Tuesday 12 April 2016

اسلام اور خانقاہی نظام، 133

(اسلام اور خانقاہی نظام)
(گزشتہ سے منسلک قسط نمبر133)
قونیہ اور تصوف کی عالمگیر تحریک:
قونیہ ایک قدیم شہر ہے۔ سلجوقیوں کے زمانے میں یہ ان کی سلطنت کا دارالحکومت رہا ہے۔ مذہب اور تصوف سے متعلق کسی بھی شخص کے سامنے اگر قونیہ کا نام لیا جائے تو جو اگلا نام اس کے ذہن میں آتا ہے وہ مولانا جلال الدین رومی کا ہے جو کہ مولانا روم کے نام سے مشہور ہیں۔
مولانا جلال الدین رومی:
مولانا کا شمار اہل تصوف کی اعلی ترین شخصیات میں ہوتا ہے۔ 1207ء یا 604ھ میں موجودہ افغانستان کے شہر بلخ میں پیدا ہوئے۔ اپنی ابتدائی تعلیم انہوں نے اپنے والد سے حاصل کی۔ جوانی کی عمر میں وہ شام چلے گئے اور حلب او ردمشق کے بڑے مدارس سے انہوں نے اعلی مذہبی تعلیم حاصل کی۔ آپ فقہ ، علم کلام اور تصوف کے بڑے ماہرین میں شمار ہوتے ہیں۔ اس کے بعد انہوں نے قونیہ میں رہائش اختیار کی جو کہ سلجوقی سلطنت کا دارالحکومت تھا۔ ظاہر ہے کہ وہاں تعلیم و تعلم کے مواقع بھی زیادہ ہوں گے۔
یہاں ان کی ملاقات شمس تبریزی نام کے ایک بزرگ سے ہوئی۔ یہاں سے ان کی زندگی کے ایک نئے باب کا آغاز ہوا۔ شمس تبریزی کی صحبت نے انہیں ایک مکمل صوفی بنا دیا۔ مولانا کو ان سے بے پناہ عقیدت تھی۔ اچانک ان کے مرشد شمس تبریزی غائب ہو گئے۔ کہا جاتا ہے کہ کسی نے انہیں قتل کر دیا تھا۔ اس کے بعد مولانا روم بیمار اور بے قرار رہنے لگے۔ اسی کیفیت میں انہوں نے اپنی مشہور زمانہ مثنوی لکھی۔ انہوں نے 1273ء  یعنی 672ھ میں وفات پائی۔
مثنوئ مولانا روم:
مولانا روم کی تصوف کے لئے خدمات بے پناہ ہیں۔ ان کی مثنوی کا شمار اہل تصوف کی مقبول ترین کتابوں میں ہوتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق اس کے اشعار کی تعداد 2500 سے زائد ہے۔ علامہ اقبال اس مثنوی سے بہت متاثر تھے۔ وہ مولانا روم کو اپنا مرشد کہا کرتے تھے۔ انہوں نے ان کے لئے "مرشد رومی" اور خود کے لئے "مرید ہندی" کی اصطلاح استعمال کی ہے۔
مولانا روم ایک بہت بڑے صوفی ہونے کے ساتھ ساتھ اعلی درجے کے شاعر تھے۔ انہوں نے تصوف کی تعلیمات کو اشعار کی زبان میں پیش کیا۔ چونکہ مسلم دنیا میں شعر و شاعری کو کلیدی اہمیت حاصل تھی۔ نہ صرف ادب اور تصوف، بلکہ ریاضی، سائنس  اور گرامر جیسے خشک مضامین کو بھی اشعار میں بیان کیا جاتا تھا، اس وجہ سے ان کی مثنوی کو بے پناہ مقبولیت حاصل ہوئی۔ فارسی ادب میں مثنوی کو بلا مبالغہ مقبول ترین کتاب کہا جا سکتا ہے۔
میرے ذہن میں سوال پیدا ہوتا تھا کہ ہمارے بزرگوں نے شعر و شاعری کو اتنی اہمیت کیوں دی کہ حساب اور گرامر جیسے مضامین بھی اس میں بیان کیے۔ اس سوال کا جواب مجھے البیرونی کی مشہور زمانہ "کتاب الہند" سے ملا۔ البیرونی جو کہ ایک بڑے سائنسدان، جغرافیہ دان، مورخ ، سیاح اور ادیب ہیں، بیان کرتے ہیں کہ علوم سے ناواقف کاتب حضرات کتاب کو نقل کرتے ہوئے اس میں بہت سی غلطیاں کرتے ہیں اور بات کو کچھ کا کچھ بنا دیتے ہیں۔ اس وجہ سے قدیم دور میں یہ رواج رہا ہے کہ بات کو اشعار میں بیان کیا جائے۔ وزن، قافیے اور ردیف کی پابندیوں کے باعث اشعار کی غلطی فوراً پکڑی جا سکتی ہے۔ انہیں آسانی سے یاد کیا جا سکتا ہے اور صحیح طور پر اگلوں کو منتقل کیا جا سکتا ہے۔
مثنوی ایسی نظم کو کہتے ہیں جس میں ہر شعر کے دونوں مصرعے ہم قافیہ ہوں۔ ہر شعر کا ایک نیا ہی قافیہ ہوتا ہے۔ اشعار کے ہم وزن ہونے کی شرط کے ساتھ  شاعر جتنے چاہے شعر کہتا چلا جائے۔ قافیہ کی پابندی نہ ہونے کے باعث عموماً مثنویاں بہت طویل ہوتی ہیں۔ مولانا روم کی مثنوی بھی سات جلدوں پر مشتمل ہے۔
مجھے ذاتی طور پر شعر و شاعری اور خاص طور پر فارسی شاعری میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ میں انتہا پسندی کی حد تک حقیقت پسند ہوں۔ حقائق خواہ کتنے ہی تلخ کیوں نہ ہوں، مجھے خوبصورت سے خوبصورت تخیل سے زیادہ عزیز ہوتے ہیں۔ شاعری کو پسند کرنے کے لئے انسان کا تخیل پسند ہونا ضروری ہے جو کہ میرے بس کی بات نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مولانا روم کی مثنوی کا مطالعہ کرنے کے لئے میں نے اس کے نثری ترجموں اور شروحات کا مطالعہ کیا ہے۔
مثنوی میں مولانا روم کا طریق کار یہ ہے کہ وہ علمی انداز میں گفتگو کرنے کی بجائے فکشن کی طرز پر چھوٹی چھوٹی کہانیاں تخلیق کرتے ہیں۔ یہ حقیقی کہانیاں نہیں ہوتیں بلکہ بادشاہوں ، شہزادوں، درویشوں، شیاطین، طوطا و مینا اور دیگر جانوروں کی کہانیاں ہوتی ہیں۔  مثال کے طور پر ایک کہانی ملاحظہ فرمائیے۔ یہ کہانی مولانا کے خاندان کے لوگوں کی تیار کردہ ویب سائٹ سےلی گئی ہے-
 www.mevlana.net 
تیل کا کاروبار کرنے والے ایک شخص کے پاس ایک طوطا تھا جو بڑی باتیں کیا کرتا تھا۔ جب وہ شخص باہر جاتا تو اس طوطے کو اپنی دکان پر رکھوالی کے لئے چھوڑ جاتا۔ ایک دن طوطا دکان میں اکیلا تھا کہ ایک بلی آئی اور اس نے تیل کا ایک مرتبان الٹا دیا۔ جب سوداگر واپس آیا تو مرتبان کو دیکھ کر یہ سمجھا کہ طوطے نے ایسا کیا ہے۔ اس نے طوطے کے سر پر ایسی ضرب لگائی کہ اس کے بال جھڑ گئے اور وہ گنجا ہو گیا۔ اس کے گفتگو کرنے کی صلاحیت ختم ہو گئی۔ کچھ دن بعد طوطا دکان پر بیٹھا ہوا تھا کہ ایک گنجا آدمی باہر سے گزرا۔ طوطے کی قوت گویائی واپس آ گئی اور وہ چلایا: "تم نے کس کا مرتبان الٹایا ہے؟"
طوطے کی اس غلط فہمی سے مولانا یہ سبق اخذ کرتے ہیں کہ جیسے طوطے نے غلط طور پر گنجے پن کا تعلق مرتبان کے الٹنے سے قائم کر لیا، اسی طرح بہت سے لوگ غلط طور پر جعلی پیروں کو ولی اللہ سمجھ بیٹھتے ہیں۔
بعض لوگوں کے خیال میں یہ کہانیاں قبل از اسلام ایران کی دیو مالا سے اخذ کی گئی ہیں۔ کہانی کو بیان کرنے کے بعد وہ اس میں سے سبق اخذ کرتے ہوئے اپنے مخصوص صوفیانہ نظریات بیان کرتے چلے جاتے ہیں۔ ان کے اس طریق کار نے مثنوی کو بہت پر اثر بنا دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فارسی دانوں میں مثنوی بہت زیادہ پڑھی جانے والی کتاب ہے۔ مولانا کے بعض غالی عقیدت مند تو نعوذ باللہ مثنوی کو الہامی کتاب قرار دیتے ہیں اور اسے فارسی زبان کا قرآن سمجھتے ہیں۔
جاری ہے......
00961 76 390 670

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...