Sunday 10 January 2016

اسلام اور خانقاہی نظام،74


اسلام اور خانقاہی نظام

        رہا  یہ سوال کہ پهرمزاروں پر حاضری دینے سے اللہ تعالیٰ مشکل حل کیوں کرتا ہے، یہ حقیقیت میں ایمان کا امتحان ہے اور گمراہ ہونے والے کی رسی کو ڈهیلا کرنے والی بات ہے.اللہ تعالیٰ انهیں سر کشی میں کهلا چهوڑ دیتا ہے اور وہ سرگرداں رہتے ہیں.اس کو اگر مثال کے ساتھ سمجھنا  ہو تو حضرت  خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کا واقعہ بڑی واضح دلیل ہے:جب وہ نبی اکرم ﷺکے حکم سے طائف کے مشہور آستانے 'عزیٰ'کو گرا کر اور اس کے تین درختوں کو کاٹ کر واپس آئے تو نبی اکرم ﷺنے فرمایا:اے خالد دوبارہ جاؤتم ابهی تک کچھ بهی نہیں کر کے آئے ، حضرت خالد رضی اللہ عنہ تلوار لے کر دوبارہ گئے تو آستانے کی جگہ پر حضرت خالد رضی اللہ عنہ  نے برہنہ اور بکهرے ہوئے بالوں والی عورت دیکهی جو اپنے سر پر مٹی ڈال رہی تهی تو حضرت خالد رضی اللہ عنہ نے تلوار کی ضرب سے اس کے دو ٹکڑے کر دئے ، پهر نبی اکرم ﷺکو آ کر یہ وا قعہ بتلایا تو آپؐ نے فرمایا:یہ عورت (شیطان)عزیٰ تهی ، جو لوگوں کی مرادیں پوری کرتی تهی (تفسیر ابن کثیر)معلوم ہوا کہ مزاروں پر چونکہ لوگ غیر اللہ کو سجدہ کر کے شرک کرتے ہیں ،لہٰذا ایسے شرک کے اڈوں پر شیاطین ڈیرہ ڈال لیتے ہیں اور آنے جانے والوں کی بعض مرادوں کو پورا کر دیتے ہیں، جس سے ضرورت مند کا اعتقاد پختہ ہو جاتا ہے کہ یہاں پر حاضری کی وجہ سے میرا مسئلہ حل ہوا ہے جبکہ یہ مسئلہ اس آدمی کے شرک کی وجہ سے شیطان نے حل کیا ہوتا ہے.بعض دفعہ شیطان خود بهی کوئی کوئی تکلیف پہنچاتا ہے جس کا آدمی ڈاکٹروں سے علاج کرواتا ہے تو کامیاب نہیں ہوتا پهر درباروں پر جا کر شرک کرتا ہے تو شیطان چهوڑ دیتا ہے جس سے آدمی ہمیشہ کیلئے شرک میں مبتلا ہو جاتا ہے.اور اللہ کی طرف سے ہر بیماری کی شفاء اور مشکل کے حل کا ایک وقت مقرر ہوتا ہے، مزاروں پر منتیں مانگنے والے یہی سمجهتے ہیں کہ ہمیں شفاء اور ہماری مشکلات کا حل مزاروں پر حاضری دینے یا منت مانگنے سے ہوا ہے، اس طرح وہ ایک شرک اکبر میں مبتلا ہو جاتے ہیں.قارئین کرام آپ ذرا خود سوچیں !جو مزاروں پر حاضریاں اور منتیں نہیں مانگتے کیا وہ بھوکے سوتے ہیں؟'یا وہ بے اولاد مرتے ہیں؟یا وہ شفاء نہیں پاتے؟ یا وہ اپنی ضروریات زندگی پوری کرنے سے قاصر رہتے ہیں.یقینا سب کچھ انهیں دوسروں کی طرح میسر ہوتا ہے.جب مزاروں پر حاضریاں دینے اور نہ دینے والوں میں کوئی خاص فرق نمایاں نہیں' تو پهر کیوں اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے ساتھ اس کی کمزور مخلوق کو شریک ٹهہرا کر اپنی آخرت برباد کریں.۔۔۔
        بہر حال-! میں نے اپنے ایک دوست سے کہا کہ مزاروں پر جا کر مانگنا شرک ہے یعنی گناہ کبیرا ہے تو وہ مجهے کہنے لگا  !جب میں فلاں کے مزار پر جاتا ہوں اور ٹکٹکی باندھ کر مزار کی طرف دیکھتا ہوں تو میرا صاحبِ مزار سے براہ راست رابطہ ہو جاتا ہے اور ایسے میں میری مانگی گئی دعائیں قبول ہو جاتی ہیں۔ اور مزار پر بہت سے دیگر لوگوں نے بھی اس عمل کی تصدیق کی ہے کہ ان کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوتا ہے۔میں نے کہا کہ کیا آپ کے قرب و جوار میں کوئی مندر ہے تو آپ اس مندر میں چلے جائیں اور یہی عمل یعنی ٹکٹکی باندھ کر کسی بھی بُت یا دیوی کو دیکھتے رہئے۔ کچھ ہی دیر میں آپ کا دیوی سے ذہنی رابطہ قائم ہوجائے گا، پھر اسی لمحہ کچھ مانگ کر دیکھئے۔ یقیناً آپ کی مانگ پوری ہوگی۔حیرت سے کہنے لگے کیا مطلب...؟ میں نے کہا ایک مرتبہ مانگ کر دیکھ لیجئے۔ آخر اس بر صغیر میں ایک ارب سے زائد لوگ مندروں میں مانگتے ہیں۔ آخر ان کی مرادیں پوری ہوتی ہیں کہ نہیں.... اگر نہیں ہوتی تو آج وہاں کوئی بھی نہ جاتا۔ آپ بھی جاکر اور مانگ کر دیکھئے۔ کسی مزار یا مندر میں مانگنے پر مل جانے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ان سے مانگنا اسلامی شریعت میں جائز ہے۔ دینے والا تو اللہ ہے جو کافروں کو بھی دیتا ہے اور مشرکوں کو بھی۔ اگر وہ کافروں اور مشرکوں کو ان کے کفریہ و شرکیہ اعمال کی بدولت دینا بند کردے تو دوسرے ہی دن سارے مشرک و کافر مسلمان ہوجائیں گے۔ لیکن پھر یہ امتحان نہ ہوگا کہ یہ دنیا تو دارالامتحان ہے.....۔
        حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی بیوی سیدہ زینب کی آنکھ میں درد ہوتا تو وہ ایک یہودی سے دم کرواتیں تو تندرست ہو جاتیں' حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ کو پتہ چلا تو انہوں نے فرمایا یہ شیطان کی کارستانی ہے جب تو یہودی سے دم کرواتی ہے تو وہ آنکھ کو تکلیف نہیں پہنچاتا جب تو دم کروانا چهوڑ دیتی ہے تو وہ آنکھ کو چهو کر درد پیدا کر دیتا ہے.لہٰذا یہودی سے دم کروانے کی بجائے تو مسنون دم کروا.غور طلب بات ہے کہ جب ایک صحابیہ کو شیطان کی طرف سے  تکلیف پہنچ سکتی ہے اور یہودی سے دم کروانے سے آرام آ سکتا ہے ، حالانکہ ان کا ایمان بڑا مضبوط تها تو آج شیطان آرام سے   تو نہیں بیٹھ سکتا...'وہ لوگوں کو گمراہ کرنے میں لگا ہوا ہے.لہذا جو مسلمان شرک کا ارتکاب کر کے یہ سمجهتے رہے ہیں کہ فلاں  زیارت یا فلاں منت سے شفاء یا مشکل حل ہوئی ہے تو انہیں سچی توبہ کر کے اپنے عقیدے کی اصلاح کر لینی چاہئیے کہیں یہ نہ ہو کہ چهوٹی سی مشکل حل کروانے کی خاطر ایمان سے ہاتھ دهو بیٹھیں .کسی جگہ سے مراد کا پورا ہو جانا یہ اس کے مقدس اور برکت ہونے کی دلیل نہیں'کتنے لوگ ہیں جو اپنے مخالفین پر جادو کر کے انہیں نقصان پہنچاتے اور اپنا مقصد حل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو کیا جادو مقدس عمل کہلائے گا..؟ بیشک جادو سے کوئی مشکل حل ہو جائے یا مراد پوری ہو جائے 'پهر بهی اسے سیکهنا 'سکهانا'کرنا'کروانا صریحا کفر ہے.لوگوں کے حسن ظن 'اعتقاد یا عمل سے کوئی حرام حلال اور کفر ایمان نہیں بن سکتا .اور بہت سارے لوگ چونکہ عقیدے کی اہمیت سے نا واقف ہیں 'توحید اور شرک میں تمیز کرنے سے قاصر ہیں.لہذا ان کے ہاں اللہ تعالی سے مانگنا یا غیر اللہ سے مانگنا برابر ہے ، بلکہ غیر اللہ سے ان کی وابستگی اللہ تعالیٰ سے بهی زیادہ ہوتی ہے .عوام الناس جس قدر کثیر تعداد میں کسب فیض یا مشکلات کے حل کیلئے مزاروں پر حاضری دیتے ہیں اتنے بڑے مسئلے کی دلیل تو قرآن مجید میں واضح الفاظ میں ہونی چاہیئے تهی .مگر پورے قرآن میں کوئی ایک آیت بهی قبروں سے کسب فیض کے متعلق نہیں دکهائی جا سکتی تو پهر اس کا ماخذ کیا ہے یہ ان لوگوں کے سوچنے کی بات ہے جو قبروں کے متعلق غیر شرعی اعتقاد رکهتے ہیں.اللہ رب العزت قرآن مجید ارشاد فرماتا ہے :الَّذِينَ آمَنُوا وَلَمْ يَلْبِسُوا إِيمَانَهُمْ بِظُلْمٍ أُولَٰئِكَ لَهُمُ الْأَمْنُ وَهُمْ مُهْتَدُونَ،ترجمہ:جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے اپنے ایمان میں شرک نہیں ملایا انہیں کے لیے امن ہے اور وہی راہ راست پر ہیں۔(سورۃ الانعام:82)
        جاری ہے.......
        بشکریہ فاطمہ اسلامک سنٹر پاکستان
        www.ficpk.blogspot.com
        www.deenekhanqahi-aur-deeneislam.blogspot.com

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...