Friday 22 April 2016

مسلمانوں کے مذہبی مسالک، قسط نمبر 22

"مسلمانوں کے مذہبی مسالک"
(قسط نمبر 22)
باب 5: غیر اللہ سے مدد، وسیلہ، حیات النبی اور سماع موتی:
جیسا کہ ہم پچھلے ابواب میں بیان کر چکے ہیں کہ سنی بریلوی حضرات کے نزدیک چونکہ نبی کریم ﷺ ، دیگر انبیاء کرام علیہم الصلوۃ و السلام اور اولیاء اللہ حاضر و ناظر ہیں، اس وجہ سے ان سے مافق السباب طریقے سے مدد مانگنا جائز بلکہ ایک مستحسن کام ہے۔ سنی بریلوی اور بعض سنی دیوبندی حضرات بھی مزارات پر حاضری دیتے ہیں اور صاحب مزار سے مدد مانگتے ہیں اور ان کی خدمت میں اپنی دعائیں پیش کرتے ہیں۔یعنی فوت شدگان کو وسیلہ بناتے ہیں-
اس کے برعکس اہل حدیث اور سنی دیوبندی حضرات کی اکثریت کے نزدیک ایسا کرنا شرک کے زمرے میں آتا ہے۔ اس باب میں ہم جانبین کے دلائل کا جائزہ لیں گے۔
سنی بریلوی حضرات کے دلائل:
مفتی احمد یار خان نعیمی صاحب (1971-1906) بیان کرتے ہیں کہ غیر اللہ سے مدد مانگنے کا ثبوت قرآن و حدیث میں ہے۔
قرآن سے استعانت لغیر اللہ کا ثبوت
انہوں نے قرآن مجید کی متعدد آیات پیش کی ہیں، جس میں سے چند یہ ہیں:
قَالَ عِيْسَى ابْنُ مَرْيَـمَ لِلْحَوَارِيِّيْنَ مَنْ اَنْصَارِىٓ اِلَى اللّـٰهِ ۖ قَالَ الْحَوَارِيُّونَ نَحْنُ اَنصَارُ اللّـٰهِ ۖ
عیسی بن مریم نے اپنے حواریوں سے فرمایا: اللہ کی راہ میں میرا مدد گار کون ہے؟" حواریوں نے عرض کیا: ہم اللہ کے مددگار ہیں" (الصف 61:14)
وَتَعَاوَنُـوْا عَلَى الْبِـرِّ وَالتَّقْوٰى ۖ وَلَا تَعَاوَنُوْا عَلَى الْاِثْـمِ وَالْعُدْوَانِ ۚ
"نیکی اور تقوی  کے کاموں میں ایک دوسرے سے تعاون کرو، گناہ اور سرکشی کے کاموں میں ایک دوسرے سے تعاون نہ کو"۔ (المائدہ 5:2)
وَاِذْ اَخَذَ اللّـٰهُ مِيْثَاقَ النَّبِيِّيْنَ لَمَآ اٰتَيْتُكُمْ مِّنْ كِتَابٍ وَّحِكْمَةٍ ثُـمَّ جَآءَكُمْ رَسُولٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَكُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِهٖ وَلَتَنْصُرُنَّهٝ ۚ
"جب اللہ نے انبیاء سے میثاق لیا کہ جب میں تمہیں کتاب اور حکمت عطا کروں، پھر تمہارے پاس تمہاری تصدیق کرتے ہوئے آخری رسول آ جائیں تو تم ضرور ان پر ایمان لاؤ گے اور ان کی مدد کرو گے۔ (آل عمران 3:81)
اِنَّمَا وَلِيُّكُمُ اللّـٰهُ وَرَسُوْلُـهٝ وَالَّـذِيْنَ اٰمَنُـوا الَّـذِيْنَ يُقِيْمُوْنَ الصَّلَاةَ وَيُؤْتُوْنَ الزَّكَاةَ وَهُـمْ رَاكِعُوْنَ
"یقینا تمہارا دوست اللہ، اس کا رسول اور وہ اہل ایمان جو نماز قائم کرتے، زکوۃ دیتے اور رکوع کرتے ہیں۔ (المائدہ 5:55)
مفتی صاحب کا استدلال یہ ہے کہ ان آیات میں واضح طور پر غیر اللہ سے مدد مانگنے کا حکم یا اجازت ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ غیر اللہ سے مدد مانگنا جائز ہے۔
اس کے برعکس فریق مخالف یعنی سلفی حضرات کے نزدیک ان آیات میں جس مدد کا ذکر ہے، وہ اسباب کے تحت ہے جیسے ہم دنیا میں ایک دوسرے کی مدد لیتے ہیں۔ یہ چیز شرک نہیں ہے۔شرک اس مدد مانگنے میں ہوتا ہے جو اسباب سے ماوراء ہو، جس میں انسان عقیدت میں ڈوب کر کسی ہستی  کو پکارے کہ وہ اسباب سے ماوراء ہو کر مانگنے والے کی مدد کرے۔ جیسے ہم اللہ تعالی سے مدد مانگتے ہیں کہ وہ ہماری مدد فرمائے اور ہمارا کوئی کام کر دے ۔ اسی طرح مشرکین اپنے دیوی دیوتاؤں سے اسی انداز میں دعا کرتے ہیں۔ اسی انداز میں دعا اگر اللہ تعالی کے بجائے کسی اور سے کی جائے تو یہ شرک ہو گا کیونکہ اس کے ساتھ مافوق الفطرت طاقتوں کو اس بندے میں ماننا پڑے گا۔
حدیث سے استعانت لغیر اللہ کا ثبوت:
سنی بریلوی حضرات مافوق الاسباب طریقے سے غیر اللہ سے مدد مانگنے کے ثبوت میں بعض احادیث بھی پیش کر تے ہیں۔ یہ حدیث ہم علامہ غلام رسول سعیدی صاحب کی کتاب شرع مسلم سے یہاں درج کر رہے ہیں۔ ان کی تفصیل یہ ہے:
عن عتبہ بن غزوان عن نبی اللہ صلی اللہ علیہ و سلم قال: اذا اضل احدکم شیا او اراد عونا بارض لیس بھا انیس فلیقل: یا عباد اللہ اغیثونی فان للہ عبادا لا نراھم: وقد جرب زلک۔ رواہ الطبرانی ورجالہ و ثقوا علی ضعف فی بعضھم الا ان زید بن علی لم یدرک عتبۃ۔
سیدنا عتبہ بن غزوان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: جب تم میں سے کسی کی کوئی چیز گم ہو جائے اور وہ مدد کا طالب ہو۔ اور ایسی جگہ ہو جہاں اس کا کوئی ساتھی نہ ہو تو وہ کہے: اے اللہ کے بندو! میری مدد کرو۔ بقینا اللہ کے ایسے بندے ہوتے ہیں جنہیں ہم نہیں دیکھتے ہیں۔"
اس کا تجربہ ہو چکا ہے۔ طبرانی نے اسے روایت کیا  مگر اس کے رایوں میں سے بعض میں ضعیف ہے ۔ اس حدیث کے ایک راوی زید بن علی نے  عتبہ سے کبھی ملاقا ت نہیں کی۔ ( مجمع الزوائد، جلد 10 حدیث 17103)
وعن عبد اللہ بن مسعود انہ قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم: اذا انفلتت دابۃ احدکم بارض فلاۃ فلیناد: یا عباد اللہ احبسوا، یا عباد اللہ احبسوا، فان للہ حاصرا فی الارض سیحبسہ۔ رواہ ابو ےیعلی والطبرانی وزاد: سیجسہ علیکم وجیۃ معروف بن حسان وھو ضعیف۔
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب تم میں سے کسی سواری کسی ویران زمین میں بھاگ جائے تو وہ کہے:" اے اللہ کے بندو! اسے پکڑو، اے اللہ کے بندو! اسے پکڑو ۔ اللہ کے ایسے بند ے زمین میں ہیں جو اسے روک لیں گے۔"
ابو یعلی اور طبرانی نے اسے روایت کیا اور طبرانی کی راویت میں یہ اضافہ ہے کہ " وہ اسے تمہارے لیے روک لیں گے۔" اس حدیث کی سند میں معروف بن حسان ہے جو کہ ایک ضعیف راسی ہے۔ مجمع الزوائد جلد 10 حدیث 17105)
وعن ابن عباس ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم قال: ان للہ ملاتکۃ فی الارض سوی الحفظۃ یکتبون ما یسقط من ورق الشجر، فاذا اصاب احدکم عرجۃ بارض فلاۃ فلیناد: اعینو عباد اللہ: رواہ البزار ورجالۃ ثقات۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: یقینا زمین میں کراما کاتبین کے علاوہ اللہ کے فرشتے ہیں جو درخت سے گرنے والے پتوں کو بھی ریکارڈ کر لیتے ہیں۔ جب تم میں سے کسی کو ویران زمین میں مشکل پیش آئے تو وہ کہے، اللہ کے بندو! میری مدد کرو۔" بزارنے اسے روایت کیا اور اس کے راوی قابل اعتماد ہیں۔ (مجمع الزوائد جلد 10 حدیث 17104)
حدثنا موسی بن اسحاق قال: حدثنا منجاب مب الحارث، قال: حدثنا حاتم بن اسماعیل عن اسامت بن زید عن ابان بن صالح عن مجاھد عن ابن عباس، رضی اللہ عنھما، ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم قال: ان للہ ملاعکۃ فی الارض سوی الحفظۃ یکتبون ما شقط من ورق الشجر فاذا اصاب احدکم عرجٹ بارض فلاۃ فلیناد: اعینوا عباد اللہ وھذا الکلام لا نعلمۃ یروی عن البنی صلی اللہ علیہ و سلم بھذا اللفظ من ھذا الوجہ بھذا الا سناد۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: یقینا زمین میں کراما کاتبین کے علاوہ اللہ کے فرشتے ہیں جو درخت سے گرنے والے پتوں کو بھی ریکارڈ کر لیتے ہیں۔ جب تم میں سے کسی کو ویران زمین میں مشکل پیش آئے تو وہ کہے، اللہ کے بندو! میری مدد کرو۔" بزار نے اسے روایت کیا اور اس کے راوی قابل اعتماد ہیں۔
اس کلام کے بارے میں ہم نہیں جانتے کہ یہ ان الفاظ میں اس طریقے سے اس سند کے علاوہ کہیں اور بھی روایت ہوا ہے۔ (مسند بزار حدیث 4922)
سلفی حضرات کہتے ہیں کہ یہ بات مسلمانوں کے تمام فرقوں میں متفق علیہ ہے کے عقیدے اور عمل کی بنیاد اس حدیث پر رکھی جائے گی جو سند کے ساتھ مروی ہو۔ اس حدیث کی دو روایتوں کے بارے میں مجمع الزوائد کے مصنف علی بن ابو بکر الہیثمی نے خود ہی لکھ دیا ہے کہ وہ ضعیف ہیں۔ تیسری سند جو کہ مسند بزار میں آئی ہے، اس بارے میں مصنف نے خود یہ کہہ دیا ہے کہ " اس کلام کے بارے میں ہم نہیں جانتے کہ یہ ان الفاظ میں اسے طریقے سے اس سند کے علاوہ کہیں اور بھی روایت ہوا ہو۔ جب ایسا ہے تو پھر ایسی شاذ حدیث کی بنیاد پر قرآن مجید کی صریخ آیات کی خلاف ورزی کیسے کی جائے۔
پھر اگر اس حدیث کو صحیح مان لیا جائے تو اس میں زیادہ سے زیادہ یہ نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ جب اسباب منقطع ہو جائیں تو انسان نظرنہ آنے والے فرشتوں سے مدد کی درخواست کر لے۔ظاہر ہے کہ یہ فرشتے بھی تو اسباب کے تحت ہی مدد کریں گے۔ ان سے مدد کی درخواست میں اور کسی بزرگ کے آگے تضرع اور خشوع و خضوع کے ساتھ دعا کرنے میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ انسان ان فرشتوں سے اسباب کے تحت برابری کی سطح پر مدد کی درخواست کرے گا۔ جبکہ انبیاء و اولیاء سے بہت سے لوگ اس طریقے سے دعا کرتے ہیں جیسا کہ اللہ تعالی سے کی جاتی ہے۔ دیوبندی عالم مولانا محمد سرفراز خان صفدر (2009-1914) لکھتے ہیں:
اگر ضعیف ہونے کے ساتھ اس حدیث کے الفاظ پر طائرانہ نگاہ بھی ڈالی جائے تو معاملہ صاف ہو جاتا ہے۔ کیونکہ اس حدیث میں یہ لفظ بھی ہیں کہ وہاں کچھ خدا تعالی کے بندے حاضر ہوتے ہیں۔ وہ کون ہیں؟ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالی کے کچھ فرشتے جنگلات میں رہتے ہیں۔ جب تمہیں  کوئی رکاوٹ پیدا ہو یہ کہا کرو: اعینو اعباد اللہ۔ تو اس روایت سے مافوق الاسباب مدد طلب کرنا ثابت نہ ہوا وہاں جو فرشتے موجود ہیں، ان سے مدد طلب کی گئی ہے۔
بریلوی حضرات ایک اور تاریخی روایت پیش کرتے ہیں جس میں سید نا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھی سپاہیوں کے بارے میں درج ہے کہ وہ میدان جنگ میں "یا محمد اہ" کہہ کر حملہ کیا کرتے تھے۔ (ابن کثیر، البدایہ والنہایۃ)۔ سلفی حضرات کا کہنا ہے کہ اول تو یہ تاریخی روایات حدیث کے معیار پر پورا نہیں اترتیں۔اگر انہیں صحیح مان بھی لیا جائے تو یہ عربوں کا عام رواج تھا کہ وہ جذبہ پیدا کرنے کے لیے اپنے محبوب کا نام اس طریقے سے لیا کرتے تھے۔ اس سے ان میں جذباتی ہیجان پیدا ہو جاتا تھا جو جنگ میں مدد دیتا تھا۔ ایسا نہیں تھا کہ یہ صحابہ نبی کریم ﷺ کو مدد کے لیے پکارتے ہوں۔ اس سے استعانت کا ثبوت کہیں نہیں ملتا ہے۔
اس کے علاوہ سنی بریلوی حضرات یہ کہتے ہیں کہ معراج کی رات حضرت موسی علیہ الصلوۃ والسلام نے امت محمدیہ کی مدد فرمائی کہ نبی کریم ﷺ کو نمازیں کم کروانے کا مشورہ دیا۔ اس سے ثابت ہوا کہ بعد از وفات بزرگ مدد کر سکتے ہیں۔ سلفی حضرات کہتے ہیں کہ اس سے مافوق الاسباب مدد کا ثبوت نہیں ملتا۔ نبی کریم ﷺ کی ملاقات حضرت موسی علیہ الصلوۃ والسلام سے آسمانوں پر ہوئی اور انہوں نے مشورہ دے دیا، اس میں نہ تو آپ نے کوئی مافوق الاسباب مدد طلب فرمائی اور نہ ہی انہوں نے کوئی مافوق الاسباب مدد کی۔ صرف اتنا ہوا کہ ملاقات پر ایک مشورہ دے دیا۔ اس سے یہ کہاں ثابت ہو گیا کہ جب انسان مصیبت میں پڑے تو اللہ تعالی کے بجائے بزرگان دین کو پکارے؟
جاری ہے........
سلفی حضرات کے دلائل اگلی قسط میں پڑهیں
مجموعہ هذا میں شامل ہونے کیلئے رابطہ نمبر
البتہ خواتین کیلئے علیحدہ گروپ موجود ہے.0096176390670
یہ تقابلی مطالعہ فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان کی جانب سے نشر کیا جا رہا ہے....

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...