Monday 4 January 2016

اسلام اور خانقاہی نظام،60

اسلام اور خانقاہی نظام

نواز شریف اور بری امام : نواز شریف کی حکومت کو جب سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے بحال کیا تو نواز شریف بھی بری امام پر آئے اور چادر چڑھا کے گئے -ہم نے اس وقت بھی جناب نوازشریف کو کہا تھا کہ آپ شرک وبدعات کو گلے لگانا چھوڑ دیں اور کتاب وسنت کے تابعدار بن جائیں.... تو اللہ تعالیٰ یہ اقتدار تاحیات بخش سکتا ہے- مگر نواز شریف نے اقتدار بحال ہوتے ہی اسلام آباد کے اس ”مشکل کشا“ کے پھیرے لگانا شروع کر دئیے- قارئین کرام! یہ کھیل چونکہ چالیس چالیس پچاس پچاس سالہ معصوموں کا ہے‘ اس لئے ہم اس پر کیا کہیں!! وگرنہ نواز شریف کابینہ میں کوئی صاحب خرد مشیر ہوتا تو وہ مشورہ دیتا کہ جناب وزیر اعظم! اگر چادر چڑھانی ہی تھی تو بری امام پر چڑھانے کی بجائے جسٹس نسیم حسن پر چڑھا دیتے کہ اسمبلی کو بحال تو انہوں نے کیا تھا - اور اگر پختہ عمارت پہ ہی چادر چڑھائی جا سکتی ہے تو پھر اسلام آباد کی اس خانقاہی عمارت کی بجائے سپریم کورٹ کی عمارت کے اس کمرے کی چھت پر چڑھا دیتے کہ جس چھت کے سائے تلے اسمبلی کی بحالی کا فیصلہ ہوا تھا - پروفیسر غفور .... جماعت اسلامی اور بری امام : بہرحال ہم نواز شریف یا ان کے کسی مشیر کو کیا کہیں کہ یہاں اسلام آباد میں وزیر بن کر جماعت اسلامی کے وزیر پروفیسر غفور احمد نے بھی اس مشکل کشا پر چادر چڑھا ڈالی تھی- تو جہاں اسلام کے وزیر کہ جنہوں نے اسلام کا بوجھ اپنے کندھے پہ اٹھایا ہوا تھا‘ اس بوجھ کو بری امام پہ ڈال گئے تو دوسرے وزیروں اور وزراء اعظموں کو پھر کیا کہا جائے گا؟ پروفیسر غفور احمد والا طرز عمل ہمیں فیصل مسجد کے قریب بھی دکھائی دیا کہ جب ہم وہاں ضیاءالحق کی قبر پر پہنچنے تو افغانستان کی جماعت اسلامی کہ جس کا نام”حز ب اسلامی“ ہے ‘اس کے امیر حکمت یار کی طرف سے وہاں پھولوں کی چادر کا تحفہ آویزاں دیکھا-اس پر حکمت یار کا نام بھی لکھا ہوا تھا- دربار اور فلمی دنیا: جس طرح خانقاہی درباروں کی دنیا سینہ بسینہ اور سنی سنائی باتوں اور دیو مالائی قصوں پہ چلتی ہے- اسی طرح فلمی دنیا کی کہانی بھی افسانہ نگار گھڑتے ہیں اور پھر وہ سینہ بسینہ کہانی سکرین پہ چلنا شروع ہو جاتی ہیں- دو روپے دے کر ناظرین سب کچھ دیکھتے ہیں اور جب گیٹ سے باہر آتے تو وہ جیسے جاتے وقت تھے‘ ویسے کے ویسے ہی وہ نکلتے وقت ہوتے ہیں- اور یہ بھی دیکھنے میں آتا ہے کہ کوئی منچلا فلمی دنیا سے متاثر ہو کر راہ چلتی ہو ئی کسی بے پردہ لڑکی کو چھیڑتا ہے تو سلیپر کھا کر فلمی دنیا کی بجائے حقیقی دنیا میں لوٹ آتا ہے اور کوئی تو جیل کی سلاخوں کے پیچھے بھی چلا جاتا ہے- اب جیل میں وہ بری بری پکارتا ہے تو نہ اس کی ہتھکڑیاں ٹوٹتی ہیں اور نہ بیڑیاں بکھرتی ہیں بلکہ سر پر جیل کے داروغوں کے چمڑے والے جوتے پڑتے ہیں- اب وہ سوچتا ہے کہ یہ کیا ہوا!! سینما کی سکرین پر تو اس نے دیکھا تھا کہ ہیر رانجھا کی راہ میں جب رکاوٹیں کھڑی کی گئیں تو ان رکاوٹوں میں سے ایک یہ بھی تھی کہ رانجھا جیل میں پہنچ گیا مگر وہاں جیل میں اس نے دربار والے بزرگ کو پکارا- لاہور کے علی ہجویری صاحب کے دربار کا عکس سینما کی پردہ سکرین پر رونما ہوا- سید گنج بخش فیض عالم کی قوالی نے زور پکڑا- اور پھر زور سے ہتھکڑیاں اور پاوں کی بیڑیاں ٹوٹ کر بکھر گئیں- مگر اب کیوں نہیں بکھرتیں....؟ اسی طرح فلموں میں ایسے مواقع پر شہباز قلندر - دما دم مست قلندر--علی دا پہلا نمبر اور نور جہاں کے یہ شرکیہ بول: پاک پتن تے میں آن کھلوتی اور بری بری امام بری میری کھوٹی قسمت کرو کھری کے بول جب سینما کی سکرین پر نمودار ہوں گے تو سینما بین ان درباروں کا رخ تو کریں گے اور پھر وہاں دھمال بھی ہوگی‘ ناچ بھی ہوگا‘ ڈھول بھی ہوگا-اور بہت کچھ ہوگا-غرض ان درباروں کی رونق کو افروز کرنے میں نورجہاں'مہدی حسن اور دیگر گلوکاروں کا بھی ایک اہم کردار ہے...جاری ہے....

بشکریہ
www.ficpk.blogspot.com

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...