*اسلام اور خانقاہی نظام*
(گزشتہ سے منسلک قسط نمبر88)
محبت فقیر:
نماز پڑھنے کے کے لئے ایک مسجد تلاش کی جو ویران پڑی ہوئی تھی۔ مسجد سے کچھ فاصلے پر محبت فقیر صاحب کا مزار تھا۔ یہ صاحب مشہور روایات کے مطابق نورانی بابا کے خاص مرید اور خادم تھے۔اور آپ بابا کے پاس آنے والے زائرین کی خاص خدمت کرتے تھے۔ چنانچہ آپ کا مزار زائرین کے لئے پہلی سلامی کا مقام سمجھا جاتا ہے۔رات گذارنے کے لئے ایک ہوٹل کا قصد کیا ۔وہاں ہوٹل کی چھت چھپراور فرش چٹائیوں کا بنا ہو تھا اور ان ہوٹلوں کا معمولی سا کرایہ تها۔ بہر حال سامان رکھ کر ہم چاروں دوست باہر چہل قدمی کیلئے نکلے۔ اور چہل قدمی کے بعد ہم واپس اپنے ہوٹل میں آئے تو کچھ حضرات تاش کی بازی جمائے بیٹھے تهے تو کچھ گپ شپ میں مصروف تهے..۔رات کافی ہو چکی تهی ہم سو گئے اور جب صبح آنکھ کھلی تو دنیا بدل چکی تھی۔ارد د گرد عظیم الشان پہاڑ ، دیو ہیکل دراڑیں، ایستادہ پتھر اور غاریں خدا کی صناعی کا اظہار کر رہی تھیں۔یہ سب مل کر اس ماحول میں بھی اپنے رب کی پاکی بیان کر رہے تھے کہ اللہ پاک ہے اس بات سے کہ کوئی اس کا شریک ہو، ساجھی ہو، مددگار ہو۔
اور مقامی لوگوں کو بھی اجالے میں دیکھنے کا اتفاق ہوا ..
حضرت نورانی شاہ کا مزارمحبت فقیر کے ڈیرے سے اگلی منزل نورانی شاہ بابا کا مزار تھا۔ مزار تک پہنچنے کے کئی طریقے تھے ۔ایک اونٹ کی سواری، دوسر جیپ کی سواری اور تیسرا پیدل مارچ۔ ۔ بہرحال ہم سب اپنی دانست میں جوان ہی تھے لہٰذا پیدل ہی کا قصد کیا۔قریب ایک گھنٹے کے سفر کے بعد ایک جگہ پہنچے جو “علی کا قدم ” کے نام سے مشہور ہے۔یہاں ایک بڑا سا قدم بنا ہے جسکے بارے میں مشہور ہے کہ یہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا قدم ہے۔کچھ اور آگے بڑھے تو ایک درگاہ نما جگہ پر بڑا سا پتھر رکھا دیکھا جس میں شگاف تھا۔ دریافت کرنے پر لوگوں نے بتایا کہ نورانی بابا نے اس پتھر پر اپنی مسواک ماری تھی جس کی وجہ سے یہ ٹوٹ گیا۔یہ سب سن کر شاہنواز نے کہا ” زمانہ قدیم سے لے کر آج تک بگڑے ہوئے مذہبی لوگوں نے عوام کو انہی مافوق الفطرت داستانوں سے بے وقوف بنایا اور ان کا استحصال کیا ہے”۔ایک چشمہ بھی راستے میں آیا لیکن اس کا پانی کثرت استعمال کی بنا پر گدلا ہو چکا تھا۔ اس سے علم ہوا کہ محض عقیدت سے کام نہیں چلتا، دنیا میں ترقی کیلئے مادی قوانین کو بروئے کار لانا لازم ہے۔ بالآخر مزار آ ہی گیا۔ مزار چاروں اطراف پہاڑوں سے گھرا ہوا تھا۔اسکے دروازے کے باہر بڑی تعداد میں پھول اور چادر بیچنے والوں کی دوکانیں تهیں۔ اس مزار کا منظر کچھ یوں ہے کہ اردگرد صوفیانہ کلام گانے والے بیٹھے ہیں۔ ایک جگہ دھمال کے لئے مختص کر دی گئی ہے۔ستار پر ایک لوک دھن سنائی جارہی ہے ۔ کچھ ہی دور ایک ملنگ اپنے ہاتھ میں رسی باندھ کر بیٹھا خلائوں میں گھور رہا ہے۔یہ رسی اس بات کی علامت ہے کہ وہ نورانی بابا کا غلام ہے۔بہر حال میں اور سلمان مزار کے اندر داخل ہوئے۔ قبر ایک سبز رنگ کی چادر میں لپٹی ہوئی تھی اور اسکے سرہانے پر ایک تاج موجود تھا جبکہ کتبے پر ایک براون رنگ کا عمامہ باندھ دیا گیا تھا۔ اندر کا منظر عام مزاروں جیسا ہی تھا۔ کچھ عورتیں جالیوں سے لپٹی رو رہی تھیں۔قبر کے ارد گرد چند مرد زائرین قبر کو بوسہ دے رہے تھے۔اور کچھ لوگ گم سم کهڑے تهےاور کچھ دعاوں میں محو تهے....
پریوں کا تالاب :
مزار سے اگلی منزل کے لئے روانہ ہوئے۔ ہمارا اگلا پڑائو “لاہوت لامکاں “تھا لیکن اس سے پہلےابھی کئی طلسماتی کہانیوں سے گذرنا تھا۔انہی میں سے ایک داستان پریوں کا تالاب تھا جہاں ہم ایک گھنٹے کی مسافت کے بعد پہنچ چکے تھے۔چاروں طرف پہاڑوں میں گھری ایک چھوٹی سی وادی تھی جس کے بیچوں بیچ ایک چشمہ ابل رہا تھا۔پانی نسبتا شفاف تھا۔اردگرد تھوڑا بہت سبزہ بھی تھا جس سے تالاب کافی خوبصورت معلوم ہونے ہی والا تھا کہ اچانک پریوں کے تالاب پر ایک شریر جن کی کارستانی نظر آئی جو یہاں پر غلاظت ڈال کر فرار ہوگیا تھا۔سامنے پہاڑ پر قریب پندرہ فٹ کی بلندی پر ایک غار دکھائی دیا۔ لوگوں نے بتایا کہ یہ لطیف جی کی کھوئی کے نام سے مشہور ہے اور روایات کے مطابق شاہ عبدالطیف بھٹائی نے یہاں بیٹھ کر چلہ کشی کی تھی۔ سلمان ، سیماب اور شاہنواز نے اس غار میں داخل ہونے کا ارادہ کیا۔ پہلے شاہنواز اوپر چڑھا اور اندر کچھ پتھر پھینکے تاکہ کوئی جانور اندر ہو تو وہ باہر آ جائے ۔جب کوئی خطرہ محسوس نہ ہوا تو وہ اندر داخل ہو گیا۔ اسی کی تقلید میں دیگر ساتھی بھی پہنچ گئے۔ غار کوئی چھ فٹ لمبا اور چار فٹ اونچا تھا۔وہاں لکڑیاں جلی ہوئی پڑی تھیں جو اس بات کی علامت تھی کہ کسی نے یہاں کھانا پکانے کی کوشش کی ہے۔کچھ دیر بعد وہاں سے واپس آئے تو ایک عجیب و غریب شخص نظر آیا۔ اس نےاحرام باندھا ہوا تھا اور ساتھ ہی وہ برہنہ بھی تھا۔لوگوں نے بتایا کہ کچھ لوگ جنہیں “ذکری “کہا جاتا ہے وہ اس مقام پر حج کرنے آتے ہیں۔ اسے دیکھ کر بہت افسوس ہوا ۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو ایک سیدھا راستہ اور واضح شریعت عطا کی لیکن انسان ہے کہ اللہ کے بنائے ہوئے دین کے مزید ایڈیشن نکالنے میں مصروف ہے۔اس کی بنیادی وجہ خواہشات کی پیروی اور شارٹ کٹ کی تلاش ہے۔بہر حال یہ بدعت حج کو مکہ سے اٹھا کر بلوچستان لے آئی تھی۔دھوپ خاصی تیز تھی اور آنتیں بھوک سے تڑپ رہی تھیں، لیکن سفر لمبا اور دشوار تھا چنانچہ چند بسکٹ اور پانی پر ہی گذارا کیا۔
لاہوت لامکاں جانے کے لئے ہمیں مائی جو گوٹھ سے گذرنا تھا۔وہاں پہنچنے کے دو رستے تھے ایک تو پیچھے پلٹ کر مزید ایک گھنٹے کی مسافت طے کرکے منزل تک پہنچنا تھا ۔ دوسرا راستہ شارٹ کٹ مگر پرخطر تھا کیونکہ اس کو طے کرنے کے لئے ایک بلند اور پر خطر پہاڑ پر چڑ ھ کر دوسری سمت اترنا تھا۔ ہمارے گروپ لیڈر سلمان نے بد قسمتی سےشارٹ کٹ راستہ اختیار کرلیا۔مقامی لوگوں نے بتا دیا تھا کہ صحیح راہ پر قائم رہنے کے لئے چونے کے نشان زدہ پتھروں والی پگڈنڈی پر چلنا ضروری ہے۔اللہ کا نام لے کر چلنا شروع کیا ۔ پہاڑ توقع سے زیادہ عمودی اور مشکل ثابت ہوا۔ چنانچہ ہم لوگ ہر دو قدم بعد رکتے، سانس بحال کرتے اور پھر سفر شروع کرتے۔جوں جوں ہم اوپر پہنچے تو حبس بڑھتا گیا اور سانس لینا دشوار ہوگیا۔جب اوپر چوٹی پر نظر ڈالتے تو معلوم ہوتا کہ ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں۔اور جب نیچے نگاہ کرتے تو واپسی کی راہیں مسدود نظر آتیں۔ مجھے خیال آیا کہ ایک بندہ مومن کی زندگی بھی پہاڑ کی چڑھائی کے مانند ہے جس میں شیطانی اور نفسانی محرکات کو شکست دیتے ہوئے رب کی رضا کی طرف بڑھنا اور دشواری کی صورت میں گناہوں کی زندگی میں لوٹنے سے گریز کرنا ناگزیر ہے۔بہرحال یونہی رک رک کر چلتے ہوئے چوٹی تک پہنچ ہی گئے۔ وہاں ایک تازہ ہوا کے جھونکے نے ہمارا استقبال کیا۔اب ہم نے جوش کے عالم میں اترنا شروع کیا لیکن جب دامن تک پہنچے تو دیکھا کہ ایک اور پہاڑ منہ کھولے ہمارا استقبال کر رہا ہے۔ چاروناچار اس کو بھی پار کیا تو ایک کھائی منتظر تھی۔مرتا کیا نہ کرتا کی مصداق اسے بھی کراس کیا اور بالآخر تین گھنٹے سے زائد یہ مسافت ایک پہاڑ کی چوٹی پر اختتام پذیر ہوئی جس کے دوسری جانب مائی جو گوٹھ نظر آرہا تھا۔مجھے یہ محسوس ہوا کہ شاید یہ زندگی بھی کچھ ایسا ہی پرخطر اور پیچیدہ راستوں سے بھرا سفر ہے اور اس کی کامیابی کا راز ہمت ہار بیٹھنا نہیں بلکہ چلتے رہنا ہے۔
جاری ہے...
(گزشتہ سے منسلک قسط نمبر88)
محبت فقیر:
نماز پڑھنے کے کے لئے ایک مسجد تلاش کی جو ویران پڑی ہوئی تھی۔ مسجد سے کچھ فاصلے پر محبت فقیر صاحب کا مزار تھا۔ یہ صاحب مشہور روایات کے مطابق نورانی بابا کے خاص مرید اور خادم تھے۔اور آپ بابا کے پاس آنے والے زائرین کی خاص خدمت کرتے تھے۔ چنانچہ آپ کا مزار زائرین کے لئے پہلی سلامی کا مقام سمجھا جاتا ہے۔رات گذارنے کے لئے ایک ہوٹل کا قصد کیا ۔وہاں ہوٹل کی چھت چھپراور فرش چٹائیوں کا بنا ہو تھا اور ان ہوٹلوں کا معمولی سا کرایہ تها۔ بہر حال سامان رکھ کر ہم چاروں دوست باہر چہل قدمی کیلئے نکلے۔ اور چہل قدمی کے بعد ہم واپس اپنے ہوٹل میں آئے تو کچھ حضرات تاش کی بازی جمائے بیٹھے تهے تو کچھ گپ شپ میں مصروف تهے..۔رات کافی ہو چکی تهی ہم سو گئے اور جب صبح آنکھ کھلی تو دنیا بدل چکی تھی۔ارد د گرد عظیم الشان پہاڑ ، دیو ہیکل دراڑیں، ایستادہ پتھر اور غاریں خدا کی صناعی کا اظہار کر رہی تھیں۔یہ سب مل کر اس ماحول میں بھی اپنے رب کی پاکی بیان کر رہے تھے کہ اللہ پاک ہے اس بات سے کہ کوئی اس کا شریک ہو، ساجھی ہو، مددگار ہو۔
اور مقامی لوگوں کو بھی اجالے میں دیکھنے کا اتفاق ہوا ..
حضرت نورانی شاہ کا مزارمحبت فقیر کے ڈیرے سے اگلی منزل نورانی شاہ بابا کا مزار تھا۔ مزار تک پہنچنے کے کئی طریقے تھے ۔ایک اونٹ کی سواری، دوسر جیپ کی سواری اور تیسرا پیدل مارچ۔ ۔ بہرحال ہم سب اپنی دانست میں جوان ہی تھے لہٰذا پیدل ہی کا قصد کیا۔قریب ایک گھنٹے کے سفر کے بعد ایک جگہ پہنچے جو “علی کا قدم ” کے نام سے مشہور ہے۔یہاں ایک بڑا سا قدم بنا ہے جسکے بارے میں مشہور ہے کہ یہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا قدم ہے۔کچھ اور آگے بڑھے تو ایک درگاہ نما جگہ پر بڑا سا پتھر رکھا دیکھا جس میں شگاف تھا۔ دریافت کرنے پر لوگوں نے بتایا کہ نورانی بابا نے اس پتھر پر اپنی مسواک ماری تھی جس کی وجہ سے یہ ٹوٹ گیا۔یہ سب سن کر شاہنواز نے کہا ” زمانہ قدیم سے لے کر آج تک بگڑے ہوئے مذہبی لوگوں نے عوام کو انہی مافوق الفطرت داستانوں سے بے وقوف بنایا اور ان کا استحصال کیا ہے”۔ایک چشمہ بھی راستے میں آیا لیکن اس کا پانی کثرت استعمال کی بنا پر گدلا ہو چکا تھا۔ اس سے علم ہوا کہ محض عقیدت سے کام نہیں چلتا، دنیا میں ترقی کیلئے مادی قوانین کو بروئے کار لانا لازم ہے۔ بالآخر مزار آ ہی گیا۔ مزار چاروں اطراف پہاڑوں سے گھرا ہوا تھا۔اسکے دروازے کے باہر بڑی تعداد میں پھول اور چادر بیچنے والوں کی دوکانیں تهیں۔ اس مزار کا منظر کچھ یوں ہے کہ اردگرد صوفیانہ کلام گانے والے بیٹھے ہیں۔ ایک جگہ دھمال کے لئے مختص کر دی گئی ہے۔ستار پر ایک لوک دھن سنائی جارہی ہے ۔ کچھ ہی دور ایک ملنگ اپنے ہاتھ میں رسی باندھ کر بیٹھا خلائوں میں گھور رہا ہے۔یہ رسی اس بات کی علامت ہے کہ وہ نورانی بابا کا غلام ہے۔بہر حال میں اور سلمان مزار کے اندر داخل ہوئے۔ قبر ایک سبز رنگ کی چادر میں لپٹی ہوئی تھی اور اسکے سرہانے پر ایک تاج موجود تھا جبکہ کتبے پر ایک براون رنگ کا عمامہ باندھ دیا گیا تھا۔ اندر کا منظر عام مزاروں جیسا ہی تھا۔ کچھ عورتیں جالیوں سے لپٹی رو رہی تھیں۔قبر کے ارد گرد چند مرد زائرین قبر کو بوسہ دے رہے تھے۔اور کچھ لوگ گم سم کهڑے تهےاور کچھ دعاوں میں محو تهے....
پریوں کا تالاب :
مزار سے اگلی منزل کے لئے روانہ ہوئے۔ ہمارا اگلا پڑائو “لاہوت لامکاں “تھا لیکن اس سے پہلےابھی کئی طلسماتی کہانیوں سے گذرنا تھا۔انہی میں سے ایک داستان پریوں کا تالاب تھا جہاں ہم ایک گھنٹے کی مسافت کے بعد پہنچ چکے تھے۔چاروں طرف پہاڑوں میں گھری ایک چھوٹی سی وادی تھی جس کے بیچوں بیچ ایک چشمہ ابل رہا تھا۔پانی نسبتا شفاف تھا۔اردگرد تھوڑا بہت سبزہ بھی تھا جس سے تالاب کافی خوبصورت معلوم ہونے ہی والا تھا کہ اچانک پریوں کے تالاب پر ایک شریر جن کی کارستانی نظر آئی جو یہاں پر غلاظت ڈال کر فرار ہوگیا تھا۔سامنے پہاڑ پر قریب پندرہ فٹ کی بلندی پر ایک غار دکھائی دیا۔ لوگوں نے بتایا کہ یہ لطیف جی کی کھوئی کے نام سے مشہور ہے اور روایات کے مطابق شاہ عبدالطیف بھٹائی نے یہاں بیٹھ کر چلہ کشی کی تھی۔ سلمان ، سیماب اور شاہنواز نے اس غار میں داخل ہونے کا ارادہ کیا۔ پہلے شاہنواز اوپر چڑھا اور اندر کچھ پتھر پھینکے تاکہ کوئی جانور اندر ہو تو وہ باہر آ جائے ۔جب کوئی خطرہ محسوس نہ ہوا تو وہ اندر داخل ہو گیا۔ اسی کی تقلید میں دیگر ساتھی بھی پہنچ گئے۔ غار کوئی چھ فٹ لمبا اور چار فٹ اونچا تھا۔وہاں لکڑیاں جلی ہوئی پڑی تھیں جو اس بات کی علامت تھی کہ کسی نے یہاں کھانا پکانے کی کوشش کی ہے۔کچھ دیر بعد وہاں سے واپس آئے تو ایک عجیب و غریب شخص نظر آیا۔ اس نےاحرام باندھا ہوا تھا اور ساتھ ہی وہ برہنہ بھی تھا۔لوگوں نے بتایا کہ کچھ لوگ جنہیں “ذکری “کہا جاتا ہے وہ اس مقام پر حج کرنے آتے ہیں۔ اسے دیکھ کر بہت افسوس ہوا ۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو ایک سیدھا راستہ اور واضح شریعت عطا کی لیکن انسان ہے کہ اللہ کے بنائے ہوئے دین کے مزید ایڈیشن نکالنے میں مصروف ہے۔اس کی بنیادی وجہ خواہشات کی پیروی اور شارٹ کٹ کی تلاش ہے۔بہر حال یہ بدعت حج کو مکہ سے اٹھا کر بلوچستان لے آئی تھی۔دھوپ خاصی تیز تھی اور آنتیں بھوک سے تڑپ رہی تھیں، لیکن سفر لمبا اور دشوار تھا چنانچہ چند بسکٹ اور پانی پر ہی گذارا کیا۔
لاہوت لامکاں جانے کے لئے ہمیں مائی جو گوٹھ سے گذرنا تھا۔وہاں پہنچنے کے دو رستے تھے ایک تو پیچھے پلٹ کر مزید ایک گھنٹے کی مسافت طے کرکے منزل تک پہنچنا تھا ۔ دوسرا راستہ شارٹ کٹ مگر پرخطر تھا کیونکہ اس کو طے کرنے کے لئے ایک بلند اور پر خطر پہاڑ پر چڑ ھ کر دوسری سمت اترنا تھا۔ ہمارے گروپ لیڈر سلمان نے بد قسمتی سےشارٹ کٹ راستہ اختیار کرلیا۔مقامی لوگوں نے بتا دیا تھا کہ صحیح راہ پر قائم رہنے کے لئے چونے کے نشان زدہ پتھروں والی پگڈنڈی پر چلنا ضروری ہے۔اللہ کا نام لے کر چلنا شروع کیا ۔ پہاڑ توقع سے زیادہ عمودی اور مشکل ثابت ہوا۔ چنانچہ ہم لوگ ہر دو قدم بعد رکتے، سانس بحال کرتے اور پھر سفر شروع کرتے۔جوں جوں ہم اوپر پہنچے تو حبس بڑھتا گیا اور سانس لینا دشوار ہوگیا۔جب اوپر چوٹی پر نظر ڈالتے تو معلوم ہوتا کہ ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں۔اور جب نیچے نگاہ کرتے تو واپسی کی راہیں مسدود نظر آتیں۔ مجھے خیال آیا کہ ایک بندہ مومن کی زندگی بھی پہاڑ کی چڑھائی کے مانند ہے جس میں شیطانی اور نفسانی محرکات کو شکست دیتے ہوئے رب کی رضا کی طرف بڑھنا اور دشواری کی صورت میں گناہوں کی زندگی میں لوٹنے سے گریز کرنا ناگزیر ہے۔بہرحال یونہی رک رک کر چلتے ہوئے چوٹی تک پہنچ ہی گئے۔ وہاں ایک تازہ ہوا کے جھونکے نے ہمارا استقبال کیا۔اب ہم نے جوش کے عالم میں اترنا شروع کیا لیکن جب دامن تک پہنچے تو دیکھا کہ ایک اور پہاڑ منہ کھولے ہمارا استقبال کر رہا ہے۔ چاروناچار اس کو بھی پار کیا تو ایک کھائی منتظر تھی۔مرتا کیا نہ کرتا کی مصداق اسے بھی کراس کیا اور بالآخر تین گھنٹے سے زائد یہ مسافت ایک پہاڑ کی چوٹی پر اختتام پذیر ہوئی جس کے دوسری جانب مائی جو گوٹھ نظر آرہا تھا۔مجھے یہ محسوس ہوا کہ شاید یہ زندگی بھی کچھ ایسا ہی پرخطر اور پیچیدہ راستوں سے بھرا سفر ہے اور اس کی کامیابی کا راز ہمت ہار بیٹھنا نہیں بلکہ چلتے رہنا ہے۔
جاری ہے...