Saturday 30 January 2016

اسلام اور خانقاہی نظام،91


⁠⁠⁠⁠⁠*اسلام اور خانقاہی نظام*
(گزشتہ سے منسلک قسط نمبر 91)
یہودی عقیدہ سے مشابہت تالاب اور بیری کا درخت:دربار کے سامنے ہم نے ایک تالاب دیکها! اس تالاب میں پانی پر نوٹ تیر رہے تهے،اس تالاب کے ارد گرد جنگلا تها.اس جنگلے کے ساتھ بے شمار دهاگے بندهے ہوئے تهے.لوگ اپنی حاجات لے کر یہاں  آتے  ہیں   اور آتے ہی دهاگہ باندهتے ہیں ، پیسے تالاب میں پهنکتے ہیں  اور جب ان کی حاجات پوری ہو جاتی ہیں تو دوبارہ یہاں آ کر دھاگہ کهول دیتے ہیں .اور پیسے اس تالاب میں پهینک جاتے ہیں اور اس تالاب کا پانی بطور شفاء پیا جاتا ہے.کئی لوگ اس پانی کو بوتلوں میں بهر کر بهی لے جاتے ہیں.اسی طرح دربار کے پیچھے بیری کا ایک درخت ہے، اس درخت کے نیچے مرد اور عورتیں جهولیاں اور دامن پهیلا کر بیٹھے  ہوتے ہیں ، جس کی جهولی میں پتا گر جائے وہ سمجهتا ہے مجهے بیٹی مل گئی ، جس کے دامن میں پهل لگنے کے موسم میں بیر گر گیا وہ سمجهتا ہے لڑکا مل گیا.لوگ یہاں اس مقصد کیلئے ساری ساری رات اور دن بهر بیٹھے  رہتے ہیں .ایک شخص جو یہاں اپنا دامن پهیلا کربیٹھا  تها' نہ جانے وہ کب سےبیٹھا تها.دامن جهاڑ کر اٹھ بیٹھا میں نے پوچها-! کچھ ملا کہ نہیں ؟ کہنے لگا ابهی تو کچھ  نہیں ملا .....اور پهر وہ اداس اور مرجهائے ہوئے چہرے کےساتھ سلطان باہو کی قبر کی طرف چل دیا .اب وہاں روئے گا فریاد کرے گااور پهر یہاں آ کر بیٹھ جائے گا .....بیری کے اس درخت پر بهی دهاگے بندھے ہوئے تهے.تو جس کے دامن میں کچھ نہ گرے وہ آخر کار یہاں دهاگہ باندھ کر چلا جاتا ہے.اس امید پر کوئی بیٹا یا بیٹی ہی مل جائے......غرض میں بیری کے درخت کی پوجا کے مناظر دیکھ رہا تها اور مغموم ہو رہا تها کہ یہ قوم تو یہود کے نقشے قدم پر چل نکلی ہے....مجهے جنگ حنین کے دوران پیش آنے والا واقعہ یاد آ گیا وہ واقعہ کیا تها اور سلطان باهو کے دربار پر اس درخت کے واقعہ کے ساتھ مشابہت اور مناسبت کس طرح ہے...؟ یہ اللہ کے رسولﷺ کی زبان مبارک سے سنیے-! حضرت ابو واقرلیثی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:ہم جنگ حنین کے موقع پر مقام حنین کی طرف جا رہے تهے اور ہمارا کفر کا زمانہ ابهی نیا نیا گزرا تها کہ راستے میں ایک جگہ پر بیری کا درخت آیا جسے' ذات انواط '(یعنی تلواریں یا دهاگے وغیرہ لٹکانے کی جگہ )کہا جاتا تها .مشرک لوگ اس درخت کے پاس بیٹھنا  باعث برکت خیال کرتے تهے اور اپنا اسلحہ بهی وہاں لٹکایا کرتے تهے .چنانچہ ہم نے آپ سے عرض کی:اے اللہ کے رسولﷺ-! جیسے ان مشرکوں کیلئے ذات انواط ہے.آپؐ ہمارے لئے بهی ایک  ذات انواط مقرر کر دیجئے-!یہ سن کر اللہ کے رسولﷺ نے اللہ اکبر کہا....اور فرمایا:اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! تم بالکل وہی بات کہہ رہے ہو جو یہودیوں نے سیدنا موسی علیہ السلام سے کہی تهی کہ اے موسیٰؑ ! ہمارے لئے بهی کوئی ایسا کرنی والا ، مشکل کشا بنا دیجئیے جیسے ان لوگوں کے ہیں.اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! تم بهی اگلی امتوں کے طریقوں پر چلو گے.(ترمذی:2180.مسند احمد5/ 218)قارئیں کرام! غور فرمایے! یہ بیری کا درخت اور اس پر دهاگوں وغیرہ کا باندھنا.اسے متبرک خیال کرنا، وہاں سے امیدیں لگانا، یہ یہودیوں کا چلن ہے اور مشرکوں کا لچهن ہے.جو اللہ کےرسول ﷺکے مخالف تهے اور ان میں سے جو لوگ نئے نئے مسلمان ہوئے تهے انهوں نے اپنے سابقہ چلن اور اسلام سے پوری طرح آگاہ نہ ہونے کی وجہ سے ایسا مطالبہ کیا تها.مگر غور کیجئیے ! کس سختی کے ساتھ اللہ کے رسولﷺ نے انهیں ایسا سوال کرنے سے منع کر دیا اور پهر پیش گوئی بهی کر دی کہ اس امت کے لوگ بهی پہلی امتوں یعنی یہودیوں 'عیسائیوں کے لچهن اختیار کریں گے....سو آج وہ لچهن میں اپنی آنکهوں سے   اس دربار پر دیکھ رہا ہوں.
خبر دار ! اندر جانامنع ہے....یہاں پاک بیبیاں ہیں!!
بیری کے اس درخت کے سائے میں گدی نشین خاندان کی اور بهی بہت سی قبریں ہیں .جن کی پوجا ہو رہی تهی .ان قبروں کے ساتھ ایک برآمدہ ہے 'میں اس میں چلا گیا .اس برآمدے میں ایک دروازہ تها ، جس کے سامنے پردہ لٹک رہا تها.میں اس پردے کو سرکا کر اندر داخل ہونے لگا تو اس دروازے کے ساتھ بیٹھے ہوئے ایک بزرگ نے بلند آواز سے مجهے کہا 'خبر دار! اندر جانا منع ہے ، یہاں پاک بیبیاں ہیں ....میں فورا ًپردے کو چهوڑ کر بزرگ کے پاس بیٹھ گیا اور اس سے پوچها ! کیا اندر کوئی پردہ دار خواتین ہیں ..؟ تو وہ کہنے لگا :اندر پاک بیبیوں کے مزارات ہیں .وہاں صرف عورتیں ہی جا سکتی ہیں . مرد نہیں جا سکتے .میں نے اس بزرگ سے کہا :بابا جی ! میں لاہور سے یہاں حاضر ہوا ہوں،ایک رسالے  کا ایڈیٹر ہوں  اور اس مزار کے بارے میں معلومات اس  رسالے میں لکھنا  چاہتا ہوں،چنانچہ با با نے اندر جانے کی اجازت دے دی۔۔۔۔۔
جاری ہے 

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...