Tuesday 12 April 2016

اسلام اور خانقاہی نظام، 136

"اسلام اور خانقاہی نظام"
(گزشتہ سے منسلک قسط نمبر 136)
"خلافتِ راشدہ کے زمانے میں سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے عہد کے ابتدائی حصے تک مسلمان حالت جنگ میں رہے۔آخر کار مسلمانوں نے سلطنتِ فارس کا خاتمہ کر دیا اور روم کے تمام ایشیائی مقبوضات پر قبضہ کر کے اس کی کمر توڑ دی۔ اس عمل کے نتیجے میں مشرکانہ تہذیب مغلوب ہو گئی اوران تمام علاقوں کے لوگوں نے اسلام قبول کر لیا ۔ یوں صحابۂ کرام رضی اللہ عنہ کا مشن مکمل ہوگیا۔ تاہم اس دوران میں مسلم معاشرے میں ایک بنیادی تبدیلی یہ آئی کہ وقت گزرنے کے ساتھ رسول اللہ ﷺ کے فیض یافتہ صحابہ کی تعداد کم ہوتی گئی اور مال و دولت کی بے  پناہ کثرت ہو گئی۔ قیصر و کسریٰ کے خزانے اور شام و عراق کی سونا اگلتی زمینیں مسلمانوں کے قبضے میں آ گئیں، لیکن غیر تربیت یافتہ نومسلموں کے زیر اثر مسلمانوں کی وہ اخلاقی روایت متاثر ہونے لگی جو نورِ نبوت کے فیضان سے مدینہ کے معاشرے میں روشن تھی۔
سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے عہد میں مسلمانوں کے باہمی خلفشار کا آغاز ہوا اور پھر ان کی مظلومانہ شہادت کے ساتھ ہی مسلمانوں میں باہمی جنگ و جدال کا آغاز ہو گیا۔سیدنا علی رضی اللہ عنہ  کا پورا دور اسی جنگ وجدال اور انتشارمیں گزرا۔اس کے بعد بنو امیہ کاتقریباً ایک صدی پر محیط عرصہ مستقل بغاوتوں ،جنگوں اور خانہ جنگیوں سے عبارت ہے۔اس عرصہ میں سیدنا حسین رضی اللہ عنہ اورحضرت عبداللہ ابن زبیر رضی اللہ عنہما کی شہادت اور مکہ اور مدینہ کے مقدس شہروں کی بے حرمتی جیسے المناک واقعات پیش آئے ۔ اس کے علاوہ بھی باہمی جنگوں کے دیگر ان گنت واقعات میں صالحین کی بڑی تعداد اس دنیا سے رخصت ہگئی۔
132ھ میں بنوامیہ کا خاتمہ علویوں(حضرت علی کی اولاد و وابستگان) اور عباسیو ں کی ایک بڑی بغاوت کے نتیجے میں ہوا ۔ تاہم امن ابھی لوگوں کے نصیب میں نہ تھا۔ پہلے عباسیوں نے بنو امیہ پر ظلم و ستم کے بدترین پہاڑ توڑے۔ اس کے بعد علویوں اور عباسیوں کا باہمی جھگڑا کھڑا ہوگیا۔ علویوں کی پے در پے بغاوتوں کے نتیجے میں خلیفہ منصور کے زمانے تک یعنی اگلے بیس برس مسلم معاشرہ خانہ جنگی کی ایک مستقل کیفیت میں رہا۔
《نوٹ:علویوں اور عباسیوں کا مختصر تعارف آئندہ اقساط میں آئے گا》
دوسری صدی ہجری کے نصف اول تک کے یہ وہ حالات ہیں جن میں ایک طرف مسلم معاشرے میں مال و دولت کی بے پناہ کثرت تھی اور دوسری طرف مستقل جنگ و جدال اور بدامنی کا ماحول تھا۔ان حالات میں ایک مسلمان کی ضرورت تھی کہ مادیت کے ماحول میں اس کے روحانی ارتقا اور بدامنی کی فضا میں ذہنی و قلبی سکون کے لیے مذہبی قیادت آگے آتی اور قرآن پاک کی روشنی میں اس کی رہنمائی کرتی۔ بدقسمتی سے یہ نہیں ہو سکا۔
صالحین کی ایک بڑی تعداد مستقل جنگوں میں مصروف رہی ، چاہے وہ خارجی قوتوں کے خلاف تھیں یا بنو امیہ کے خلاف ہونے والی بغاوتوں کی شکل میں۔باقی اہل علم کی توجہ ایک عظیم مسلم ریاست کے قانونی نظام کی تشکیل کے لیے فقہی سرگرمیوں میں صرف ہونے لگی۔ فقہاء کی آرا کے ردعمل میں لوگوں نے دینی احکام کو احادیث سے جمع کرنے کی کوشش شروع کردی۔ ائمہ اربعہ کا کام دوسری اور تیسری صدی میں سامنے آیا۔ اسی عرصے میں صحاح ستہ کی تدوین ہوئی۔مسلمان اہل علم فقہ اور حدیث کی تدوین سے فارغ ہوئے تو یونانی فکر و فلسفہ سے مسلم معاشرے میں در آنے والے کلامی مباحث کی طرف متوجہ ہو گئے۔ چوتھی صدی کے نصف اول میں امام ابولحسن اشعری(م324ھ) اورامام ابو منصور ماتریدی (م 332ھ) جیسے لوگ پیدا ہوئے جنہوں نے عقائد کے حوالے سے پیدا ہونے والے کلامی مباحث پر علمی کام کیا۔
اس جائزے سے یہ اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ابتدائی صدیوں میں جب مستقل خانہ جنگی کی وجہ سے ذہنی پریشانی اور مال و دولت کی فراوانی کی بنا پر پیدا ہونے والے روحانی خلا اور اخلاقی بگاڑ جیسے مسائل کو حل کرنے کی ضرورت تھی ، مسلمان اہل علم کی ترجیحات جنگ و سیاست، فقہ و حدیث اور فلسفہ و کلام بنی رہیں۔
ابتدائی صدی میں اس صورتحال میں ایک نمایاں استثنا حسن بصری (م110ھ) کا تھا۔آپ ایک جلیل القدر تابعی، مفسر اور محدث تھے۔ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے گھر پرورش پانے والے حسن بصری(پیدائش21ھ) نے صحابۂ کرام کا کافی زمانہ پایا ۔اپنے دور کے انتشار اور صحابۂ کرام کے دور کے بعد آنے والے اخلاقی انحطاط کو انہوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا اور اس کے خلاف بھرپور جدو جہد کی۔وہ صاحب علم ہونے کے ساتھ ساتھ صاحبِ نظر، صاحبِ درد اور قادر الکلام خطیب بھی تھے۔ان کے مواعظ کی اثر آفرینی اس درجہ بڑھی ہوئی تھی کہ امام غزالی نے اپنی کتاب احیاء العلوم میں ان کے کلام کو نبیوں کے کلام کی طرح قرار دیا۔
ان کی کوششوں کے نتیجے میں ایک فضا پیدا ہوئی مگر بدقسمتی سے ان کے بعد یہ میدان اہل علم کی دلچسپی کا موضوع نہ بن سکا۔جبکہ معاشرے کی اخلاقی تربیت کرنا اور ربانی تعلق کی درست جہت کی طرف لوگوں کی رہنمائی کرنا معاشرے کی ضرورت تھی جو اُس دور کے معروضی حالات میں زیادہ شدت اختیار کر گئی تھی۔اس کے نتیجے میں ایک زبردست خلا پیدا ہوا۔انسانی ضروریات کی طلب سے پیدا ہونے والا کوئی خلا کبھی باقی نہیں رہتا۔یہ خلا تصوف کی تحریک نے بھر دیا ۔ مسلم معاشرے کے زہد اور غیر مسلم فلسفوں اور روایات سے متاثر تصوف کی تحریک اس فضا میں غیر محسوس طریقے سے اپنی جگہ بناتی چلی گئی اور دوسری اور تیسری صدی میں عوام و خواص دونوں میں مقبول ہو گئی۔

مسلم دنیا میں تصوف کا عروج و زوال اگلی قسط میں پاڑهیں......
جاری ہے......
00961 76 390 670

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...