Sunday 10 January 2016

اسلام اور خانقاہی نظام،72


اسلام اور خانقاہی نظام

اس مزار پر ایک انوکهی چیز بہشتی دروازہ ہے.جس کے متعلق مشہور ہے، کہ جو اس دروازے میں سے ایک بار گزر گیا وہ جنتی ہو گیا ، یہ دروازہ سارا سال بند رکها جاتا ہے اور صرف عرص کے موقع پر ہی کهولا جاتا ہے.2001ء میں یہ بہشتی دروازہ ہر کس و ناکس کی توجہ کا مرکز بن گیا، عرس کے افتتاح کے موقع پر حسب سابق اس دروازے کو مقررہ وقت پر کهولنے میں تاخیر ہو گئی .جونہی یہ دروازہ کهلا ہجوم اس تیزی سے امڈا کہ اس میں بہت سے لوگ کچلے گئے 40 سے زائد ہلاک اور 100سے زائد زخمی ہوئے،اب یہ حضرات جنت میں گئے یا جہنم میں واللہ اعلم.بہر حال-! آپ ﷺ نے دنیا میں کسی ایسے بہشتی دروازے کی نشاندہی نہ فرمائی کہ اس سے گزر کر انسان بہشتی بن جاتا ہے ماسوائے آپ کی اطاعات کے...
ایک اعتراض یہ کیا جا سکتا ہے ہے کہ بیت اللہ 'مسجد نبوی میں جانے سے بہشت نہیں ملتی کیا..؟ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ سب جگہیں وہ ہیں جن کی فضیلت کے بارے میں آپ ﷺ کے ارشادات موجود ہیں .ان مذکورہ مقامات کے اس قدر فضائل کے باوجود جو قرآن و احادیث میں وارد ہوئے  ہیں، ان کے کسی دروازے کو بہشتی دروازہ نہیں کہا گیا ، تو پاکپتن کے دربار کا دروازہ کیسے بہشتی بن گیا...؟ جنت کے حصول کا ایک آسان طریقہ یہ ہے کہ آدمی اللہ تعالی اور اس کے رسول کی اطاعت اختیار کرے، یہ  طریقہ سب کو بهاتا نہیں اس لئے مصنوعی طریقے  اختیار کئے جاتے ہیں، کہ فلاں دروازے سے گزر جائے فلاں مزار پر حاضری دے آئے وغیرہ تو آدمی جنتی ہو جائے گا.یہ سب طریقے اللہ تعالی اور اس کے رسول ﷺ کے بتائے ہوئے نہیں ہیں اور نہ ہی یہ من گهڑت طریقے کسی کو جنت میں لے جا سکتے ہیں.کیونکہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:ہر وہ کام جس پر ہمارا حکم نہیں ہے وہ مردود ہے......
یہ درباروں والے اپنے سمیت کسی کے بهی نفع و نقصان کے ذرہ بهر مالک نہیں اگر ان کے ہاتھ  میں اپنا یا کسی اور کا نفع و نقصان ہوتا تو کم از کم خود نہ مرتے اور نہ ہی ان کے دربار بنائے جاتے.اگر ڈوبی ہوئی کشتیوں کو دوبارہ زندہ کرنا یا بے اولادوں کو اولاد دینا ان کے اختیار میں ہوتا تو کم ازکم ان کے درباروں پر آتی جاتی کشتیاں تو نہ ڈوبتی.اور نہ ہی بعض بے اولاد ہوتے.اگر بسوں ٹرکوں کی سلامتی ان کے ہاتھ میں ہوتی تو کم ازکم ان کے درباروں پر سلامی کیلئے آتی جاتی بسیں اور ٹرک حادثات کا شکار نہ ہوتے. اگر اولادیں ان درباروں پر حاضری سے ملتی ہوتیں تو مختلف حادثات کے ذریعے جانیں ضائع نہ ہوتیں .سینکڑوں بچے یتیم نہ ہوتے 'عورتیں بیوہ نہ ہوتیں، اور کئی گهرانے صدمات سے دوچار نہ ہوتے.اگر ان درباروں ' پر حاضری سے قبروں کی زیارت کر کے فکر آخرت اور موت کی فکر پیدا کرنا مقصود ہے تو عرض ہے یہ جذبہ اچها ہے .لیکن بجلی کے قمقموں سے روشن جهنڈیوں سے مزین' سنگ مر مر سے آراستہ' قیمتی چادروں اور پهولوں سے لدی قبریں' اونچے اونچے وسیع و عریض درباروں سے موت کی یاد اور فکر آخرت پیدا نہیں ہوتی .موت کی یاد اور فکر آخرت تو سنت کے مطابق بنی ہوئی کچی اور سادہ قبروں سے پیدا ہوتی ہے.جن سے انسان کی بے بسی اور دنیا کی بے ثباتی ظاہر ہوتی ہے.ان درباروں پر صرف کردہ کثیر مال اور ان کی چمک دمک کو دیکھ کر تو غریب کے منہ سے یہ آہ نکلتی ہے "ہم کو تو میسر نہیں مٹی کا دیا بهی، گهر پیر کا بجلی کے چراغوں سے ہے روشن"حقیقیت یہ ہے کہ ان مزاروں پر حاضری دینے والوں کی اکثریت بالواسطہ یا بلا واسطہ کسی نہ کسی نفع کی امید 'خیر و برکت کے حصول'کسی نہ کسی مشکل کے حل یا نقصان سے بچاو کیلئے آتے ہیں.اس طرح کے اغراض و مقاصد لے کر آنے والوں کو ہی رسول اللہﷺ نے فرمایا:اللہ تعالی یہودو نصاری پر لعنت کرے انہوں نے اپنے نبیوں کی قبروں کو عبادت گاہ بنا لیا (متفق علیہ)
جاری ہے
بشکریہ فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان
www.ficpk.blogspot.com

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...