Friday 1 January 2016

اسلام اور خانقاہی نظام،57

اسلام اور خانقاہی نظام

جناب لال حسین کاکتبہ بھی قابل ذکر ہے- انہیں ان القابات سے نوازا گیاہے ‘ ” غوث الاسلام والمسلمین “ یعنی یہ لال حسین اسلام اور مسلمانوں کا فریاد رس ہے - اپنے آپ کو مسلمان کہلانے والوں نے اپنے کئی غوث بنا رکھے ہیں -یہ تو سنا تھا.... مگر اسلام کا غوث آج پہلی بار دیکھ رہا تھا.... اور سو چ رہا تھا کہ اسلام تو اللہ نے نازل کیا ہے اور قرآن وحدیث کا نام اسلام ہے ‘ جبکہ قران کی حفاظت کا ذمہ بھی اللہ نے خود اٹھا رکھا ہے ‘تو یہ لال حسین اسلام کا غوث کیسے بن گیا ؟اسلام کے غوث تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم بھی نہ تھے کہ جن پر اسلام نازل ہوا تھا مگر یہ اسلام کے غوث یعنی فریاد رس - استغفر اللہ- سچی بات تو یہ ہے کہ یہ اصطلاحیں سب عجمیوں کی پیداوار ہیں - اللہ کے دین کے ساتھ ان چیزوں کا نہ صرف یہ کہ کوئی تعلق نہیں بلکہ اسلاف کی تحریروں میں عربی زبان کے ذخیرے میں بھی ان الفاظ کے استعمال کی کوئی مثال نہیں ملتی - دوسرا لقب لال حسین کو ” امام الاوتاد “ کا دیا گیا ہے-- اللہ نے قرآن میں پہاڑوں کو بھی اوتاد کہا ہے - فرمایا : وَاَلجِبَالَ اَوتَادًا ”اور ( ہم نے) پہاڑوں کو(زمین میں ) میخیں بنایا “     ( النباء : 7) فرعون کو بھی اللہ نے ذی الاوتاد کہا تھا -یعنی وہ فرعون کہ جس نے اپنی مومنہ اور موحدہ بیوی حضرت آسیہ رضی اللہ عنھا کے ہاتھ پاوں میں میخیں گاڑ دی تھیں -اور یہ بھی مطلب ہو سکتا ہے کہ فرعون بڑی قوت والا تھا-- پہاڑوں کو اوتاد کہنے کا مطلب بھی یہ ہے کہ یہ زمین کو ہلنے نہیں دیتے‘ بڑے مضبوط ہیں - تو اب یہ لال حسین بھی اوتاد کا امام ہے- اوتاد- تصوف کی دنیا میں ولایت کا ایک مقام ہے - یعنی وہ ولی کہ جنہوں نے اس دنیا کو تھام رکھا ہے- اور اب لال حسین ان تھامنے والے اوتادوں کا بھی امام ہے - مگر اے قارئین کرام ! میں اوتادوں کے اس امام کے دربار پہ کھڑے ہو کر اس کے گدی نشین سے اس کی اصلیت کے بارے گفتگو کر رہا تھا-اسی دوران میں اس دربار پہ ایک آنے والے نوجوان کو کہ جو یہاں بڑی عاجزی اور انکساری سے دعاوں  میں مشغول تھا‘ اسے الگ لے جا کر توحید کی دعوت دے رہا تھا اور کافی دیر سمجھانے کے بعد وہ نوجوان کچھ سمجھ بھی گیا اور آئندہ سے اس نے ان درباروں پہ نہ جانے کا وعدہ بھی کیا ‘ مگر ان کے خلاف میری اس کاروائی پر یہ دونوں اوتاد اپنے دربار پر اپنی نگری میں میرے ایک بال اور رونگٹے کو بھی جنبش نہ دے سکے....چلو میں تو ان کا باغی تھا‘ اپنے بر گشتہ ہونے والے مرید کو ہی الٹا دیتے.... مگر نہ یہ کچھ کر سکتے تھے نہ انہوں نے کیا - ان بے چاروں کا تو اپنا نہ جانے کیا حال ہے-!!
نقش قد مین رسول مادھو کے دربار میں !! دربار سے ذرا ہٹ کر ایک حجرہ نظر آیا- جب میں یہاں گیا تو اندر چند عورتیں ایک شیشے کے بکس کے اردگرد حلقہ بنائے تلاوت میں مصروف تھیں - آگے بڑھ کر یہ بکس دیکھا تو اس میں پتھر پہ دو قدموں کے نشان تھے‘ جو کافی گہرائی میں کھدے ہوئے تھے - گدی نشین نے بتلایاکہ” یہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے قدم مبارک ہیں - “ میں نے پوچھا -” اس بات کی کوئی دلیل یا تاریخی شہادت ہے کہ یہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاوں کے ہی نشان ہیں؟“ مگر گدی نشین کوئی بھی دلیل بتلا نہ سکا - محض اتنی بات کی کہ ” اسے اکبر بادشاہ لایا تھا-“وہ بادشاہ کہ جو خود بے دین تھا اور تاریخ سے بھلا ان‘ ان پڑھ گدی نشینوں کو کیا غرض!! جبکہ نشان بھی زبان حال سے بول رہے تھے کہ ہماری کھدائی کسی ماہر سنگ تراش کا کمال ہے - بہرحال اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں کے نام سے پتھر کی پوجا ہو رہی تھی-عورتیں تلاوت کے بعد اب شرکیہ اشعار بلند آواز سے گا رہی تھیں - اس بکس کو ہاتھ لگا کر بوسے دے کر اور سجدے کرکے اس کی عبادت میں مصروف تھیں - مجھے کعبے کا حجر اسود یاد آ گیا کہ یہ وہ پتھر ہے - جو جنت سے آیا ہے -اسے حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام نے چوما ہے- آخری نبی امام الا نبیاءعلیہ السلام نے ا س پر اپنے ہونٹ مبارک رکھے ہیں‘ مگر بخاری ومسلم کی روایت کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے تربیت یافتہ اور جلیل القدر صحابی حضرت فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ نے اس پتھر کو چومتے وقت اسے مخاطب کر کے کہا:- اللہ کی قسم! تو ایک پتھر ہے ‘ نہ تو نفع دے سکتا ہے اور نہ نقصان- مگر میں تجھے کبھی نہ چومتا اگر میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو تجھے چومتے نہ دیکھا ہوتا-(صحیح بخاری : کتاب الحج باب ماذکر فی الحجر السود ‘رقم الحدیث : 204)
جاری ہے.....
www.deenekhanqahi-aur-deeneislam.blogspot.com

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ

خانہ کعبہ/ بیت اللہ کا محاصرہ /حملہ (تالیف عمران شہزاد تارڑ) 1979 کو تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ لیکن سعودی عرب می...