Friday 22 April 2016

مسلمانوں کے مذہبی مسالک، قسط نمبر24

"مسلمانوں کے مذہبی مسالک"
(قسط نمبر 24)
وسیلہ کا مسئلہ:
یہاں تک تو فریقین کے مابین غیر اللہ سے براہ راست مدد مانگنے کے جو ازیا عدم جواز کی بحث تھی۔ اسی سے متعلق ایک ضمنی مسئلہ یہ ہے کہ کیا اللہ تعالی سے اس طریقے سے مدد مانگنا درست ہے کہ " اے اللہ ! فلاں ولی، پیر نبی وغیرہ  صدقے  کے وسیلے سے میرے یہ حاجت پوری فرما دے۔" بریلوی حضرات کا نقطہ نظر یہ ہے کہ ایسا کرنا بالکل درست ہے اور اچھا عمل ہے۔ اہل حدیث حضرات کا نظریہ یہ ہے کہ اپنے نیک اعمال کا وسیلہ تو اس طریقے سے پیش کیا جا سکتا ہے کہ ان سے دعا کروائی جائے البتہ فوت شدہ بزرگوں کا وسیلہ پیش کرنا بدعت اور ناجائز امر ہے۔ علمائے دیوبند اس معاملے پر مختلف آراء رکھتے ہیں۔ اکثر کی رائے بریلوی حضرات سے اتفاق کی ہے اور بعض کا نقطہ نظر اہل حدیث حضرات کے قریب ہے۔
سنی بریلوی حضرات کی دلیل یہ حدیث ہے:
حدثنا احمد بن منصور بن یسار۔ حدثنا عثمان بن عمر۔ حدثنا عن ابی جعفر الدنی عن عمارۃ بن خزیمۃ بن ثابت عن عثمان بن حنیف، ان رجلا ضریر البصر اتی البنی صلی اللہ علیہ و سلم فقال: ادع اللہ ان یعافینی فقال ان شئت اخرت لگ و ھو خیر۔ وان شئت دعوت فقال: ادعہ فامرہ ان یتوضا فیحسن وضوءہ۔ ویصلی رکعتیں۔ وید عو بھذا الدعاء اللھم انی اسالگ واتوجہ الیک بمحمد نبی الرحمۃ یا محمد! انی قد توجھت بک الی ربی فی حاجتی ھذہ لتقضی الھم! فشفعہ فی۔
قال ابو اسحاق ھذا حدیث صحیح ھذا الحدیث قد رواہ الترمذی فی ابواب الادعیۃ فی احادیث شتی من باب الا دعیۃ وقال ھذا حدیث حسن صحیح غریب، لا نعرفۃ من ھذا الوجہ من حدیث ابی جعفر۔
سیدنا عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک نابینا شخص نبی ﷺ کے پاس آئے اور عرض کی: اللہ سے دعا کیجیے کہ مجھے ٹھیک کر دے۔"آپ نے فرمایا: اگر تم چاہو تو میں اس کام کو موخر کر دوں اور وہ بہتر ہے۔ اگر چاہو تو ابھی دعا کر دوں۔ " انہوں نے عرض کیا: ابی دعا کر دیجیے" آپ نے انہیں حکم دیا کہ وہ وضو کریں۔ انہوں نے اچھی طرح وضو کر کے دو رکعت نماز پڑھی اور پھر یہ دعا کی۔ "اے اللہ! میں تجھ سے مانگتا ہوں اور تیری جانب محمد نبی رحمت ﷺ کے ذریعے متوجہ ہوتا ہے۔ اے محمد ! میں آپ کے ذریعے اپنے رب کی جانب توجہ کرتا ہوں کہ وہ میرے حاجت پوری کرے۔ اے اللہ! ان کی سفارش میرے حق میں قبول فرما۔"
ابو اسحاق کہتے ہیں کہ یہ حدیث صحیح ہے۔ اس حدیث کو ترمذی نے بھی دعاؤں کے باب میں روایت کیا اور یہ کہا: یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے ہم اسے بو جعفر کی اس سند کے علاوہ نہیں جانتے ہیں۔ سنن ابن ماجہ کتاب اقامۃ الصلوۃ و السنۃ فیہا حدیث 1385)
مشہور سلفی محدث علامہ ناصر الدین البانی (1999-1914) نے بھی اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے۔ اہل حدیث حضرات اس حدیث کے بارے میں دو باتیں کہتے ہیں کہ اس حدیث میں نبی کریم ﷺ کے ذریعے اللہ تعالی کی جانب متوجہ کیا گیا ہے۔ اس کے سوا وسیلہ یا صدقہ پیش کرنے کا یہاں کوئی ذکر نہیں ہے۔
اس کے علاوہ بریلوی حضرات یہ احادیث پیش کرتے ہیں:
حدثنا الحسن بن محمد قال: حدثنا محمد بن عبداللہ الانصاری قال: حدثنی ابی، عبداللہ بن المثنی عن ثمامۃ بن عبداللہ بن انس، عن انس: ان عمر بن الخطاب ؓ : کان اذا قحطوا استسقی بالعباس بن عبد المطلب۔ فقال: اللھم انا کنا نتوسل الیک بنبینا فتسقینا، و انا نتوسل الیک بعم نبینا فاسقنا، قال فیسقون۔
انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے زمانے میں جب قحط پڑتا تو عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ سے بارش کی دعا کرتے۔ انہوں نے عرض کیا: اے اللہ! ہم لوگ تیرے نبی کے وسیلے سے دعا کرتے تھے تو تو ہمیں پانی دیتا تھا، اب ہم تیرے نبی کے چچا کے ذریعے دعا کرتے ہیں تو ہمیں پانی عطا فرما۔" انس کہتے ہیں کہ بارش ہو جایا کرتی تھی۔ (بخاری کتاب الاستسقاء حدیث 964)
اہل حدیث حضرات کا کہنا یہ ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے نبی ﷺ سے رشتے کی بنیاد پر انہیں وسیلہ بنایا کرتے تھے جس کا مطلب یہ تھا کہ وہ انہیں دعا کا کہا کرتے تھے۔ جس میں کوئی حرج نہیں ہے اور نہ ہی یہ شرک کے زمرے میں آتا ہے۔ زندہ بزرگ کو وسیلہ بنایا جا سکتا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ان سے درخواست کی جائے کہ وہ اللہ تعالی سے دعا کریں۔ فوت شدہ بزرگ کو ایسا نہیں کہا جا سکتا ہے۔
بریلوی حضرات اپنے نقطہ نظر کے حق میں یہ روایت بھی پیش کرتے ہیں:
حدثنا ابو معاویۃ عن الاعمش عن ابی صالح عن مالک الدار، قال: و کان خازن عمر علی الطعام، قال: اصاب الناس قحط فی زمن عمر، فجاء رجل الی قبر النبی ﷺ فقال یا رسول اللہ استسق لا متک فانھم قد ھلکوا فاتی الرجل فی المنام فقیل لہ: ائت عمر فاقریہ السلام، واخبرہ انکم مستقیمون و قل لۃ: علیک الکیس، علیک الکیس، فاتی عمر فاخبرہ فبکی عمر، ثم قال: یا رب لا الو الا ما عجزت عنہ۔
مالک الدار، جو کہ حضرت عمر کے خازن تھے، بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں ایک بار لوگو ں کو قحط آ گیا۔ ایک شخص

(بلال بن حارث مزنی ) رسول اللہ ﷺ کی قبر مبارک پر گئے اور عرض کیا: یا رسول اللہ ! اپنی امت کے لیے بارش کی دعا کیجیے کیونکہ وہ قحط سے ہلاک ہو رہی ہے۔ نبی ﷺ ان کے خواب میں تشریف لائے اور فرمایا: عمر کے پاس جاؤ، ان کی سلام کہو اور یہ خبر دو کہ تم پر یقینا بارش ہو گی، اور ان سے کہو کہ تم پر سوچنا سمجھنا لازم ہے، تم پر سوچنا سمجھنا لازم ہے۔ پھر وہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس گئے اور ان کو یہ خبر سنائی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ رونے لگے اور کہا: اے اللہ! میں صرف اسی چیز کو ترک کرتا ہوں جس سے میں عاجز ہوں۔ (مصنف ابن ابی شیبہ کتاب الفضائل حدیث 32665)
اس حدیث کو مصنف ابن ابی شیبہ کے محقق محمد عوامہ نے صحیح قرار دیا ہے۔ اس کے برعکس عالم عرب کے سلفی عالم علامہ ابن باز 1999-1912) اس روایت کے بارے میں کہتے ہیں:
اس روایت کی صحت کو درست فرض کرتے ہوئے بھی اس سے نبی ﷺ کی وفات کے بعد آپ سے بارش کی دعا کا جواز ثابت نہیں کیا جا سکتا ہے کیونکہ جب صاحب کا یہاں ذکر ہے ان کا نام معلوم نہیں ہے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا عمومی عمل اس روایت کے خلاف ہے جبکہ وہ سب لوگوں سے بڑھ کر دین کو جاننے والے تھے اس روایت کے علاوہ کہیں بھی یہ معلوم نہیں ہوتا کہ کسی صحابی نے قبر انور پر آ کر بارش یا کسی اور چیز کی دعا مانگی ہو۔ بلکہ اس کے برعکس سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے اس کا خلاف ثابت ہے کہ وہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے بارش کی دعا کروایا کرتے تھے اور ان کے عمل پر صحابہ میں سے کسی نے تنقید نہیں کی۔ تو اس سے معلوم ہوا کہ وہی بات حق ہے۔ جو کچھ ان صاحب نے کیا، وہ ایک منکر عمل تھا اور وہ وسیلہ تھا جو شرک کی جانب لے جاتا ہے۔ بللکہ بعض اہل علم نے تو اسے شرک کی اقسام میں داخل کیا ہے۔ سیف کی روایت میں ان صاحب کا نام بلال بن حارث آتا ہے۔ اس روایت کی صحت میں شک ہے کیونکہ سیف کی سند کو شرح ابن حجر عسقلانی نے نقل نہیں کیا۔ اس کو صحیح تسلیم کر بھی لیا جائے تو کبار صحابہ کے عمل کے خلاف اس عمل کو درست تسلیم نہیں کیا جا سکتا ہے۔
جاری ہے...
مجموعہ هذا میں شامل ہونے کیلئے نیچے دیے گئے نمبر پر رابطہ کریں،اسلامی بہنوں کیلئے علیحدہ مجموعہ موجود ہے..
0096176390670

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...