Tuesday 12 April 2016

اسلام اور خانقاہی نظام، 134

"اسلام اور خانقاہی نظام"
(گزشتہ سے منسلک قسط نمبر134)
مخصوص صوفیانہ نظریات کے علاوہ مثنوی میں بہت سی ایمانی و اخلاقی تعلیمات بھی ہیں۔ قارئین کی دلچسپی کے لئے اس کے کچھ اشعار اور ان کا مفہوم پیش خدمت ہے۔ یہ اشعار حکیم محمد اختر صاحب کے درس مثنوی سے لیے گئے ہیں۔ اللہ تعالی کے بارے میں لکھتے ہیں:
*آہ را جز آسمان ہمدم نبود ۔۔۔۔۔ راز را غیر خدا محرم نبود؛
میں تنہائی میں ایسی جگہ اللہ کا نام لیتا ہوں جہاں اللہ کے سوا میری آہ میں میرا کوئی ساتھی نہیں ہوتا۔ میری محبت کے راز کو سوائے خدا کے اور کوئی نہیں جانتا۔
*اے کہ صبرت نیست از فرزند و زن ۔۔۔۔صبر چوں داری ز رب ذوالمنن
عجیب بات ہے کہ تم بیوی بچوں کی ناراضی پر  تو صبر نہیں کر سکتے جبکہ احسان کرنے والے رب کریم کی ناراضی پر صبر کر لیتے ہو۔
*دہد نطفہ را صورتے چوں پری ۔۔۔۔ کہ کردہ است بر آب صورت گری-
اے اللہ! تو نے نطفہ کے ایک قطرہ سے اتنی خوبصورت شکل تخلیق کی ہے۔ یہ تو گویا پانی سے نقش و نگار بنانے کے مترادف ہوا۔
*چیست دنیا از خدا غافل بدن ۔۔۔۔ نے قماش و نقرہ و فرزند و زن-
دنیا پرستی خدا سے غفلت کا نام ہے۔ یہ کپڑے، سونا چاندی، اولاد اور بیوی کے ساتھ تعلق کا نام نہیں ہے۔
*ہم خدا خواہی و ہم دنیائے دوں ۔۔۔۔ ایں خیال است و محال است و جنوں-
خدا کو بھی چاہتے ہو اور دنیا پرستی بھی اختیار کرتے ہو۔ یہ خیال تو محض پاگل پن اور ناممکن ہے۔
*عشق من پیدا و دلبر ناپدید ۔۔۔۔ در دو عالم ایں چنیں کہ دلبر کہ دید-
خدا کی محبت تو میرے دل میں پیدا ہو گئی جبکہ میرا محبوب نظروں سے اوجھل ہے۔ دونوں جہان میں کوئی ایسا محبوب تو دکھاؤ کہ جس کو دیکھے بغیر ہر کوئی اس پر جان نثار کر رہا ہو۔
*لحن مرغاں را اگر واقف شوئی ۔۔۔۔ بر ضمیر مرغ کے عارف شوئی؛
(اے جعلی صوفیو!) اگرچہ تم نے چمن کے مرغوں کی آواز کی نقل کر بھی لی، پھر بھی ان کے دل میں جو مضمون ہے، اسے تم کیسے جان سکتے ہو۔
*گر بیا موزی سفیر بلبلے ۔۔۔۔ تو چہ دانی کوچہ گو ید با گلے-
اگرچہ تم نے بلبل کی آواز کی نقل کر بھی لی مگر تمہیں کیا معلوم کہ وہ پھول کے ساتھ کیا گفتگو کرتی ہے؟
*کار مرداں روشنی و گرمی است ۔۔۔۔ کار دوناں حیلہ و بے شرمی است-
مردوں کا کام سر گرم عمل رہنا ہے جبکہ کمینہ خصلت لوگوں کا کام حیلے بہانے اور بے شرمی سے (کام سے جی چرانا) ہے۔
*پیش نور آفتاب خوش مساغ ۔۔۔۔ رہنمائی جستن از شمع و چراغ-
روشن آفتاب کی موجودگی میں شمع و چراغ سے روشنی حاصل کرنا عجیب بات ہے۔ (یعنی اللہ تعالی کی ہدایت کے ہوتے ہوئے ادھر ادھر سے ہدایت کی توقع فضول ہے۔)
*یکے آں کہ بر غیر بد بیں مباش ۔۔۔۔ دویم آں کہ بر خویش خود بیں مباش-
دوسروں کے عیب تلاش کرنے کی بجائے انسان کو اپنی خامیاں تلاش کرنی چاہییں۔
*مرکب توبہ عجائب مرکب است ۔۔۔۔ تا فلک تا زد بیک لحظہ ز پست-
توبہ کا مرکب بھی عجیب چیز ہے۔ یہ توبہ کرنے والے کو ایک سیکنڈ میں پستی سے نکال کر آسمان پر پہنچا دیتا ہے۔
*لیک شیرینی  و لذات مقر ۔۔۔۔ ہست بر اندازہ رنج سفر-
منزل پر پہنچنے کے لطف کا اندازہ سفر کی صعوبتوں سے ہی ہوتا ہے۔
*ہمچو امرد کز خدا نامش دہند ۔۔۔۔ تابداں سالوس در دامش کنند-
امرد (ایسا خوبصورت لڑکا جس کی داڑھی نہ نکلی ہو) کو یہ لوگ خدا ئے حسن کہتے ہیں تاکہ انہیں اپنے جال میں پھنسا لیں۔
گھومتے درویشوں کا رقص'دهمال:
قونیہ میں مولانا روم کا مقبرہ موجود ہے۔ اس مقبرے کی خاص بات یہاں پر ہونے والا درویشوں کا رقص ہے جو کہ "سماع" کہلاتا ہے۔ یہ برصغیر کے چشتی حضرات کے سماع سے خاصا مختلف ہے۔ قونیہ میں بہت سے غیر ملکی سیاح صرف یہ رقص دیکھنے کے لئے آتے ہیں۔ اس رقص کا طریقہ کار یہ ہے کہ اس میں چند درویش(ملنگ) لمبے لمبے فراک پہن کر اسٹیج پر آتے ہیں۔ سر پر انہوں نے اوندھی بالٹیوں کی طرز کی ٹوپیاں لی ہوتی ہیں۔ اس کے بعد وہ ہاتھ پھیلا کر ایک عالم بے خودی میں خلاف گھڑی وار گردش کرنا شروع کر دیتے ہیں۔  ان درویشوں کا استاد مختلف رنگ کا سوٹ پہن کر ان کے ساتھ کھڑا موسیقی کی زبان میں انہیں ہدایات جاری کرتا رہتا ہے۔
درویشوں کا یہ رقص دیوانہ وار ہوتا ہے مگران کے استاد میں ذرا بھی والہانہ پن نہیں پایا جاتا۔ یہ بالکل اسی طرح ہے جیسے ہمارے ہاں قوالی کے دوران بہت سے لوگ وجد میں آ کر حال کھیلنے لگتے ہیں مگر قوال کو خود کبھی وجد نہیں آتا۔ اس رقص کی تفصیل بیان کرتے ہوئے مولانا روم کی نسل کے بزرگ ڈاکٹر جلال الدین جلبی اس سماع کے بارے میں لکھتے ہیں:
سماع کے اندر چار بار سلام کیا جاتا ہے: پہلا سلام سچائی پر انسان کی پیدائش کو بیان کرتا ہے۔۔۔۔ دوسرا سلام تخلیق کے بارے میں خدا کی عظمت کے بارے میں انسان کے جذبات کو بیان کرتا ہے۔ تیسرا سلام ان جذبات کو محبت میں تبدیل کر دینے کی علامت ہے۔ انسان عقل کو اس محبت پر قربان کر دیتا ہے۔ یہ مکمل سپردگی کا نام ہے۔ یہ خود کو خدا کی محبت میں فنا کر دینے کا نام ہے۔
بدھ مذہب میں یہ انسان کے لئے سب سے بڑا درجہ ہے جو کہ "نروان" کہلاتا ہے۔ اسلام میں اسے "فنا فی اللہ" کہا جاتا ہے۔ لیکن اسلام میں سب سے بڑا درجہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہے جو کہ خدا کے بندے پہلے ہیں اور اس کے بعد اس کے رسول ہیں۔ ۔۔۔۔ چوتھا سلام اسی طرح ہے جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عرش پر جا کر واپس آ گئے۔ اسی طرح ایک درویش فنا فی اللہ کی منزل تک پہنچ کر مخلوق کی خدمت کے لئے واپس آ جاتا ہے۔ درویشوں کے اس رقص اور اس میں ان کے والہانہ پن کے بارے میں پڑھتے ہوئے میرے ذہن میں قرآن مجید کی یہ آیت آئی جس میں اہل مکہ کے بارے میں اللہ تعالی نے فرمایا: وَمَا كَانَ صَلاتُهُمْ عِنْدَ الْبَيْتِ إِلاَّ مُكَاءً وَتَصْدِيَةً (الانفال8:35) یعنی بیت اللہ کے پاس ان کی نماز تالیوں اور سیٹیوں کے علاوہ کچھ نہیں تھی۔
اللہ تعالی کے حضور اپنے جذبات اور والہانہ پن کے اظہار کے لئے اس نے اپنے پیغمبر  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعے نماز جیسا خوبصورت طریقہ سکھایا ہے۔ انسان اپنے رب کی محبت میں اس کے سامنے کھڑا ہوتا ہے۔ اسی کی محبت میں ڈوب کر اس کے سامنے رکوع میں جھکتا ہے۔ پھر اوپر اٹھتا ہے اور پورے جوش و جذبے کے ساتھ اس کے سامنے سجدے میں گر جاتا ہے۔ قرآن مجید سجدے کو اللہ تعالی سے قربت کا ذریعہ بتاتا ہے:  وَاسْجُدْ وَاقْتَرِبْ یعنی سجدہ کر کے میرے قریب ہو جاؤ۔
نماز کے ذریعے انسان اپنے رب کے ساتھ جس قدر محبت و قربت حاصل کر سکتا ہے، اس کا عشر عشیر بھی اسے ان ناچ گانوں، دهمالوں سے حاصل نہیں ہوتا کیونکہ یہ انسان کے بنائے ہوئے طریقے ہیں جبکہ نماز اللہ کے پیغمبروں کی میراث ہے۔
جاری ہے.....
بشکریہ:فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان
ہمارے جلسہ میں شامل ہونے کیلئے پرسنل میں رابطہ کریں
سوشل میڈیا پر اب تک کا سب سے بڑا سلسلہ"اسلام اور خانقاہی نظام"یہ دعویٰ نہیں حقیقت ہے.....
00961 76 390 670

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...