Friday 1 April 2016

مسلمانوں کے مذہبی مسالک،6

"مسلمانوں کے مذہبی مسالک"

 فرقوں،مسالک اورگروہوں کی تقسیم کی بنیادیں
وہ لوگ جو خود کو "مسلم" کہتے ہیں، ان کے مختلف گروہوں کو مختلف مذہبی بنیادوں پر تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ ان بنیادوں میں مذہبی عقائد، امتیازی مذہبی اعمال، مذہبی تحریک اور فقہی مسلک شامل ہیں۔
مذہبی عقائد اور اعمال کی بنیاد پر تقسیم:
مذہبی عقائد اور مخصوص اعمال کی بنیاد پر امت مسلمہ کے بنیادی فرقے دو ہیں: اہل سنت اور اہل تشیع۔ اس کے بعد ان میں سے ہر ایک کے ذیلی فرقے اور گروہ ہیں۔
1.  اہل سنت: انہیں بنیادی طور پر تین طریقے سے مختلف گروہوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔

1.1.سلفی اور غیر سلفی گروہ: برصغیر میں یہ تقسیم بریلوی، دیوبندی اور اہل حدیث کی شکل میں نظر آتی ہے اور بقیہ عالم اسلام میں یہ سلفی اور غیر سلفی گروہوں کی صورت میں موجود ہے-
1.2.صوفی اور غیر صوفی گروہ: صوفی گروہوں میں ان کے مختلف سلسلے شامل ہیں، ان کے علاوہ ایک گروہ وہ بھی ہے جو مروجہ تصوف کو  اسلام کے ساتھ ہم آہنگ نہیں سمجھتا ہے
1.3.روایت پرست اور جدت پسند گروہ: اس میں متعدد گروہ پائےجاتے ہیں۔
2.  اہل تشیع: ان کے متعدد گروہ ہیں۔
2.1.    اثنا عشری-
2.2.   اسماعیلی یا آغا خانی-
2.3.     زیدی-
2.4.   علوی، دروز اور دیگر فرقے-
3.  اباضی: یہ اہل سنت اور اہل تشیع دونوں سے ہٹ کر ہیں۔
4.  منکرین سنت و حدیث؛
5.  دیگر مذہبی گروہ جو خود کو مسلمان سمجھتے ہیں مگر مسلمان انہیں دائرہ اسلام سے خارج سمجھتے ہیں جیسے احمدی، بہائی وغیرہ۔
مذہبی تحریکوں کی بنیاد پر بننے والے گروہ
امت مسلمہ کی تاریخ اصلاحی تحریکوں سے بھری پڑی ہے۔  ان میں سے بہت سی تحریکیں مختلف ادوار میں پیدا ہوئیں اور تاریخ میں اپنا کردار ادا کر کے ختم ہو گئیں۔ پچھلے دو سو برس میں مسلم دنیاکے زوال کے نتیجے میں ان میں زبردست رد عمل پیدا ہوا جس نے جلد ہی تحریکوں کی شکل اختیار کر لی۔ اس سلسلہ میں امت مسلمہ کی تاریخ کی تمام تحریکوں کا احاطہ کرنا مقصود نہیں ہے۔ یہاں ہم صرف موجودہ دور میں موجود تحریکوں کا جائزہ پیش کریں گے۔ اس وقت مسلم دنیا میں موجود تحریکوں کو  اس طریقے  سے تقسیم کیا جا سکتا ہے۔
1.  احیائے اسلام کی تحریکیں اور جماعتیں
1.1. انقلابی تحریکیں جیسے انقلاب ایران کی تحریک، قدیم اخوان المسلمون، حزب التحریر  وغیرہ
1.2.موجود نظام کے اندر رہ کر کام کرنے والی سیاسی تحریکیں جیسے مصر اور لیوانٹ (شام، اردن، فلسطین اور لبنان) کی جدید اخوان المسلمون،  برصغیر کی جماعت اسلامی ، ترکی کی اسلامی تحریک، انڈونیشیا کی محمدی تحریک  وغیرہ
1.3. مسلح جدوجہد پر یقین رکھنے والی عسکری تحریکیں جیسے افغانستان و پاکستان کے طالبان، انڈونیشیا اور فلپائن کے مسلح گروہ، چیچنیا کی تحریک  وغیرہ
2.  تبلیغی و دعوتی تحریکیں جیسے برصغیر کی تبلیغی جماعت اور دعوت اسلامی وغیرہ
3.  علمی ، فکری اور تعلیمی تحریکیں جیسے برصغیر میں تحریک علی گڑھ، ندوۃ العلماء، مدرسۃ الاصلاح وغیرہ
فقہی مسالک کی بنیاد پر بننے والے گروہ:

 البتہ یہ مختلف مکاتب فکر ہیں جو تاریخ کے مختلف ادوار میں فرقہ کی شکل اختیار کر گئے تاہم وقت کے ساتھ ساتھ انہوں نے اکٹھے رہنا سیکھ لیا۔  آج کل یہ فرقہ کی حیثیت سے نہیں بلکہ مکتب فکر کی حیثیت رکھتے ہیں اور ایک دوسرے کے ساتھ ان کے اختلافات میں بہت زیادہ شدت نہیں ہے۔ ابتدائی صدیوں میں بہت  سے  فقہی مسالک پیدا ہوئے اور ختم ہو گئے۔ موجودہ دور میں یہ فقہی مکاتب فکر ہیں جو اپنے اپنے علاقے میں موجود ہیں۔ ان میں سے پہلے پانچ کا تعلق اہل سنت سے ہے جبکہ بقیہ اہل تشیع اور اباضی گروہوں سے تعلق رکھتے ہیں-
1.  حنفی-
2.  مالکی-
3.  شافعی-
4.  حنبلی-
5.  ظاہری-
6.  جعفری-
7.  زیدی-
8.  اباضی-
انہی گروہوں کی بنیاد پر ہم نے اس پروگرام کے مختلف ماڈیولز کو ترتیب دیا ہے۔ ان گروہوں کے اختلافی امور پر یہ بحثیں ویسے تو بلا مبالغہ ہزاروں بلکہ شاید لاکھوں صفحات پر پھیلی ہوئی ہیں۔ انہیں اس سلسلہ میں سمونا ایک مشکل کام تھا، جس سے اس سلسلہ کے غیر معمولی  طور پر طویل ہو جانے کا اندیشہ تھا۔ اس وجہ سے اس سلسلہ کو ہم نے مختلف ماڈیولز میں تقسیم کر دیا تاکہ جو صاحب جس ماڈیول میں دلچسپی رکھتے ہوں، وہ اسی کا مطالعہ کر لیں۔ ماڈیولز کی تقسیم کچھ اس طرح ہے:
1· ماڈیول CS01: اہل سنت، اہل تشیع اور اباضی مسلک-
2· ماڈیول CS02: سلفی (اہل حدیث) اور غیر سلفی(جیسے سنی بریلوی اور سنی دیوبندی)-
3·ماڈیول CS03: اسلام کا دعوی کرنے والے مخصوص اقلیتی مذہبی گروہ-
4· ماڈیول  CS04: فقہی مکاتب فکر-
5· ماڈیول CS05: اہل تصوف اور ان کے ناقدین-
6· ماڈیول CS06: مسلم دنیا میں سیاسی ، عسکری، دعوتی اور علمی و فکری تحریکیں-
7· ماڈیول CS07: روایت پسندی، جدت پسندی اور معتدل جدیدیت ۔۔۔ فکری، ثقافتی،معاشی، قانونی  اور سماجی مسائل-
نوٹ:ہم سب سے پہلے ماڈیول نمبر CS02 کو اپنے سلسلہ کا حصہ بنائیں گے،اگر قارئین کو ہمارا غیر جانبدارانہ  یہ پروگرام پسند آیا تو پهر ہم دوسرے ماڈیول بهی پیش کریں گے.البتہ ان تمام ماڈیول کی pdfفائل حاصل کرنے کیلئے بهی رابطہ کر   سکتے ہیں-جو کہ آپ ای میل یا واٹس اپ کے ذریعے منگوا سکتے ہیں
0096176390670
-00923334124172-
fatimapk92@gmail.com
اوپر بیان کردہ تمام گروہوں میں سے ہر ایک کے اندر اعتدال پسند اور انتہا پسند دونوں اقسام کے لوگ پائے جاتے ہیں۔  انتہا پسند اپنے نقطہ نظر کو شدت سے پیش کرتے ہیں اور اس سے اختلاف کو برداشت نہیں کرتے جبکہ اعتدال پسند اپنے نقطہ نظر پر قائم رہتے ہوئے دوسرے نقطہ ہائے نظر کے وجود کو برداشت کر لیتے ہیں اور دوسرے گروہوں سے مکالمہ جاری رکھتے ہیں۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ ایک ہی گروہ کے اعتدال پسند اور انتہا پسند آپس میں ایک دوسرے کی تنقید کا نشانہ بنتے رہتے ہیں۔
اس سلسلہ میں ہم مختلف مذہبی گروہوں اور فرقوں کے عقائد، امتیازی اعمال ، طرز فکر اور دلائل کا تقابلی مطالعہ کریں گے اور ان کے باہمی تعلقات کا جائزہ لیں گے  لیکن اس سے پہلے ضروری ہے کہ ہم علم الکلام سے متعلق چند اساسی مباحث کا مطالعہ کریں۔
علم الکلام یا تقابلی مطالعہ کا تعارف امت مسلمہ کے تقریباً تمام فرقوں، مسالک اور مکاتب فکر کا اس بات پر اتفاق ہے کہ دین اسلام کا ماخذ صرف اور صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات مبارک ہے۔ آپ سے یہ دین ہمیں دو صورتوں میں ملا ہے، ایک قرآن مجید اور دوسری آپ کی قائم کردہ مثال جسے سنت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ کم از کم قرآن مجید پر سبھی فرقوں کا اتفاق ہے۔ سنت کی تفہیم اور تحقیق سے متعلق ان کے ہاں کچھ اختلافات پائے جاتے ہیں۔ اس سے ہٹ کر بعض فرقے دین کے کچھ اور مآخذ بھی مانتے ہیں جن کی وجہ سے ان کی راہیں مین اسٹریم مسلمانوں سے جدا ہو جاتی ہیں۔ انہی مذہبی فرقوں کے عقائد و نظریات اور دلائل کے مطالعے  کے علم کو علم الکلام کہا جاتا ہے۔
علم الکلام وہ علم ہے جس میں مختلف گروہوں کے مذہبی عقائد اور ان کے دلائل کا مطالعہ کیا جاتا ہے۔  قرون وسطی میں اس علم کا مقصد یہ ہوتا تھا کہ اپنے سے مختلف گروہوں کے نظریات اور ان کے دلائل کا جائزہ لیا جائے، پھر ان کی تردید کر کے اپنے نقطہ نظر کو ثابت کیا جائے۔ علامہ سعد الدین تفتازانی (722-792/1322-1390) لکھے ہیں:
هو العلم بالعقائد الدينية عن الأدلة اليقينية.
"یہ یقینی دلائل سے دینی عقائد کا علم ہے۔ " (تہذیب الکلام)
مشہور ماہر عمرانیات و بشریات، ابن خلدون (732-808/1332-1406) اپنے مشہور زمانہ "مقدمہ" میں لکھتے ہیں:
هو علم يتضمن الحجاج عن العقائد الإيمانية بالأدلة العقلية و الرد على المبتدعة المنحرفين في الاعتقادات عن مذاهب السلف و أهل السنة.
"(علم الکلام) وہ علم ہے جو عقائد ایمانیہ کو عقلی دلائل کے ساتھ ثابت کرنے والی حجتوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ اس میں اسلاف اور اہل سنت کے نقطہ نظر کے اعتقادات سے منحرف ہونے والے بدعتی فرقوں پر رد بھی شامل ہوتا ہے۔"
چونکہ اپنے عقائد کو ثابت کرنے کے لئے بحث و مناظرہ کیا جاتا تھا، جس میں بہت زیادہ گفتگو ہوتی تھی، اس وجہ سے اس علم کا نام ہی "علم الکلام" پڑ گیا۔  اس کے برعکس انگریزی میں اسے Theology کہا گیا جس کا ترجمہ اردو اور فارسی میں "الہیات" کے نام سے کیا جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ خدا اور اس سے متعلق امور سے متعلق بحث ہے۔  واضح رہے کہ مسلمانوں کے ہاں تھیالوجی یا الہیات اب علم الکلام کا محض ایک حصہ ہے ورنہ اس میں اور بھی بہت سے مضامین شامل ہو گئے ہیں۔
علم الکلام کے دائرے میں آنے والے مباحث:
علم الکلام میں جو مسائل زیر بحث آتے ہیں، وہ بنیادی طور پر دو اقسام کے ہیں:
ا·مختلف مذاہب اور فلسفوں کے درمیان پیش آنے والے اختلافی مسائل: جیسے کیا اس کائنات کا کوئی خدا موجود ہے؟ کیا آخرت کا وجود ہے؟ کیا ہماری موت کے بعد کوئی اور زندگی ہے؟ کیا نبوت و رسالت برحق ہے؟ کون سچا نبی ہے اور کون جھوٹا؟  کیا نبوت ختم ہو چکی ہے یا اب بھی جاری ہے؟ انسان کی زندگی کا مقصد کیا ہے؟  مذہب ضروری ہے یا نہیں؟ اس موضوع پر تفصیلی مطالعہ  تو اصلاً مذاہب کے تقابلی مطالعہ کے تحت آنا تھا مگر چونکہ مسلمانوں کے اندر بھی ایک طبقہ ان سوالات پر  غور کرتا ہے، اس وجہ سے ہم نے ان مسائل کو ماڈیول CS07 میں بیان کیا ہے۔

· ایک ہی مذہب مثلاً اسلام کے مختلف فرقوں  کے مابین اختلافات: جیسے مسلمانوں کے مابین یہ سوالات کہ کیا قرآن اور سنت ہی دین کا ماخذ ہیں یا ان کے علاوہ کوئی اور ماخذ بھی ہے؟ کیا اللہ کے سوا کسی اور سے مافوق الفطرت طریقے سے مدد مانگی جا سکتی ہے؟ کیا اللہ تعالی کے نیک بندوں کو بعد از وفات کوئی اختیارات حاصل"ہوتےہیں؟ صحابہ کرام اور اہل بیت اطہار کا باہمی تعلق کیا ہے؟ وغیرہ وغیرہ۔  ان سوالات کا مطالعہ ہم ماڈیول CS01 اور CS02 میں کریں گے۔
مآخذ دین کی بنیاد پر اختلافات: بعض گروہوں کا نقطہ نظر یہ ہے کہ وہ سنت کو تسلیم نہیں کرتے۔ اسی طرح بعض گروہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی اور شخصیت کو بھی نبی مانتے ہیں۔ ان کے نقطہ نظر کا اسلام سے تقابل ہم ماڈٰیول CS03 میں کریں گے۔

ب· فقہی اور فروعی اختلافات: یہ زیادہ فقہی امور ہوتے ہیں جیسے نماز میں رفع یدین کیا جائے یا نہیں؟ قیاس اور استحسان کا استعمال درست ہے یا نہیں؟ ان کا تفصیلی مطالعہ ہم ماڈیول CS04 میں کریں گے۔
ت·روحانی امور سے متعلق اختلافات: جیسے کیا انسان کا روحانی رابطہ براہ راست اللہ تعالی کے ساتھ ہو سکتا ہے یا نہیں؟ شریعت اور طریقت کا باہمی تعلق کیا ہے؟  ان امور کا مطالعہ ہم ماڈیول CS05 میں کریں گے۔

ث· دینی تحریکیں: دین کی روشنی میں ایک معاشرہ تشکیل دینے کے لیے جدوجہد کیسے کی جائے؟ بعض مفکرین کا خیال تھا کہ اس کے لیے سیاسی جدوجہد کرنا اہم ہے۔ بعض کے نزدیک عسکری، بعض کے نزدیک دعوتی اور بعض کے خیال میں فکری و علمی جدوجہد زیادہ اہمیت کی حامل تھی۔ ان کا تفصیلی مطالعہ ہم ماڈیول CS06 میں کریں گے۔

ج· روایت و جدیدیت کی بنیاد پر اختلافات: دور جدید کو اسلام سے کس طرح ہم آہنگ کیا جائے؟ اس سوال کے جواب میں مختلف مکاتب فکر بنے، جن کا تفصیلی مطالعہ ہم ماڈیول CS07 میں کریں گے۔
مسلمانوں کے مختلف گروہوں اور فرقوں کےمابین مختلف دینی مسائل میں اختلافات کے نتیجے میں  مسلمانوں کا اندرونی علم الکلام وجود میں آیا۔ یہی معاملہ عیسائیوں، یہودیوں، ہندوؤں، بدھوں اور دیگر مذاہب کے اندرونی فرقوں کا ہے۔ ان سب کا اپنا اپنا علم الکلام ہے جو ان کے مذہبی نصاب کا حصہ ہے۔ اس سیریز میں ہم مسلمانوں کے اندرونی اختلافات کا مطالعہ کریں گے جبکہ بین المذہبی علم الکلام کا مطالعہ انشاء اللہ ہم ایڈوانسڈ لیول پر کریں گے۔
جاری ہے.....

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...