Friday 1 January 2016

اسلام اور خانقاہی نظام،44

⁠⁠⁠⁠⁠⁠⁠⁠⁠اسلام اور خانقاہی نظام

موسیٰ پاک شہید: ملتان کا ایک اور بڑا دربار موسی پاک شہید کا ہے-جب ہم اس دربار پر گئے تو اس صاحب دربار بزرگ کے بارے میں جو سب سے زیادہ اور ٹاپ کلاس کرامت معلوم ہوئی ‘وہ یہ ہے کہ دوران جنگ مدینے میں ان کا سر کٹ گیا تھا-سر مبارک اب حضرت کی جھولی میں تھا اور حضرت وہاں سے چلے اور ”اچ شریف “ آگئے-بارہ سال وہاں رہے-پھر ایک گاوں ”منگھاہٹی “ تشریف لائے-بارہ سال وہاں گزار دئیے-پھر اسی حالت میں گھوڑے پر بیٹھ کر ملتان میں آ گئے- چنانچہ ملتان کا ”پاک گیٹ “ اب انہی کے نا م سے موسوم ہے-ریلوے گاڑی بھی موسی پاک شہید کے نام سے لاہور تا ملتان چل رہی ہے-اس کرامت کے زور پر حکومت کے محکمہ اوقاف کی آمدنی کی گاڑی بھی خوب چل رہی ہے-اس لئے کہ یہ دربار محکمہ اوقاف کی زیر نگرانی ہے-اس دربار کے سامنے ایک کھلا لان ہے جس کے اردگرد مزید درباری خلافت کی گدیاں ہیں -سب سے بڑی گدی سید وجاہت حسین کی ہے اور یہ خود گدی نشین ہیں-اسی طرح حضرت کی اولاد سے ایک سید غلام قاسم شاہ گیلانی ہیں-یہ اپنی گدی پر براجمان تھے-تعویزوں اور نیازوں کا کام جاری تھا-درباری خلیفہ صاحب اپنے پاوں زمین سے اوپر لکڑی کی ایک چوکی پر رکھے ہوئے تھے-مرید حضرت کو دبانے میں مصروف تھے-- یہ مسکین خلیفہ ہے اسلئے ....: ایک دوسرے حضرت تجمل حسین شاہ صاحب تھے-یہ دربار کے مین گیٹ کے بالکل سامنے ایک برآمدے میں چارپائی پر بھاری بھرکم جسم کے ساتھ صاحب فراش تھے-حقہ شریف نوش فرما رہے تھے-ہم جب ان کے قریب گئے تو ان کا ایک خادم کہنے لگا:”یہ بھی حضرت موسی پاک شہید کی لڑی سے ہیں‘مگر چونکہ مسکین ہیں ‘اس لئے یہ خلیفہ صاحب یہاں پڑے ہیں-جب کہ وہ دوسرے امیر آدمی ہیں -“ میں اس کی بات سے سمجھ گیا کہ یہ کہنا کیا چاہتا ہے یعنی یہ کہ آپ اپنی مشکل کشائی چاہتے ہیں تو ضروری نہیں کہ حضرت وجاھت حسین کے ہاں سے ہی ہو -یہ بھی تو حضرت موسی پاک کی نسل سے ہی ہیں-لہٰذا ان سے مشکل کشائی کروا لیجئے.... اور یہ غریب بھی ہیں-لہٰذا ان کی مدد بھی کر دیجئے ! اس لئے کہ ان مشکل کشا گداوں کے ہاتھ پہ آپ نقد رکھئے اور پھر ان کی مشکل کشائی کا گھر میں جا کر ادھار کی شکل میں انتظار کیجئے ! قارئین کر ام ! واقعی مجھے ان خلفاء عظام‘ پیران طریقت ‘ خواجگان ملت ‘اقطاب زمانہ ‘کرنی والے اولیاءکرام ‘ حاجت روائی اورمشکل کشائی کر نے والے صوفیاءکرام پہ بڑا ترس آ رہا تھا کہ حکومت نے ان سے دربار چھین لیا ہے-کارخانہ آمدنی پہ قبضہ کر لیا ہے-اب یہ بے چارے مشکل کشا بے دخل ہو کر ایک کھلے لان میں حسرت و یاس کا مجسمہ بنے بیٹھے ہیں -وہ پیسے جو اندر جا رہے ہیں ‘ ان پر ہمارا حق ہے مگر یہ بے چارے مشکل کشا حکومت سے اپنا حق لینے سے قاصر ہیں - دل ہی دل میں کڑھتے رہتے ہیں‘ مگر اپنی مشکل کشائی سے قاصر ہیں -اور پھر آپس میں بھی ان بے چاروں کا یہ حال ہے کہ ایک دوسرے کو دیکھ کر نہ جانے انکے اندر کی حالت اس وقت کیا ہوتی ہے‘ جب ایک کے پاس مرید زیادہ جاتے ہیں اور دوسرا تہی دامن ہوکر دیکھ رہا ہوتا ہے ‘ اور سوچ رہا ہوتا ہے کہ کاش! یہ مرید اور مریدنی میرے پاس آتی تو میری مشکل حل ہو جاتی- قارئین کرام مگر.... یہ مشکل کشا بڑے حوصلے والے لوگ ہیں کہ اس کشمکش کے باوجود اپنے گاہکوں پہ نظریں ٹکائے ہوئے ہیں - امیدیں لگائے ہوئے ہیں کہ شاید کوئی آ جائے تو مل ملاکر ایک دوسرے کی مشکل حل کریں-....اس کے باوجود عوام کی عقلوں پر پردے پڑے ہوئے ہیں کہ جو عمر بهر ہمارے دئے ہوئے عطیات پرگزر بسر کرتے ہیں تو مرنے کے بعد چھ فٹ زمیں کے نیچے دب کر وہ ہمارے مشکل کشا کیسے بن سکتے ہیں....؟ محمد بن قاسم رحمہ اللہ کی آمد اور سونے کے ذخائر دریافت-: جب محمد بن قاسم رحمہ اللہ آٹھویں صدی کے اوائل میں اسلام کی شمع لے کر ملتان آئے تو یہاں کی ساری آبادی ہندو یا بدھ مت پر مشتمل تھی-احمد بن ابو بکر کوفی کی شہرہ آفاق کتاب ”چچ نامہ “ میں ملتان پر عربوں کے حملے اور حالات کا تفصیلی ذکر ملتا ہے-کئی واقعات کے علاوہ یہاں کے مشہور مندر کے بارے میں ایک دلچسپ حوالہ ملتا ہے- چچ نامہ کی رو سے ” جب محمد بن قاسم رحمہ اللہ نے ملتان فتح کیا تو اسے بتایا گیا کہ پرانے وقتوں میں ملتان شہر کے سردار( گدی نشین) نے ایک خزانہ دفن کیا تھا-ملتان کے مشرق میں سو گز مربع رقبے پربنایا گیا ہے مندر کے نیچے ایک کمرے میں پچاس تانبے کے مٹکے دفن تھے جو سونے سے بھرے ہوئے ہیں-اس کمرے سے اوپر ایک بت سرخ رنگ کا مندر کے اندر رکھا ہوا ہے‘تالاب کے چاروں طرف درخت ہیں-کہا جاتا ہے کہ جب محمد بن قاسم رحمہ اللہ وہاں گئے تو انہوں نے نے وہاں ایک بت دیکھا جس کی آنکھوں میں دو چمکتے ہوئے عقیق کے پتھر جڑے ہوئے تھے- انہوں نے وہاں کھدائی کرائی تو تیرہ ہزار دو سو من سونا نکالا گیا-سونے کی فراوانی کی وجہ سے عربوں نے ملتان کو بیت الذھب ( سونے کا گھر ) بھی کہا ہے-( ۴۳۳۱ء) بہر حال-:میں ابن بطوطہ اُ چ شریف سے ہوتا ہوا ملتان آیا- اس کے مشاہدات بھی دلچسپی سے خالی نہیں-عالمی شہرت یافتہ جغرافیہ دان ” ابو ریحان البیرونی “ جنہوں نے ۱۱۰۱ءکے لگ بھگ ملتان میں کچھ دن قیام کیا ‘ لکھتے ہیں کہ محمد بن قاسم رحمہ اللہ نے جب ملتان فتح کیا تو انہوں نے مندر کے قریب ایک مسجد بنوائی-لیکن جب قرامطیوں نے ملتان پر قبضہ کیا تو انہوں نے اس بت کے ٹکڑے ٹکڑے کر دئیے اور اس کے پجاریوں کو قتل کیا-قرامطیوں نے علیحدہ ایک مسجد بنوائی اور محمد بن قاسم رحمہ اللہ کی مسجد کو بنوامیہ کی یادگار سمجھ کر شہید کردیا-سلطان محمود غزنوی رحمہ اللہ نے ہندوستان پرسترہ حملے کئے-ان میں سے دو حملے ملتان پر کئے - جہاں اس زمانے میں قرامطیوں کی حکومت تھی-جو اسماعیلی ( آغاخانی ) عقائد کے حامل تھے-موجودہ لوہاری گیٹ چوک میں غزنوی نے اسماعیلیوں کا بے دریغ قتل عام کیا-یہاں تک کہ انہوں نے اپنے دونوں ہاتھوں میں دو تلواریں تھامی ہوئی تھیں اور شام کو تلواروں کے دستے پران کے ہاتھوں کی انگلیاں خون جمنے کی وجہ سے جم گئیں-تب شاہی طبیبوں نے گرم پانی ڈال کر دستے سے انگلیاں جدا کرائیں- ۵۰۰۱ءمیں قرامطیوں کاقلع قمع کرنے کے بعد محمد بن قاسم رحمہ اللہ کی تعمیر کردہ مسجد کو دوبارہ آباد کیا .....جاری ہے.. تالیف:عمران شہزاد تارڑ ڈریکٹر فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان www.deenekhanqahi-aur-deeneislam.blogspot.com

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...