Friday 1 April 2016

مسلمانوں کے مذہبی مسالک،9

"مسلمانوں کے مذہبی مسالک"

باب 1: اہل سنت کے ذیلی گروہوں کا ایک تعارف:

اہل تشیع کے بر عکس اہل سنت کے ہاں  مستقل عالمی فرقے تو پیدا نہیں ہوئے البتہ مختلف عوامل کے تحت ان کے ہاں مختلف گروہ وجود میں آتے رہے ہیں۔کھبی یہ گروہ محض ایک رحجان کی نمائندگی کرتے رہے، کہیں انہوں نے ایک مکتب فکر کی شکل اختیار کی، کبھی یہ ایک مسلک کی صورت میں ڈھل گئے اور تاریخ میں ایسا بھی ہوا ہے کہ انہوں نے ایک مستقل فرقہ کی شکل اختیار کر لی ہو، یہ فرقے بالعموم مقامی نوعیت کے رہے ہیں اور وقت کے ساتھ پیدا ہوتے اور ختم ہوتے رہے ہیں۔
ایک دور میں قرون وسطی کے علم الکام کی بحثوں کے نتیجے میں اہل سنت تین بڑے گروہوں معتزلہ، اشاعرہ اور ماتریدیہ میں تقسیم ہوئے۔ جب ان مسائل کی اہمیت ختم ہو گئی تو یہ گروہ بھی بس کتابوں تک ہی محدود ہو کر رہ گئے۔ اسی طرح فقہ کے میدان میں ان کے ہاں بہت سے فقہی مکتب فکر پیدا ہوئے جو ان میں سے چار بڑے مکاتب فکر حنفی، مالکی، شافعی، اور حنبلی اب بھی باقی ہیں۔ اہل حدیث ان کے علاوہ ہیں جو تقلید کے قائل نہیں ہیں۔ تصوف کے میدان میں ان کے ہاں متعد سلسلے وجود پزیر ہوئے جن میں تقشبندی، قادری، چشتی اور سہروردی سلسلے زیادہ مشہور ہوئے۔ ان میں سے بہت سے گروہ کسی زمانے میں کسی مخصوص علاقے میں باقاعدہ فرقے کی شکل اختیار کر گئے تھے اور ان کی دوسرے گروہوں سے محاذ آرائی شروع ہو گئی تھی مگر وقت کے ساتھ ساتھ انہوں نے ایک دوسرے کے وجود کو تسلیم کر لیا اور اس طرح سے اب ان کی حیثیت ایک مسلک یا مکتب فکر کی ہے۔
موجودہ دور میں اہل سنت کے جو گروہ پائے جاتے ہیں، انہیں ہم ان کے رحجان کے اعتبار سے متعدد انداز میں تقسیم کر سکتے ہیں:
*روایتی اور سلفی گروہ-
*تصوف سے تعلق کی بنیاد پر صوفیاء کے مختلف گروہ اور ان کے ناقدین-
*جدید و قدیم کی بنیاد پر جدت پسند، روایت پسند اور معتدل گروہ-
فقہی مسالک کی بنیاد پر بننے والے گروہ جیسے حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی، ظاہری وغیرہ
ان سب گروہوں کا مطالعہ ہم اگلے ماڈیولز میں کریں گے البتہ سلفی اور غیر سلفی گروہوں کا مطالعہ ہم اسی ماڈیول میں کریں گے۔ یہ گروہ کسی مقام پر فرقوں میں تقسیم ہو چکے ہیں اور کہیں ان کی حیثیت ایک مسلک یا مکتب فکر کی ہے۔
سلفی اور روایتی گروہ کم و بیش ہر مسلم ملک میں پائے جاتے ہیں۔ روایتی گروہوں سے ہماری مراد یہ ہے کہ وہ گروہ جو اس دینی روایت کی حمایت کرتا ہو جو اسے اپنے سے پچھلی نسلوں سے ملاہو۔ عام طور پر تاریخ میں ایسا ہوا ہے کہ جب اسلام کسی خاص علاقے میں پہنچا تو وہاں مسلمانوں کا سامنا مقامی باشندوں سے پڑا۔ ان مقامی باشندوں میں سے جو لوگ مسلمان ہوئے، وہ اپنی مذہبی روایت، رحجانات اور کلچر ساتھ لائے۔ اس علاقے میں چلنے والی مذہبی نوعیت کی تحریکیں اس عمل پر اثر انداز ہوئیں۔ پہلے سے مسلمان لوگوں کے ساتھ ان نو مسلموں کا تعلق بڑھا، آپس میں کارو بار'شادی بیاہ ہوئے اور وقت کے ساتھ ساتھ ان کے مذہب اسلام کا ایک علاقائی یا روایتی ورژن وجود میں آ گیا۔ چونکہ ایک بچہ عام طور پر مذہبی تعلیم عام طور پر دین کے اصلی مآخذ سے کم اور اپنی کلچرل روایت سے زیادہ اخذ کرتا ہے، اس وجہ سے دین کا یہ روایتی ورژن اگلی نسلوں کو منتقل ہو جاتا ہے۔
یہ عمل کم و بیش دینا کے ہر خطے میں وقع پذیر ہوا۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ جنوبی ایشیا یعنی بر صغیر کے مسلمانوں کی مذہبی روایت، اہل عرب سے کچھ مختلف ہیں۔ اسی طرح وسطی ایشیا، شمال مغربی افریقہ اور مشرق بعید کے مسلمانوں کے مذہب میں کچھ فرق پایا جاتا ہے۔ اِس فرق کے باوجود یہ سب کے سب خود کو مسلم اہل سنت کہلاتے اور سمجھتے ہیں۔ اِن کے مذہبی عقائد ، عبادت کے طریقے اور دین کے بنیادی اعمال یکساں ہیں، البتہ بعض اُمور میں اِن کے ہاں اختلاف پایا جاتا ہے۔ اِس کے برعکس ہر دور میں اور ہر خطے میں ایک طبقہ ایسا رہا ہے جس نے اِس روایتی مذہب پر تنقید کی ہے اور دین کو اِس کے اصل مآخذ یعنی قرآن و سنت اور دور ِ اول کے مسلمانوں یعنی صحابہ اور تعابعین کے عمل سے اخذ کرنے پر زور دیا ہے۔چونکہ صحابہ کرام اور تابعین کو "سلف" پہلے دور کے لوگ کہا جاتا ہے، اِس نسبت سے یہ لوگ عام طور پر خود کو سلفی کہلاتے آئے ہیں۔ یہ کہا جاتا ہے کہ سلفی ازم دین کو خالص کرنے کی تحریک (Puritanism ) کا نام ہے- جس نے مختلف ادوار اور خطوں میں مختلف شکلیں اختیار کی ہیں۔ چوتھی صدی ہجری کے عراق کے حنبلی ہوں یا ساتویںٰ صدی ہجری کے شام میں ابن تیمہ (1327-1263/728-661) کے پیروکار،یا بارہویں صدی ہجری کے عرب میں محمد بن عبدالوہاب (1792-1703) کی تحریک ہو یا تیرہویں صدی ہجری میں سید احمد بریلوی (1831-1786) ہندوستان کی تحریک جہاد، ان سب تحریکوں میں ایک عنصر مشترک ہے اور وہ ہے دین کو مذہبی روایت کی بجائے اس کے اصل مآخذ یعنی قرآن و سنت سے سمجھنے کا عزم۔بارہویں صدی ہجری یا اٹھارہویں صدی عیسوی کے عرب میں شیخ محمد بن عبد الوہاب نے شرک اور بدعات سے معاشرے کو پاک کرنے کی جو مہم چلائی، اس کا نتیجہ ان کی فتوحات کے بعد عالمگیر نوعیت کا نکلا۔ اسی سے ملتی جلتی تحریکیں عالم اسلام کے دوسرے علاقوں ہندوستان، سوڈان، شمالی افریقہ، وسط ایشیا اور جنوب مشرقی ایشیا میں پیدا ہوئیں۔ روایتی مذہب کے ساتھ ان کے تصادم کے نتیجے میں تین مستقل فرقے بریلوی، دیوبندی اور اہل حدیث وجود میں آئے۔ دوسرے ممالک میں یہ عام طور پر فرقوں کی شکل تو اختیار نہ کر سکے البتہ سلفی اور روایتی گروہ موجود ہیں- جن کی حیثیت دو متوازی مکاتب فکر کی ہے-
روایتی اور سلفی نقطہ ہائے نظر میں بنیادی اختلاف
اگر دنیا کے مختلف ممالک میں روایتی اور سلفی نقطہ ہائے نظر کا تقابلی جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ان کے مابین اختلاف دو بنیادی امور پر ہے:
پہلا معاملہ: ان عقائد اور رسوم و آداب کا ہے جو تصوف کے زیر اثر روایتی نقطہ ہائے نظر میں داخل ہو گئی ہیں۔ ان میں رسول اللہ ﷺ اور بزرگان دین کے ساتھ عقیدت کا معاملہ ہے جس کے اظہار کی مختلف شکلیں عقائد و رسوم کی شکل میں موجود ہیں۔ ان میں اکثر سلفی حضرات کے نزدیک شرک کے دائرے میں داخل ہو جاتی ہیں اور ان کے نقظہ نظر کے مطابق ائمہ اور علماء کو پیغبر، اور بیغمبر کو خدا کے درجے پر فائز کر دیا جاتا ہے۔ اس سے متعدد اختلافی مسائل جنم لیتے ہیں جس میں عقیدہ علم غیب، حاضر و ناظر کی بحث، غیر اللہ سے مافوق الاسباب طریقے سے مدد مانگنا اور انہیں پکارنا، نور و بشر کا مسئلہ اور تقلید شامل ہیں۔
دوسرا معاملہ: ان رسموں کا ہے جو مقامی آبادیوں کے کلچر سے مسلمانوں میں داخل ہو کر دین کا درجہ پا گئی ہیں۔ سلفی حضرات کے نزدیک یہ سب بدعت اور دین میں اضافہ ہیں۔ ان میں مرنے کے بعد ایصال ثواب سے متعلق رسمیں، عید میلاد النبی، مزارات کی تعمیر، ان کی تعظیم اور ان پر عرس و میلا کا انعقاد، مزارات کی زیارت کا سفر، بزرگوں کے نام پر نذر و نیاز وغیرہ شامل ہیں۔ اگلے ابواب میں ہم ان تمام اہم مسئلوں کا جائزہ لیں گے اور دیکھیں گے کہ اپنے نقطہ نظر کے حق میں جانبین کے دلائل کیا ہیں۔
روایتی اور سلفی نقطہ ہائے نظر میں اتفاق رائے:
روایتی اور سلفی نقطہ ہائے نظر میں ان اختلافات سے قطع نظر ان کے مابین بنیادی امور میں اتفاق رائے پایا جاتا ہے۔ سب ہی اس بات پر متفق ہیں کہ دین کا بنیادی ماخذ قرآن مجید اور رسول اللہ ﷺ کی سنت ہے۔ احادیث کے مجموعے اور احادیث کو پرکھنے کا طریقہ کار بھی ان کے ہاں یکساں ہے۔ اس کے علاوہ ذیلی مآخذ اجماع اور قیاس کے معاملے میں بھی ان کے ہاں اتفاق رائے پایا جاتا ہے۔ دین کے بنیادی عقائد توحید، رسالت اور آخرت کے بارے میں ان کے ہاں کوئی اختلاف نہیں پایا جاتا ہے۔ دین کے اخلاقی احکام یعنی اخلاص، عجز و انکسار، محبت الہی ، تزکیہ نفس اور تعلق باللہ کو سبھی مانتے ہیں اور اخلاقی رذائل جیسے تکبر، ریاکاری ، حسد ، کینہ وغیرہ کو سبھی برا سمجھتے ہیں۔ شریعت کے بنیادی احکام نماز، روزہ، حج، زکوۃ اور جہاد کے بارے میں ان کے ہاں کوئی اساسی نوعیت کا اختلاف نہیں ہے۔
جاری ہے.........

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...