎﺻﮧ ﻧﮯ ﭼﻨﺪ ﻣﻨﭧ ﻧﺎﭺ ﻟﯿﺎ ﺗﻮ ﮐﻮﻥ ﺳﺎ ﺟﺮﻡ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ۔۔ ﺑﻨﺪ ﮐﻤﺮﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﮨﻮﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﺩﺍﻧﺴﺘﮧ ﻭ ﻧﺎﺩﺍﻧﺴﺘﮧ ﮔﻨﺎﮨﻮﮞ ﮐﺎ ﺧﺪﺍ ﺷﺎﮨﺪ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻭﮨﯽ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺣﺴﺎﺏ ﻟﮯ ﮔﺎ ﻣﮕﺮ ﺑﮭﺮﮮ ﻣﺠﻤﻊ ﻣﯿﮟ ﺩﺍﻧﺴﺘﮧ ﮔﻨﺎﮨﻮﮞ ﮐﻮ ﻧﮧ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﻌﺎﻑ ﮐﺮﺗﯽ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻧﮧ ﮨﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﭘﺮﺩﮦ ﭘﻮﺷﯽ ﻓﺮﻣﺎﺗﺎ ﮨﮯ۔ ﻋﻮﺭﺕ ﮐﯽ
ﺩﮬﻤﺎﻝ ﻧﮧ ﺗﺼﻮﻑ ﮨﮯ، ﻧﮧ ﺍﺳﻼﻡ ، ﻧﮧ ﺛﻘﺎﻓﺖ ﺍﻭﺭ ﻧﮧ ﮨﯽ
ﻣﮩﺬﺏ ﻣﻌﺎﺷﺮﮮ ﮐﯽ ﺭﻭﺍﯾﺖ ﯾﺎ ﺗﮩﺬﯾﺐ ﮨﮯ۔ ﻋﻮﺭﺕ
ﺧﻮﺍﮦ ﮐﺴﯽ ﻣﻌﺎﺷﺮﮮ ﮐﯽ ﮨﻮ، ﺣﻮﺍ ﮐﯽ ﺑﯿﭩﯽ ﮨﮯ۔ ﻗﻮﻡ
ﮐﯽ ﺍﯾﮏ ﺑﯿﭩﯽ ﮐﻮ  مسلم معاشرے میں ﺭﻗﺺ ﺳﮯ ﻣﻨﻊ ﻧﮧ ﮐﺮﻧﮯ ﺍﻭﺭ ﺧﺎﺗﻮﻥ ﮐﮯ ﺭﻗﺺ ﺳﮯ ﻟﻄﻒ ﺍﻧﺪﻭﺯ ﮨﻮﻧﮯ والے اپنے شوق کو ثقافت یا اسلام کا لبادہ نہیں اڑا سکتے-میں یہ نہیں کہتا کہ باقی پارٹیوں والے عورتوں سے ناچ نہیں کرواتے وہ بهی اپنے جلسوں جلوسوں میں عورت سے بهنگڑے ڈلواتے ہیں یقیناً ان کا بهی یہ فعل قابل مذمت ہے لیکن یہ اس تماشے  کو اسلام اور ثقافت کا نام نہیں دیتے-
دوسری طرف مزاروں پر ہزاروں کی تعداد عورتیں پہنچی ہوتی ہیں۔ اور دھڑا دھڑ دھمال ڈال رہی ہوتی ہیں۔ نہ سر کا ہوش نہ پیر کا، نہ ڈوپٹے کا نہ قمیض کا۔ ایک آدمی مائیک پر اعلان کرتا ہے کہ بابا جی کا حکم ہیں کہ 1 کلو میٹر کے فاصلے کے اندر اندر جو کوئی بھی ذی روح ہے وہ دھمال ڈالے، اعلان سُن کر عورتیں اور بھی تیز ہو جاتی ہیں۔
بعض اوقات دهمال نہ ڈالنے والوں ننگی اور گندیاں گالی بهی سرکار کی طرف سے تحفہ میں ملتی ہیں-جن کو خواتین و حضرات خوشی سے قبول کرتے ہوئے نعرہ لگاتے ہوئے دهمال کو مزید تیز کر دیتے ہیں-یہ تو ہوگئی اوپن بات، اس کے علاوہ کئی چھوٹے شہروں، گاؤں، قصبوں وغیرہ میں ایسے کئی مزار ہیں جہاں "بہت کچھ" ہوتا ہے۔ میں نے جب کبھی بھی کسی "عاشق رسول" سے ان سب عشقیہ کاموں کی شرعی حیثیت کے بارے میں ‌سوال کیا ہے تو سب سے پہلے وہ اہلحدیث حضرات کے بارے میں اپنے انتہائی شدید جذبات کا اظہار کرتا ہے، اُن کے کسی "وہابی" مولوی کا کوئی کفریہ قول سنانے کے بعد تمام "وہابیوں" کو کافر کہتا ہے۔ پھر یہاں وہاں کی باتیں اور پھر یہ گیا وہ گیا۔ اور اگر کوئی "عالم صاحب" ہونگے تو وہ دلیل کسی ایسی آیت یا حدیث سے ہوتی ہے کہ جس کا ہر فرقے نے اپنی مرضی کا مطلب نکالا ہوتا ہے۔ کوئی ہر قسم کی بدعت کو حرام قرار دیتا ہے، کوئی بدعت کی دو قسمیں بیان کرتا ہے، اچھی اور بری۔خیر مزاروں پر دھمال،ناچ گانے وغیرہ کو کوئی بھی ایسا شخص جائز اور معقول نہیں سمجھے گا جس کے دماغ میں "عقل" ہو گی۔ اور وہ پنجابی میں کہتے ہیں ، "عقل نہ ہووے تے موجاں ای موجاں"
پھر ڈالو جتنی مرضی دھمال-
اب مزید من گهڑت قصے کہانیاں چھوڑئیے، کیونکہ اسلام تکوں اور جهوٹی روایات پر نہیں چلتا، اسلام ایک حقیقت ہے، ایک نظام ہے، شریعت ہے، دستور ہے، منشور ہے ، با ضابطہ حیات ہے، اس کی حدود و قیود ہیں۔ہر شر اور خیر سے مطلع کردہ نظام ہے،
ہم یہ نہیں کہتے کہ اپنے بزرگوں کو چھوڑ کر ہمارے بزرگوں کی تقلید کرو یا ہمارے ذاتی نظریات کی حمایت کرو-
بلکہ ہم کہتے ہیں آو اس دین کی طرف جو مکمل ہو چکا ہے  جو سرور کائنات امام الانبیاء سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات پر مبنی ہے-
جاری ہے.........

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...