Monday 4 April 2016

اسلام اور خانقاہی نظام، 125

'اسلام اور خانقاہی نظام'
(گزشتہ سے منسلک قسط نمبر 125)
مسئلہ بیعت: شرع کی نظر میں سوال:
کیا فرماتے ہیں علماے دین و مفتیانِ شرعِ متین بابت اس مسئلہ کے، کہ ہندوپاک میں پیرومرشد عوام سے جو بیعت لیتے ہیں ،اس کی شرعی حیثیت کیا ہے؟
اور یہ بات کہاں تک درست ہے کہ جس کا کوئی پیرومرشد نہ ہو، اس کا پیرومرشد شیطان ہوتا ہے، جیساکہ عوام میں مشہور ہے؟
براہِ کرام کتاب و سنت کی روشنی میں وضاحت فرما کرممنون فرمایئں. جواب: الحمد ﷲ رب العالمین والصلاة والسلام علی سیّد المرسلین محمد وعلی آلہٖ وأصحابہ أجمعین -جواباً عرض ہے کہ یہ سوال تفصیلی وضاحت چاہتا ہے جو درج ذیل ہے :بیعت کا لفظ بـیـع سے نکلا ہے، جس کا مطلب ہے: سودا کرنا، چاہے یہ سودا مال کا ہو یا کسی اورذمہ داری کا، اللہ عزوجل ارشاد فرماتے ہیں :إِنَّ ٱللَّهَ ٱشْتَرَ‌ىٰ مِنَ ٱلْمُؤْمِنِينَ أَنفُسَهُمْ وَأَمْوَ‌ٰلَهُم بِأَنَّ لَهُمُ ٱلْجَنَّةَ ۚ يُقَـٰتِلُونَ فِى سَبِيلِ ٱللَّهِ فَيَقْتُلُونَ وَيُقْتَلُونَ ۖوَعْدًا عَلَيْهِ حَقًّا فِى ٱلتَّوْرَ‌ىٰةِ وَٱلْإِنجِيلِ وَٱلْقُرْ‌ءَانِ ۚ وَمَنْ أَوْفَىٰ بِعَهْدِهِۦ مِنَ ٱللَّهِ ۚ فَٱسْتَبْشِرُ‌وا۟ بِبَيْعِكُمُ ٱلَّذِى بَايَعْتُمبِهِۦ ۚ وَذَ‌ٰلِكَ هُوَ ٱلْفَوْزُ ٱلْعَظِيمُ ﴿١١١﴾...سورة التوبہ''بلا شبہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں سے ان کی جانوں کو اور اُن کے مالوں کو اس بات کے عوض خرید لیا ہے کہ ان کو جنت ملے گی۔ وہ لوگ اللہ کی راہ میں لڑتے ہیں ، جس میں قتل کرتے ہیں اور قتل کئے جاتے ہیں ۔ اس پر سچا وعدہ کیا گیا ہے تورات میں اور انجیل میں اور قرآن میں اورکون ہے اللہ سے زیادہ اپنے عہد کو پورا کرنے والا؟ تو تم لوگ اپنی اس بیع پر جس کا تم نےمعاملہ ٹھہرایا ہے ، خوشی مناؤ اور یہ بڑی کامیابی ہے۔''اور اصطلاحاً بیعت اس معاہدے کو کہتے ہیں جو امیر کی اطاعت کے لئے کیا جاتا ہے۔بیع و شراء میں چونکہ خریدنے والا، بیچنے والے کے ہاتھ میں پیسہ تھماتا ہے اور بیچنے والا مشتری کےہاتھ میں اس کی خرید کردہ چیز دیتا ہے، اُسی طرح بیعت کرنے والا اپنے امیر کے ہاتھ میں ہاتھ دے کر بیعت کا اقرار کرتا ہے۔قرآنِ مجید میں تین مقامات پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پراہل ایمان کی بیعت کاذکرہے:عمومی بیعت __ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :إِنَّ ٱلَّذِينَ يُبَايِعُونَكَ إِنَّمَا يُبَايِعُونَ ٱللَّـهَ يَدُ ٱللَّـهِ فَوْقَ أَيْدِيهِمْ ۚ فَمَن نَّكَثَ فَإِنَّمَا يَنكُثُ عَلَىٰ نَفْسِهِۦ ۖ وَمَنْ أَوْفَىٰبِمَا عَـٰهَدَ عَلَيْهُ ٱللَّـهَ فَسَيُؤْتِيهِ أَجْرً‌ا عَظِيمًا ﴿١٠﴾...سورة الفتح''جو لوگ تجھ سے بیعت کرتے ہیں ، وہ یقینا اللہ سے بیعت کرتے ہیں ۔ ان کے ہاتھوں پر اللہ کاہاتھ ہے۔ تو جوشخص عہد شکنی کرے، وہ اپنے نفس پر ہی عہد شکنی کرتا ہے اور جو شخص اس اقرار کو پورا کرے جو اس نے اللہ کے ساتھ کیا ہے تو اسے عنقریب اللہ بہت بڑا اجر دے گا۔''
بیعت ِرضوان __ جو ۶ ہجری میں صلح حدیبیہ کے موقع پر لی گئی تھی:لَّقَدْ رَ‌ضِىَ ٱللَّـهُ عَنِ ٱلْمُؤْمِنِينَ إِذْ يُبَايِعُونَكَ تَحْتَ ٱلشَّجَرَ‌ةِ فَعَلِمَ مَا فِى قُلُوبِهِمْ فَأَنزَلَ ٱلسَّكِينَةَ عَلَيْهِمْ وَأَثَـٰبَهُمْ فَتْحًا قَرِ‌يبًا ﴿١٨﴾...سورة الفتح''یقینا اللہ تعالیٰ مؤمنوں سے خوش ہوگیا جبکہ وہ درخت تلے تجھ سے بیعت کررہے تھے۔ ان کےدلوں میں جو تھا، اسے اس نے معلوم کرلیا اور ان پر اطمینان نازل فرمایااور انہیں قریب کی فتح عنایت فرمائی۔''فتح مکہ اور اس کے بعد عورتوں سے خاص طورپر بیعت لی۔ فرمایا:يَـٰٓأَيُّهَا ٱلنَّبِىُّ إِذَا جَآءَكَ ٱلْمُؤْمِنَـٰتُ يُبَايِعْنَكَ عَلَىٰٓ أَن لَّا يُشْرِ‌كْنَ بِٱللَّـهِ شَيْـًٔا وَلَا يَسْرِ‌قْنَ وَلَا يَزْنِينَ وَلَا يَقْتُلْنَأَوْلَـٰدَهُنَّ وَلَا يَأْتِينَ بِبُهْتَـٰنٍ يَفْتَرِ‌ينَهُۥ بَيْنَ أَيْدِيهِنَّ وَأَرْ‌جُلِهِنَّ وَلَا يَعْصِينَكَ فِى مَعْرُ‌وفٍ ۙ فَبَايِعْهُنَّ وَٱسْتَغْفِرْ‌ لَهُنَّٱللَّـهَ ۖ إِنَّ ٱللَّـهَ غَفُورٌ‌ۭ رَّ‌حِيمٌ﴿١٢﴾...سورة الممتحنہ''اے پیغمبر! جب مسلمان عورتیں آپ سے ان باتوں پربیعت کرنے آئیں کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی کوشریک نہ کریں گی، چوری نہ کریں گی، زنا کاری نہ کریں گی، اپنی اولاد کو نہ مار ڈالیں گی اورکوئی ایسا بہتان نہ باندھیں گی جو خود اپنے ہاتھوں پیروں کے سامنے گھڑ لیں اور کسی نیک کام میں تیری حکم عدولی نہ کریں گی تو آپ اُن سے بیعت کرلیا کریں اور اُن کے لئے اللہ سے مغفرت طلب کریں ۔بے شک اللہ تعالیٰ بخشنے اور معاف کرنے والا ہے۔''
انفرادی بیعت __ عمروبن العاصؓ اپنے اسلام لانے کا واقعہ بیان کرنے کے بعد کہتے ہیں :''جب اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں اسلام کی محبت ڈال دی تو میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور میں نے کہا: اپنا دایاں ہاتھ پھیلائیے تاکہ میں آپ کی بیعت کرسکوں ۔ تو آپؐ نے اپنا ہاتھ پھیلا دیا، لیکن میں نے اپنا ہاتھ کھینچ لیا۔ آپؐ نے کہا: عمرو! کیا ہوا؟ میں نے کہا: میں ایک شرط رکھنا چاہتا ہوں ۔ آپؐ نے کہا:کون سی شرط؟ میں نے کہاکہ اللہ میری مغفرت فرمائیں ! تو آپؐ نےارشاد فرمایا: کیا تمہیں معلوم نہیں کہ اسلام لانے سے پچھلے (تمام گناہ)ختم ہوجاتے ہیں اور ایسا ہی ہجرت کرنے اور حج کرنے سے جو کچھ پہلے کیا تھا، سب معاف ہوجاتا ہے؟''1بیعت سے متعلق چند دیگر احادیث بھی ملاحظہ ہوں :حاکم وقت کی اطاعت کا عہدعبادة بن صامتؓ روایت کرتے ہیں کہ ہم نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ان باتوں پر بیعت کی:''آپ کی سمع و اطاعت کریں گے چاہے تنگی کا عالم ہو یا فراخی کا، چاہے پسندیدہ بات ہویاناپسندیدہ، چاہے ہمارے اوپر کسی کو ترجیح ہی کیوں نہ دی گئی ہو، اس شرط کے ساتھ کہ ہم صاحب ِامر کے ساتھ جھگڑانہیں کریں گے، اور یہ کہ ہم جہاں کہیں ہوں حق بات کہیں گے اور اللہ کے بارے میں کسی ملامت گر کی ملامت کی پرواہ نہ کریں گے۔''2ابن کثیر نے البدایة والنھایة میں ان الفاظ کا اضافہ کیا ہے، جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ بیعت وہ ہے جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ سے آنے والوں سے مقامِ عقبہ (منیٰ) میں لی تھی:''اور یہ کہ جب محمد صلی اللہ علیہ وسلم یثرب آئیں تو ہم ان کی مدد کریں گے اور جس طرح ہم اپنی جانوں ، اپنی اَرواح اور اپنی اولاد کا دفاع کرتے ہیں ، ویسا ہی اُن کا بھی دفاع کریں گے اورہمارے لئے جنت ہوگی۔'' 3یہ اطاعت مشروط ہےحضرت ابن عمرؓ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:''ایک مسلمان کے لیے سمع و اطاعت کرنا لازم ہے، چاہے پسندیدہ امر ہو یاناپسندیدہ امر میں ، الایہ کہ اسے کسی گناہ کا حکم دیا جائے۔ ایسی صورت میں سمع و اطاعت نہیں ۔''4ایک امام کی بیعت کے بعد دوسرے امام کی بیعت جائز نہیں :عبداللہ بن عمرو بن العاص آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم کا ایک طویل خطبہ نقل کرتے ہیں ، جس میں یہ الفاظ شامل ہیں :''جس کسی نے کسی امام کی بیعت کی یا اس کے ہاتھ میں ہاتھ دے دیا اور اپنا دل اس کے حوالہ کردیاتو جب تک استطاعت ہے، اس کی اطاعت کرے۔ پھر اگر کوئی دوسرا شخص (امامت میں ) اسکے ساتھ نزاع کرے تو دوسرے شخص کی گردن مار دو۔'' 5جماعت سے خروج ناجائز ہےحضرت ابوہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:''جو شخص حلقہ اطاعت سے نکل گیا اور جماعت کو چھوڑ گیا تو وہ جاہلیت کی موت مرتا ہے اورجوشخص کسی اندھے جھنڈے کے نیچے قتال کرتا ہے، یا کسی عصبیت کی بنا پر غصہ میں آجاتاہے یا عصبیت کی طرف دعوت دیتا ہے یا عصبیت کی مدد کرتا ہے اور اس دوران قتل ہوجاتا ہے تواس کی موت بھی جاہلیت کی موت ہوگی اور جو شخص میری اُمت پر خروج کرتاہے، نیکو کار یاگناہ گار، سب کومارتا ہے اور کسی مؤمن کے ساتھ برائی کرنے سے باز نہیں آتا اور جس سے عہدکیا ہے اُس عہد کو پورا نہیں کرتا تو وہ مجھ سے نہیں اور میں اُس سے نہیں ۔'' 6آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بیعت کے سلسلہ میں صحابہ کرامؓ کا بھی یہی طرزِ عمل تھا۔نافع روایت کرتے ہیں کہ''عبداللہ بن عمرؓ، عبداللہ بن مطیع کے پاس آئے اور یہ وہ وقت تھا جب یزید بن معاویہؓ کے زمانہ میں حرہ کا واقعہ پیش آیا۔ ابن مطیع نے کہا: ''ابوعبدالرحمن کے لئے تکیہ بچھا دو۔''عبداللہ بن عمرؓ نے کہا: میں بیٹھنے کے لئے نہیں آیا، تمہیں صرف ایک حدیث سنانے آیا ہوں ،جومیں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے اور وہ یہ کہ''جس نے اپنا ہاتھ، حلقہ اطاعت سے ہٹا لیا تو وہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ سے اس عالم میں ملے گاکہ اس کے پاس کوئی دلیل(عذر خواہی) نہ ہوگی، اور جوشخص اس عالم میں مرے کہ اس کی گردن میں بیعت نہ ہو تو وہ جاہلیت کی موت مرے گا۔'' 7مذکورہ بالا آیات و احادیث سے یہ باتیں معلوم ہوئیں :اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پربیعت کسی دوسرے خلیفہ یا امام کی بیعت سے مختلف ہے،اورآنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر بیعت گویا اللہ سے بیعت ہے۔آپؐ نے عقبہ میں جب انصارِ مدینہ سے بیعت لی تھی تو گو اس وقت آپؐ کے پاس اقتدار نہ تھا،لیکن بحیثیت ِرسول صلی اللہ علیہ وسلم آپ ؐ نے یہ بیعت لی تھی، اور یہ بھی ایک خاص مقصد کےلئے تھی کہ جب آپ مدینہ پہنچ جائیں گے توانصار آپؐ کی پوری پوری حفاظت کریں گے ۔مدینہ پہنچ کر آپؐ بلاشرکت ِغیرے اقتدار کے مالک تھے۔ آپؐ نے صحابہ کرام ؓسے مختلف مواقع پرسمع و اطاعت کی بیعت لی، اور بعض مواقع پر خاص خاص باتوں پربیعت لی۔ حدیبیہ کے مقام پرجب یہ افواہ پھیلی کہ مکہ والوں نے آپؐ کے ایلچی حضرت عثمانؓ کو شہید کردیا ہے تو آپؐ نےاپنے پندرہ سو رفقا سے اس بات پر بیعت لی تھی کہ وہ راہِ فرار اختیار نہ کریں گے اور دوسری روایت کے مطابق یہ بیعت موت پر تھی۔صلح حدیبیہ کے بعد جو خواتین ہجرت کرکے مدینہ آئیں یا فتح مکہ کے موقع پر مسلمان ہوئیں ، اُن سے سورہ الممتحنہ کی آیت کے مطابق چند مخصوص باتوں پر بیعت لی گئی۔ یہ عورتیں چونکہ نئی نئی مسلمان ہوئیں تھیں ، اس لئے اُن چیزوں کا خاص طور پر ذکر کیا گیا جو ایامِ جاہلیت میں عام تھیں ۔ آپؐ نے تومسلم مردوں سے بھی انہی باتوں پربیعت لی تھی۔آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت ہر حال میں واجب ہے اور بعد کے امراء و خلفا کے لئےبھی سمع و اطاعت کی بیعت کا حکم دیاگیا ہے، لیکن اس شرط کے ساتھ کہ اگر وہ گناہ کی طرف بلائیں گے تو ان کی اطاعت نہیں ہوگی۔خلیفہ کی بیعت اتنی اہم ہے کہ اگر کوئی دوسرا دعویدارِ خلافت پیدا ہوجائے تو اُس کی گردن مارنےکا حکم دیا گیاہے۔ اور یہ اس لئے ہے کہ اسلامی مملکت میں بدامنی کی اجازت نہیں دی جاسکتی،اور یہ تب ہی ممکن ہے جب خلیفہ کے پاس مکمل اقتدار ہو، وہ حدود نافذ کرسکتا ہو، جنگ اورصلح کے معاہدے کرسکتا ہو۔خلیفہ کے ہوتے ہوئے اس کی اطاعت نہ کرنا اورجماعت سے خروج کرنا قابل مؤاخذہ جرم ہیں اورایسے آدمی کی موت جاہلیت کی موت ہے اور ایسے ہی اُن لوگوں کی بھی جو کسی مذموم عصبیت(برادری، قومیت، زبان، رنگ اور پارٹی) کی بنا پر قتل و قتال پر آمادہ ہوجائیں ۔بنی اُمیہ کے دور کے بعد جب بنی عباس سریر آراے خلافت ہوئے، لیکن اندلس جیسے دور درازعلاقہ میں بنی اُمیہ کے امرا نے اپنی حکومت قائم کرلی، تو علماے امت نے فتنہ و فساد کا دروازہ بند کرنے کے لئے اس بات پر اتفاق کیا کہ ایک وقت میں دور دراز کے علاقوں میں دو علیحدہ علیحدہ خلافتیں ہوسکتی ہیں ۔ اور پھر اس اُصول کے تحت، بعد کے ادوار میں ، خراسان اورہندوستان کی مملکتیں بھی برداشت کی گئیں ۔صحابہ کرامؓ نے اس شخص کی بیعت نہیں کی جس نے خلیفہ وقت کے خلاف خروج کیا ہو۔اس تمام تفصیل سے یہ تو واضح ہوگیا کہ بیعت کا دائرہ 'امامت ِکبریٰ' تک محدود ہے، ایسے امام کی بیعت ہی کی جاسکتی ہے جو واقعی اقتدار رکھتا ہو، حدود نافذ کرسکتا ہو، صلح و جنگ کےمعاہدے کرسکتا ہو۔ وہ چاہے جہاد پربیعت لے یا کسی فعل خیر پر یا کسی برائی سے رُکنے پر۔ بیعت لینا اس کا حق ہے، البتہ اگر وہ کسی غیر اسلامی کام پربیعت لینا چاہے تو اس کی بات ہرگز نہ مانی جائے گی۔پیر و مرشد کی بیعت صوفیاے کرام کے حلقہ میں 'بیعت ِاصلاح و ارشاد' کے نام سے ایک نئی روایت ڈالی گئی ہے جس کا خیرالقرون میں وجود نہیں ملتا۔ اگر اس فعل کا مقصود لوگوں کی اصلاح ہے تو وہ مسجد کےمنبر سے، خطیب کے خطبات سے، معلم کی تعلیم سے اوربڑے بوڑھوں کی فہم سے بھی حاصل ہوسکتی ہے اور ان سب سے بڑھ کر نیک لوگوں کی صحبت اس کام کیلئے ایک نسخہ کیمیا ہے۔شریعت اپنے ماننے والوں کو کوئی ایسا حکم نہیں دیتی جوغیر ضروری اور بے فائدہ ہو، وہ شیخ یامرشد جسے کوئی اختیار حاصل نہ ہو، اس کے ہاتھ پر بیعت کرنے سے آخر کون سافائدہ حاصل ہوسکتا ہے؟ بالفرض اگر ایک لمحہ کے لئے یہ مان بھی لیا جائے کہ لوگوں کی اصلاح کے لئے یہ طریقہ کارگر ہوسکتا ہے، تب بھی مندرجہ ذیل قباحتوں کی بنا پر اسے قبول نہیں کیا جاسکتا :وَأَنَّ هَـٰذَا صِرَ‌ٰ‌طِى مُسْتَقِيمًا فَٱتَّبِعُوهُ ۖ وَلَا تَتَّبِعُوا۟ ٱلسُّبُلَ فَتَفَرَّ‌قَ بِكُمْ عَن سَبِيلِهِۦ ۚ ذَ‌ٰلِكُمْ وَصَّىٰكُم بِهِۦ لَعَلَّكُمْتَتَّقُونَ ﴿١٥٣﴾...سورة الانعام''اور یہ دین میرا راستہ ہے جومستقیم ہے، سو اس راہ پر چلو اور دوسری راہوں پرمت چلوکہ وہ راہیں تم کو اللہ کی راہ سے جدا کردیں گی۔ اس کا تم کو اللہ نے تاکیدی حکم دیا ہے تاکہ تم پرہیزگاری اختیار کرو۔''اور فرمایا:وَلَا تَكُونُوا۟ كَٱلَّذِينَ تَفَرَّ‌قُوا۟ وَٱخْتَلَفُوا۟ مِنۢ بَعْدِ مَا جَآءَهُمُ ٱلْبَيِّنَـٰتُ ۚ وَأُو۟لَـٰٓئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ ﴿١٠٥﴾...سورةآل عمران''تم ان لوگوں کی طرح نہ ہوجانا جنہوں نے اپنے پاس روشن دلیلیں آجانے کے بعد بھی تفرقہ ڈالا اور اختلاف کیا۔ان کے لئے بڑا عذاب ہے۔''اُمت ِمسلمہ میں ایک طرف مذہبی فرقہ بندی شروع ہوگئی تھی تو دوسری طرف طریقت کے نام پر بے شمار سلسلے وجود میں آ گئے اور پھرہرسلسلہ ایک مستقل فرقہ اور جماعت بنتی گئی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تو ناجی جماعت کی نشانی یہ بتائی تھی:(ما أنا علیہ وأصحابي )''جس پر میں ہوں اورمیرے صحابہ''لیکن اس کے بالکل برعکس ہر صاحب ِسلسلہ اور ہر وہ جماعت جو بیعت کی بنیاد پرکھڑی ہوتی ہے، اپنے طرزِعمل سے یہ کہہ رہی ہوتی ہے: ''ما أنا علیہ وسلسلتي أو حزبي'' ''یعنی جس پر میں ہوں اور میرا طریقہ یا میری جماعت۔'' چنانچہ اس سلسلہ یا جماعت کو چھوڑنے کا مطلب ہے کہ گویا وہ شخص اسلام سے خارج ہوگیا ہے-
جاری ہے....
بیعت اور پیری مریدی کی مکمل تفصیلات کیلئے گروپ"اسلام اور خانقاہی نظام"کو جوائن کریں!
00961 76 390 670
www.islam-aur-khanqahi-nizam.blogspot.com

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...