Friday 8 April 2016

مسلمانوں کے مذہبی مسالک، 13

"مسلمانوں کے مذہبی مسائل"
(قسط نمبر 13)
*انبیاء و اولیاء سے مافوق الفطرت طریقے سے مدد طلب کرنا:
جب سنی بریلوی حضرات کے ہاں اس بات کو مان لیا گیا کہ انبیاء کرام علیہم و السلام اور اولیائے کرام ایک مقام پر رہتے ہوئے بھی پوری دنیا میں حاضر و ناظر ہیں، انہیں ہر ہر بات کا علم ہوتا ہے اور وہ جہاں چاہیں پہنچ کر اپنے عقیدت مندوں کی مافوق الاسباب طریقے سے مدد کر سکتے ہیں، تو پھر اس کا منطقی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اپنی مشکلات میں انہیں پکارا جا سکتا ہے اور ان سے مدد طلب کی جا سکتی ہے۔ اہل حدیث اور اکثر دیوبندی حضرات اس کی سختی سے تردید کرتے ہیں اور اسے شرک قرار دیتے ہیں۔ اسے مسئلہ اسمداد یا مسئلہ استعانت لغیر اللہ یعنی مدد طلب کرنا (مدد کی درخواست کرنا)کہتے ہیں۔
اس معاملے میں سنی بریلوی حضرات کے ہاں دو رحجانات پائے جاتے ہیں۔ ایک رحجان تو یہ ہے کہ کسی زندہ یا فوت شدہ بزرگ سے براہ راست دعا کی جائے اور ان سے درخواست کی جائے کہ وہ پہنچ کر اپنے مرید(پکارنے والے) کی مدد کریں۔ یہ عام لوگوں کا عمل ہے اور وہ اپنے پیروں اور بزرگوں سے اس طریقے سے مدد کے طالب ہوتے ہیں۔ ان کا عقیدہ یہ ہوتا ہے کہ ان بزرگ کو اللہ تعالی نے ایسی طاقت دے رکھی ہے جس کے ذریعے وہ ہماری حاجت روائی اور مشکل کشائی کر سکتے ہیں۔
"واللہ وہ سن لیں گے، فریاد کو پہنچیں گے۔۔۔
اتنا بھی تو ہو کوئی جو آٓہ کرے دل سے"
اس کے بر عکس سنی بریلویوں ہی کے ہاں ایک دوسرا نقطہ نظریہ ہے کہ زندہ یا فوت شدہ بزرگ خود مدد نہیں کر سکتے بلکہ جب ہم ان سے مدد کی درخواست کرتے ہیں تور دراصل ہم ان سے یہ عرض کر رہے ہوتے ہیں کہ وہ اللہ سے ہمارے لیے دعا(سفارش) کریں-اس نقطہ نظر کی نمائندگی کرتے ہوئے سنی بریلوی عالم پیر محمد کرم شاہ الازہری (1998-1917) لکھتے ہیں:
حدیث قدسی جسے امام بخاری اور دیگر محدثین نے روایت کیا ہے میں مذکور ہے کہ اللہ تعالی اپنے مقبول بندوں کے متعلق ارشاد فرماتا ہے۔ "لان سالنی لا عطینہ ولان استعاذنی لا عیذنہ" اگر میرا مقبول بندہ مجھ سے مانگے گا تو میں ضرور اس کا سوال پورا کروں گا۔ اور اگر وہ مجھ سے پناہ طلب کرے گا تو میں ضرور اسے پناہ دوں گا۔ تو اب اگر کوئی شخص ان محبوبان الہی کا جناب میں خصوصاً حبیب کبریا علیہ التحیۃ و الثناء کے حضور میں کسی نعمت کے حصول یا کسی مشکل کی کشود کے لیے التماس دعا کرتا ہے تو یہ بھی استعانت بالغیر اور شرک نہیں بلکہ عین اسلام اور عین توحید ہے۔ ہاں اگر کسی ولی، شہید یا نبی کے متعلق کسی کا یہ عقیدہ ہو کہ یہ مستقل بالذات ہے اور خدانہ چاہے، تب بھی یہ کر سکتا ہے تو یہ شرک ہے اور ایسا کرنے والا مشرک ہے۔ اس حقیقت کو حضرت شاہ عبدالعزیز شاہ ولی اللہ کے بیٹے نے نہایت بسط کے ساتھ اپنی تفسیر میں رقم فرمایا ہے اور اس کا ماحصل مولانا محمود الحسن صاحب'مشہور دیوبندی عالم نے اپنے حاشیہ قرآن میں ان جامع الفاظ میں بیا ن کیا ہے۔
’’اس آیت شریفہ یعنی "ایاک نعبدو ایاک تستعین" سے معلوم ہوا کہ اس کی ذات پاک کے سوا کسی سے حقیقت میں مدد مانگنی بالکل ناجائز ہے۔ ہاں اگر کسی مقبول بندہ کو محض واسطہ رحمت الہی اور غیر مستقل سمجھ کر استعانت ظاہری اس سے کرے تو یہ جائز ہے کہ یہ استعانت در حقیقت حق تعالی سے ہی سے استعانت(مدد مانگنا) ہے۔’’
اور اس طرح کی استعانت تو پاکان امت کا ہمیشہ سے معمول رہا ہے۔ حضرت شاہ ولی اللہ جناب رسالت مآب میں عرض کرتے ہیں : "وانت مجیری من ھجوم ملمۃ۔۔۔ ازا انشبت فی القلب شر المخالب۔۔۔ یا رسول اللہ ! حضور مجھے پناہ دینے والے ہیں جب مصیبتیں ٹوٹ پڑیں اور دل میں اپنے بے رحم پنجے گاڑ دیں۔
بانی دارالعلوم دیوبند (مولانا قاسم نانوتوی) عرض کرتے ہیں۔
"مدد کراے کرم احمدی کہ تیرے سوا----
نہیں ہے قاسم بے کس کا کوئی حامی کار"<4>

*بزرگان دین کے مزارات پر سرانجام دی جانے والی رسمیں:
یہ اوپر بیان کردہ تینوں عقائد کا عملی مظہر ہے۔ جب یہ مان لیا گیا کہ انبیاء و اولیاء حاضر و ناظر ہیں اور علم غیب رکھتے ہیں اور اپنی مشکلات میں ان سے مدد طلب کی جا سکتی ہے تو پھر اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ان کی قبور مرجع خلائق(دنیا کیلئے پناہ) بن جائیں-
چنانچہ ہم اپنی عام زندگی میں دیکھتے ہیں کہ ان بزرگوں کے عالی شان مقابر(مزارات) تعمیر کیے جاتے ہیں ، جن کے ساتھ ایک مسجد بھی عموماً ہوتی ہے۔ مزار کی زیارت کے لیے سفر کیا جاتا ہے اور یہاں آ کر دعائیں کی جاتی ہیں۔ ان دعاوں کا رخ کبھی اللہ تعالی کی جانب ہوتا ہے اور کھبی صاحب مزار کی طرف۔ مزار پر چڑھاوے چڑھائے جاتے ہیں اور منتیں مانی جاتی ہیں۔ بزرگ کی قبر کی غیر معمولی تعظیم کی جاتی ہے زمین یا صاحب قبر کی چوکهٹ ادب سے چومی جاتی ہے، یہاں کی خاک کا سرمہ آنکھوں میں لگایا جاتا ہے اور مزار کے نزدیک چلے و مراقبے کیے جاتے ہیں۔ یہ تمام عمل سنی بریلوی ، اہل تشیع اور بعض سنی دیوبندی حضرات میں سے بعض کے ہاں بھی بکثرت سر انجام دیے جاتے ہیں۔
یہاں یہ ذکر کر دینا مناسب ہو گا کہ بہت سی ایسی رسمیں ہیں جو عام لوگ سر انجام دیتے ہیں۔ مگر عام بریلوی عالم ان سے سختی سے منع کرتے ہیں اور انہیں حرام قرار دیتے ہیں۔ ان میں خواتیں کا مزارات پر جانا ، مزار یا پیر کی جانب سجدہ کرنا وہاں پر رقص و موسیقی کے ساتھ قوالی کرنا اور صاحب مزار کے نام پر نذر پیش کرنا شامل ہیں۔ مولانا احمد رضا خان بریلوی لکھتے ہیں:
امام قاضی سے یہ پوچھا گیا ہے کہ عورتوں کا مقابر کو جانا جائز ہے یا نہیں؟ فرمایا: ایسی جگہ جو ازوعدم جواز نہیں پوچھتے ۔ یہ پوچھو کہ اس میں عورت پر کتنی لعنت پڑتی ہے جب گھر سے قبور کی طرف چلنے کا ارادہ کرتی ہے۔ اللہ تعالی اور فرشتوں کی لعنت میں ہوتی ہے جب گھر سے باہر نکلتی ہے۔ سب طرف سے شیطان گیر لیتے ہیں جب قبر تک پہنچتی ہے، میت کی روح اس پر لعنت کرتی ہے، جب واپس آتی ہے اللہ تعالی کی لعنت میں ہوتی ہے۔۔۔۔
اس جناب سے سوال ہوا کہ ایک شخص مزامیر (موسیقی) سنتا اور کہتا ہے کہ یہ میرے لیے حلال ہیں، اس لیے کہ میں ایسے درجے تک پہنچ گیا کہ احوال کا اختلاف مجھ پر اثر نہیں ڈالتا۔ فرمایا : ہاں پہنچا تو ضرور مگر کہاں تک؟ جہنم تک؟<5>
اگر وہ مقصود جو بعض جاہل عورتوں میں دستور ہے کہ بچے کے سر پر بعض اولیاء کرام کے نام کی چوٹی رکھتی ہیں اور اس کی کچھ معیاد مقرر کرتی  ہیں۔ اس معیاد تک کتنے ہی بار بچے کے سر منڈے، وہ چوٹی برقرار رکھتی ہیں پھر معیاد گزار کر مزار پر لے جا کر بال اتارتی ہیں تو یہ ضرور محض بے اصل و بدعت ہے۔<6>
یہاں سے معلوم ہوا کہ جہال عوام اپنے سرکش پیروں کو سجدہ کرتے ہیں اور اسے پائیگاہ(مرتبہ) کہتے ہیں۔ بعض مشائخ کے نزدیک کفر ہے اور گناہ کبیرہ تو بالا جماع ہے۔ پس اگر اسے پیر کے لیے جائز جانے تو وہ کافر ہے اور اگر اس کے پیر نے اسے سجدہ کا حکم کیا اور اسے پسند کر کے راضی ہوا تو وہ شیخ نجدی خود بھی کافر ہے، اگر کبھی وہ مسلمان تھا بھی۔<7>
*مفتی احمد یار خان نعیمی لکھتے ہیں:
قوالی جو آج کل عام طور پر مروج ہے کہ جس میں گندے مضامین کے اشعار گائے جاتے ہیں اور فاسق اور مردوں (جنسی کشش رکھنے والے ایسے خوبصورت لڑکے جن کی ابھی داڑھی نہ نکلی ہو) کا اجتماع ہوتا ہے اور محض آواز پر رقص ہوتا ہے، یہ واقعی حرام ہے لیکن اگر کسی جگہ تمام شرائط سے قوالی ہو، گانے والے اور سننے والے اہل ہوں تو اس کو حرام نہیں کہہ سکتے ہیں۔

*فریق دوم کا نقطہ نظر:
اہل حدیث اور اکثر دیوبندی حضرات کا نقطہ نظر ان معاملات میں یہ ہے کہ علم غیب اللہ تعالی کے سوا کوئی اور نہیں جانتا ہے، نہ ہی اس کے سوا کسی کو حاضر و ناظر کہا جا سکتا ہے۔ اس کے سوا کسی سے بھی مدد نہیں مانگی جا سکتی ہے۔ اپنے علوم غیبیہ میں سے کچھ باتیں اللہ تعالی اپنے پیغمبروں کو بتا دیتا ہے مگر یہ ہر چیز کا علم نہیں ہوتا ہے بلکہ انہی امور کا علم ہوتا ہے جن کا تعلق امور نبوت سے ہوتا ہے۔ اہل حدیث اور دیو بندی مکاتب فکر کی متفق علیہ شخصیت شاہ اسماعیل (1831-1879 لکھتے ہیں:
پہلی چیز یہ ہے کہ اللہ تعالی بحیثیت علم ہر جگہ حاضر و ناظر ہے یعنی اس کا علم ہر چیز کو گھیرے میں لیے ہوئے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ہر چیز سے ہر وقت باخبر ہے۔ خواہ وہ چیز دور ہو یا قریب، پوشیدہ ہو یا ظاہر، آسمانوں میں ہو یا زمینوں میں، پہاڑوں کی چوٹیوں پر ہو یا سمندروں کی تہہ میں، یہ اللہ ہی کی شان ہے کسی اور کی یہ شان نہیں۔ اگر کوئی اٹھتے بیٹھتے کسی غیر اللہ کا نام لے یا دور و نزدیک سے اسے پکارے کہ وہ اس کی مصیبت رفع کر دے یا دشمن پر اس کا نام پڑھ کر حملہ کرے یا اس کے نام کا ختم پڑھے یا اس کے نام کا ورد رکھے یا اس کا تصور ذہن میں جمائے اور یہ عقیدہ رکھے کہ جس وقت میں زبان سے اس کا نام لیتا ہوں یا دل مین تصور یا اس کی صورت کا خیال کرتا ہوں یا اس کی قبر کا دھیان کرتا ہوں تو اس کو خبر ہوتی ہے، میری کوئی بات اس سے چھپی ہوئی نہیں اور مجھ پر جو حالات گزرتے ہیں جیسے بیماری و صحت ، و فراخی و تنگی، موت و حیات اور غم و مسرت، اس کو ان سب کی ہر وقت خبر رہتی ہے، جو بات میری زبان سے نکلتی ہے، وہ اسے سن لیتا ہے اور میرے دل  کے خیالات اور تصورات سے واقف رہتا ہے۔ ان تمام باتوں سے شرک ثابت ہو جاتا ہے یہ شرک 'فی العلم' ہے یعنی حق تعالی جیسا علم غیر اللہ کے لیے ثابت رکهنا۔ بلاشتہ اس عقیدے سے  انسان مشرک ہو جاتا ہے، خواہ یہ عقیدہ کسی بڑے سے بڑے انسان کے متعلق رکھے یا مقرب سے مقرب فرشتے کے بارے میں چاہے اس کا یہ علم ذاتی سمجھا جائے یا اللہ کا عطا کیا ہوا ہر صورت میں شرکیہ عقیدہ ہے۔

2: تصرف میں شرک:
کائنات میں ارادے سے تصرف و اختیار کرنا، حکم چلانا، خواہش سے مارنا اور زندہ کرنا، فراخی و تنگی، تندرستی و بیماری ، فتح و شکست، اقبال و ادبار (عروج و زوال)، مرادیں برلانا، بلائیں ٹالنا، مشکل میں دستگیری کرنا اور وقت پڑنے پر مدد کرنا، یہ سب کچھ اللہ ہی کی شان ہے، کسی غیر اللہ کی یہ شان نہیں، خواہ کتنا بڑا انسان یا فرشتہ کیوں نہ ہو۔ پھر جو شخص اللہ کے بجائے کسی اور میں ایسا تصرف ثابت کرے، اس سے مرادیں مانگے اور اسی غرض سے اس کے نام کی منت مانے یا قربانی کرے اور مصیبت کے وقت اس کو پکارے کہ وہ اس کی بلائیں ٹال دے، ایسا شخص مشرک ہے اور اس کو شرک 'فی التصرف' کہا جاتا ہے۔ یعنی اللہ کا سا تصرف غیر اللہ میں مان لینا شرک ہے، خواہ وہ ذاتی مانا جائے یا اللہ کا دیا ہوا، ہر صورت میں یہ عقیدہ شرکیہ ہے۔
جاری ہے....
مجموعہ هذا میں شامل ہونے کیلئے رابطہ:
0096176390670
00923337003012

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...