Friday 1 April 2016

مسلمانوں کے مذہبی مسالک،7

"مسلمانوں کے مذہبی مسالک"

جدید اور قدیم علم الکلام میں فرق جدید اور قدیم علم الکلام میں جوہری نوعیت کا فرق پیدا ہو چکا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ قرون وسطی میں علم الکلام کے مسائل کچھ اور تھے، اب یہ بڑی حد تک تبدیل ہو چکے ہیں۔  مثال کے طور پر قرون وسطی میں قدیم (یعنی ازلی اور ہمیشہ سے موجود رہنے والا) اور حادث (بعد میں کسی وقت وقوع پذیر ہونے والا) سے متعلق مسائل بڑی اہمیت رکھتے تھے۔ محدثین  اور معتزلہ کے درمیان جب یہ اختلاف درپیش ہوا کہ قرآن قدیم ہے یا حادث تو ان میں بڑے معرکے برپا ہوئے۔ بادشاہ وقت مامون الرشید (reign 197-217/813-833) معتزلہ کے نقطہ نظر کا حامی تھا۔ اس نے  محدثین جن کے سرخیل امام احمد بن حنبل (164-241/780-855) تھے، کو کوڑوں سے پٹوایا اور قرآن کے حادث ہونے کو ماننے پر انہیں زبردستی  مجبور کیا۔ بعد میں معتزلہ ہی میں سے امام ابو الحسن اشعری(260-324/874-936)پیدا ہوئے جنہوں نے معتزلہ کے عقائد سے تائب ہو کر ان کی اپنی زبان  اور اصطلاحات میں ان کی تردید کی۔
دور جدید میں یہ مسائل زندہ نہیں رہے اور ان مسائل کی وجہ سے جو فرقے ظہور پذیر ہوئے، وہ بھی باقی نہ رہے۔ اس دور میں جو فرقے زندہ ہیں ، علم الکلام کا انحصار بھی انہی کے گرد گھومتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس سلسلہ میں ہم نے قرون وسطی کے علم الکلام کی بجائے جدید علم الکلام سے بحث کی ہے۔  ہمارے دینی مدارس میں عام  طور پر قرون وسطی کے علم الکلام کی کتب جیسے شرح عقائد نسفی وغیرہ پڑھائی جاتی ہیں۔ اس سے طلباء اس دور کے مسائل اور ان کے دلائل سے واقف تو ہو جاتے ہیں مگر جب وہ عالم دین بن کر میدان عمل میں اترتے ہیں تو لوگ ان سے بالکل ہی مختلف سوالات کرتے ہیں جن کے جواب دینے کے لئے انہیں پوری تیاری نہیں کروائی گئی ہوتی۔ ہماری کوشش یہ ہے کہ اس سیریز کے ذریعے یہ کمی پوری کر دی جائے۔
تقابلی مطالعہ کا طریق کار:
ہمارے ہاں عام طور پر تقابلی مطالعہ کے طریق کار کی تربیت نہیں دی جاتی ہے۔ اگر یہ تربیت فراہم کر دی جائے تو اس کے نتیجے میں تقابلی مطالعہ سے صحیح معنوں میں فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ یہاں ہم کچھ تجاویز پیش کر رہے ہیں جن سے آپ کو تقابلی مطالعہ میں مدد مل سکے گی۔
*جب آپ کسی فرقہ کے نقطہ نظر کا مطالعہ کر رہے ہوں تو کچھ دیر کے لیے خود کو اسی میں شامل سمجھ لیجیے۔ خود کو اس فرقہ کے لوگوں کی جگہ رکھ کر سوچیے۔ ضروری نہیں کہ آپ ہمیشہ کے لئے اس مسلک کو مان لیں مگر اس طریقے سے آپ کو ان کے استدلال (دلائل پیش کرنا) سے صحیح آگاہی حاصل ہو سکے گی۔
*اس کے بعد جب آپ مختلف رائے رکھنے والے دوسرے فرقے کا مطالعہ کریں تو اس میں بھی یہی طریقہ اختیار کیجیے کہ آپ ان میں شامل ہیں۔
*فریقین کا اس طریقے سے مطالعہ کرنے کے بعد اب خود کو غیر جانبدار کر لیجیے۔ غور کیجیے کہ پہلے فریق نے کیا دلائل پیش کیے اور دوسرے فریق نے ان کا جواب کیا دیا۔ پھر اس پر غور کیجیے کہ دوسرے فریق کے دلائل کیا تھے اور پہلا فریق ان کا کیا جواب پیش کرتا ہے۔
*فریقین کے دلائل میں مضبوط اور کمزور نکات نوٹ کر لیجیے۔
*آخر میں جس فریق کے دلائل مضبوط نظر آئیں، اس کے نقطہ نظر کو اختیار کر لیجیے۔
*کوئی نقطہ نظر اختیار کر لینے کے بعد بھی اپنا ذہن کھلا رکھیے اور اس بات کے لیے تیار رہیے کہ اگر مستقبل میں آپ کے سامنے درست بات واضح ہو گئی تو آپ اپنا نقطہ نظر تبدیل کرنے میں دیر نہ لگائیں گے۔ اپنی وابستگی حق کے ساتھ رکھیے نہ کہ کسی مخصوص فرقہ کے ساتھ۔
*اگر دونوں فریقوں کے دلائل آپ کو مضبوط نہ لگیں تو اس ضمن میں توقف کیجیے اور کسی تیسرے نقطہ نظر کی تلاش کیجیے۔
* یہ بهی یاد رکهیے کہ فریقین کے تمام دلائل کو صرف قرآن و سنہ کی روشنی میں ہی پرکهیے-اور اگر کسی فریق کے دلائل میں تضاد پایا جائے تو پهر یہ نہ دیکھا جائے کہ کون کتنے مقام و مرتبہ پر فیض ہے-بلکہ اس کے قول و فعل کو رد کر دیا جائے-
●پروگرام میں استعمال ہونے والے رموز و علامات:
قرآن و حدیث کے حوالہ جات:
*اس سلسلہ میں قرآن مجید آیات کا حوالہ"البقرۃ 2:124" کے فارمیٹ میں دیا گیا ہے جس کا مطلب ہے سورۃ نمبر 2 کی آیت نمبر 124۔
*احادیث کا حوالہ دیتے ہوئے ہم نے ٹیکسٹ "مکتبہ مشکاۃ الاسلامیہ" کا استعمال کیا ہے اور اس کی درستگی کی ذمہ داری انہی کی ہے۔ ہم نے متعلقہ کتاب، اس کے اندر متعلقہ کتاب (جیسے کتاب الایمان وغیرہ) اور حدیث نمبر کا حوالہ دیا ہے۔ یہ نمبر مکتبہ مشکاۃ کی نمبرنگ کے مطابق ہیں۔
● تواریخ کے فارمیٹ:
* اس سلسلہ میں ہم نے یہ کوشش کی ہے کہ جن اہل علم کا ذکر ہو ، ان کے  سن پیدائش اور سن وفات کو بھی بیان کر دیا جائے تاکہ ان کے زمانہ کا اندازہ ہو سکے۔  اس کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ متعلقہ شخص کو اس کے زمانے کے ماحول (Ethos) کے پس منظر میں سمجھا جا سکتا ہے۔ اس کے لئے ہم نے یہ فارمیٹ استعمال کیے ہیں:
*
 عام طور پر اہل علم اور دیگر شخصیات کے سامنے مثلاً (40-150/660-750) کے اسلوب میں تاریخیں لکھیں ہیں جو متعلقہ شخصیت کے سن پیدائش اور سن وفات کو بیان کرتی ہیں۔ ان میں بائیں جانب والی تواریخ ہجری کیلنڈر کی ہیں اور دائیں جانب والی تواریخ عیسوی کیلنڈر کی۔ اس مثال میں دی گئی شخصیت 40 ہجری میں پیدا ہوئی اور 150 ہجری میں فوت ہوئی۔ اگر عیسوی کیلنڈر کا اعتبار کیا جائے تو وہ شخصیت 660 عیسوی میں پیدا ہو کر 750 عیسوی میں فوت ہوئی۔
* اگر کسی شخص کی تاریخ پیدائش نہیں مل سکی تو محض تاریخ وفات بیان کرنے کے لیے (d. 380/990) کا فارمیٹ استعمال کیا ہے۔ اسی طرح زندہ شخصیات کے لیے (b. 1950) کا فارمیٹ استعمال کیا ہے جو ان کے سن پیدائش کو ظاہر کرتا ہے۔
* اگر کسی کتاب کا سن طباعت بیان کیا ہے تو اسے (p. 1986) کے فارمیٹ میں بیان کیا ہے۔
* اگر کسی حکمران کا دور بیان کیا تو اسے (reign 13-23/635-645) کے فارمیٹ میں بیان کیا ہے۔
* ان تمام تواریخ میں ہجری اور گریگورین کیلنڈر معلوم کرتے وقت ایک سال کی غلطی کی گنجائش موجود ہے۔
*اگر کوئی تاریخ صحیح تعین کے ساتھ موجود نہیں تھی اور اندازہ موجود تھا تو (c. 380/990) کا فارمیٹ اختیار کیا گیا ہے۔
*اگر کوئی تاریخ ہجری کیلنڈر کے آغاز سے پہلے کی ہے، تو اسے بیان نہیں کیا گیا۔ خاص کر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی تاریخ پیدائش میں یہ معاملہ رہا ہے۔ ایسی صورت میں ہم نے (599-661/40H) کا فارمیٹ اختیار کیا ہے۔ اس میں بائیں جانب کی تواریخ عیسوی کیلنڈر کی ہیں اور دائیں جانب ہجری کیلنڈر کی۔
* ماضی قریب کی تواریخ میں طوالت سے بچنے کے لیے ہجری کیلنڈر کا اہتمام نہیں کیا گیا اور مثلاً (1950-2010) کے فارمیٹ میں سن پیدائش اور سن وفات بیان کیے گئے ہیں۔ تاہم جو لوگ ہجری کیلنڈر کی تواریخ جاننا چاہیں، وہ بآسانی اس لنک سے ان تواریخ کو ہجری کیلنڈر میں تبدیل کر سکتے ہیں: http://www.islamicfinder.org/dateConversion.php
●اہم نوٹ: ان تمام تواریخ کا ماخذ مختلف ویب سائٹس خاص کر "وکی پیڈیا" ہے جس کی صحت کے بارے میں گارنٹی دینا مشکل ہے۔ اگر قارئین ان میں کوئی غلطی دیکھیں تو برائے کرم اصلاح فرما دیں۔
●کوٹیشن کا فارمیٹ:
اس کتاب میں جہاں ہم نے کسی اور کتاب کی کوٹیشن دی ہے، تو اسے چھوٹے فانٹ میں لکھا ہے اور دائیں بائیں سے کچھ جگہ (Indent) چھوڑ دی ہے۔ اس کوٹیشن کے اندر اگر ہم نے کوئی وضاحتی الفاظ یا جملے لکھے ہیں تو بڑی بریکٹ [   ] استعمال کی ہیں تاکہ  متعلقہ مصنف کی بات میں وہ شامل نہ سمجھی جائے۔  اس کوٹیشن میں اگر کہیں چھوٹی بریکٹ (  ) میں الفاظ ہیں ، وہ متعلقہ مصنفین کے اپنے ہیں۔
ہم نے کوشش کی ہے کہ حوالہ دیتے وقت "شکاگو مینوئل آف اسٹائل"، جو کہ دنیا بھر کی تحقیقی تحریروں میں رائج ہے، کے مجوزہ فارمیٹ کو اختیار کریں لیکن بہت سے مقامات پر ایڈیشن، ناشر وغیرہ سے متعلق معلومات نہ ہونے کے سبب آپ کو اس کی مکمل پابندی نہ مل سکے گی۔ یہی معاملہ ہر کتاب کے آخر میں دی گئی ببلیو گرافی کا ہے۔
●ایڈمیشن کی شرائط اور کورس کا طریقہ کار

اس کورس کا مقصد آپ کو ذاتی سطح پر (Personalized) تعلیمی خدمت فراہم کرنا ہے۔  ایڈمیشن کا طریقہ کار بالکل سادہ ہے۔ نیچے دیے گئے ای میل یا موبائل نمبر پر واٹس اپ کر سکتے ہیں
 fatimapk92@gmail.com
0096176390670
روزانہ بنیاد پر آپ کو ایک سے دو قسط کا از خود مطالعہ کرنا ہو گا اور اس ضمن میں جو سوالات پیدا ہوں، انہیں بذریعہ ای میل
یا واٹس اپ پر پرسنل پیش کر سکتے ہیں-  
●اگر آپ ضرورت محسوس کریں تو آپ بذریعہ Skype یا whatsApp آن لائن رابطہ کر کے بھی اپنے سوالات ڈسکس کر سکتے ہیں-اس صورت میں آپکو قابل اعتماد اساتذہ کرام کی طرف منتقل کر دیا جائے گا-
● البتہ مجموعہ هذا میں کسی قسم کی پوسٹ یا کمنٹ کرنے کی صورت میں وارننگ دیے بغیر ریموو کر دیا جائے گا-

●پروگرام کی فیس:
اس پروگرام میں شرکت کی فیس یہ ہے کہ اگر آپ ہمارے کام سے مطمئن ہوئے تو پهر خود مستفید ہونے کے ساتھ پوسٹ کردہ اقساط کو اپنے دوست احباب کو ضرور بھیجیں-شکریہ
طالب دعا:عمران شہزاد تارڑ، ڈئریکٹر فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان
جاری ہے........

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...