Monday 4 April 2016

اسلام اور خانقاہی نظام، 116

'اسلام اور خانقاہی نظام'
(گزشتہ سے منسلک قسط نمبر116)

7 سہیلیوں کا مزار:
کم و بیش چار سو پندرہ سال قبل کا ذکر ہے، جب ہند اور سندھ پر مغلوں کی حکومت تھی۔ایک دن مغلیہ دور کے گورنر سندھ ابو قاسم المعروف نمکین، جو خانِ زمانہ کے نام سے مشہور تھا، کی نظر دریائے سندھ کے بیچوں بیچ سکھر کے قریب واقع جزیرے پر قائم ایک چھوٹی سی ٹیکری (پہاڑی) پر پڑی۔ روہڑی کے کنارے جنوب مشرق میں موجود چھوٹی سی ٹیکری کی قدرتی کشش نے خان زمانہ کو اپنی جانب کھینچ لیا۔ دریائے کے عین درمیان قدرتی کاری گری کے اس نمونے سے متاثر ہوکر گورنر سندھ نے اس ٹیکری پر پڑاؤ ڈال دیا۔
تاریخ میں اس جگہ نے قاسم خوانی جب کہ عرف عامہ میں ’’ستین جو آستان‘‘ یا ’’سات سہیلیوں کا آستانہ‘‘ کے نام سے جو شہرت پائی ہے وہ سندھ کے کم ہی مقامات کو حاصل ہے۔ ستین جو آستان کے سیدھے ہاتھ پر بکھر آئی لینڈ، عقب میں لینس ڈائون برج، سامنے سکھر بیراج اور سادھو بیلہ کی موجودگی نے اس مقام کی خوب صورتی کو چار چاند لگا دیے ہیں-اس مقام کے متعلق سینہ بہ سینہ چلی آنے والی ایک روایت یہ بھی ملتی ہے کہ یہاں سات کنواری بیبیاں رہا کرتی تھیں، جنہوں نے عہد کیا تھا کہ وہ کسی بھی نامحرم مرد کو نہیں دیکھیں گی اور نہ ہی کسی نامحرم مرد کو خود کو دیکھنے کی اجازت دیں گی۔ راجا داہر کے دور میں ان سات بیبیوں نے اوباش لوگوں سے اپنی عزت بچانے کے لیے دعا مانگی کہ اے اﷲ! ہماری عصمت و آبرو محفوظ رکھ۔ ان کی دعا کے نتیجے میں کرشماتی طور پر ایک چٹان بیبیوں پر آکر گری اور وہ اپنی آبرو گنوانے سے محفوظ رہتے ہوئے چٹان میں دب کر دارفانی سے کوچ کرگئیں ، آج بھی ان بیبیوں کی تربت والے کمرے میں کوئی مرد داخل نہیں ہو سکتا۔ اس روایت کی وجہ سے یہ مقام سندھ بھر میں ستین جو آستان (سات سہیلیوں کا آستانہ یا مزار) کے نام سے مشہور ہوا۔ سے منسوب سات بیبیوں کو آج بھی عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھتی ہے
۔اس کے برعکس تاریخ نویسیوں اور محققین کا یہ کہنا ہے کہ سات بیبیاں کون تھیں، کہاں سے آئی تھیں، تاریخ اس سلسلے میں کسی بھی قسم کا جواب نہیں دیتی ۔تاہم تاریخ اس روایت سے متعلق کوئی مستند ثبوت یا شواہد پیش نہیں کرتی۔اصل حقیقت کیا ہے، واللہ اعلم- لوگوں کی اکثریت ستین جو آستان' ستین جو آستان سے شہرت پانے والی یہ جگہ در حقیقت ’’قاسم خوانی‘‘ ہے، جسے خان زمانہ گورنر سندھ ابو قاسم المعروف نمکین نے اپنی آخری آرام گاہ کے طور پر چنا تھا اور اس کا نام ’’صفحہ صفا‘‘ رکھا تھا،
انگریز دور ہو مغل بادشاہت ہو یا پھر موجودہ زمانہ، ہر دور میں سامانِ تجارت ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچانے کے لیے دریائے سندھ کو راہ گزر کے طور پر استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ انگریز اور مغلیہ دور میں مشہور ہونے والی اکثر شخصیات کی وجہِ شہرت ان کے کارنامے اور ان کی شاہ کار تعمیرات تھیں۔ مغلیہ دور میں سابق گورنر ابو قاسم المعروف نمکین نے بھی دریائے سندھ کے کنارے اس ٹیلے کو شاید ایسی ہی کسی تعمیر کے لیے چُنا، جو اس کے نام کو دوام عطا کردے۔ستین جو آستان کے نام سے شہرت کی بلندیوں کو چھونے والے اس مقام کی تعمیر کے لیے بھارت کے علاقے راجستھان سمیت مختلف علاقوں سے قیمتی پتھر منگوائے گئے۔
اس سے یہ بهی معلوم ہوتا ہے کہ انسان طویل عرصے سے ان پتھروں کا استعمال کر تا آ رہا ہے۔ ستین جو آستان پر ماہر کاری گروں نے نقش و نگاری کرنے کے علاوہ عربی و فارسی زبان میں قبروں کے اوپر نقش و نگاری بهی کی ہے۔ستین جو آستان کو مختلف زاویوں سے دیکھا جائے تو اس میں مغلیہ دور کے ماہر کاری گروں نے چھوٹے اور بڑے 12مینار تعمیر کیے، جن میں سے چار مینار جس پر ماہر کاری گروں نے کاشی کا خوب صورت استعمال کیا ہے، مسجد نما بارہ دری ہیں، چار مینار ابو قاسم اور اس کے خاندان کی قبروں کے تعمیر کردہ پلیٹ فارم کی نشان دہی کرتے ہیں، جب کہ چار چھوٹے مینار لینس ڈاون برج کے نزدیک دوسرے پلٹ فارم پر بھی تعمیر کیے گئے تھے، جو آج بھی موجود ہیں۔
۔ وصیت کے مطابق ابو قاسم المعروف نمکین اور اس کے قریبی عزیز و اقارب کو اسی مقام پر دفن کیا گیا۔ ان کی قبروں کی تیاری اس پر خطاطی اور دل کش نقش و نگاری کیلئے ہندوستان کے بہترین کاری گروں کا انتخاب کیا گیا تھا۔
ستین جو آستان میں مدفون لوگوں کو رتبے کے حساب سے تدفین کیا گیا۔ خانِ زمانہ میر ابو قاسم المعروف نمکین گورنر سندھ کو سب سے اونچے مقام پر مدفن کیا گیا۔ سابق گورنر کے اہل خانہ، عزیز و اقارب اور قریبی تعلقات رکھنے والوں کی قبریں راجستھان کے زردی مائل پتھر سے تیار کی گئی ہیں۔ان کاری گروں کی معاونت کرنے والے اہل کاروں اور ان کے خاندانوں کے لوگوں کے لیے چونے اور ریت سے قبریں تیار کرائی گئیں، ستین جو آستان میں چار مختلف پلیٹ فارم تعمیر کیے گئے تھے، جن میں پہلے پلیٹ فارم پر قبروں کو دیکھ کر یہ ثابت ہوتا ہے کہ وہ معصوم بچے، دوسرے پلیٹ فارم پر سابق گورنر کے خدمت گار، تیسرے پلیٹ فارم پر عزیز و اقارب، چوتھے اور آخری پلیٹ فارم پر ابو قاسم المعروف نمکین اور ان کے عزیز و اقارب کی قبریں موجود ہیں۔ستین جو آستان میں کم و بیش 100چھوٹی و بڑی قبریں موجود ہیں، جن پر اکبر اعظم کے دور کے رسم الخط کے کتبے نصب ہیں۔
قیام پاکستان کے بعد وفاقی، صوبائی حکومت اور ضلع انتظامیہ کی جانب سے آنے والے ملکی و غیر ملکی سیاحوں کو بہتر سہولیات مہیا کرنے کے لیے ستین جو آستان پر اوپر جانے کے لیے پتھر کی سیڑھیاں بنوائی جو کہ آج تک قائم ہیں۔
خان زمانہ سابق گورنر ابو قاسم المعروف نمکین کے متعلق کہا جاتا ہے کہ انہیں فروٹ میں سب سے زیادہ خربوزہ پسند تھا، ستین جو آستان کے نزدیک وسیع علاقے پر سبزیوں سمیت خربوزہ کی فصل بھی تیار کرائی جاتی تھی، مقامی خربوزہ انتہائی لذیذ ہوا کرتا تھا، بعض کتابوں میں تحریر ہے کہ ابو قاسم خربوزے کو اتنا پسند کرتے تھے کہ وہ دن میں کئی کلو خربوزہ کھایا کرتے تھے اور اپنے دوستوں کی بھی خاطر تواضع خربوزے سے کیا کرتے تھے۔
سرزمین سندھ کو باب الاسلام کہلانے کا فخر حاصل ہے۔ صوفیوں، درویشوں اور اولیائے کرام کی مرہون منت درجۂ شہرت پانے والی سر زمین سندھ کو ایک خاص اعزاز حاصل ہے۔ حضرت شاہ عبداللطیف بھٹائی، لعل شہباز قلندر، سچل سرمست، بیدل بیکس، خیر الدین شاہ المعروف جئے شاہ بادشاہ، پیر امیر محمد شاہ المعروف مکی شاہ بابا، صدر الدین شاہ بادشاہ و دیگر صوفیاء و اولیاء کرام کے علم و عمل کی وجہ سے یہ خطہ ان کی نشر کردہ تعلیمات کا مرکز بنا رہا اور آج بهی اسی تعلیم کا پورے سندھ میں چرچا ہے۔ستین جو آستان کا نام آتے ہی ذہن میں عبادت گزار خواتین کا تصور ابھرتا ہے اور ستین جو آستان کا مقام اپنی تمام تر دل کشی کے ساتھ تخیل کے پردے پر براجمان ہو جاتا ہے۔ ستین جو آستان تفریحی مقام کے علاوہ عقیدت مندوں کے لئے روحانی مرکز بھی ہے۔ شہر سمیت دور دراز علاقوں سے خواتین کی بڑی تعداد اپنی مرادیں پوری کرنے کے لیے ستین جو آستان پر حاضری دینے آتی ہے، خواتین ستین جو آستان کے احاطے کے نیچے موجود کچی اینٹ سے بنے کمرے میں تاریخ نویس و محقق مرحوم شوکت خواجائی کی اہلیہ سے روحانی علاج کرانے کے علاوہ بے اولاد خواتین کمرے میں موجود جھولے میں مختلف رنگ کے دھاگے باندھ کر اولاد ہونے کی دعا بھی مانگتی ہیں۔ستین جو آستان (سات سہیلیوں کے مزار) پر گذشتہ سات سال سے مجاور کے فرائض انجام دینے والی بیوہ شوکت خواجائی نے اخباری نمائندے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سکھر سمیت سندھ، بلوچستان، پنجاب، سرحد کے دور دراز علاقوں سے تعلق رکھنے والی بے اولاد خواتین کی بڑی تعداد یہاں اپنی گود بھرنے کے لیے منت مانگنے کے لیے آتی ہیں، اولاد ہونا یا نہ ہونا خدا کے ہاتھ میں ہے، ہم اس میں کسی قسم کا کردار ادا نہیں کرتے۔ تاہم ایک صدی سے ہمارے بڑے یہاں پر فرائض انجام دینے کے علاوہ خدمت گاری کر رہے ہیں، انہیں کی دی گئی تعلیم پر عمل کرتے ہوئے ڈاکٹرز سے مایوس ہوکر آنے والی بانجھ اور بیماریوں میں مبتلا خواتین کو سات سہیلیوں کے مزار کے اندر موجود حجرے میں ایک رسم کرائی جاتی ہے جس میں بے اولاد خاتون کی کمر پر تالا باندھنے کے علاوہ حجرے میں موجود جھولوں پر مختلف رنگ کے دھاگے باندھے جاتے ہیں۔منت مانگنے والی خواتین کو اسلامی مہینے کے پہلے ہفتے بلوایا جاتا ہے، میں یومیہ 10گھنٹے دور دراز علاقوں سے آنے والی کم و بیش ایک درجن خواتین کو دینی تعلیم کے علاوہ ایک عرصہ سے چلنے والی رسوم و رواج کے حوالے سے آگاہ کرتی ہوں، سب پر یہ واضح کیا جاتا ہے کہ اولاد دینا ﷲ کے ہاتھ میں ہے، بندہ کسی بھی شخص کو کچھ نہیں دے سکتا۔
یہی تو قرآن کہتا کہ جن کی تم عبادت(سفارشی/وسیلہ)کرتے ہو یہ ذرہ بهر کے بهی مالک نہیں-
وَيَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّـٰهِ مَا لَا يَضُرُّهُـمْ وَلَا يَنْفَعُهُـمْ وَيَقُوْلُوْنَ هٰٓؤُلَآءِ شُفَعَآؤُنَا عِنْدَ اللّـٰهِ ۚ قُلْ اَتُنَبِّئُوْنَ اللّـٰهَ بِمَا لَا يَعْلَمُ فِى السَّمَاوَاتِ وَلَا فِى الْاَرْضِ ۚ سُبْحَانَهٝ وَتَعَالٰى عَمَّا يُشْرِكُـوْنَ- اور اللہ کے سوا اس چیز کی پرستش کرتے ہیں جو نہ انہیں نقصان پہنچا سکے اور نہ انہیں نفع دے سکے اور کہتے ہیں اللہ کے ہاں یہ ہمارے سفارشی ہیں، کہہ دو کیا تم اللہ کو بتلاتے ہو جو اسے آسمانوں اور زمین میں معلوم نہیں، وہ پاک ہے اور ان لوگوں کے شرک سے بلند ہے-(سورۃ یونس:18)
یعنی مشرکین عرب اپنے معبودوں(بزرگوں) کو اللہ کے یہاں سفارشی ہی سمجھتے تهے-
مشرکین اللہ کو نفع و نقصان کا مالک سمجهنے کے باوجود  آخر مشرک کیوں ؟ اس لئے کہ وہ مخلوق کو اللہ کے عطا یافتہ حاجت روا اور مشکل کشا مانتے تهے-ورنہ ان کے نزدیک بهی حقیقی مالک ،رازق،مختار،خالق،مشکل کشا،ہر نفع و نقصان کا مالک اللہ ہی ہے،
تاہم عقیدت مند خواتین کی بڑی تعداد سات سہیلیوں کے مزار پر آ کر ہم سے ملاقات کرتی ہیں اور ہم انکو مفید مشورے  ہیں۔ مزید بتایا کہ یہاں آنے والی خواتین سے کسی بھی قسم کی رقم وصول نہیں کی جاتی، تاہم خوشی سے جو بھی نذرانہ دیتا ہے وہ چندہ بکس میں ڈال دیا جاتا ہے، ہمارے بڑوں نے یہ بتایا ہے کہ سات سہیلیوں کے انڈر گراؤنڈ چار کمرے (حجرے) موجود ہیں، جن میں صدیوں پرانی پہاڑی پھٹنے کی نشانی بھی واضح ہے۔ اسی طرح اروڑ کے نزدیک بھی پہاڑ پھٹنے کی نشانیاں موجود ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم یہاں پر خواتین کے مسائل معلوم کر کے انہیں روحانی علاج بتاتی ہیں۔ متعلقہ اداروں کی عدم توجہی کی وجہ سے بیٹھنے کے لیے کمرے، خواتین کی حاجت پوری کرنے کے لیے بیت الخلاء خستہ حال ہو چکے ہیں، ان کی حالت بہتر بنانے کے لیے متعلقہ اداروں کو تحریری درخواستیں دیں مگر آج تک تختی لگانے کے علاوہ کسی بھی قسم کا کام نہیں ہوا۔
روہڑی سے تعلق رکھنے والی 41 سالہ مسماۃ رابعہ اور اس کی نند مسماۃ سبحانہ کا کہنا ہے کہ ایک عرصہ سے ہم اپنے بچوں کی صحت کے حوالے سے یہاں پر خدمات انجام دینے والی مجاورہ سے دم کرانے اور منتیں ماننے آ رہی ہیں۔ ماضی کی طرح اب بھی ہمارا عقیدہ ہے کہ یہاں پر آنے سے بیمار بچوں کی صحت بہتر ہوتی ہے۔ آج میں اپنے ایک سالہ بیٹے بلال کو لے کر آئی ہوں، جو کئی دن سے بخار میں مبتلا ہے، میں نے یہاں آکر دعا مانگی ہے اور دم بھی کرایا ہے، اس کی بدولت مجھے امید ہے کہ اس کی صحت میں بہتری آئے گی۔
چیئرمین آرکیالوجی ڈیپارٹمنٹ شاہ عبداللطیف یونیورسٹی خیرپور پروفیسر ڈاکٹر قاصد ملاح نے اخباری نمائندے کو بتایا ہے کہ اب تک کی جو تحقیق کی گئی ہے اور جو معلومات حاصل ہوئی ہیں۔ ان سے پتا چلتا ہے کہ ستین جو آستان (سات سہیلیوں کے مزار) میں چار سو سال قبل ازبکستان، ایران، افغانستان اور عرب ممالک سے تعلق رکھنے والے سات درویش آتے رہے، جنہوں نے دریائے کے نزدیک اس چوٹی پر چلہ کاٹا اور سات سہیلیوں کے مزار میں موجود کمرے یا حجرے جسے کہتے ہیں وہاں عبادت کی، جن میں شیخ عبدالحمید سہروردی، شیخ عبداﷲ ہراری، حمزہ بن رافع، یوسف بن بکھری، سیف الدین شیرازی، عبدالحسن خیر خوانی شامل ہیں، جب کہ ایک نام علی ڈنو احمد بصری مقامی درویش لگتا ہے۔ مذکورہ درویش کی بدولت ہی باہر سے آنے والے عبادت گزاروں نے یہاں چلہ کاٹا ہوگا۔ تحقیق سے ثابت ہوتا ہے کہ اس دور میں بہت سے لوگوں نے اس جگہ کو سات سہیلیوں سے منسوب کرنا شروع کر دیا۔ تاہم اس حوالے سے آج تک کوئی ٹھوس معلومات سامنے نہیں آسکیں، اس حوالے سے مزید تحقیق کا سلسلہ جاری ہے۔
دریائے سندھ کے عینِ وسط میں جزیرے پر قائم ستین جو آستان آج بھی اپنی خوب صورتی و دل کشی کی بدولت ملکی و غیرملکی سیاحوں کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔لیکن شرک کے پجاریوں نے اس مقام کو بهی شرک سے آلودہ کر کے اللہ کی توحید کا انکار کیا-
جاری ہے.....
www.ficpk.blogspot.com

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...