Friday 1 January 2016

اسلام اور خانقاہی نظام،48

 دین خانقاہی اور دین اسلام٭*
(گزشتہ سے منسلک قسط نمبر48)
ملتان کے گردیزی گدی نشین یہ خاندان بھی کسی سے کم نہ تھا - مصنف ”سیاست کے فرعون “ میں لکھتا ہے: ”شیخ محمد یوسف نے جنگ عظیم میں انگریزوں کی مشکل وقت میں مدد کی تھی - انہیں جنگ عظیم کا اعزازی میڈل بھی دیا گیا-“1989ء تک مخدوم شیخ محمد راجو گردیزی مزاروں کے محافظ تھے-انہیں انگریز کے زمانہ میں ڈویژنل درباری اور آنریری مجسٹریٹ کی حیثیت حاصل تھی- اور وہ تیس سال تک میونسپل کمیٹی ملتان اور ڈسٹرکٹ بورڈ ملتان کے ممبر رہے- وہ 1910ء میں میونسپلٹی کی ممبر شپ سے مستعفی ہوگئے-ان کو 100روپے مالیت کی جاگیر اور سات مربے اراضی چناب کالونی میں الاٹ کی گئی-وہ 1928ءمیں فوت ہوئے-قارئین کرام ! اور اب یہ اولیاء کرام اور صوفیائے عظام کہ برصغیر میں جن کی برکت سے اسلام پھیلا ہے-انکی انگریز نوازی اور خوشامد کی وہ دستاویز ملاحظہ فرمائیں کہ جو انگریز کے ریکارڈ میں محفوظ ہیں‘ جسے 11اگست1991ءکوروزنامہ ”پاکستان “ اپنے صفحات پہ شائع کرچکا ہے اور ”سیاست کے فرعون “ میں بھی یہ دستاویز موجود ہیں - تو ذرا اس سے آگے بڑھئے اور دیکھیں کہ پیروں اور پیر زادوں کی یہ جاگیریں کس بات کا صلہ ہیں ؟ ایک ہی جواب ہے کہ یہ لوگ جو بڑے بڑے درباروں اور خانقاہوں میں جوکچھ سمیٹے بیٹھے ہیں ‘ وہ تمام تر انگریز پرستی اور انگریز نوازی کی یادگار ہے- آخر ان پیرزادوں اور سجادہ نشینوں کی زمینداریوں کو کس اصل کی بناء پر جائز تسلیم کیا جا سکتا ہے ‘جنہوں نے جنرل ڈائر کے قتل عام پر خاموشی اختیار کرلی - سرمائیکل او ڈوائیر کوسپاسنامہ پیش کیا - جنہوں نے 1857ءکی جنگ آزادی میں انگریزوں کی فتح کی دعائیں مانگیں - شاہ جارج کو ظل اللہ (اللہ کا سایہ ) کہا - مسلمان سپاہیوں کو ترکوں کے سامنے لڑائی کے لئے پیش کر دیا - پنجاب کے مشائخ علماءاور سجادہ نشینوں کی طرف سے پیش کردہ ”دعانامہ“ بطور ایڈریس پر ذرا غور کر یں - سجادہ نشینوں کی انگریز کے حضور انتہائی رذیل خوشامد سجادہ نشیوں کی طرف سے انگریز کو پیش کئے گئے سپاس نامہ میں کچھ اس طرح انگریز کو مخاطب کیا گیا - کہتے ہیں: حضور والا! ہم خدم الفقراءسجادہ نشیناں و علماء مع متعلقین شرفائے الوقت مغربی حصہ پنجاب نہایت ادب اور عجز و انکسار سے یہ ایڈریس لے کر‘ خدمت عالی میں حاضر ہوئے ہیں- اور ہمیں یقین کامل ہے کہ حضور انور جن کی ذات عالی صفات میں قدرت نے دلجوئی ذرہ نوازی اور انصاف پسند ی کوٹ کوٹ کر بھر دی ہے ہم خاکساران باوفا کے اظہار دل کو توجہ سے سماعت فرماکر ہمارے کلاہ فخر کو چار چاند لگادیں گے- سب سے پہلے ہم ایک دفعہ پھر حضور والاکو مبارک باد کہتے ہیں - جس عالمگیر اور خوفناک جنگ کا آغاز حضرت کے عہد حکومت میں ہوا ‘ اس نے حضور ہی کے زمانے میں بخیر وخوبی انجام پایا- اور یہ بابرکت و باحشمت سلطنت جس پرپہلے بھی سورج کبھی غروب نہیں ہوتا تھا اب آگے سے زیادہ مستحکم اور آگے سے زیادہ روشن اوراعلیٰ عظمت کے ساتھ جنگ سے فارغ ہوئی - جیسا کہ” شہنشاہ معظم “نے اپنی ”زبان مبارک “سے ارشا د فرمایا ہے - واقعی برطانوی تلوار اس وقت نیام میں داخل ہوگی ‘ جب دنیا کی آزادی امن وامان اور چھوٹی چھوٹی قوموں کی بہبودی مکمل طور پر حاصل ہوکر بالآخر سچائی کا بول بالا ہوگا - حضور کا زمانہ ایک نہایت نازک زمانہ تھا- اور پنجاب کی خوش قسمتی تھی کہ ان کی عنان حکومت اس زمانے میں حضور جیسے ”صاحب استقلال بیدار مغز اور عالی دماغ“ حاکم کے مضبوط ہاتھوں میں رہی- جس سے نہ صرف اندرونی امن ہی قائم رہا بلکہ حضور کی دانشمندانہ رہنمائی میں پنجاب نے اپنے ایثار و وفادار اور جانثاری کا وہ ثبوت دیا جس سے ” شمشیر سلطنت “ کا قابل فخر وعزت لقب پایا - پھر ان کا معراج صلیب احمر کی اعجاز نما دستگیری قیام امن کی تدبیر تعلیم کی ترقی سب حضور ہی کی کاوشیں ہیں اور حضور ہی ہیں جنہوں نے ہر موقعہ اور ہر وقت پنجاب کی خدمات و حقوق پر زور دیا - صرف جناب والا کو ہی ہماری بہبود مطلوب نہ تھی بلکہ صلیب احمر Red cross و تعلیم نسواں کے نیک کام میں حضور کی ہمدم و ہمراز جنابہ لیڈی اوڈ وائر صاحبہ نے جن کو ہم ”مروت کی زندہ تصویر “سمجھتے ہیں ‘ ہمارا ہاتھ بٹایا اور ہندوستانی مستورات پر احسان کر کے” ثواب دارین حاصل کیا -“ ہماری ادب سے التجا ہے کہ وہ ہمارا دلی شکریہ قبول فرمائیں- حضور انور! جس وقت ہم اپنی آزادیوں کی طرف خیال کرتے ہیں‘ جو ہمیں سلطنت برطانیہ کے طفیل ہوئیں -جب ہم ان جہازوں کو سطح سمندر پر اٹھکیلیاں کرتے دیکھتے ہیں جن کے طفیل ہمیں اس مہیب جنگ میں امن وامان حاصل رہا ہے - جب ہم تار برقی کے کرشموں پر علی گڑھ و اسلامیہ کالج لاہور و پشاور جیسے اسلامی کالجوں اور دیگر قومی درسگاہوں پر نظر ڈالتے ہیں -‘ جاری ہے.....
تالیف؛ فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...