Friday 1 January 2016

اسلام اور خانقاہی نظام،54

اسلام اور خانقاہی نظام

زیارت کرنی ہے تو سعودی عرب ج! بوسہ پیر جسے” بگھا پیر “ اور” نوواں والا پیر “ ( ناخن والا پیر) بھی کہتے ہیں - شالامار کے قریب اس کے پیر خانے پہ پہنچ کر جب میں نے دروازہ کھٹکھٹایا توا ندر سے ایک عورت نکلی اور بڑ بڑاتی ہوئی چلی گئی - دوسری دفعہ دستک دی تو پریشان بالوں والی ایک ادھیڑ عمر عورت دروازے پر آئی - میں نے اسے کہا -”حضرت کی زیارت کرنے آیا ہوں“ تووہ مجھ پر برس پڑی - میر ے چہرے میرے ‘ لباس سے شاید اس نے پہچان لیا ‘ کہ میرا سوال ابھی ختم نہ ہونے پایا تھا کہ وہ چھوٹتے ہی یوں گرجی ....”زیارت سعودی عرب جاکر کرو! یہاں کیوں آئے ہو اٹھو بھاگو یہاں سے“ اور پھر مغلظات سنانے لگی -اب عورت ذات کو کیا کہتا؟ چنانچہ میں خاموش رہا ‘ وہ اندر چلی گئی - زیارت کی قیمت: اس کے بعد میں نے اس محلے کے ایک شخص سے کہا کہ میں تو اس حضرت کی شہرت سن کر آیا ہوں مگر یہ عورت اندر نہیں جانے دیتی‘ لہٰذا اب کیا کیا جائے -؟ انہوں نے کہا کہ یہاں قریب ہی ایک ڈاکٹر ہے -وہ اکثر اس بزرگ کے پاس بیٹھتا ہے - اس سے کہہ کر ملاقات کر لو -چنانچہ میں نے اس سے مل کر بابا جی سے ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا تو رد عمل میں اس نے اپنی خواہشوں کا اظہار شروع کردیا-چنانچہ اگلے دن کے وعدے پر پھر وہاں پہنچا -اب وہ اس عورت سے میرے لئے بابا کی ایک جھلک دیکھنے کے لئے اجازت طلب کرتا رہا مگر ناکام رہا اور کہنے لگا: مائی کہتی ہے‘ پانچ سو روپیہ نذرانہ دو‘ تب ملاقات ہوسکتی ہے- میں نے کہا:میرے پاس تو اتنے پیسے نہیں ہیں -بہرحال ویسے ہی کوشش کرو - پی پی کی بیگم ریحانہ سرور اور بوسہ پیر: تب ڈاکٹر کے پاس بیٹھی ایک بوڑھی مریضہ کہنے لگی: بیٹا بانچ سو کی کیا بات ہے‘ یہاں تو لوگ ہزاروں روپے نذرانہ دے جاتے ہیں ‘ عورتیں زیورات لے کر آتی ہیں - بیگم ریحانہ سرور تو روزانہ یہاں آ کر حاضری دیتی ہے ‘اور کہتی ہے: مجھے جو کچھ ملا ہے اس بابا جی سے ہی ملا ہے- چنانچہ میں باہر نکلا تو بیگم ریحانہ سرور بھی اپنی گاڑی پر بابا جی کے لئے نذریں نیازیں لے کر پہنچ چکی تھی- میں نے اب ڈاکٹر سے کہا کہ اب میں کل یعنی 28فروری کو یہاں آوں گا - چنانچہ میں اس روز پھر وہاں پہنچا - بھائی جمال دین کو کہا کہ گاڑی زرا دور ہی کھڑی کر دو‘ کہیں مائی غصے میں آ کر گاڑی کا شیشہ ہی نہ توڑ دے ‘ کیونکہ یہاں کے لوگ کہتے ہیں کہ بھئی یہاں تو بڑے بڑے آفیسرز ‘ ممبران اسمبلی اور دیگر مالدار لوگ کاروں پر آتے ہیں - مائی گالیاں دیتی ہے - کئی لوگوں کو ڈنڈے بھی مارتی ہے ‘ مگر لوگ یہ سب کچھ برداشت کرتے ہیں ‘ یہ سمجھ کر کہ انہی گالیوں اورڈنڈوں سے ہی تو ہمارا کام سنورے گا- بہرحال ....آج میں ڈاکٹر کے وسیلے کے بغیر ہی سیدھا اندر چلا گیا-چنانچہ سیدھا اندر گیا تو آج وہ مائی گالیاں دینے والی اور ڈنڈے برسانے والی موجود نہ تھی -اور بابا نوواں والا الف ننگا اپنی حویلی میں گشت کر رہا تھا - میں نے دروازے میں ہو کر بھائی جمال کو بھی بلا لیا- تھوڑی دیر گزری تھی کہ بیگم ریحانہ سرور جو کہ بے نظیر بھٹو کی کابینہ میں وفاقی وزیر رہ چکی ہے‘ طرح طرح کی چیزیں بابا جی کے لئے اٹھائے پہنچ چکی تھی- وہاں ایک دوسری نوجوان عورت بھی تھی- اس نے ہمارا چہرہ دیکھ کر اور ہمارے تعجب کو دیکھ کر باہر نکلنے کو کہا - چنانچہ ہم باہر نکل آئے اور سو چ رہے تھے کہ یا اللہ اس ملک میں اس قدر جہالت ہے کہ جواپنی آخری حدوں کو بھی پھلانگ چکی ہے - اس ملک میں یہ ایک ننگا بابا نہیں کہ جس کی پوجا ہو رہی ہے بلکہ بے شمار ہیں - نہ جانے ان میں کتنے جاسوس ہیں اور کتنے قاتل اور اشتہاری ہیں کہ جو اپنا روپ تبدیل کئے یکدم ولایت کی آخری منزل کو چھو چکے ہیں‘ کیونکہ صوفیوں کی دنیا میں الف ننگا ہونا ولایت کی آخری منزلوں میں سے ایک ہے‘ جسے” مجذوب ولی“ کہاجاتا ہے- 1965ءاور 71کی جنگوں میں سے ایسے کئی مجذوب ولی گرفتار بھی ہوئے کہ جو ہندو کے جاسوس ثابت ہوئے -اور افسوس کی بات تو یہ ہے کہ یہ پاگل ‘ جاسوس اور مجرم جب مرتے ہیں تو پھر عالیشان مقبرے بنتے ہیں اور پھر عرسوں کی صورت میں پوجا کا وہ دھندا شروع ہوتا ہے کہ جسے دیکھ کر یہ الفاظ بے ساختہ منہ سے نکلتے ہیں ! ”یہ مسلمان ہیں کہ جنہیں دیکھ کر شرمائیں یہود “ جاری ہے.....
بشکریہ
www.ficpk.blogspot.com

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...